جلسہ سالانہ قادیان 2007ء سے سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا اختتامی خطاب

ہر احمدی جو اس وقت جلسہ میں شامل ہے یا دنیا میں کسی بھی جلسہ سالانہ میں شامل ہوتا ہے، اُسے یاد رکھنا چاہئے کہ ہم نے وہ مقصد پورا کرنے والا بننا ہے جس کے لئے جلسوں کا انعقاد ہوتا ہے۔ حقیقی تقویٰ پر چلتے ہوئے اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرنی ہیں ۔
پہلوں کی قربانیاں اور تقویٰ کے معیار اور دعائیں تبھی ہمیں فائدہ دینے والی ہوں گی جب ہم اُن کے نقشِ قدم پر چلنے کی کوشش کرنے والے ہوں گے۔ جب ہم اپنے ہر لمحے کو توحید کے قیام اور حقوق العباد کی ادائیگی میں گزارنے کی کوشش کرنے والے ہوں گے۔ تقویٰ میں بڑھنے کی کوشش کرنے والے ہوں گے۔
احمدیت جو ہم پر اللہ تعالیٰ کا انعام ہے اُس کی قدر تبھی ممکن ہے جب ہم مسلسل جدوجہد کے ساتھ احمدیت یعنی حقیقی اسلام کی تعلیم پر عمل کرنے والے بنیں گے۔
ہمیشہ یاد رکھیں جماعت احمدیہ کی ترقی کا دارو مدار کسی شخص پر نہیں بلکہ تقویٰ پر چلنے والے افراد پر ہے۔ تقویٰ میں ترقی کرنے والوں کی تعداد پر ہے اور الٰہی وعدوں کے مطابق خلافتِ احمدیہ سے وابستہ ہے ۔
اللہ تعالیٰ کا ترقیات کایہ وعدہ خلافت کے ساتھ وابستہ ہے۔ اور خلافت کے ساتھ جڑے رہنے سے وابستہ ہے اور ایمان لانے والوں کے ساتھ یہ دائمی ترقیات کا وعدہ ہے ۔ پس تقویٰ میں بڑھیں اور اللہ تعالیٰ کی خاطر اس تعلق میں مزید مضبوطی پیدا کریں ۔ دعاؤں سے اس انعام اور اللہ تعالیٰ کے احسان کی آبیاری کریں تا کہ اللہ تعالیٰ کے احسانات کے دروازے مزید وا ہوتے چلے جائیں۔
قادیان دارالامان (ا نڈیا) میں منعقد ہونے والے جلسہ سالانہ سے 31؍دسمبر 2007ء کو
ایم ٹی اے انٹرنیشنل کے مواصلاتی رابطوں کے ذریعہ سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
کا لندن سے براہ راست اختتامی خطاب

فہرست مضامین show

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں – چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت پر اللہ تعالیٰ کے فضلوں اور رحمتوں اور احسانات کی بارش ہوتی ہم ہر روز دیکھتے ہیں اور یہ اس بات کی دلیل ہے کہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وہی عاشقِ صادق اور مسیح و مہدی ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے اس زمانے کی اصلاح کے لئے مبعوث کرنا تھا۔ اگر آپ خدا تعالیٰ کی طرف سے بھیجے ہوئے نہ ہوتے تو اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت، رحمت و فضل اور احسانات کی بارش یوں برستی نظر نہ آتی۔ اللہ تعالیٰ کے احسانات میں سے ایک احسان اور فضل جو اُس نے جماعت پر کیا وہ ایم ٹی اے کی صورت میں بھی ہے۔ قادیان کی یہ بستی جس میں اس وقت ہزاروں احمدی ہندوستان کے مختلف شہروں اور دنیا کے مختلف ممالک سے آئے ہوئے ہیں ، جوجلسہ سالانہ کے پروگراموں سے فیضیاب ہو رہے ہیں اور وہ جو ایم ٹی اے کے ذریعہ سے اس کارروائی کو دنیا میں بیٹھے سن رہے ہیں ،یہ اس تائید کا ایک زندہ نشان ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی تائید ہے۔ اس بستی کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دعویٰ سے پہلے تک کوئی جانتا بھی نہ تھا۔ جس طرح کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے خود اس کا اظہار فرمایا ہے اور ابھی آپ نے نظم میں سنا۔ لیکن آج اُس بستی میں بیٹھے جلسہ سننے والوں اور تقاریر کرنے والوں کو دنیا کے ہر ملک میں دیکھا اور سنا جا رہا ہے۔ مسیح و مہدی کے آنے کی نشانیوں میں سے یہ بھی تھی کہ مختلف قسم کی نئی ایجادات اور نشر و اشاعت کے جوذرائع آجکل ہیں یہ مسیح کے زمانے کی نشانی ہو گی۔ پس دیکھیں وہ کس شان سے اس زمانے میں پوری ہو رہی ہیں ۔ ایک شخص جو دنیا سے کٹ کر رہنے اور اپنے وقت کو خدا کی یاد اور قرآنِ کریم پر غور کرنے میں گزارنے کو ہر کام پر ترجیح دیتا تھا، اُسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ باہر نکل اور میرے پیغام کو دنیا میں پھیلا۔ اپنے آقا و مطاع حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر عمل کر۔ میں تیرے ساتھ اور تیرے ماننے والوں کے ساتھ ہوں ۔ تو میری مدد اور نصرت اور فضلوں اور احسانوں کو ہر وقت اپنے پر اور اپنے ماننے والوں پر برستا دیکھے گا۔ اسی لئے میں نے تجھے مبعوث کیا ہے تا کہ تو دنیا میں یہ پیغام پہنچائے اور اس بارے میں کسی قسم کی فکر کی ضرورت نہیں ہے۔
