حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ

حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ رشتہ میں آنحضرتﷺ کے ماموں تھے۔ ابتدائے بعثت میں 17؍سال کی عمر میں ایمان لائے۔ مسلمان ہونے سے پہلے آپؓ نے خواب دیکھا کہ کسی تاریک جگہ پر کھڑے ہیں، اچانک چاند روشن ہوا آپؓ اس کی طرف چلے تو دیکھا کہ زیدؓ بن حارثہ ، علیؓ بن طالب اور ابوبکر ؓ پہلے ہی وہاں پہنچ چکے ہیں۔ آپؓ نے دریافت کیا کہ تم لوگ یہاں کب پہنچے ، انہوں نے کہا:ابھی۔
چند روز بعد آپؓ کو علم ہوا کہ آنحضورﷺ دعوت اسلام دے رہے ہیں چنانچہ آپؓ اصیاد کی گھاٹی میں حضورؐ سے ملے اور مسلمان ہو گئے۔ آپؓ سے پہلے صرف مذکورہ احباب ہی ایمان لائے تھے۔ آپؓ اپنی والدہ کے بہت فرمانبردار تھے۔ انہیں آپؓ کے اسلام لانے کی خبر ملی تو وہ کھا نا پینا ترک کر بیٹھیں۔ لیکن جب آپؓ کا استقلال دیکھا تو کچھ روز بعد کھانا پینا شروع کر دیا۔
آپؓ کے ایک بھائی عتبہ ایام جاہلیت میں ایک خون کرکے انتقام کے خوف سے مدینہ چلے گئے تھے۔ جب مسلمانوں کو ہجرت کا حکم ملا تو حضرت سعدؓ مدینہ جا کر اپنے بھائی کے مکان میں فروکش ہوئے۔ مدینہ آکر آنحضورﷺ نے قریش کی نقل و حرکت دریافت کرنے کیلئے جو جماعت روانہ فرمائی آپؓ بھی اس میں شامل تھے۔ حجاز کے ساحلی علاقہ میں ان کی مڈبھیڑ قریش کی جماعت سے ہوئی لیکن لڑائی پیش نہ آئی۔ پھر آپؓ نے اسی قسم کی کئی مہمات میں حصہ لیا۔
حضرت عائشہؓ کی روایت ہے ایک رات آنحضورﷺ نے فرمایا: کاش کوئی نیک مرد آج پہرہ پر ہوتا۔ اتنے میں ہتھیاروں کی آواز آئی۔ آنحضورؐ نے دریافت فرمایا تو معلوم ہوا کہ حضرت سعدؓپہرہ دینے کی غرض سے آئے ہیں۔ آنحضرتﷺ نے آپؓ کے لئے دعا کی اور پھر سو گئے۔
حضرت جابرؓ سے روایت ہے کہ آنحضرتﷺ نے ایک بار سعدؓ کو دیکھ کر فرمایا: یہ میرے ماموں ہیں مجھے کوئی اپنا ایسا ماموں تو دکھائے۔
تمام غزوات میں حضرت سعدؓ نے غیر معمولی شجاعت دکھائی۔ معرکہ احد میں ناگہانی حملہ کے وقت آپؓ آنحضرتﷺ کے ہمراہ تھے۔ چونکہ آپؓ تیراندازی میں کمال رکھتے تھے اس لئے آنحضورﷺ اپنے ترکش سے تیر نکال کر آپؓ کو دیتے جاتے اور فرماتے: ’’اے سعد! تیر چلا، میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں ‘‘۔
حضرت سعدؓ حجّۃالوداع کے موقع پر مکہ پہنچ کر سخت علیل ہو گئے۔ آنحضرتﷺ عیادت کیلئے تشریف لائے تو آپؓ زندگی سے مایوس ہو چکے تھے۔ آپؓ کی ایک ہی بیٹی تھی۔ آپؓ نے آنحضورﷺ سے اپنا دو تہائی مال راہ خدا میں پیش کرنے کی اجازت چاہی۔ ارشاد ہوا نہیں۔ پھر نصف پیش کیا تو آنحضرتﷺ نے فرمایا ’’صرف ایک تہائی‘‘۔ نیز فرمایا ’’ تم اپنے وارثوں کو کچھ مال دو تاکہ وہ لوگوں کے سامنے دست سوال دراز نہ کریں۔ تم جو کچھ بھی خدا کی رضا کے لئے کرو گے اس کا اجر ملے گا یہاں تک بیوی کے مونہہ میں جو لقمہ ڈالو گے اس کا ثواب پاؤ گے‘‘۔
حضرت سعدؓ کو مدینہ سے اتنا پیار تھا کہ مکہ میں مرنا بھی پسند نہ تھا۔ بیماری بڑھ گئی تو بے قرار ہو کر آنحضورؐ کی خدمت میں عرض کیا: معلوم ہوتا ہے اسی سرزمین کی خاک نصیب ہوگی جسے اس کے رسولؐ کی محبت میں ترک کیا تھا۔ آنحضورﷺ نے تسلی دی اور آپؓ کے سینے پر ہاتھ رکھ کر تین دفعہ دعا کی اور پھر پیشگوئی فرمائی: اے سعدؓ تم اس وقت تک نہ مرو گے جب تک تم سے ایک قوم کو نقصان اور دوسری قوم کو نفع نہ پہنچ جائے۔ رسول اللہ کے یہ الفاظ بستر مرگ پر آپ کے لئے آب حیات ثابت ہوئے اور یہ پیشگوئی عجمی فتوحات کے ذریعے شان سے پوری ہوئی۔
حضرت عمرؓ کے دَور میں جنگ قادسیہ کے موقع پر 30؍ہزار سپاہیوں کے عظیم الشان لشکر کی قیادت حضرت سعدؓ کے سپرد کی گئی۔ اس معرکہ میں اسلامی لشکر کو عظیم الشان فتح حاصل ہوئی اور عجمی علاقہ پر مسلمانوں کی دھاک بیٹھ گئی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں