حضرت مصلح موعودؓ کی روایات کی روشنی میں حضرت مسیح موعودؑ کی سیرت مبارکہ

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 26؍جنوری 2004ء میں ایک تفصیلی مضمون (مرتبہ مکرم حبیب الرحمن زیروی صاحب) میں حضرت مصلح موعودؓ کی روایات کی روشنی میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سیرۃ مبارکہ بیان کی گئی ہے۔

حبیب الرحمن زیروی صاحب

حضرت مسیح موعودؑ کے دادا کی عالی ہمتی
حضرت مصلح موعودؓ نے بیان فرمایا کہ حضرت مسیح موعودؑ سنایا کرتے تھے کہ جب ہمارے خاندان کی ریاست جاتی رہی تو ان کے والد صاحب کپورتھلہ کی ریاست میں پناہ گزین ہو گئے۔ اس وقت ریاست والوں نے چاہا کہ آپ کو دو گاؤں گزارہ کیلئے دیدیں لیکن آپ نے فرمایا: اگر ہم نے یہ گاؤں لے لئے تو پھر یہیں پڑے رہیں گے اور اس طرح اولاد کی ہمت پست ہو جائے گی اور اپنی خاندانی روایات قائم رکھنے کا خیال اس کے دل سے جاتا رہے گا ۔ پھر لمبے عرصہ بعد جب وہ سولہ سترہ سال کے ہوئے تو ان کے والد فوت ہو گئے۔ انہوں نے انہیں لا کر قادیان میں دفن کیا اور خود دہلی پڑھنے چلے گئے حالانکہ کوئی سامان میسر نہ تھا۔ دہلی میں انہیں کئی کئی دن کا فاقہ کرنا پڑا مگر ان تمام مشکلات کے باوجود انہوں نے تعلیم حاصل کی اور اس قدر ہمت سے کام لیا کہ آخر ایک بہت بڑے عالم اور طبیب ہوگئے۔ واپس آئے تو مہاراجہ رنجیت سنگھ کا زمانہ شروع ہو گیا تھا، انہوں نے ان کی جائیداد (84گاؤں میں سے) سات واگذار کر دئیے اور جنرل کے عہدہ پر فوج میں مقرر کیا۔

حضرت مصلح موعود ؓفرماتے ہیں:
حضرت مسیح موعودؑ کے پردادا سے ایک سکھ رئیس ملنے کے لئے آیا تو وہ (حضرت مرزا گل محمد صاحب مرحوم) ملاقات کے لئے کوٹھے سے اُتر کے آئے۔پیچھے پیچھے وہ تھے اور آگے آگے ان کے بیٹے جو حضرت مسیح موعودؑکے دادا تھے (مرزا عطا محمد صاحب مرحوم)۔ گویا بیٹا پہلے اتر رہا تھا اور ان کے پیچھے ان کے والد آرہے تھے جو بہت بڑے بزرگ ہوئے ہیں حتی کہ میں نے خود سکھوں سے سنا ہے کہ لڑائی میں انہیں گولی ماری جاتی تھی تو گولی ان پر اثر نہیں کرتی تھی۔ جب وہ نصف سیڑھیوں پر پہنچے تو نیچے سکھ رئیس نے ان کے بیٹے سے مخاطب ہو کر کہا: واہ گروجی کا خالصہ۔ اس پر ان کے بیٹے نے بھی اسی رنگ میں جوابدیا کہ واہ گروجی کا خالصہ۔ انہوں نے جب اپنے بیٹے کی زبان سے یہ الفاظ سنے تو اِناَّ لِلّٰہِ و انّا الیہ راجعون پڑھتے ہوئے سیڑھیوں سے ہی واپس لوٹ گئے اور فرمانے لگے: سردار صاحب سے کہہ دو کہ میری طبیعت خراب ہو گئی ہے میں ان سے مل نہیں سکتا۔
ایک اَور روایت میں ہے کہ پردادا صاحب نے یہ بھی کہا کہ اس بیٹے کے وقت میں ہماری حکومت جائے گی چنانچہ ایسا ہی ہوا۔
