اداریہ: تاریخ مذاہب کا ایک روشن ورق اور ہمارا فرض
(مطبوعہ رسالہ ’’انصارالدین‘‘ یوکے ستمبر و اکتوبر 2021ء)
آج سے سوا سو سال قبل 1896ء میں سیّدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ادیانِ عالَم پر اسلام کی برتری اور دنیابھر کی الہامی کتب پر قرآن کریم کی عظمت ثابت کرنے کے لئے ایک مضمون رقم فرمایا تھا جو لاہور میں منعقد ہونے والے جلسہ اعظم مذاہب میں حضرت مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹی رضی اللہ عنہ نے پڑھ کر سنایا اور بعدازاں یہی مضمون ’’اسلامی اصول کی فلاسفی‘‘ کے نام سے شائع ہوا۔ دراصل خداتعالیٰ نے پہلے ہی سے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو الہاماً بتا دیا تھا کہ
’’مضمون بالا رہا‘‘۔
چنانچہ ایک سو پچیس سالہ تاریخ شاہد ہے کہ الٰہی تائیدیافتہ اس مضمون نے دنیابھر کے دانش کدوں میں ایسا زلزلہ بپا کیا کہ نہ صرف اُس زمانے کے اخبارات نے جلسہ اعظم مذاہب سے متعلق اپنی رپورٹس اور ریویوز میں واضح طور پر اس مضمون کی عظمت کا اقرار کرتے ہوئے اسے جلسہ میں پڑھے جانے والے تمام مضامین میں اعلیٰ ترین قرار دیا بلکہ دنیابھر کے عظیم مفکّرین اور مدبّرین نے جب بھی اس کتاب کا مطالعہ کیا تو اس کی تعریف و توصیف میں رطب اللّساں ہوگئے۔ گویا اپنوں اور غیروں نے اس عظیم الشان مضمون کو شاندار خراج تحسین پیش کیا۔ دنیابھر سے تعلق رکھنے والے عظیم دانشوروں کا اس مضمون کے لئے اظہارعقیدت یقینا سلطان القلم حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ذات گرامی کے لئے بھی شاندار خراج تحسین ہے۔
’’اسلامی اصول کی فلاسفی‘‘ کا مضمون بلاشبہ قرآن کریم کے حقائق و معارف کی بے نظیر تفسیر اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بے پایاں عشقِ قرآن کا مظہر ہے۔ جس طرح احمدیت کی پہلی صدی میں یہ مضمون دنیابھر کے مذاہب کے مقابل پر اسلام کی ایک شاندار فتح کا اعلان تھا اور دیگر الہامی کتب کے مقابل پر قرآن کریم کی برتری کا بے مثال اظہار تھا، اسی طرح آج بھی یہ اسلامی تعلیمات کی حقیقی روح کو دنیا کے سامنے ایک نمایاں شان کے ساتھ پیش کرنے کے بخوبی قابل ہے کیونکہ یہ وہ اعجازی مضمون ہے جس کے غلبہ کی بشارت دیتے ہوئے جلسہ سے قبل ہی اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا کہ اس میں سچائی اور حکمت اور معرفت کا وہ نُور ہے جو دوسری قوموں کو شرمندہ کردے گا۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا اور خدائی وعدوں کے مطابق اس جلسہ میں
’’اَللّٰہُ اَکْبَر۔ خَرِبَتْ خَیْبَر‘‘
کے روحانی نظارہ کا وہ سماں پیدا ہوا جس نے مذاہبِ باطلہ کے محلّات ایک بار پھر زمیں بوس کردیے۔
’’اسلامی اصول کی فلاسفی‘‘ میں سیّدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے پانچ اہم سوالات کا قرآن کریم کی روشنی میں جواب ایسے دلنشیں پیرائے میں عطا فرمایا ہے جو روحوں پر وجد طاری کردینے والا اور اسلام کی عظمت کو دلوں میں قائم کرنے والا ہے۔ ان سوالات کا تعلق انسان کی جسمانی، اخلاقی اور روحانی حالتوں، حیات بعدالموت، نیز انسانی پیدائش کے مقصد، دنیا اور آخرت میں اعمال کا اثر اور علم اور معرفت کے ذرائع سے ہے۔
اس کتاب کی دنیابھر میں اشاعت کرنا اور اس کے مضامین کو ہر سطح پر پیش کرتے چلے جانا ہمارا فرض ہے کیونکہ یہ وہ الٰہی تائیدیافتہ کلام ہے جو نہ صرف سواسو سال پہلے غالب تھا بلکہ آج بھی ہے اور قیامت تک ادیانِ عالَم پر دینِ اسلام اور قرآن کریم کی برتری کی مُہر ثبت کرتا چلا جائے گا۔ اور اِس زمانہ میں یہ بھی اُن تلواروں میں سے ایک تلوار ہے جسے مسیح محمدیؑ نے اپنے غلاموں کے ہاتھوں میں دے کر یہ اعلان فرمایا تھا:
’’اَللّٰہُ اَکْبَر۔ خَرِبَتْ خَیْبَر‘‘۔
امر واقعی یہ ہے کہ ’’اسلامی اصول کی فلاسفی‘‘ کا مطالعہ کرنے والا ہر شخص اپنے ذوق کے مطابق اور اپنے فہم و استعداد کے مطابق اس روحانی مائدہ سے لُطف اٹھاتا ہے۔ اس لئے اگر ابھی تک آپ نے کسی وجہ سے اس کتاب کا مطالعہ نہیں کیا تو ابھی سے اس کا ارادہ فرمالیں۔ اگر آپ خود مطالعہ کرچکے ہیں تو اپنے ماحول میں بھی جائزہ لیں کیونکہ اس کتاب کا مطالعہ ہماری اخلاقی اور روحانی ترقیات میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے اور ہماری خاندانی اور معاشرتی زندگیوں میں بھی انقلاب پیدا کرسکتا ہے۔ نیز ہمارے مغربی ماحول میں تعلیم و تربیت اور دعوت الی اللہ کی ذمہ داری ادا کرنے میں بھی یہ کتاب نہایت ممد ہے۔ ہم میں سے کئی جب ’’اسلامی اصول کی فلاسفی‘‘ کا پہلی بار مطالعہ کریں گے تو اُنہیں یقینا خیال آئے گا کہ ابھی تک وہ کیوں اس شاندار مضمون کے مطالعہ سے محروم رہے ہیں!
الغرض ’’اسلامی اصول کی فلاسفی‘‘ کا مطالعہ ہر اُس شخص کے لئے فائدہ مند ہے جو اخلاقی اور روحانی میدانوں میں ترقیات کا خواہشمند ہے، دنیا و آخرت میں اپنے خالق و مالک سے زندہ تعلق پیدا کرنے کا شوق رکھتا ہے اور اپنی قوّتوں اور استعدادوں کو خدا تعالیٰ کی کامل رضا کے تابع رکھ کر ان سے استفادہ کرنا چاہتا ہے۔