آج سے 120 سال پہلے اللہ تعالیٰ نے آپ کو الہاماً فرمایا کہ ’’ جنابِ الٰہی کے احسانات کا دروازہ کھلا ہے اور اُس کی پاک رحمتیں اس طرف متوجہ ہیں ‘‘۔
(براہین احمدیہ روحانی خزائن جلد 1صفحہ 623حاشیہ درحاشیہ نمبر 3)
آج بھی اگر قادیان کی بستی کو دیکھیں تویہ دنیا کی نظر میں ہندوستان کا ایک چھوٹا سا قصبہ ہے۔ لیکن آج سے 120 سال پہلے تو اس چھوٹے سے گاؤں کی کوئی بھی حیثیت نہیں تھی۔ لیکن اللہ تعالیٰ فرماتاہے کہ میں اپنے احسانات اور رحمتوں کے ساتھ اس طرف متوجہ ہو گیا ہوں ۔ اس لئے اب دنیا کی توجہ بھی اسی طرف پھیری جانے والی ہے چونکہ میری توجہ اس طرف ہو گئی ہے۔
پس یہ ایم ٹی اے کا جاری ہونا اور اس کے ذریعہ سے وہاں کے جلسہ کی کارروائی کا ساری دنیا میں نشر ہونا اور پھر یہاں لندن سے بیٹھے ہوئے ہمارا یہ پروگرام وہاں دکھایا جانا اور وہاں کے نظارے ہمیں نظر آنا، دوطرفہ نعروں کا ایک دوسرے کو سنا جانا اور جواب دینا اور پھر اس سارے پروگرام کو لندن سے جو ایک انتہائی ترقی یافتہ ملک کا سب سے بڑا شہر کہلاتا ہے، اس کے ساتھ مل کر دنیا میں نشر ہونا۔ دونوں طرف کے نظارے بھی دیکھنا اور آواز بھی سننا، یقینا یہ اس سچے وعدے والے خدا کی اپنے مسیح و مہدی کے حق میں زبردست تائید و نصرت کا اظہار ہے جس نے آپ کو تسلی دے کر فرمایا تھا کہ تیرے لئے میرے احسانات کے دروازے کھل گئے ہیں اور میری رحمتیں تیری طرف متوجہ ہو گئی ہیں ۔ اب وہ انہونیاں ہونے والی ہیں جس کے متعلق اس بستی کے رہنے والے کبھی سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پیغام کو دنیا کے کناروں تک پہنچانے کی جو خوشخبری دی تھی اس سے پہلے یہ تسلی فرما دی تھی کہ احسانات کے دروازے کھل گئے ہیں ۔ میری رحمتیں تیری طرف متوجہ ہو گئی ہیں اس لئے فکر نہ کر۔ تیری تبلیغ دنیا کے کناروں تک پہنچ رہی ہے۔ یہ الٰہی تقدیر بن چکی ہے اور انسانی کوششوں سے نہیں بلکہ میرے فضلوں اور رحمتوں کے ذریعہ سے یہ تبلیغ اب دنیا کے کناروں تک پہنچنی ہے۔
پس یہ ہزاروں میل دور بیٹھ کر ایک دوسرے کو آمنے سامنے دیکھنا، قرآن اور حدیث کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے علم کلام کے حوالے سے سننا اور سمجھنا یہ اللہ تعالیٰ کی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے حق میں تائید و نصرت کا ایک زبردست نشان ہے اور اللہ تعالیٰ کے وعدوں کے پورا ہونے کا زبردست ثبوت ہے کہ آپ ہی اس زمانے کے وہ مسیح و مہدی ہیں جو اللہ تعالیٰ کے تائید یافتہ ہیں ۔ اب چاہے مخالفین اور منکرین مانیں یا نہ مانیں لیکن یہ الٰہی تقدیر کہ جو آنے والا تھا آگیا، وہ جری اللہ فی حلل الانبیاء اللہ تعالیٰ کے اِذن سے دعویٰ کر چکا ہے۔ آسمانی اور زمینی تائیدات اُس کے حق میں ظاہر ہو گئی ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کے احسانات کے نئے نئے دروازے ہر دن اُس کی جماعت پر کھل رہے ہیں ۔
پس اس زمانے کا جو امام تھا وہ تو آچکا۔ اب اُس کے ماننے میں ہی بچت ہے۔ انکار کرتے ہوئے جس طرح تمہارے آباؤ اجداد چلے گئے، تم بھی چلے جاؤ گے لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس عاشقِ صادق کے اس مقام پر اب اَور کوئی نہیں آئے گا ۔ ہم جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت میں اپنے آپ کو شمار کرتے ہیں ، ہمیں یہ یاد رکھنا چاہئے کہ ہمارے پر بھی بہت بھاری ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کے احسانات کے دروازے تو کھلے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کی بارش تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت پر ہو رہی ہے لیکن ہم میں سے ہر ایک اس سے اُس وقت فیضیاب ہو گا جب وہ اللہ تعالیٰ کے احسانوں کو یادکرنے والا ہو گا، جن میں سے ہم میں سے ہر فرد پر سب سے بڑا احسان یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس مسیح آخرالزمان کی جماعت میں شامل ہونے کی توفیق دی۔ پس اس فیض کو حاصل کرنے کے لئے اس مقصد کو پیشِ نظر رکھیں جس کے لئے اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو مبعوث فرمایا تھا اور وہ دو بڑے مقصد تھے۔نمبر ایک توحید کا قیام اور دوسرے شفقت علی خلق اللہ۔ (ماخوذ از ملفوظات جلد اول صفحہ 336 ۔ ایڈیشن 2003ء۔مطبوعہ ربوہ)
یعنی اللہ تعالیٰ کو معبودِ حقیقی سمجھنا اور سوائے اس کے کسی کے آگے نہ جھکنا۔ عبادات کا حق ادا کرنا اور اُس کی خشیت اور خوف دل میں رکھتے ہوئے، تقویٰ پر چلتے ہوئے اُس کے تمام احکامات کی پیروی کرنا۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کی مخلوق پر شفقت، اُس کے حق ادا کرنے اور آپس میں پیار و محبت کے تعلقات کو بڑھانا۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ :
’’سچے موحّد وہی ہوتے ہیں جو خدا تعالیٰ کے سوا کسی دوسرے وجود کو کوئی شئے خیال نہیں کرتے۔ خدا تعالیٰ نے مومنوں کی صفت فرمائی ہے لَایَخَافُوْنَ لَوْمَۃَ لَآ ئِمٍ (المائدہ:55) کہ وہ کسی ملامت کرنے والی کی ملامت سے خوف نہیں کھاتے اور صرف اپنے مولیٰ کی رضا مندی کو مقدم رکھتے ہیں ‘‘۔ فرمایا ’’مومن ایک لاپروا انسان ہوتا ہے۔اُسے صرف خدا تعالیٰ کی رضا مندی کی حاجت ہوتی ہے‘‘۔( لاپروااس لئے نہیں کہ کسی چیز کو وہ خاطر میں نہیں لاتا بلکہ اس لئے کہ صرف اور صرف خدا تعالیٰ کی ہی پرواہ ہوتی ہے۔ باقی کسی چیز کی پروا نہیں ہوتی)’’ اور اُسی کی اطاعت کو وہ ہر دم مدّنظر رکھتا ہے کیونکہ جب اُس کا معاملہ خدا سے ہے تو پھر اُسے کسی کے ضرر اور نفع کا کیا خوف ہے۔ جب انسان خدا تعالیٰ کے بالمقابل کسی دوسرے وجود کو دخل دیتا ہے تو ریاء اورعُجب وغیرہ معاصی میں مبتلا ہوتا ہے۔ یاد رکھو یہ دخل وہی ایک زہرہے اور کلمہ لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کے اوّل جز و لَا اِلٰہَ میں اس کی بھی نفی ہے۔ کیونکہ جب انسان کسی انسان کی خاطر خدا تعالیٰ کے ایک حکم کی بجاآوری سے قاصر رہتا ہے تو آخر اُسے خدا کی کسی صفت میں شریک کرتا ہے، تبھی تو قاصر رہتا ہے اس لئے لَآاِلٰہَ کہتے وقت اس قسم کے معبودوں کی بھی نفی کرتا ہے‘‘۔
(ملفوظات جلد چہارم صفحہ 87 ۔ ایڈیشن 2003ء۔مطبوعہ ربوہ)
پس یہ ہے وہ توحید کے قائم کرنے کی لطیف وضاحت اور تعلیم کہ جب لاَاِلٰہَ پڑھے تو یہ خیال رہے کہ میں اُس خدا کو ماننے والا ہوں جس کے مقابلے میں ہر چیز ہیچ ہے۔ مَیں جو بھی کام کرنے جا رہا ہوں ، جو بھی فعل کر رہا ہوں ، اُس کے بارے میں اس واحد و یگانہ خدا کی تعلیم مجھے کیا حکم دے رہی ہے؟ اگر خدا کے علاوہ کوئی بھی چیز ہم پر اثر ڈال رہی ہے تو ہم وہ حقیقی لَااِلٰہَ کہنے والے نہیں ہو سکتے۔ پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ حقیقی موحد وہی ہے جو لَااِلٰہَ کہے تو اس قسم کے تمام کاموں سے بچنے والا ہو جن سے بچنے کا خدا تعالیٰ نے حکم دیا ہے۔ تبھی ہم حقیقی توحید کا دعویٰ کرنے والے بن سکیں گے۔
پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:
’’شریعت کے دو ہی بڑے حصے اور پہلو ہیں جن کی حفاظت انسان کو ضروری ہے۔ ایک حَقُّ ﷲ اور دوسرے حَقُّ الْعِبَاد۔ حق اﷲ تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی محبت، اس کی اطاعت، عبادت، توحید، ذات اور صفات میں کسی دوسری ہستی کو شریک نہ کرنا۔ اور حَقُّ الْعِبَاد یہ ہے کہ اپنے بھائیوں سے تکبّر ،خیانت اور ظلم کسی نوع کا نہ کیا جاوے۔ گویا اخلاقی حصہ میں کسی قسم کا فتور نہ ہو۔ سننے میں تو یہ دو ہی فقرے ہیں لیکن عمل کرنے میں بہت ہی مشکل ہیں ۔ ﷲ تعالیٰ کا بڑا ہی فضل انسان پر ہو تو وہ ان دونوں پہلوؤں پر قائم ہو سکتاہے۔ کسی میں قوّتِ غضبی بڑھی ہوئی ہوتی ہے۔ جب وہ جوش مارتی ہے تو نہ اس کا دل پاک رہ سکتا ہے اور نہ زبان۔ دل سے اپنے بھائی کے خلاف ناپاک منصوبے کرتا ہے اور زبان سے گالی دیتا ہے۔ اور پھر کینہ پیدا کرتا ہے۔ کسی میں قوّت شہوت غالب ہوتی ہے اور وہ اس میں گرفتار ہو کر حدود اﷲ کو توڑتا ہے۔ غرض جب تک انسان کی اخلاقی حالت بالکل درست نہ ہو وہ کامل ایمان جو منعم علیہ گروہ میں داخل کرتا ہے اور جس کے ذریعہ سچی معرفت کا نور پیدا ہوتا ہے اس میں داخل نہیں ہو سکتا۔ پس دن رات یہی کوشش ہونی چاہیے کہ بعد اس کے جو انسان سچا موحّد ہو اپنے اخلاق کو درست کرے۔ مَیں دیکھتا ہوں کہ اس وقت اخلاقی حالت بہت ہی گری ہوئی ہے۔ اکثر لوگوں میں بدظنّی کا مرض بڑھا ہوا ہوتا ہے۔ وہ اپنے بھائی سے نیک ظنّی نہیں رکھتے اور ادنیٰ ادنیٰ سی بات پر اپنے دوسرے بھائی کی نسبت بُرے بُرے خیالات کرنے لگتے ہیں اور ایسے عیوب اس کی طرف منسوب کرنے لگتے ہیں کہ اگر وہی عیب اُس کی طرف منسوب ہوں تو اُس کو سخت ناگوار معلوم ہو۔ اس لیے اوّل ضروری ہے کہ حتی الوسع اپنے بھائیوں پر بدظنی نہ کی جاوے اور ہمیشہ نیک ظن رکھا جاوے کیونکہ اس سے محبت بڑھتی ہے اور اُنس پیدا ہوتا ہے اور آپس میں قوّت پیدا ہوتی ہے اور اس کے باعث انسان بعض دوسرے عیوب مثلاً کینہ،بغض، حسد وغیرہ سے بچا رہتا ہے۔
پھر مَیں دیکھتا ہوں کہ بہت سے ہیں جن میں اپنے بھائیوں کے لیے کچھ بھی ہمدردی نہیں ۔ اگر ایک بھائی بھوکا مرتا ہو تو دوسرا توجہ نہیں کرتا۔اور اس کی خبر گیری کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ یا اگر وہ کسی اَور قسم کی مشکلات میں ہے تو اتنا نہیں کرتے کہ اس کے لیے اپنے مال کا کوئی حصہ خرچ کریں ۔ حدیث شریف میں ہمسایہ کی خبرگیری اور اس کے ساتھ ہمدردی کا حکم آیاہے بلکہ یہانتک بھی ہے کہ اگر تم گوشت پکاؤ تو شوربا زیادہ کر لو تا کہ اسے بھی دے سکو……‘‘۔ پھر فرماتے ہیں کہ’’ یہ مت سمجھو کہ ہمسایہ سے اتنا ہی مطلب ہے جو گھر کے پاس رہتا ہو۔ بلکہ جو تمہارے بھائی ہیں وہ بھی ہمسایہ ہی ہیں خواہ وہ سو کوس کے فاصلے پر بھی ہوں ‘‘۔ فرمایا :’’ہر شخص کو ہر روز اپنا مطالعہ کرنا چاہئے کہ وہ کہاں تک ان امور کی پرواہ کرتا ہے اور کہاں تک وہ اپنے بھائیوں سے ہمدردی اور سلوک کرتا ہے۔ اس کا بڑا بھاری مطالبہ انسان کے ذمہ ہے……‘‘۔ فرماتے ہیں ’’ دراصل خدا تعالیٰ کی مخلوق کے ساتھ ہمدردی کرنا بہت ہی بڑی بات ہے اور خد تعالیٰ اس کو بہت پسند کرتا ہے۔ اس سے بڑھ کر اور کیا ہوگا کہ وہ اُس سے اپنی ہمدردی ظاہر کرتا ہے‘‘۔ (یعنی خدا تعالیٰ ہمدردی کرنے والے سے اپنی ہمدردی ظاہر کرتا ہے)’’ عام طور پر دنیا میں بھی ایساہی ہوتا ہے کہ اگر کسی شخص کا خادم کسی اُس کے دوست کے پاس جاوے اور وہ شخص اُس کی خبر بھی نہ لے تو کیا وہ آقا جس کا کہ وہ خادم ہے اس اپنے دوست سے خوش ہو گا؟ کبھی نہیں ۔ حالانکہ اس کو تو کوئی تکلیف اس نے نہیں دی۔ مگر نہیں ۔ اس نوکر کی خدمت اور اس کے ساتھ حسن سلوک گویا مالک کے ساتھ حسن سلوک ہے۔ خدا تعالیٰ کو بھی اس طرح پر اس بات کی چِڑ ہے کہ کوئی اس کی مخلوق سے سرد مہری برتے۔ کیونکہ اس کو اپنی مخلوق بہت پیاری ہے۔ پس جو شخص خدا تعالیٰ کی مخلوق کے ساتھ ہمدردی کرتا ہے وہ گویا اپنے خدا کو راضی کرتا ہے‘‘۔
فرماتے ہیں :’’ غرض اخلاق ہی ساری ترقیات کا زینہ ہے۔ میری دانست میں یہی پہلو حقوق العباد کا یہ ہے کہ حقوق اﷲ کے پہلو کو تقویت دیتا ہے۔ جو شخص نوع انسان کے ساتھ اخلاق سے پیش آتا ہے خدا تعالیٰ اس کے ایمان کو ضائع نہیں کرتا۔ جب انسان خدا تعالیٰ کی رضا کے لیے ایک کام کرتا ہے اور اپنے ضعیف بھائی کی ہمدردی کرتا ہے تو اس اخلاص سے اس کا ایمان قوی ہو جاتا ہے…‘‘۔ فرماتے ہیں ’’ اگر انسان خدا تعالیٰ کے لیے کوئی فعل کرے تو خواہ وہ کتنا ہی چھوٹا کیوں نہ ہو اﷲ تعالیٰ اُسے ضائع نہیں کرتا اور اس کا بدلہ دیتا ہے…‘‘۔
پس یہ تمام برائیاں جن کا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ذکر فرمایا ہے یعنی تکبر، خیانت اور ظلم سے بچنا، اپنے بھائیوں کے خلاف ناپاک منصوبہ بندی سے بچنا، دلوں کو کینوں سے پاک کرنا، بغض اور حسد سے بچنا اور پھر صرف یہی نہیں کہ برائیوں سے بچنا ہے بلکہ فرمایا کہ اپنے بھائیوں کے لئے سچی ہمدردی کرنا بھی ایک مومن کا فرض ہے۔ کوئی مشکل میں ہے، پریشانی میں ہے، بھوک میں ہے، اس کی تکلیف دور کرنا بھی مومن کا فرض ہے۔
پھرآپ فرماتے ہیں :
’’پس مخلوق کی ہمدردی ایک ایسی شئے ہے کہ اگر انسان اُسے چھوڑ دے اور اس سے دور ہوتا جاوے تو رفتہ رفتہ پھر وہ درندہ ہو جاتا ہے۔ انسان کی انسانیت کا یہی تقاضا ہے اور وہ اُسی وقت تک انسان ہے جبتک اپنے دوسرے بھائی کے ساتھ مروّت، سلوک اور احسان سے کام لیتا ہے۔ اور اس میں کسی قسم کی تفریق نہیں ہے…‘‘۔ فرماتے ہیں ’’ یاد رکھو ہمدردی کا دائرہ میرے نزدیک بہت وسیع ہے۔ کسی قوم اور فرد کو الگ نہ کرے۔مَیں آج کل کے جاہلوں کی طرح یہ نہیں کہنا چاہتا کہ تم اپنی ہمدردی کو صرف مسلمانوں سے ہی مخصوص کرو۔ نہیں ۔ مَیں کہتا ہوں کہ تم خدا تعالیٰ کی ساری مخلوق سے ہمدردی کرو۔ خواہ وہ کوئی ہو۔ ہندو ہو یا مسلمان یا کوئی اَور ۔ مَیں کبھی ایسے لوگوں کی باتیں پسند نہیں کرتا جو ہمدردی کو صرف اپنی ہی قوم سے مخصوص کرنا چاہتے ہیں ‘‘۔(ملفوظات جلد چہارم صفحہ 214تا 217۔ ایڈیشن 2003ء۔مطبوعہ ربوہ)
پس یہ تعلیم ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہمیں دی جو حقیقی اسلامی تعلیم ہے۔ اور یہی تعلیم ہے جس پر چل کر ہم اپنی دنیا و عاقبت سنوار سکتے ہیں ۔ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ سننے میں تو یہ دو ہی فقرے ہیں لیکن عمل کرنے میں بہت مشکل ہیں ۔ اور جب تک حقیقی تقویٰ پیدا نہ ہو ، اُس وقت تک ایک انسان نہ اللہ تعالیٰ کے حقوق ادا کر سکتا ہے اور نہ ہی اُس کے بندوں کے حقوق کی ادائیگی کر سکتا ہے۔ اور حقیقی تقویٰ پیدا کرنے کے لئے اپنی کتب اور ملفوظات میں بیشمار جگہ پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ذکر فرمایا ہے۔ آپ کو ایک فکر تھی کہ میں وہ جماعت قائم کروں جو حقیقی طور پر تقویٰ شعار لوگوں کی جماعت ہو اور اسی مقصد کے لئے، آپ نے جلسوں کا انعقاد فرمایا تھا۔ پس آپ لوگ اس حقیقی روح کو سمجھیں جو ان جلسوں کے انعقاد کے پیچھے ہے۔ آپ نے ایک جگہ فرمایا ہے کہ یہ کوئی دنیاوی میلہ نہیں کہ میں اپنی طاقت ظاہر کرنے کے لئے اپنے ارادت مندوں اور مریدوں کو جمع کروں اور اکٹھا کروں ۔(ماخوذ از شہادۃ القرآن روحانی خزائن جلد 6صفحہ 395)
پس ہر احمدی جو اس وقت جلسہ میں شامل ہے یا دنیا میں کسی بھی جلسہ سالانہ میں شامل ہوتا ہے، اُسے یاد رکھنا چاہئے کہ ہم نے وہ مقصد پورا کرنے والا بننا ہے جس کے لئے جلسوں کا انعقاد ہوتا ہے۔ حقیقی تقویٰ پر چلتے ہوئے اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرنی ہیں ۔آج (جلسہ کا) تیسرا اور آخری دن ہے۔ آپ جووہاں بیٹھے ہوئے ہیں جنہوں نے قادیان میں جلسہ سنا ہے، آپ نے جلسے کے پروگراموں میں بہت سی تقاریر سنی ہوں گی۔ جن میں علمی تقاریر بھی تھیں اور تربیتی تقاریر بھی تھیں ۔ توحیدِ باری تعالیٰ کے بارے میں تھیں ۔ اپنوں کے حقوق ادا کرنے کے بارے میں بھی تھیں ۔ غیروں کے حقوق ادا کرنے کے بارے میں بھی تھیں ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اُسوہ حسنہ پیش کیا گیا تھا۔ تو یہ سارے پروگرام اس لئے نہیں تھے کہ جلسہ میں شامل ہونے والے اُنہیں سنیں ، جو اچھا نکتہ نظر آئے اُس پر سر دھنیں ، نعرہ تکبیر بلند کریں اور بھول جائیں کہ مقرر نے کیا کہا تھا۔ اس جلسہ میں شمولیت کا تبھی فائدہ ہو گا جب آپ نے جو باتیں سنی ہیں ،اُن کی جگالی کریں گے، اُن پر غور کریں گے، اپنے جائزے لیں گے جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے۔ پس جلسہ میں شامل ہونے والے ہر احمدی کو یہ دیکھنا چاہئے کہ یہ تقریریں ہمارے ایمان میں وقتی اضافے کا باعث بننے والی نہ ہوں ۔ صرف جلسہ کے ماحول نے ہم میں وقتی جوش اور جذبہ ہی پیدا نہ کیا ہو بلکہ یہ ہماری زندگیوں میں انقلاب لانے والا ماحول بن چکا ہو۔ ہمیں یہ دیکھنا چاہئے اوراپنے اندر یہ بات پیدا کرنی چاہئے کہ جلسہ کے اس ماحول نے ہم میں وہ روح پھونک دی ہو جس سے ہم اپنے اندر وہ وجود پیدا ہوتے دیکھیں جو تقویٰ کے اعلیٰ معیاروں کو قائم کرتے ہوئے حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کرنے والے ہوں ۔ پس جب تک ہم اپنے اندر اللہ کا خوف اور اُس کی خشیت کے وہ معیار قائم کرنے والے نہیں بنیں گے ہمارے لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ اور اَللّٰہُ اَکْبَر کے نعرے کھوکھلے نعرے ہوں گے اور جب ہم حقیقت میں یہ مقام حاصل کرنے کی کوشش کرنے والے ہوں گے تو اللہ تعالیٰ کے احسانات کے دروازے ہم میں سے ہر ایک پر کھلتے چلے جائیں گے۔
بہت سے نو مبائع بھی اس جلسہ میں شامل ہوئے ہیں ۔ رپورٹ کے مطابق تقریباً پانچ ہزار سے زائد نومبائعین جلسہ میں شامل ہیں ۔ اُن سے مَیں خاص طور پر کہتا ہوں کہ آپ نے بیعت کے بعد اور پھر اس بستی میں آکر جو مسیح الزمان کی بستی ہے جس میں خالص روحانی ماحول میں جلسہ منعقد ہو رہا ہے، اگر اپنے اندر تبدیلی پیدا نہیں کی، یہاں اس ماحول سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے ایسی تبدیلی پیدا نہیں کی جو انسان کی کایا پلٹ دے تو پھر اس بیعت کا کیا فائدہ؟ اپنے عزیزوں اور ماحول کی مخالفت بھی مول لی اور اُس مقصد کے حصول کی طرف قدم بھی نہ بڑھے جس کے لئے بیعت کی تھی۔ پس اگر تو آپ کو اپنے آپ میں خود بھی اور دوسرے دیکھنے والوں کو بھی انقلاب نظر آتا ہے تو خوش قسمت ہیں کہ اُس مقصد کے حصول میں حصہ دار بن رہے ہیں جس کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام مبعوث ہوئے تھے۔ اور اگر جواب نفی میں ہے تو آج یہ عہد کر کے اُٹھیں کہ آج سے ہماری سوچیں اور ہمارے عمل اُس نہج پر چلیں گے جو روحانی انقلاب کے راستے دکھانے والے ہیں ۔ اس انقلاب کے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام لانا چاہتے تھے۔ اُس انقلاب لانے والوں کے راستے پر چلیں گے تو تبھی ہم اُن برکات سے فائدہ اُٹھانے والے ہوں گے جن کا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے۔
پس احمدی ہونا اُس وقت فائدہ دیتا ہے جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے کئے ہوئے اس عہد کو پورا کرنے والے بنیں گے جو ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت میں آتے ہوئے کیا ہے۔ اور جب یہ ہو گا تو اللہ تعالیٰ راہ کی ہر روک کو، ہر مخالفت کو، ہر دکھ کو،ہر تکلیف کو خس و خاشاک کی طرح اُڑا دے گا انشاء اللہ۔
جو پیدائشی احمدی ہیں ، جو پرانے احمدی ہیں ، جن کے آباؤ اجداد پر اللہ تعالیٰ نے احسان کیا اور انہوں نے زمانے کے امام کو مانا، اُس کے حضور حاضر ہو کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا سلام پہنچایا، وہ بھی یاد رکھیں کہ پہلوں کی قربانیاں اور اُن کی نیکیاں اور اُن کے تقویٰ میں بڑھنے کے معیار اور اُن کی دعائیں تبھی فائدہ دینے والی ہوں گی جب ہم اُن کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کرنے والے ہوں گے۔
(اس موقع پرلند ن میں حاضر احباب نے نعرے لگائے۔ قادیان سے بھی نعروں کی آواز آرہی تھی۔ حضور نے فرمایا : یہاں سے وہاں اور وہاں سے یہاں آواز کتنی دیر میں پہنچتی ہے؟ لیکن جب مَیں نے یہ بات ختم کی ہے تو اس کے بعد انہوں نے نعرہ لگایا ہے یا پہلے ہی، میری بات کے دوران لگا دیا تھا، نعرے کے دوران توان سے سنا ہی نہیں گیا ہو گا ؟ اُن سے کہیں کہ جہاں میں لمبا وقفہ دوں وہاں نعرہ لگایا کریں ، ویسے بیچ میں نہ ڈسٹرب کریں )
تو مَیں یہ کہہ رہا تھا کہ پہلوں کی قربانیاں اور تقویٰ کے معیار اور دعائیں تبھی ہمیں فائدہ دینے والی ہوں گی جب ہم اُن کے نقشِ قدم پر چلنے کی کوشش کرنے والے ہوں گے۔ جب ہم اپنے ہر لمحے کو توحید کے قیام اور حقوق العباد کی ادائیگی میں گزارنے کی کوشش کرنے والے ہوں گے۔ تقویٰ میں بڑھنے کی کوشش کرنے والے ہوں گے۔ اپنی زندگیوں میں ایک انقلاب لانے کی کوشش کرنے والے ہوں گے تو پھر پہلوں کی ہمارے لئے دعائیں اور اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنے کی ہماری کوشش اور دعائیں ہمارے لئے ہماری روحانی ترقی کے نئے دروازے کھولیں گی ۔ پس یہ نہ سمجھیں کہ پرانے احمدی ہونے کا نام ہمارے کسی کام آئے گا، یہ ٹائٹل بہت کافی ہے۔ پرانے احمدیوں کی ذمہ داری ہے کہ انہوں نے نئے آنے والوں کے لئے اپنی مثالیں قائم کرنی ہیں ۔ پس یہ ہمارے لئے بہت فکر کا مقام ہے۔
پاکستان سے چند سال سے کافی تعداد میں احمدی جلسہ میں شامل ہو رہے ہیں ، اس سال بھی ہوئے ہیں ۔ دوسری دنیا سے بھی شامل ہوئے ہیں ۔ خاص طور پر پاکستان سے آئے ہوؤں میں سے بعض کے لئے یہ جلسہ بالکل نیا تجربہ ہو گا ۔ کیونکہ ایک عرصے سے پاکستان میں قانونی پابندیوں کی وجہ سے وہاں جلسے نہیں ہو رہے ۔ تو یہ جلسہ بھی بعض نوجوانوں کے لئے نیا تجربہ ہو گا۔ اور مسیح کی بستی میں اس روحانی ماحول سے لطف اُٹھانا بھی اُن کے لئے ایک بالکل مختلف قسم کے جذبات لئے ہوئے ہو گا۔پس اس وقت آپ کے یہ جذبات جو اُبھر رہے ہوں گے، یہ جو روحانی تجربات آپ کو حاصل ہو رہے ہوں گے، اس نیکی کو اللہ تعالیٰ کے حضور جھکتے ہوئے ہمیشہ اپنے اندر جاری رکھنے کی کوشش کریں ۔ اس تجربے کو اپنے اندر تقویٰ پیدا کرنے اور اس میں بڑھتے چلے جانے کا ذریعہ بنائیں ۔ اس تبدیلی کو آپ کبھی ختم نہ ہونے دیں ۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے کئے گئے اس عہد کو نبھانے کا نئے سرے سے عزم اور عہد کریں جن کا آپ نے شرائطِ بیعت میں ذکر فرمایا ہے تبھی آپ اس مقصد کو پورا کرنے والے بنیں گے جس کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام مبعوث ہوئے تھے اور جس کی خاطر آپ کے بڑوں نے قربانیاں دی تھیں اور آپ بھی قربانیاں دے رہے ہیں ۔
پس اس قربانی کو بامقصد بنائیں تاکہ اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کے نئے سے نئے دروازے کھلتے چلے جائیں ۔ احمدیت جو ہم پر اللہ تعالیٰ کا انعام ہے اُس کی قدر تبھی ممکن ہے جب ہم مسلسل جدو جہد کے ساتھ احمدیت یعنی حقیقی اسلام کی تعلیم پر عمل کرنے والے بنیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنا قرب پانے کا یہی اصول ہمیں بتایا ہے کہ اپنی کوشش میں قدم آگے بڑھاتے چلے جاؤ۔ فرماتا ہے
وَالَّذِیْنَ جَاھَدُوْا فِیْنَا لَنَھْدِیَنَّھُمْ سُبُلَنَاَ(العکبوت:70)۔
اس آیت کو بیان کر کے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں :۔
’’خدا کی طرف سعی کرنے والا کبھی بھی ناکام نہیں رہتا۔ اُس کا سچا وعدہ ہے کہ… خدا تعالیٰ کی راہوں کی تلاش میں جو جُویا ہوا وہ آخر منزل مقصود پر پہنچا۔ دنیوی امتحانوں کے لئے تیاریاں کرنے والے ،راتوں کو دن بنا دینے والے طالب علموں کی محنت اور حالت کو ہم دیکھ کر رحم کھا سکتے ہیں تو کیا اللہ تعالیٰ جس کا رحم اور فضل بے حد اور بے اَنت ہے، اپنی طرف آنے والے کو ضائع کردے گا ؟ہر گز نہیں ۔ہر گز نہیں ۔اللہ تعالیٰ کسی کی محنت کو ضائع نہیں کرتا۔‘‘
(ملفوظات جلد اول صفحہ 91 ۔ ایڈیشن 2003ء۔ مطبوعہ ربوہ)
پس ہر احمدی کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کے انعاموں اور احسانوں کو ہمیشہ حاصل کرتے چلے جانے کے لئے مسلسل عمل اور جد وجہد کی ضرورت ہے اور امام الزمان کی بیعت میں آنے والے کا کام نہیں کہ سست ہو جائے یا تھک کر بیٹھ جائے۔
قادیان میں رہنے والوں سے بھی مَیں ایک بات کہنی چاہتا ہوں کہ آپ میں سے وہ لوگ آہستہ آہستہ رخصت ہو رہے ہیں جنہوں نے درویشی میں اپنی زندگیاں گزاریں ، ہر طرح کی قربانیاں دیں لیکن مسیح کی اس بستی اور شعائر اللہ کی ہر طرح حفاظت کی۔ جو عہد کیا تھا اُسے نبھایا۔ اب نئی نسل پر یہ ذمہ داری پڑ رہی ہے۔ اب نئی نسل کے امتحان کا وقت آگیا ہے کہ وہ اپنے اس عہد کو کس طرح پورا کرتے ہیں ۔ وہ اپنی اَمانتوں کے حق کس طرح ادا کرتے ہیں ؟ پس اس امتحان سے سرخرو ہو کر نکلیں اور دنیاکو بتا دیں کہ زندہ قومیں کبھی اپنے مقصد کو بھولا نہیں کرتیں ۔ دنیا میں جو آیا اُس نے چلے جانا ہے لیکن افراد کی موت سے قوموں کی ترقی کے معیار ختم نہیں ہو جاتے۔ زندہ قومیں ہر جانے والے کے بعد نیا عہد اور نیا عزم کرتی ہیں اور جن کے ساتھ ترقیات کے خدائی وعدے ہوں اُن کے عزم تو بہت بلند ہوتے ہیں ۔ جو خدا کی خاطر اپنی زندگیاں گزارنے کا عزم لئے دیارِ مسیح میں بیٹھے ہیں اُن کا تو اللہ تعالیٰ پر یقین ہر دن چڑھنے کے ساتھ پہلے سے بڑھ کر پختہ ہوتا ہے۔ اُن کے تقویٰ کے معیار ہر بڑی شخصیت کے جانے کے بعد بڑھنے چاہئیں ۔
پس ہمیشہ یاد رکھیں جماعت احمدیہ کی ترقی کا دارو مدار کسی شخص پر نہیں بلکہ تقویٰ پر چلنے والے افراد پر ہے۔ تقویٰ میں ترقی کرنے والوں کی تعداد پر ہے اور الٰہی وعدوں کے مطابق خلافتِ احمدیہ سے وابستہ ہے ۔جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ:
’’مَیں جاؤں گا تو پھر خدا اُس دوسری قدرت کو تمہارے لئے بھیج دے گا جو ہمیشہ تمہارے ساتھ رہے گی۔ جیسا کہ خدا کا براہین احمدیہ میں وعدہ ہے اور وہ وعدہ میری ذات کی نسبت نہیں ہے بلکہ تمہاری نسبت وعدہ ہے جیسا کہ خدا فرماتا ہے کہ مَیں اِس جماعت کو جو تیرے پیرو ہیں ، قیامت تک دوسروں پر غلبہ دوں گا۔‘‘۔
(رسالہ الوصیت روحانی خزائن جلد 20صفحہ306-305)
