تعلیم الاسلام کالج ربوہ
محترم پروفیسر حبیب اللہ خان صاحب تعلیم الاسلام کالج ربوہ کی تاریخ بیان کرتے ہوئے روزنامہ ’’الفضل‘‘ 19؍ستمبر 1995ء میں لکھتے ہیں کہ تقسیم ہندوستان کے وقت جب ہمارا کالج لاہور منتقل ہوا تو لاہور کے ایف۔سی کالج کے ہندو اساتذہ وہاں سے جاچکے تھے۔ چنانچہ حضرت مصلح موعودؓ نے اس کالج سے یہ معاہدہ کرلیا کہ ہمارے کالج کا سٹاف انکے کالج میں بلامعاوضہ ایک سال تک پڑھائے گا اور اس کے عوض ہمارے کالج کے طلباء ان کی لیبارٹری میں پریکٹیکل کیا کریں گے۔ چنانچہ تعلیم الاسلام کالج کے دوبارہ اجراء کا اعلان کردیا گیا اور پہلے دن 6 طلباء داخل ہوئے۔ بعد میں ہمارے کالج کو DAV کالج کی عمارت الاٹ ہوگئی جس کا سارا فرنیچر، دروازے اور روشن دان تک ہندو پناہ گزینوں نے جلا ڈالے تھے۔ جماعت نے زرِ کثیر صرف کرکے اسے قابل استعمال بنایا۔
مضمون نگار جو ہندوستان کے سیاسی راہنماؤں علی برادران کے بھتیجے اور محترم مولانا عبدالمالک خانصاحب مرحوم کے بھائی ہیں، 1931ء میں M.Sc کرنے کے بعد حیدرآباد میں 110 روپے ماہوار پر بطور سائنس ٹیچر ملازم ہوگئے۔ 47ء میں حضرت مصلح موعودؓ کے پیغام پر آپ نے لبیک کہا اور تعلیم الاسلام کالج کے لئے اپنی ملازمت ترک کردی لیکن حیدرآباد سے پاکستان پہنچنا بھی ایک معجزہ تھا اور یہ سفر آپ نے ایک احمدی کیپٹن کے ساتھ کیا جو فوج کے ایک دستہ کے ساتھ آ رہے تھے اور کسی غیرفوجی کو ان کے ساتھ شامل ہونے کی اجازت نہ تھی چنانچہ انہوں نے مکرم خانصاحب کو اپنے چپڑاسی کے طور پر فوج میں ملازمت دلوا دی۔