خاندان کی جائیداد
میں نے حضرت مسیح موعودؑ سے مہاراجہ رنجیت سنگھ صاحب کی تعریف سنی ہے کہ مہاراجہ صاحب نے ہی یہ گاؤں واپس کیا … بے شک انہوں نے یہ گاؤں واپس کیا لیکن ہمارے خاندان نے بھی ہمیشہ ان کے خاندان سے وفاداری کی۔ جب انگریزوں سے لڑائیاں ہوئیں تو بعض بڑے بڑے سکھ سرداروں نے روپے لے لے کر علاقے انگریزوں کے حوالہ کر دئیے اور یہی وجہ ہے کہ وہاں ان کی جاگیریں موجود ہیں۔ مثلاً پندرہ بیس میل کے فاصلہ پر سکھوں کے گاؤں بھاگووال کے سردار وں نے بھی انگریزوں کا ساتھ دیا مگر ہمارے دادا صاحب نے کہا کہ میں نے اس خاندان کا نمک کھایا ہے اس سے غداری نہیں کر سکتا۔ اسی غصہ میں انگریزوں نے ہماری جائیداد چھین لی تھی۔ بعد میں جو کچھ ملا مقدمات سے ملا۔ مگر یہی کہ قادیان کی کچھ زمین دیدی گئی۔باقی بھینی، ننگل اور کھارے کا مالکان اعلیٰ قرار دیدیا گیا مگر یہ ملکیت اعلیٰ سوائے کاغذ چاٹنے کے کیا ہے۔ ورنہ سری گوبند پور کے پاس اب تک ایک گاؤں موجود ہے جس کا نام ہی مغلاں ہے اوروہاں تک ہماری حکومت کی سرحد تھی اور یہ بات اس علاقہ کے لوگ اچھی طرح جانتے ہیں کہ وہاں تک ہماری حکومت تھی۔
خلوت نشینی
کبھی وہ وقت بھی تھا کہ وہ شخص جس کے متعلق بعض دفعہ اس کے والد کے گہرے دوست بھی کہا کرتے تھے کہ ہمیں نہیں معلوم تھا کہ مرزا غلام مرتضیٰ صاحب کا مرزا غلام قادر کے سوا کوئی اَور بیٹا بھی ہے کیونکہ حضرت مسیح موعودؑ گوشۂ تنہائی میں رہنے اور اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنے کے عادی تھے۔
خاندان کی نسلیں منقطع
حضرت مسیح موعودؑ کو بتایا گیا کہ تیرے سوا اس خاندان کی نسلیں منقطع ہوجائیں گی۔ چنانچہ ایسا ہی ہؤا۔ اب اس خاندان میں سے وہی لوگ باقی ہیں جو سلسلہ احمدیہ میں داخل ہو گئے۔ جس وقت آپؑ نے دعویٰ کیا اس وقت خاندان میں ستر کے قریب مرد تھے لیکن اب سوائے ان کے جو حضرت مسیح موعود کی جسمانی یا روحانی اولاد ہیں، ان ستر میں سے ایک کی بھی اولاد نہیں ہے۔
والد صاحب کو آپؑ کی فکر
حضرت مسیح موعودؑ فرمایا کرتے تھے کہ آپ کے والد صاحب اکثر افسوس کا اظہار کیاکرتے تھے کہ میرا ایک بچہ تو لائق ہے۔ (یعنی مرزا غلام قادر صاحب) مگر دوسرا لڑکا(یعنی حضرت مسیح موعودؑ) نالائق ہے، کوئی کام نہ اسے آتا ہے اور نہ وہ کرتا ہے۔ مجھے فکر ہے کہ میرے مرنے کے بعد یہ کھائے گا کہاں سے؟ اور اس بات پر ان کو سخت رنج تھا کہ یہ اپنے بھائی کا دستِ نگر رہے گا۔ اور کبھی کبھی وہ آپؑ کے مطالعہ پر چڑ کر آپ کو ملّاں بھی کہہ دیا کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ یہ ہمارے گھر میں ملّاں کہاں سے پیدا ہو گیا ہے لیکن باوجود اس کے خود ان کے دل میں بھی آپؑ کارعب تھا۔ اور جب کبھی وہ دنیاوی ناکامیوں کو یاد کرتے تھے تو دینی باتوں میں آپ کا استغراق دیکھ کر خوش ہوتے اور فرماتے تھے کہ اصل کام تو یہی ہے جس میں میرا بیٹا لگا ہوا ہے۔ لیکن چونکہ ان کی ساری عمر دنیا کے کاموں میں گزری تھی اس لئے افسوس کا پہلو غالب رہتا تھا۔ مگر آپؑ اس بات کی بالکل پرواہ نہ کرتے تھے بلکہ کسی کسی وقت قرآن وحدیث اپنے والدصاحب کو بھی سنانے کے لئے بیٹھ جاتے تھے۔ اور یہ ایک عجیب نظارہ تھا کہ باپ اور بیٹا دو مختلف کاموں میں لگے ہوتے تھے اور دونوں میں سے ہر ایک دوسرے کو شکار کرنا چاہتا تھا۔
خدمت دین کی لگن
مجھے سب سے زیادہ ایک بوڑھے شخص کی شہادت پسند آیا کرتی تھی۔ یہ ایک سکھ ہے جو بچپن کا واقف ہے۔ وہ آپؑ کا ذکر کر کے بے اختیار روپڑتا ہے۔ سنایا کرتا ہے کہ ہم کبھی آپ کے پاس آکر بیٹھتے تھے تو آپ ہمیں کہتے جا کر میرے والد صاحب سے سفارش کرو کہ وہ مجھے دین کی خدمت کرنے دیں اور دنیوی کاموں سے باز رکھیں۔ پھر وہ شخص یہ کہہ کر رو پڑتا کہ ’’وہ تو پیدائش ہی سے ولی تھے۔‘‘
محبت الٰہی
جب آپؑ کی عمر نہایت چھوٹی تھی تو اس وقت آپ اپنی ایک ہمنشین لڑکی کو جس سے بعد میں آپؑ کی شادی بھی ہوگئی، کہا کرتے تھے کہ ’’دعا کر کہ خدا میرے نماز نصیب کرے۔‘‘ اس فقرہ سے جو نہایت بچپن کی عمر کا ہے پتہ چلتا ہے کہ نہایت بچپن کی عمر سے آپؑ کے دل میں کیسے جذبات موجزن تھے۔
بکریاں چرانا
حضرت مسیح موعودؑ کے بچپن کا واقعہ ہے۔ ایک غیر احمدی نے سنایا کہ حضرت صاحب جب بچہ تھے، گاؤں سے باہر شکار کے لئے گئے اور شکار کے لئے پھندا تیار کرنے لگے، پھر اس خیال سے کہ کھانا کھانے کے لئے گھر نہیں جا سکیں گے ایک دھیلہ ایک بکری چرانے والے کو دیا کہ جا کر چنے بھنوالاؤ اور اس سے وعدہ کیا کہ اتنی دیر مَیں تمہاری بکریوں کا خیال رکھوں گا۔ وہ شخص جاکر کسی کام میں لگ گیا تو ایک دوسرے شخص نے کہا کہ آپ اس قدر دیر سے انتظار کر رہے ہیں، میں جاکر اسے بھیجتا ہوں۔ اور یہ شخص جا کر اس لڑکے کو تلاش کرکے شام کے قریب لایا۔ اس طرح آپؑ شا م تک بکریاں چرایا کئے اور اپنے وعدہ پر قائم رہے۔ اور اُس کے آنے پر آپؑ اس پر ناراض بھی نہ ہوئے۔
جس کا نوکر ہوناتھا ہو چکا