پس حقیقی غلبہ، حقیقی پیرؤوں کا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی مدد کا وعدہ حقیقی پیرؤوں کے ساتھ ہے اور حقیقی پیرو وہ ہے جو تقویٰ پر چلنے والا ہے۔ پس اس بات کو ہمیشہ ذہن نشین رکھیں کہ خلافتِ احمدیہ کے ساتھ جڑے رہنے میں ہی ہر احمدی کی بقا ہے اور ایمان لانے والوں کے ساتھ اُس کا دائمی وعدہ ہے۔ پس اللہ تعالیٰ کا ترقیات کایہ وعدہ خلافت کے ساتھ وابستہ ہے۔ اور خلافت کے ساتھ جڑے رہنے سے وابستہ ہے اور ایمان لانے والوں کے ساتھ یہ دائمی ترقیات کا وعدہ ہے ۔ پس تقویٰ میں بڑھیں اور اللہ تعالیٰ کی خاطر اس تعلق میں مزید مضبوطی پیدا کریں ۔ دعاؤں سے اس انعام اور اللہ تعالیٰ کے احسان کی آبیاری کریں تا کہ اللہ تعالیٰ کے احسانات کے دروازے مزید وا ہوتے چلے جائیں ۔ آج 31؍ دسمبر ہے اور یہ جو دن ہے یہ سال 2007ء کا آخری دن ہے۔ قادیان میں اس وقت 2007ء کا سورج اپنی آخری جھلکیاں دکھاتے ہوئے افق میں ڈوبنے کی طرف سفر کر رہا ہو گا یا شاید اس وقت ڈوب رہا ہو۔ بہر حال اس وقت وہاں شام ہو رہی ہے اور سورج غروب ہونے کی طرف جا رہا ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کے احسان اور رحمتوں سے اُس کے وعدے کے مطابق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت پر یہ سورج اب کبھی نہیں ڈوبتا۔ ایک جگہ نظروں سے اوجھل ہوتا ہے تو دوسری جگہ اللہ تعالیٰ کے احسانات کے نئے دروازے کھولتا ہوا طلوع ہو جاتا ہے۔ نئی آب و تاب کے ساتھ اپنی کرنیں بکھیرتا ہوا طلوع ہوتا ہے۔ پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس عاشقِ صادق کے ذریعہ جو روشنی اللہ تعالیٰ نے پھیلائی وہ اب کبھی ماند نہیں ہوتی۔ لیکن ایک اور اہم بات جو سورج کے ڈوبنے کے حوالے سے مَیں کہنی چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ قانونِ قدرت کے ساتھ اس مادی سورج کے ڈوبنے سے جو رات آتی ہے وہ ایک مومن متقی کو صرف دن بھر کی تھکاوٹ اتارنے کے لئے نہیں آتی بلکہ ان راتوں کو بھی مومن متقی زندہ کرتے ہیں ۔ یہ رات بھی اللہ تعالیٰ کے حضورحاضر ہونے پر نئے راستے دکھاتی ہے۔ اگلے دن کے لئے نئے عزم اور نئے ولولوں کے راستے متعین کرتی ہے۔ آپ جو جلسہ میں شامل ہونے والے ہیں ، خوش قسمت ہیں کہ یہ دن اور یہ راتیں دیارِ مسیح میں گزارنے کا موقع مل رہا ہے۔
پس آج کی رات کو اللہ تعالیٰ کے حضور جھکتے ہوئے اس طرح زندہ کریں کہ آئندہ آنے والی ہر ظاہر رات زندگی کا پیش خیمہ بن جائے۔ کل 2008ء کا جو سورج طلوع ہو، آپ میں تقویٰ کے نئے دروازے کھولنے والا ہو۔ کل طلوع ہونے والا سورج اللہ تعالیٰ کے آگے جھکتے ہوئے اور تقویٰ میں قدم بڑھاتے ہوئے آپ پر طلوع ہو۔ آپ دیکھ رہے ہوں اور اس طلوع ہونے والے سورج کا تقویٰ میں بڑھتے ہوئے استقبال کریں تا کہ آپ جو خلافت جوبلی کی تیاری کر رہے ہیں ، اس میں تقویٰ میں بڑھتے ہوئے داخل ہوں ۔ اللہ کرے صرف قادیان میں رہنے والے یا اس وقت جو وہاں جلسہ میں موجود احمدی ہیں ، وہ ہی نہیں بلکہ دنیا میں کسی بھی جگہ رہنے والا ہر احمدی نیک جذبات اور دعاؤں کے ساتھ اپنی رات گزارنے والا ہو۔ اور اگر ہر احمدی اس طرح رات گزارے گا تو وہ دن دور نہیں جب ہم احمدیت کے قافلے کو پہلے سے بڑھ کر چھلانگیں مارتے ہوئے آگے بڑھتا ہوا دیکھیں گے۔ اللہ کرے کہ ایسا ہی ہو۔ اللہ تعالیٰ سب کو ان دعاؤں کی توفیق دے۔
اب ہم دعا کریں گے۔ اللہ تعالیٰ اس جلسہ کی برکات اور تقویٰ میں ترقی ہر ایک میں ہمیشہ جاری رکھے۔ باہر سے آنے والوں کو اپنی حفاظت سے واپس لے جائے۔ سفر میں بھی اور حضر میں بھی نیکی اور تقویٰ کو اپنی زندگیوں کا دائمی حصہ بنانے والے ہوں ۔ ہمیشہ ایسے عمل کرتے رہیں جن سے خدا راضی ہو۔ سفر میں سب کا رفیق اور ساتھی خدا ہو۔ اپنے عَہدوں اور اپنے وعدوں کو نبھانے کی ہر ایک کو اللہ تعالیٰ توفیق عطا فرمائے۔ قادیان میں رہنے والوں کو بھی خدا تعالیٰ اپنی حفاظت اور اپنی پناہ میں رکھے۔ اخلاص وفا اور تقویٰ کے ساتھ اس بستی میں رہنے والے، اس بستی میں رہنے کا حق ادا کرنے والے ہوں ۔ اللہ تعالیٰ آئندہ سال کو جماعت کے لئے بیشمار برکتوں کا سال بنا دے اور خلافت جوبلی کا جو نیا سال چڑھ رہا ہے انشاء اللہ تعالیٰ وہ ہم میں مزید تقویٰ پیدا کرنے والا ہو۔ اب دعا کر لیں ۔ (دعا)

اپنا تبصرہ بھیجیں