جلسہ سالانہ قادیان 2005ء میں شامل ہونے والوں کے تأثرات
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 6؍فروری 2006ء میں ہومیوڈاکٹر مکرم مقبول احمد صدیقی صاحب بیان کرتے ہیں کہ قادیان میں جلسہ سالانہ پر ساری دنیا سے آئے ہوئے لوگوں میں کچھ ایسے غریب اور مسکین بھی تھے جو کیرلہ اور اڑیسہ اور کنیاکماری جیسے دُوردراز علاقوں سے تین تین دن کا مسلسل سفر کرکے زندگی میں پہلی بار قادیان پہنچے تھے۔ اُن میں سے اکثر کے کپڑے اور چپلیں انتہائی غریبانہ تھے۔ شدید سردی کے باوجود اُن کے پاس جرابیں بھی نہ تھیں۔ اکثر نے بتایا کہ وہ ایک سال سے پیسے جوڑ رہے تھے تاکہ قادیان تک کا کرایہ جمع ہوسکے۔… میرے ایک دوست منور احمد صاحب جو دو تین سال پہلے ہی احمدی ہوئے ہیں، اور پہلے مخالفین کے سٹیج سے جوشیلے وعظ کیا کرتے تھے، کہتے ہیں کہ انہوں نے دنیا کے مختلف ممالک میں بزرگوں کی قبور کی زیارت کی ہے لیکن حیرت ہے کہ حضرت مسیح موعودؑ کے ماننے والے کروڑوں کی تعداد میں ہونے اور آپؑ سے شدید عقیدت رکھنے کے باوجود آپؑ کی قبر مبارک پر کوئی مشرکانہ حرکت نہیں کرتے۔
……………………
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 19؍جنوری 2006ء میں مکرم عبدالسمیع خان صاحب بیان کرتے ہیں کہ قادیان میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کی اقتداء میں نماز ادا کرنے کا اس قدر جذبہ تھا کہ شدید سردی کے باوجود ہزاروں لوگ گلیوں میں بغیر کسی جائے نماز یا چادر وغیرہ کے نماز ادا کرتے۔ باقی نمازوں میں بھی یہی حالت تھی۔ مسجد اقصیٰ کے اندر جگہ لینے کے لئے کئی احباب نماز سے دو دو گھنٹے پہلے وہاں پہنچ کر ذکرالٰہی میں مصروف ہوجاتے۔
جب حضور انور بہشتی مقبرہ میں دعا کے لئے تشریف لے جاتے تو احباب دو رویہ قطاروں میں کھڑے ہوکر زیارت کرتے۔ حضور سے ملاقات کا اشتیاق بھی دیدنی تھا۔ 24؍دسمبر کو حضور نے مسجد اقصیٰ میں کئی گھنٹے کھڑے ہوکر احباب کو شرف مصافحہ بخشا۔ بیت الدعا میں ہمہ وقت عاشق موجود رہے جو چند منٹ اندر گزارنے کی خاطر بعض دفعہ گھنٹوں انتظار کرتے۔ بیت الفکر اور بیت الذکر کا بھی یہی حال تھا۔
آنے والے کتنے ہی نومبایعین کو مخالفین نے گزشتہ سالوں کی طرح مارا پیٹا، قید کیا اور روکنے کی بھرپور کوشش کی۔ انتہائی دُور افتادہ علاقوں میں مالدیپ کے قریبی جزائر سے بھی احمدی آئے جن کا بحری سفر ڈیڑھ دن، پھر ٹرین کا تین دن اور پھر بس کا دو گھنٹے کا تھا۔ بعض علاقوں میں اتنی سردی کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا اور وہاں کے لوگوں کے پاس ٹھنڈ سے بچاؤ کے کپڑے بھی نہیں تھے۔ بعض کو رہائش خیموں میں ملی جو رات کو یخ بستہ ہوجاتے مگر اُن کے ایمان کی گرمی برف کو پگھلادیتی ہے۔ کئی معذور بھی ہیں مگر انہوں نے معذوری کو مجبوری نہیں بننے دیا۔
مجھے ایک دُور دراز سے آنے والے نہایت بوڑھے احمدی نے بتایا کہ اس کو خدا نے حضور کے خلیفہ بننے کی پہلے ہی اطلاع دیدی تھی اور وہی شکل دکھائی تھی جو وہ آج دیکھ رہا ہے۔
فیصل آباد کے ایک گاؤں کے 81 سالہ بزرگ عبدالحفیظ صاحب اپنی بیماری اور کمزوری کے باوجود قادیان پہنچے۔ سفر کی کوفت کی وجہ سے قادیان میں ہی اُن کی وفات ہوگئی۔ حضور نے اُن کا جنازہ پڑھایا اور بہشتی مقبرہ قادیان میں تدفین کی سعادت انہیں حاصل ہوئی۔
……………………
مجلس انصاراللہ برطانیہ کے رسالہ ’’انصارالدین‘‘ جنوری،فروری 2006ء میں مکرم محمد اسحق ناصر صاحب جلسہ سالانہ قادیان کا آنکھوں دیکھا حال بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ 2005ء کا جلسہ سالانہ قادیان غیرمعمولی بشارتوں کو پورا کرنے والا تھا۔ جیسا کہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اﷲ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعودؑ کے ایک الہام کے حوالہ سے فرمایا تھا کہ: ’’پتہ چلتا ہے کہ ایک بار نہیں، دو دو تین تین چار چار بار آنا ہو گا اور بالآخر اﷲ تعالیٰ کی وہ تقدیر ظاہر ہو گی کہ جب خلافت اپنے دائمی مرکز قادیان کو واپس پہنچے گی۔‘‘
(افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ قادیان 1991ء)
جو دوسرے الہامات اس موقع پر پورے ہوئے ان میں ایک یوں ہے:
’’ان الّذی فرض علیک القرآن لرادک الی معاد‘‘۔
وہ خدا جس نے خدمت قرآن تیرے سپرد کی ہے پھر تجھے قادیان واپس لائے گا۔ (تذکرہ صفحہ 309)
2005ء میں خلافتِ احمدیہ حقہ اسلامیہ کے قیام پر بھی، قمری کیلنڈر کے حساب سے، ایک سو سال پورے ہوئے۔ اسی طرح نظام وصیت کے عظیم الشان نظام کو بھی سو شمسی سال پورے ہوئے۔
روزانہ فجر کی نماز کے بعد اور پھر سارا دن ہی لوگ قطار در قطار بہشتی مقبرہ کی طرف رواں دواں نظر آتے تھے اور یہ سلسلہ سوائے باجماعت نمازوں اور جلسہ کے اوقات کے مسلسل تمام دن جاری رہتا۔ تمام متبرک ومقدس مقامات پر ہر وقت زائرین کا ہجوم ہوتا تھا۔ روزانہ سینکڑوں کی تعداد میں لوگ حضرت امیرالمؤمنین ایدہ اﷲ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے شرف ملاقات حاصل کر رہے تھے۔ محبت اور اخوت کے بے مثال نظارے ہرطرف نظر آتے۔ بازاروں میں ہررنگ اور نسل کے لوگ ، مختلف زبانیں بولنے والے، امیر اور غریب بڑی محبت کے ساتھ ایک دوسرے کو سلام کہتے اور بغلگیر ہوتے۔ ایسا لگتا تھا کہ مسیح پاک کی یہ بابرکت بستی اس دنیا کا حصہ نہیں بلکہ ایک الگ ہی دنیا تھی جس میں ہر لحظہ خدا تعالیٰ کے انوار اور رحمتیں بارش کی طرح برس رہی تھیں۔
کثیر تعداد میں غیرمسلم،خاص طور پر سکھ جلسہ میں شامل ہوئے۔ ایک دن میں پچیس بسیں ان مہمانوں کو لیکر قادیان آئیں۔ اسی طرح بعض دوسرے مذاہب کے لیڈروں نے بھی جلسہ سے خطاب کیا۔ حکومت اور انتظامیہ کی طرف سے بہت تعاون کیا گیا تھا اور پولیس کی بھاری جمعیت حفاظتی نقطہ نظر سے تمام وقت حاضرتھی۔
اردو اخبار ہند سماچار نے جلسہ سالانہ پر سپیشل سپلیمنٹ شائع کیا۔ اسی اخبار میں جلسہ کے دنوں میں حضور انور کی تقاریر کا خلاصہ نمایاں جگہ پر شائع ہوتا رہا۔ اس کے علاوہ اور بھی بہت سے اخبارات نے جلسہ سالانہ اور حضور انور کے دورہ کو نمایاں اور کھلے دل کے ساتھ مثبت کوریج دی۔
پینتیس صفحات کااردو اور انگریزی میں ایک خوبصورت کتابچہ جو کہ جلسہ کے پروگرام اور تفصیلی معلومات پر مشتمل تھا کثیر تعداد میں شائع کیا گیا تھا۔ چھ لنگرخانوں میں مہمانوں کے لئے کھانا تیار کیا جاتا تھا۔ رہائش کے لئے بہت سی عمارتوں میں انتظام کیا گیا تھا۔ مثلاً ایوان خدمت، ایوان انصار، نصرت گرلز کالج، جامعۃالمبشرین، گیسٹ ہاؤسز اور سرائے طاہرؔ وغیرہ۔ اس کے علاوہ بہت سی بڑی بڑی عمارتیں کرایہ پر بھی لی گئی تھیں۔ اس میں بعض سکول ،کالج اور شادی ہال وغیرہ شامل تھے۔ سینکڑوں کی تعداد میں مہمان غیرمسلموں یعنی ہندؤں اور سکھوں کے گھروں میں بھی مقیم تھے۔ ایک بہت بڑی تعداد میں مہمان خیمہ جات میں مقیم تھے۔ یہ خیمہ جات بہشتی مقبرہ کے اندر اور بہشتی مقبرہ سے باہر مردانہ جلسہ گاہ کے قریب لگائے گئے تھے۔ موسم نہایت ہی سرد تھا اسکے باوجود ان خیمہ جات میں لوگ بڑی خوشی کے ساتھ رہ رہے تھے۔
جلسہ سے قبل قادیان میں موسم خاصا خراب تھا سخت سردی اور دھند تھی اور سورج کا نام و نشان نہیں تھا۔ ایسے موسم میں کشمیری نوجوان ہمہ وقت بہشتی مقبرہ میں ڈیوٹی پر تھے اور روزانہ فجر کی نماز کے بعد میں نے دیکھا کہ اکثر نوجوان اپنے پاؤں میں چپلیاں پہنے ہوئے ہیں اوربڑی بشاشت کے ساتھ اپنا فرض ادا کر رہے ہیں۔ ایسا لگتا تھا کہ ان کے لئے سردی ہے ہی نہیں۔ جلسہ سالانہ کے تمام شعبہ جات نے ماشاء اﷲ بہت اچھا کام کیا۔ مگر ایک شعبہ قائم تو تھا مگر اس کا کوئی کام نظر نہیں آ رہا تھا۔ عام طور پر جلسوں اور اجتماعات کے موقع پر خاص طور پر ان مغربی ممالک میں شعبہ تربیت کو خاصا کام کرنا پڑتا ہے۔ مگر جلسہ سالانہ قادیان کے موقع پر شعبہ تربیت کی طرف سے جا بجا بینرز تو آویزاں تھے مگر نمازوں یا جلسہ کے اوقات میں مَیں نے کسی صاحب کو کسی سے یہ کہتے ہوئے نہیں سنا کہ بھائی نماز کو چلو یا جلسہ گاہ میں چلو۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی قوت قدسیہ کی بدولت تمام دل اﷲ تعالیٰ کی طرف جھکے ہوئے تھے اور خود بخود مساجد کی طرف کھنچے چلے آتے تھے۔
اﷲ تعالیٰ کی مدد اور نصرت کے نشان نازل ہوتے ہوئے نظر آرہے تھے۔ جلسہ سے قبل موسم بہت ہی خراب تھا۔ سردی اور دھند اس قدر تھی کہ کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ اس موسم میں کھلے آسمان کے نیچے لوگ کیسے جلسہ سن سکیں گے۔ 26؍دسمبر کی صبح موسم بالکل صاف تھا اور دھوپ نکلی ہوئی تھی اور ایسا موسم خدا تعالیٰ کے فضل سے جلسہ کے تینوں دن رہا۔
درویشان قادیان کا ذکر کرنا بھی ضروری ہے جن کی بیمثال قربانیوں کی بدولت آج کے دن خدا تعالیٰ نے دکھائے ہیں۔ انہوں نے اپنی جانوں، اپنے مالوں اور عیال و اطفال کی کوئی پرواہ نہ کی اور دیار مسیحؑ کی حفاظت کی خاطر وہاں پر بیٹھ رہے۔ ان درویشان کی اکثریت اپنے عہدوں پورا کر کے اپنے مولا کے حضور حاضر ہو چکی ہے۔ 313 میں سے صرف 32 بزرگ زندہ ہیں۔ اﷲ تعالیٰ ان کی عمر و صحت میں برکت دے۔
میں نے ان میں سے بعض بزرگوں سے ملاقات کی۔ ان سے مل کرحیرت ہوتی ہے کہ کس طرح خدا تعالیٰ اپنے بندوں کو اپنی طرف کھینچ لیتا اور دنیا سے بے نیاز کردیتا ہے۔