گاؤں کاہلواں کا ایک سکھ مجھے اکثر ملنے کے لئے آیا کرتا تھا۔ اُسے حضرت مسیح موعودؑ سے ایسی محبت تھی کہ باوجود سکھ ہونے کے آپؑ کی قبر پر جاکر سلام کیا کرتا تھا۔ خلافت کے ابتدائی ایام میں ایک دن وہ مجھے دیکھ کر چیخ مار کر کہنے لگا: آپکی جماعت نے مجھ پر بڑا ظلم کیا ہے۔ مجھے چونکہ حضرت مسیح موعودؑ سے اس کے تعلقات کا علم تھا، مَیں نے اسے محبت سے بٹھایا اور ساری بات پوچھی تو اس نے جو دکھ بتایا وہ یہ تھاکہ مرزا صاحب کی قبر پر مجھے متّھا ٹیکنے نہیں دیا گیا۔ میں نے کہا ہمارے ہاں یہ شرک ہے اور ہم اس کی اجازت نہیں دے سکتے۔ اس نے کہا۔ اگر آپ کے مذہب میں یہ بات ناجائز ہے تو آپ نہ کریں مگر میرے مذہب سے آپ کو کیا واسطہ؟ پھر جب اس کا جوش ٹھنڈا ہؤا تو کہنے لگا: ہمارا آپ کے خاندان سے پرانا تعلق ہے، میرا باپ بھی آپ کے دادا صاحب کے پاس آیا کرتا تھا۔ ایک دفعہ جب وہ آیا تو میں اور میرا ایک بھائی بھی ساتھ تھا۔ اس وقت ہم چھوٹی عمر کے تھے، آپکے دادا صاحب افسوس سے میرے باپ سے کہنے لگے: مجھے بڑا صدمہ ہے، اب میری موت کا وقت قریب ہے، مَیں اپنے اس لڑکے کو بہت سمجھاتا ہوں کہ کوئی کام کرے، مگر یہ کچھ نہیں کرتا۔ کیا میرے مرنے کے بعد یہ اپنے بھائی کے ٹکڑوں پرپڑا رہے گا۔ پھر کہنے لگے لڑکے لڑکوں کی بات مان لیتے ہیں اور ہم دونوں بھائیوں سے کہا تم جاکر اسے سمجھاؤ، اور پوچھو کہ اس کی مرضی کیا ہے؟ ہم دونوں بھائی گئے۔ اور جاکر کہا آپ کے باپ کوشکوہ ہے کہ آپ کوئی کام نہیں کرتے ، آپ کا ارادہ کیا ہے؟حضرت مسیح موعودؑ نے یہ بات سن کر فرمایا کہ بڑے مرزا صاحب خواہ مخواہ فکر کرتے ہیں میں نے جس کا نوکر ہونا تھا ہو چکا ہوں۔ ہم نے آکر بڑے مرزا صاحب سے کہہ دیا کہ وہ تو یہ کہتے ہیں۔ اس پر انہوں نے کہا: اگر وہ یہ کہتا ہے تو ٹھیک کہتا ہے۔
والد صاحب کے مقدمات کی پیروی
ابتدائی زندگی میں حضرت مسیح موعودؑ کو ان کے والد صاحب مقدمات کی پیروی کے لئے بھیج دیا کرتے تھے۔ ایک اہم مقدمہ کے لئے جس کی کامیابی پر خاندانی عزت کا انحصار تھا، آپ مہینہ ڈیڑھ مہینہ لاہور میں رہے۔ قادیان کے سید محمد علی شاہ صاحب لاہور میں رہتے تھے اُن کے پاس آپ ٹھہرے اور انہوں نے گاڑی کا انتظام کردیا تھا جو آپؑ کو چیف کورٹ لے جاتی اور وہاں سے لے آتی تھی۔ ایک روز آپؑ جلدی گھر آگئے تو سید صاحب نے اس کی وجہ پوچھی۔ آپؑ بڑے خوش تھے۔ فرمانے لگے مقدمہ کا فیصلہ ہو گیا ہے۔ سید صاحب نے آپؑ کی خوشی کو دیکھ کر سمجھا کہ مقدمہ میں کامیابی ہوئی ہوگی مگر جب پوچھا کہ کیا مقدمہ جیت گئے؟ تو آپ نے فرمایا۔ مقدمہ تو ہار گئے مگر اچھا ہوا جھگڑا تو مٹا، اب ہم اطمینان سے خدا تعالیٰ کو یاد کر سکیں گے۔ یہ سن کر سید صاحب بہت ناراض ہوئے۔اور کہا: اس سے تو آپ کے خاندان پر تباہی آجائے گی اور آپ خوش ہوکر کہہ رہے ہیں کہ جو خدا تعالیٰ نے کہا تھا پورا ہو گیا۔
تو دعویٰ سے قبل حضرت مسیح موعود کی یہ حالت تھی۔ آپ دنیا سے بالکل الگ تھلگ رہتے تھے۔ آپ فرماتے اس خدا کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے جب تک اس نے مجھے مجبور نہیں کر دیا کہ دنیا کی اصلاح کے لئے کھڑا ہوں اس وقت تک میں نے دنیا کی طرف توجہ نہ کی۔ گویا روحانی طور پر آپ غار میں رہتے تھے جس میں رہتے ہوئے آپ کو دنیا کی خبر نہ تھی اور دنیا کو آپ کی خبر نہ تھی۔
سیالکوٹ ملازمت میں حکمت
اگر حضرت اقدسؑ نے نوکری کی تو ضرور اس میں کوئی غرض ہو گی۔ آپؑ کے والد صاحب آپؑ کو دنیوی معاملات میں ہوشیار کرنے کے لئے مقدمات وغیرہ میں مصروف رکھنا چاہتے تھے لیکن آپؑ نے اپنے والد صاحب کو لکھا کہ دنیا اور اس کی دولت سب فانی چیزیں ہیں، مجھے ان کاموں سے معذور رکھا جائے۔ مگر جب انہوں نے آپؑ کا پیچھا نہ چھوڑا تو آپؑ سیالکوٹ چلے گئے کہ دن کو تھوڑا سا کام کر کے رات کو بے فکری کے ساتھ ذکرِ الٰہی کر سکیں۔ دوسری حکمت اس میں یہ ہے کہ قادیان ہماری ملکیت ہے اور اس لحاظ سے گویا وہاں کے لوگ ہماری رعایا ہیں۔ ا س لئے اُن لوگوں کی آپؑ کے متعلق شہادت پر کوئی کہہ سکتا تھا کہ خواجہ کا گواہ مینڈک۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے آپؑ کو سیالکوٹ لا ڈالا۔ جہاں آپ کو غیروں میں رہنا پڑا اور اس طرح خدا تعالیٰ کا منشاء یہ تھا کہ ناواقف لوگوں میں سے وہ لوگ جن پر آپؑ یا آپؑ کے خاندان کا کوئی اثر نہ تھا۔ آپ کی پاکیزہ زندگی کے لئے شاہد کھڑے کئے جائیں۔ پھر سیالکوٹ میں عیسائیوں کا مرکز ہے وہاں آپ کو ان کے مقابلہ کا بھی موقعہ مل گیا۔ اُن سے مباحثات کرتے وقت مسلمانوں نے آپؑ کی زندگی کو دیکھا۔ قادیان کے لوگوں کو آپ کا مزارع کہا جاسکتا تھا مگر سیالکوٹ کے لوگوں کی یہ حیثیت نہیں تھی۔ وہاں کے تمام بڑے بڑے مسلمان آپ کی علو شان کے معترف ہیں۔ مولوی میر حسین صاحب جو ڈاکٹر سر محمد اقبال صاحب کے استاد تھے، وہ ہمیشہ اس بات کے معترف تھے کہ مرزا صاحب کا کیریکٹر بے نظیر تھا اور آپ کے اخلاق بہت ہی اعلیٰ تھے۔ پس خدا تعالیٰ نے آپ کو سیالکوٹ میں معمولی نوکری اسی غرض سے کرائی تھی کہ اس زمانہ میں عیسائیوں کا بڑا رعب ہوتا تھا۔ سیالکوٹ کاانچارج مشنری ولایت جانے لگا تو وہ آپؑ کے ملنے کے لئے خود کچہری آیا۔ ڈپٹی کمشنر اسے دیکھ کر اس کے استقبال کے لئے آیا اور دریافت کیا کہ آپ کس طرح تشریف لائے ہیں؟۔ اس نے کہا: میں صرف آپ کے اس منشی سے ملنے آیا ہوں۔ یہ ثبوت تھا اس امر کا کہ آپؑ کے مخالف بھی تسلیم کرتے تھے کہ یہ ایسا جوہر ہے جو قابل قدر ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں