بِھڑ کی ساخت

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 14نومبر 2009ء میں مکرم ڈاکٹر ملک نسیم اللہ خان صاحب کے قلم سے بِھڑ کی ساخت کے بارہ میں ایک مختصر معلوماتی مضمون شائع ہوا ہے۔
اگر کبھی آپ کو بِھڑ کاٹ لے تو فوراً اس جگہ پر شہد، پھٹکڑی یا چونا لگالیں اس سے تکلیف فوراً کم ہوجاتی ہے۔
بِھڑ بھی کیڑے مکوڑوں کے اُسی گروپ سے تعلق رکھتی ہے۔ جس سے شہد کی مکھی یا چیونٹی تعلق رکھتی ہے۔ ان کے دو گروپ ہوتے ہیں۔ ایک گروپ میں ہر بھڑ اکیلی رہ کر کام کرتی ہے۔ دوسرے گروپ میں بہت سی بھڑیں مل کرکام کرتی ہیں۔ سوشل بھڑوں کی یہ نشانی ہے کہ ان کے پرپنکھے کی طرح اوپر کو اٹھے ہوئے ہوتے ہیں جبکہ تنہا رہ کر کام کرنے والی بھڑ کے پر اس کی کمر پر سیدھے ہوتے ہیں۔
دیکھنے میں تمام بھڑیں ایک جیسی لگتی ہیں۔ مادہ بھڑ کی یہ نشانی ہے کہ اس کے جسم کے نچلے حصے میں سلنڈر کی شکل کا لمبا سا ڈنگ ہوتا ہے۔ جس میں زہر بھرا ہوتا ہے۔ ان کے منہ اس طرح بنے ہوتے ہیں کہ یہ چاہیں تو کھانا کھالیں یا چاہیں تو رس چوس لیں۔
ویسے تو تمام کیڑے مکوڑے بڑے دلچسپ طریقوں سے اپنے بچے پالتے ہیں۔ لیکن بعض کیڑے اس سلسلے میں بڑی مہارت دکھاتے ہیں جیسا کہ بھڑ دکھاتی ہے۔ بھڑوں کے بچے اپنی خوراک کے بارے میں بڑی پسند اور ناپسند رکھتے ہیں۔ ان کی مائیں اپنے بچوں کی اس ضد کو پورا کرتی ہیں۔ کچھ بچے صرف مکڑیاں کھانا پسند کرتے ہیں۔ کچھ کو بیٹلز پسند ہوتے ہیں۔ کچھ کو پتنگے پسند ہوتے ہیں۔ اور کچھ ایسے ہوتے ہیں جو سب کچھ کھا سکتے ہیں لیکن ان کی شرط ہوتی ہے کہ چیز زندہ ہو۔ چنانچہ ان بچوں کی مائیں اپنے بچوں کی پسند کی تلاش میں دور دور تک اڑ کر جاتی ہیں اور جب انہیں مطلوبہ شکار مل جاتا ہے تو وہ اسے اپنے جبڑوں میں جکڑ کر ساکت کر دیتی ہیں اور پھر بڑی مہارت سے شکار کے اعصابی نظام میں اپنا زہریلا ڈنگ داخل کر دیتی ہیں۔ ان کے جسم میں داخل ہونے والا یہ زہر ان کو مارتا نہیں ہے بلکہ وہ مفلوج ہوجاتے ہیں۔ چنانچہ یہ زندہ اور تازہ کھانا ان بچوں کے لئے تیار رہتا ہے جو مردہ چیزیں پسند نہیں کرتے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں