بادشاہی مسجد لاہور
برصغیر میں مسلمانوں کی تعمیراتی تاریخ میں اہم اور پرشکوہ عمارات سب سے پہلے بھنبھور میں تعمیر ہوئیں جو محمد بن قاسم کی آمد سے مرکز اسلام بنا تھا۔ بعد ازاں یہ سلسلہ جاری رہا۔ 1674ء میں مغل بادشاہ اورنگ زیب عالمگیر نے لاہور میں بادشاہی مسجد تعمیر کروائی جسے ماہرینِ تعمیرات برصغیر میں مساجد کے طرز تعمیر کے عروج کا نام دیتے ہیں۔ یہ مسجد عالمگیر کے رضاعی بھائی فدائی خان کی نگرانی میں تعمیر ہوئی۔ اس بارہ میں ایک معلوماتی مضمون روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 17؍فروری 1999ء میں مکرم وحید احمد صاحب کے قلم سے شائع ہوا ہے۔
بادشاہی مسجد زمین سے بیس فٹ اونچے چبوترے پر بنی ہوئی ہے جس کے سامنے شاہی قلعہ واقع ہے۔ مسجد کے صدر دروازہ سے داخل ہوتے ہی بائیس قدم کا سنگ سرخ کا ایک زینہ طے کرنا پڑتا ہے۔ آگے وسیع و عریض صحن ہے جس کے درمیان وضو کے لئے سفید سنگ مرمر سے تالاب بنایا گیا ہے۔ صحن کے ارد گرد تعلیم و تعلم کے لئے اقامتی اور تدریسی کمرے ہیں۔ صدر دروازہ کے اوپر والی منزل میں بعض تبرکات ہیں جو روایتاً آنحضورﷺ، صحابہؓ اور بعض اولیاء کی طرف منسوب سمجھے جاتے ہیں۔ نماز کا ایوان جلال و جمال کا مرقع ہے۔ محراب میں سنگ مرمر لگا ہوا ہے جو گلکاری سے مزین ہے۔
مسجد کی تعمیر مجموعی طور پر سنگ سرخ سے کی گئی ہے جو فتح پور سیکری (انڈیا) سے لایا گیا تھا۔ بعض سلوں پر سیاہ اور سفید پتھر سے گُل کاری کی گئی ہے۔ مسجد کے تینوں بڑے گنبد اور میناروں کے چھوٹے گنبد سفید سنگ مرمر سے مزین ہیں۔ عام تعمیر میں چھوٹی پختہ اینٹ استعمال کی گئی ہے جسے شاہجہانی اینٹ کہا جاتا ہے۔ مغلوں کی شاہی عمارات کی طرح اس عمارت میں بھی لکڑی کا استعمال نہیں ہوا۔
مسجد کے چار ہشت پہلو مینار ہیں جن میں سے ہر ایک تین منزلہ ہے اور قریباً 144؍فٹ اونچا ہے۔ اسکے اوپر چھتریاں بنائی گئی ہیں۔یہ چھتریاں 1840ء کے زلزلہ میں ضائع ہوگئی تھیں اس لئے دوبارہ بنائی گئی ہیں۔ بادشاہی مسجد کی تعمیر میں توازن کا ایک ایسا رنگ نظر آتا ہے جو بالعموم آج کی مساجد میں مفقود ہے اور یہ اپنی سادگی کے ساتھ ایک نہایت پُرشکوہ عمارت ہے۔