حضرت قریشی محمد شفیع صاحب رضی اللہ عنہ

حضرت خلیفۃالمسیح الاولؓ فرماتے ہیں کہ میری ایک بہن کا بیٹا پیچش میں مبتلا ہوکر مرگیا۔ چند روز بعد میں گیا اور میرے سے انہوں نے کسی مریض کو اچھا ہوتے دیکھا تو فرمایا بھائی اگر تم آجاتے تو میرا لڑکا بچ جاتا۔ میں نے کہا تمہارے ایک لڑکا ہو گا اور میرے سامنے پیچش کے مرض میں مبتلا ہو کر مرے گا۔ چنانچہ وہ حاملہ ہوئیں اور ایک بڑا خوبصورت لڑکا پیدا ہوا۔ پھر وہ پیچش کے مرض میں مبتلا ہوا تو ان کو میری بات یاد تھی۔ کہنے لگیں کہ اچھا دعا ہی کرو میں نے کہا خداتعالیٰ آپ کو ایک لڑکا دے گا لیکن اِس کو تو اب جانے ہی دو۔ چنانچہ وہ لڑکا فوت ہو گیا اور اس کے بعد ایک اور لڑکا پیدا ہوا جو زندہ رہا اور اب تک زندہ برسرروزگار ہے۔ یہ الٰہی غیرت تھی۔
حضورؓ کے یہ بھانجے حضرت قریشی محمد شفیع صاحبؓ تھے جو 1878ء میں پیدا ہوئے اور 14سال کی عمر میں 1892ء میں حضورؓ کے توسط سے ہی انہیں قبولِ احمدیت کی توفیق ملی اور اصحاب خاص میں شامل ہوئے۔ آپؓ کا مکان بھی حضورؓ کے مکان کے ساتھ ہی بھیرہ میں تھا۔ جب حضورؓ نے اپنا مکان احمدیہ مسجد نور میں منتقل کردیا تو حضرت قریشی صاحبؓ نے بھی اپنا مکان مسجد کے لئے ھبہ کر دیا۔ آپ کی اکثر زندگی میانوالی میں بطور اوورسیئر ملازمت میں گزری جہاں بازار میں تبلیغ کرنے کی وجہ سے آپ مشہور تھے۔ 1957ء میں آپؓ کی وفات ہوئی۔ آپؓ کے ایک صاحبزادے محترم قریشی غلام احمد صاحب ایک بڑے عہدہ سے ریٹائرڈ ہونے کے بعد صدرانجمن احمدیہ ربوہ میں مختار عام بھی رہے۔
حضرت قریشی محمد شفیع صاحبؓ کا ذکر خیر مکرم محمود مجیب اصغر صاحب کے قلم سے روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 29؍جنوری 1997ء میں شامل اشاعت ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں