خطبہ جمعہ سیدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 04؍دسمبر 2009ء

اب حقیقی نور صرف اور صرف آنحضرت ﷺ پر اتری ہوئی شریعت اور آپ ﷺ کے اسوہ حسنہ میں ہے۔
خداتعالیٰ کا یہ طریق ہے کہ جب کسی کو اپنے نور سے سجاتاہے تو تمام دنیا میں اس کا اظہار بھی کروا دیتا ہے۔
جوروحانی نور اللہ تعالیٰ کے خاص فیض سے اس کے خاص بندوں پر آسمان سے اتراہے اللہ تعالیٰ کے ان خاص بندوں سے جُڑ جاؤ تویہ نور پھر تمہارے دلوں کو بھی روشن کردے گا۔
آج اگر کسی کو اللہ تعالیٰ اوراس کے رسولؐ سے محبت کا دعویٰ ہے تو مسیح موعودؑ سے تعلق جوڑنا بھی ضروری ہے۔ آج جماعت احمدیہ ہی ہے جو اس سلسلہ تعلق کی وجہ سے خلافت سے بھی جڑی ہوئی ہے اور اس نور سے بھی فیض پا رہی ہے جو اللہ تعالیٰ روحانی نور کی صورت میں انبیاء کے ذریعہ ظاہر فرماتاہے۔
سوئٹزرلینڈ میں مساجد کے میناروں کے خلاف جو شور اٹھا ہے یہ بھی اسلام دشمنی کی ایک کڑی ہے۔
خطبہ جمعہ سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
فرمودہ مورخہ 04؍دسمبر 2009ء بمطابق04؍فتح 1388 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح، لند ن (برطانیہ)

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں – چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
اَللّٰہُ وَلِیُّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا یُخْرِجُھُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوْرِ۔ وَالَّذِیْنَ کَفَرُوْا اَوْلِیٰٓئُھُمُ الطَّاغُوْتُ یُخْرِجُوْنَھُمْ مِّنَ النُّوْرِ اِلَی الظُّلُمٰتِ۔ اُوْلٰٓئِکَ اَصْحٰبُ النَّارِ ھُمْ فِیْھَا خٰلِدُوْنَ(البقرۃ:258)

یہ آیت جو مَیں نے تلاوت کی ہے اس میں خداتعالیٰ فرماتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کا ولی ہے جو ایمان لانے والے ہیں اور پھر اللہ تعالیٰ ولی ہونے کا حق ادا کرتے ہوئے انہیں اندھیروں سے نور کی طرف نکالتا ہے۔ اس آیت کاپہلے بھی کسی خطبے میں ذکر ہو چکا ہے لیکن وہاں لفظ ولی اور اللہ تعالیٰ کی صفت ولی کے حوالے سے یہ ذکر ہوا تھا۔ لیکن آج مَیں اللہ تعالیٰ کی جوصفت نُور ہے یا لفظ نُور ہے اس کے حوالے سے بات کروں گا۔
لغات میں لکھا ہے کہ نُور اللہ تعالیٰ کی صفات حسنہ میں سے ایک صفت ہے اور اَلنُّوْر: ابن اثیرکے نزدیک وہ ذات ہے جس کے نُور کے ذریعہ جسمانی اندھا دیکھتا ہے اور گمراہ شخص اس کی دی ہوئی سمجھ سے ہدایت پاتا ہے۔ یہ معنے لسان العرب میں لکھے ہیں۔ پھر اسی طرح لسان میں دوبارہ لکھا ہے کہ بعض کے نزدیک نور سے مراد وہ ذات ہے جو خود ظاہر ہے اور جس کے ذریعے سے ہی تمام اشیاء کا ظہور ہو رہا ہے۔ اور بعض کے نزدیک نُور سے مراد وہ ہستی ہے جو اپنی ذات میں ظاہر ہے اور دو سروں کے لئے بات کو ظاہر کرتی ہے۔
پھر لسان میں لکھا ہے، ابومنصور کہتے ہیں کہ

’’نُورُاللہ‘‘

نُوراللہ تعالیٰ کی صفات میں سے ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ آپ فرماتا ہے

اَللّٰہُ نُوْرُالسَّمٰوٰتِ وَالْاَرْض(النور:36)۔

اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے بعض کا خیال ہے کہ اس کے معنی ہیں کہ اللہ ہی ہے جو آسمان میں رہنے والوں اور زمین میں رہنے والوں کو ہدایت دینے والا ہے۔ اور بعض کے نزدیک

مَثَلُ نُوْرِہ کَمِشْکٰوۃٍ فِیْھَا مِصْبَاحٌ (النور:36)

کا مطلب ہے کہ مومن کے دل میں اس کی ہدایت کے نور کی مثال طاق میں رکھے ہوئے چراغ کی سی ہے۔
اَلنُّوْر اس پھیلنے والی روشنی کو کہتے ہیں جو اشیاء کے دیکھنے میں مدد دیتی ہے اور یہ دو قسم کی ہوتی ہے۔ دنیوی اور اخروی۔ پھر کہتے ہیں دنیوی نُور پھر دو قسم کا ہوتا ہے۔ ایک وہ نُور جس کا ادراک بصیرت کی نگاہ سے ہوتاہے اور یہ وہ نُور ہے جو الٰہی امورمیں بکھرا پڑا ہے جیسے نُور ِعقل اور نُورِ قرآن۔ دوسرے وہ نور جس کوجسمانی آنکھ کے ذریعہ سے محسوس کیا جاسکتاہے۔
اہل لغت اس کے معنے بیان کرتے ہوئے بعض آیات کا حوالہ بھی دیتے ہیں۔ مثلاً نور الٰہی کے متعلق اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے کہ

قَدْ جَآءکُمْ مِّنَ اﷲِ نُوْرٌ وَکِتٰبٌ مُّبِیْنٌ(المائدہ:16)

یعنی تمہارے پاس اللہ تعالیٰ کی طرف سے نُور اور کتاب مبین آچکی ہے۔
اسی طرح فرمایا:

وَجَعَلْنَا لَہٗ نُوْرًا یَّمْشِیْ بِہٖ فِی النَّاسِ کَمَنْ مَّثَلُہٗ فِی الظُّلُمٰتِ لَیْسَ بِخَارِجٍ مِّنْھَا (الانعام:123)

اور ہم نے اس کے لئے روشنی کی جس کے ذریعہ سے وہ لوگوں میں چلتا پھرتا ہے۔ کیا ایسا شخص اس جیسا ہو سکتا ہے جو اندھیروں میں ہو اور اس سے نکل نہ سکے۔
بعض کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے جو اپنا نام نُور رکھا ہے تو وہ اس اعتبار سے ہے کہ وہی منور ہے یعنی ہر چیز کو روشن کرنے والا ہے اللہ تعالیٰ کا نام نُور اس وجہ سے ہے کہ وہ یہ کام یعنی روشن کرنا بہت زیادہ کرتا ہے۔ چنانچہ قرآن کریم میں آتا ہے۔ پھر اس آیت کی مثال دی گئی ہے کہ

اَللّٰہُ نُوْرُالسَّمٰوٰتِ وَالْاَرْض

یعنی اللہ ہی ہے جس کے نور سے آسمانی اور زمینی حقائق الاشیاء کا علم ہوتا ہے اور وہ اپنے ولیوں کوپھر اس نور سے منور کرتا ہے۔
قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے جو اپنے آپ کو

نُوْرُالسَّمٰوٰتِ وَالْاَرْض

کہا ہے اور اس کی مثال جیسا کہ میں نے بتایا اہل لغت نے دی ہے۔ تواس آیت میں اپنے اس نُورکی مثال دے کرفرمایا کہ اللہ تعالیٰ ہی آسمانوں اور زمین کا نُور ہے۔ لیکن یہ نُور انسانوں پر پڑتے ہوئے انہیں کس طرح منور کرتا ہے۔ یہ سورۃنور کی آیت ہے یہ بھی چند ماہ پہلے مَیں ایک جگہ بیان کر چکاہوں۔ بہرحال اللہ تعالیٰ فرماتا ہے

اَللّٰہُ نُوْرُالسَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ۔ مَثَلُ نُوْرِہٖ کَمِشْکٰوۃٍ فِیْھَا مِصْبَاحٌ۔ اَلْمِصْبَاحُ فِی زُجَاجَۃٍ۔ اَلزُّجَاجَۃُ کَاَنَّھَا کَوْکَبٌ دُرِّیٌّ یُّوْقَدُ مِنْ شَجَرَۃٍ مُّبٰرَکَۃٍ زَیْتُوْنَۃٍ لَّا شَرْقِیَّۃٍ وَّلَا غَرْبِیَّۃٍ۔ یَّکَادُ زَیْتُھَا یُضِیْ ٓ ءوَلَوْ لَمْ تَمْسَسْہُ نَارٌ۔ نُوْرٌ عَلٰی نُوْرٌ۔ یَھْدِی اللّٰہُ لِنُوْرِہٖ مَنْ یَّشَآءُ۔ وَیَضْرِبُ اللّٰہُ الْا َمْثَالَ لِلنَّاسِ۔ وَاللّٰہُ بِکُلِّ شَیْ ءعَلِیْمٌ (النور:36)

یعنی اللہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے۔ اس کے نور کی مثال ایک طاق کی سی ہے جس میں ایک چراغ ہو۔ وہ چراغ شیشہ کے شمع دان میں ہو۔ وہ شیشہ ایسا ہو گویا کہ ایک چمکتا ہوا روشن ستارہ ہے۔ وہ (چراغ) زیتون کے ایسے مبارک درخت سے روشن کیا گیا ہو جو نہ مشرقی ہو نہ مغربی۔ اس (درخت) کا تیل ایسا ہے کہ قریب ہے کہ وہ از خود بھڑک کرروشن ہو جائے خواہ اسے آگ کا شعلہ نہ بھی چھوا ہو۔ یہ نور علیٰ نور ہے۔ اللہ اپنے نور کی طرف جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے اور اللہ لوگوں کے لئے مثالیں بیان کرتا ہے اور اللہ ہر چیز کا دائمی علم رکھنے والا ہے۔
اس آیت کے حوالہ سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تفسیر کی روشنی میں جیسا کہ مَیں نے بتایا چند ماہ پہلے مَیں ایک اور مضمون کے ضمن میں بیان کر چکا ہوں۔ اب یہاں اس کی تفصیل تو بیان نہیں کرتا لیکن اس کا خلاصہ بیان کرکے اس مضمون کو پھرآنحضرت ﷺ کے صحابہ اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے حوالے سے بیان کروں گا۔
اس نُور کی جو مثال دی گئی ہے وہ آنحضرت ﷺ کی ذات تک ہی ہے یا اس میں وسعت ہے۔ پچھلی دفعہ مَیں نے تفصیل بیان کی تھی۔ شاید بعضوں کا خیال ہو کہ آنحضرت ﷺ کی ذات تک محدود ہے۔ یقیناً اللہ تعالیٰ کا نُور ہر چیز پر حاوی ہے۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے پہلا اعلان ہی یہ فرمایا کہ

اَللّٰہُ نُوْرُالسَّمٰوٰتِ وَالْاَرْض

کہ اللہ تعالیٰ زمین و آسمان کا نور ہے۔ اس لئے ہر چیز اس کے نور سے ہی فیض پاتی ہے اور فیض پا سکتی ہے۔ اس کے علاوہ کوئی نہیں جو اپنی ذاتی ہوشیاری یا علم یا عقل سے اس کے نُور کو حاصل کر سکے۔ وہ خود چاہے تو مہیا کرتا ہے اور اس کے طریقے ہیں۔ یہ نُور اللہ تعالیٰ کس طرح ہے اور کیوں ہے اس لئے کہ زمین و آسمان کو پیدا کرنے والا بھی وہی ہے۔ جس کا اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں کئی جگہ ذکر فرمایا ہے کہ مَیں نے ہی زمین و آسمان کو پیدا کیا ہے۔ مثلاً ایک جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ

اَللّٰہُ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ(ابراہیم:33)

کہ اللہ وہ ہستی ہے جس نے آسمان اور زمین کو پیدا کیا ہے۔ اس میں موجود ہر چیز کو پیدا کیا اور پھر انہیں انسانوں کے لئے مسخر کیا۔ جب اس نے پیدا کیا تووہی ہے جو روحانی روشنی بھی عطا فرماتا ہے اور مادی بھی۔ پس حقیقی نُور اللہ تعالیٰ ہی ہے جو دیکھنے والی آنکھ کو ہر جگہ، ہر روح میں، ہر جسم میں، ہر چیز میں نظر آتا ہے۔ لیکن ایک ایسا شخص جس کی روحانی آنکھ اندھی ہو اسے یہ نُور نظر نہیں آتا۔ لیکن ایک مومن اس یقین پر قائم ہے کہ ہماری کائنات اور جتنی بھی کائناتیں ہیں جن کا علم انسان کو ہے یا نہیں ہے، ان کا پیدا کرنے والا، ان کا نُور اور ان کو قائم رکھنے والا خداتعالیٰ ہے اور اس نُور کا صحیح ادراک پیدا کروانے کے لئے خداتعالیٰ اپنے انبیاء اور فرستادوں کو بھیجتا ہے اور وہ اللہ تعالیٰ سے نُور پاتے ہیں جو آسمان سے ان پر اترتا ہے اوروہ دنیا میں پھر اسے پھیلاتے ہیں۔ وہ نُور جو آسمان سے اتر کر زمین پر انبیاء کے ذریعہ سے پھیلتا ہے اس کی مثال اس آیت میں بیان فرمائی گئی ہے۔ جیسا کہ مَیں نے کہا کہ کچھ عرصہ پہلے آنحضرت ﷺ کے حوالے سے کہ یہ نور آپؐ کی ذات میں کس طرح چمکا؟ مَیں بیان کر چکا ہوں۔ اوریہ اعلیٰ ترین معیار تھا اور قیامت تک رہے گا جو اللہ تعالیٰ کے نُور کا پرتَو بن کر دنیا میں قائم ہوا اورآنحضرت ﷺ نے اس نُور کو زمین میں پھیلا دیا اور پھر یہی نہیں کہ اپنی زندگی میں پھیلایا بلکہ یہ سلسلہ جاری ہے اور یہ نُور پھیلتا چلا جا رہا ہے۔
آنحضرت ﷺ کی ذات سے جواس کی مثال ہے وہ مَیں مختصراً دوبارہ بیان کر دیتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے یہ کہہ کر کہ

اَللّٰہُ نُوْرُالسَّمٰوٰتِ وَالْاَرْض

کہ اللہ زمین و آسمان کا نور ہے، پھر فرمایا کہ انسانوں کے سمجھنے کے لئے اس کی مثال بیان کی جاتی ہے اور مثال یہ ہے۔ اس کی مثال ایک مشکوٰۃ کی طرح ہے، ایک طاق کی طرح ہے، ایک ایسی اونچی جگہ کی طرح ہے جس میں روشنی رکھی جاتی ہے اور یہ طاق آنحضرت ﷺ کا سینہ ہے اور اس طاق میں ایک مصباح ہے، ایک لیمپ ہے اور یہ لیمپ اللہ تعالیٰ کی وحی ہے جو آنحضرت ﷺ پر اتری اور یہ لیمپ ایک زجاجہ میں ہے یعنی شیشہ کے گلوب میں ہے اور یہ گلوب آنحضرت ﷺ کا دل ہے جو نہایت صاف اور تمام کثافتوں سے پاک ہے اور یہ زجاجہ یا گلوب ستارے کی طرح چمکدار ہے اور خوب روشنی بکھیرتا ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ اس سے مراد آنحضرت ﷺ کا دل ہے جس کے اندر کی روشنی بھی بیرونی قالب پر پانی کی طرح بہتی نظر آتی ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ اپنی مثال میں آگے بیان فرماتا ہے کہ یہ چراغ یا لیمپ زیتون کے شجرہ مبارکہ سے روشن ہے اور اس شجرۂ مبارکہ سے مراد(یہاں آنحضرت ﷺ کی مثال ہم سامنے رکھیں تو)آنحضرت ﷺ کا وجود ہے جو تمام کمالات اور برکات کا مجموعہ ہے جو تاقیامت قائم رہے گا۔ اس لئے قائم رہے گا کہ آنحضرت ﷺ ہی ہیں جو انسان کامل کہلائے اورقیامت تک آپ ﷺ جیسا کوئی پیدا نہیں ہو سکتا۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ اس مثال میں شرقی یا غربی نہ ہونے سے مراد اسلام کی تعلیم ہے۔ جس میں نہ افراط ہے نہ تفریط ہے۔ نہ ایک طرف جھکاؤ ہے۔ نہ سوشلزم یاکمیونزم ہے نہ کیپٹلزم ہے۔ بلکہ ایک درمیانی تعلیم ہے جو انسانی حقوق کو واضح کرتی ہے۔ دنیا کے امن کو قائم کرتی ہے اور اس مثال میں جو یہ فرمایا کہ قریب ہے وہ تیل از خود روشن ہو جائے تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں۔ اس سے مراد عقل لطیف نورانی محمد ﷺ ہے اور اسی طرح تمام اخلاق فاضلہ ہیں جو آپ کی فطرت کاحصہ بن چکے ہیں۔ اورنُوْرٌ عَلٰی نُوْر سے مراد یہ ہے کہ ان تمام خصوصیات کے حامل انسانِ کامل پر جب خداتعالیٰ نے اپنا نور ڈالا یعنی نُورِ وحی تو روحانی دنیا میں وہ نور پیدا ہوا جس کی کوئی مثال نہیں۔ پس یہ ہے خلاصہ اس ساری تفسیر کا جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بیان فرمائی ہے۔ پہلے بھی میں ایک دفعہ تفصیل سے بیان کر چکا ہوں۔ اب حقیقی نور صرف اور صرف آنحضرت ﷺ پر اتری ہوئی شریعت اور آپ ﷺ کے اُسوہ حسنہ میں ہے۔ اور تمام پرانی شریعتیں اب اس کامل انسان اور جو

نُوْرٌ عَلٰی نُوْر

ہو چکا ہے کے آنے کے بعد ختم ہو چکی ہیں اور اب یہی تعلیم ہے اور یہی نُور ہے جو اللہ تعالیٰ کے نور سے فیضیاب کرنے والا ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے آنحضرت ﷺ کے اس مقام کو جو انسان کامل ہونے کا مقام ہے ایک جگہ اس طرح بیان فرمایا ہے۔ آپؑ فرماتے ہیں کہ:’’وہ اعلیٰ درجہ کا نور جو انسان کو دیا گیا یعنی انسان کامل کو۔ وہ ملائک میں نہیں تھا۔ نجوم میں نہیں تھا،۔ قمر میں نہیں تھا۔ آفتاب میں بھی نہیں تھا۔ وہ زمین کے سمندروں اور دریاؤں میں بھی نہیں تھا۔ وہ لعل اور یاقوت اور زمرد اور الماس اور موتی میں بھی نہیں تھا۔ غرض وہ کسی چیز ارضی اور سماوی میں نہیں تھا۔ صرف انسان میں تھا یعنی انسان کامل میں۔ جس کا اتم اور اکمل اور اعلیٰ اور ارفع فرد ہمارے سید و مولیٰ سید الانبیاء، سیدالاحیاء محمد مصطفی ﷺ ہیں۔ سو وہ نوراُس انسان کو دیا گیا۔ اور حسبِ مراتب اس کے تمام ہمرنگوں کو بھی یعنی ان لوگوں کو بھی جو کسی قدر وہی رنگ رکھتے ہیں۔ اور امانت سے مراد انسانِ کامل کے وہ تمام قویٰ اور عقل اور علم اور دل اور جان اور حواس اور خوف اور محبت اور عزت اور وجاہت اور جمیع نعماء روحانی و جسمانی ہیں جو خداتعالیٰ انسان کامل کو عطا کرتا ہے۔ اور پھر انسانِ کامل بر طبق آیت

اِنَّ اللّٰہَ یَاْمُرُکُمْ اَنْ تُؤَدُّوْاالْاَمٰنٰتِ اِلٰٓی اَھْلِھَا (النساء آیت 59:)

اس ساری امانت کو جناب الٰہی کو واپس دے دیتا ہے یعنی اس میں فانی ہو کر اس کی راہ میں وقف کر دیتاہے…… اور یہ شان اعلیٰ اور اکمل اور اتم طور پر ہمارے سید، ہمارے مولیٰ، ہمارے ہادی، نبی اُمّی، صادق و مصدوق محمد مصطفی ﷺ میں پائی جاتی تھی‘‘۔
(آئینہ کمالات اسلام۔ روحانی خزائن جلد 5صفحہ 162-160)
پس یہ مقام آپ ﷺ کو اللہ تعالیٰ کے نور سے ملا اور آپ ﷺ نے اپنے صحابہ میں یہ نور منتقل کرکے ان کو بھی اعلیٰ اخلاق پر قائم فرمایا۔ آپ نے اپنے صحابہ کو ستاروں سے تشبیہ دی ہے کہ جن کے بھی پیچھے چلو گے تمہیں روشنی ملے گی۔ خداتعالیٰ تک پہنچنے کا راستہ ملتا ہے۔ عرب کے اَن پڑھ کہلانے والے جو لوگ تھے اس نُور کی وجہ سے جو انہیں آنحضرت ﷺ سے ملا اللہ تعالیٰ سے تعلق اور اعلیٰ اخلاق دکھانے کا ایک نمونہ بن گئے۔ اللہ تعالیٰ کے نور سے اس طرح حصہ پایا کہ اللہ تعالیٰ نے

رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ

کا تمغہ ان کے سینے پر سجا دیا جو بعد میں آنے والوں کو بھی روشنی کی راہیں دکھانے کا باعث ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ان صحابہؓکے بارہ میں فرماتے ہیں کہ’’وہ رسول اللہ ﷺ کی اطاعت میں محو تھے۔ جو نُور آپ ﷺ میں تھا وہ اس اطاعت کی نالی میں سے ہو کر صحابہ کے قلب پر گرتا اور ماسوا اللہ کے خیالات کو پاش پاش کرتا جاتا تھا۔ تاریکی کی بجائے ان سینوں میں نور بھرا جاتا تھا۔ …… حدیث میں آیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا

’اَللّٰہ اَللّٰہ فِی اَصْحَابِیْ‘۔

میرے صحابہ کے دلوں میں اللہ ہی اللہ ہے۔ اور اللہ تعالیٰ جو

نُوْرُالسَّمٰوٰتِ وَالْاَرْض

ہے، اس نے اپنے نور کو آنحضرت ﷺ اور آپ کے صحابہ کے بعد بند نہیں کر دیا۔ بلکہ جیسا کہ مَیں نے کہا کہ آنحضرت ﷺ کا یہ نور جو آپ نے خداتعالیٰ سے لیا ہمیشہ کے لئے جاری فیض کا ایک چشمہ ہے اور اسلامی شریعت ہی ہے جو تاقیامت جاری رہنے والی شریعت ہے۔ اور اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ سے محبت اور عشق میں ڈوبنے کی وجہ سے اس زمانہ میں اس نُور کے ساتھ جو آسمان سے اترنے والی روحانیت کا نُور ہے۔ اس کے ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو بھیجا تا خداتعالیٰ کے نور کا فہم و ادراک ہمارے دلوں میں بھی قائم ہو۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ :
’’مَیں کچھ (اپنے بارے میں) بیان نہیں کر سکتا کہ کون سا عمل تھا جس کی وجہ سے یہ عنایت الٰہی شامل حال ہوئی۔ صرف اپنے اندر یہ احساس کرتا ہوں کہ فطرتاً میرے دل کو خداتعالیٰ کی طرف وفاداری کے ساتھ ایک کشش ہے جو کسی چیز کے روکنے سے رُک نہیں سکتی……‘‘۔
پھر آپ فرماتے ہیں کہ:’’ایک مرتبہ ایسا اتفاق ہوا کہ ایک بزرگ معمر پاک صورت مجھ کو خواب میں دکھائی دیا اور اس نے یہ ذکرکر کے کہ کسی قدر روزے انوارِ سماوی کی پیشوائی کے لئے رکھنا سنت خاندان نبوت ہے۔ اس بات کی طرف اشارہ کیا کہ مَیں اس سنت اہل بیت رسالت کو بجا لاؤں۔ سو مَیں نے کچھ مدت تک التزام صوم کو مناسب سمجھا……’‘۔
(کتاب البریہ۔ روحانی خزائن جلد 13صفحہ195 تا 197)
جب یہ خواب دیکھی تو پھر آپ نے یہ فیصلہ فرمایاکہ روزے رکھے جائیں۔ لیکن آپ نے کہا کہ یہ مخفی طور پر رکھے جائیں کسی کو پتہ نہ لگے اور اس کے لئے پھر آپ اپنے گھر کے باہر جو کمرہ تھا، مردانہ جگہ تھی، اس میں منتقل ہو گئے اور وہیں کھانا وغیرہ بھی منگواتے تھے اور کھانا جو آتا تھا اس کا اکثر حصہ یتیم بچوں میں تقسیم کر دیتے تھے اور خود معمولی سی، تھوڑی سی غذا پر روٹی کھا کر گزارہ کرتے تھے۔ اور ان روزوں کے دوران جن تجربات سے آپ گزرے ہیں اس کا بیان کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں کہ:
‘’اس قسم کے روزہ کے عجائبات میں سے جو میرے تجربہ میں آئے وہ لطیف مکاشفات ہیں جو اُس زمانہ میں میرے پر کھلے۔ چنانچہ بعض گزشتہ نبیوں کی ملاقاتیں ہوئیں اور جو اعلیٰ طبقہ کے اولیاء اس اُمّت میں گزر چکے ہیں ان سے ملاقات ہوئی۔ ایک دفعہ عین بیداری کی حالت میں جناب رسول اللہ ﷺ کو مع حسنین و علیؓ
و فاطمہ رضی اللہ عنہا کے دیکھا……اور علاوہ اس کے انوارروحانی تمثیلی طورپر برنگ ستون سبز و سرخ ایسے دلکش و دلستاں طور پر نظر آتے تھے جن کا بیان کرنا بالکل طاقت تحریر سے باہر ہے۔ وہ نورانی ستون جو سیدھے آسمان کی طرف گئے ہوئے تھے جن میں سے بعض چمکدار سفید اور بعض سبز اور بعض سرخ تھے۔ ان کو دل سے ایسا تعلق تھا کہ ان کو دیکھ کر دل کو نہایت سرور پہنچتا تھا اور دنیا میں کوئی بھی ایسی لذت نہیں ہو گی جیسا کہ ان کو دیکھ کر دل اور روح کو لذت آتی تھی۔ میرے خیال میں ہے کہ وہ ستون خدا اور بندے کی محبت کی ترکیب سے ایک تمثیلی صورت میں ظاہر کئے گئے تھے۔ یعنی وہ ایک نُورتھا جو دل سے نکلا اور دوسرا وہ نُور تھا جو اوپر سے نازل ہوا اور دونوں کے ملنے سے ایک ستون کی صورت پیدا ہو گئی‘‘۔ (کتاب البریہ۔ روحانی خزائن جلد 13صفحہ 199-198) اور یہ سب مقام اور اللہ تعالیٰ کا آپ پر نُور کا اتارنا یا اللہ تعالیٰ کا نُور اترنا آنحضرت ﷺ کی کامل اطاعت کی وجہ سے تھا۔
چنانچہ ایک جگہ آپ فرماتے ہیں کہ’’ایک مرتبہ الہام جس کے معنی یہ تھے کہ ملاء اعلیٰ کے لوگ خصومت میں ہیں ‘‘(یعنی جوآسمانی فرشتے ہیں وہ آپس میں بحث کر رہے ہیں، جھگڑ رہے ہیں)۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اس کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں ‘’یعنی ارادئہ الٰہی احیاء دین کے لئے جوش میں ہے لیکن ہنوز ملاء اعلیٰ پرشخص مُحْیِی کے تعین ظاہر نہیں ہوئی۔ اس لئے وہ اختلاف میں ہے۔ اسی اثناء میں (خواب میں دیکھا کہ لوگ ایک مُحْیِی کو تلاش کرتے پھرتے ہیں اور ایک شخص اس عاجز کے سامنے آیا اور اشارے سے اس نے کہا

ھٰذَا رَجُلٌ یُّحِبُّ رَسُوْل اللّٰہ۔

یعنی یہ وہ آدمی ہے جو رسول اللہ سے محبت رکھتا ہے اور اس قول سے یہ مطلب تھا کہ شرطِ اعظم اس عہدہ کی محبت ِرسول ہے سو وہ اس شخص میں متحقق ہے‘‘۔ یعنی اس میں ثابت ہے۔
(تذکر ہ صفحہ34۔ براہین احمدیہ حصہ چہارم حاشیہ در حاشیہ نمبر 3صفحہ503-502۔ روحانی خزائن جلد 1صفحہ 598)
پس اللہ تعالیٰ نے اس زمانہ میں اپنا نُور آپ پر اتار کر آپ کو اس زمانے میں اس نُور کو پھیلانے کے لئے کھڑا کر دیا جو آنحضرت ﷺ پر اللہ تعالیٰ نے اتارا تھا اور آپ کا یہ سب کچھ آنحضرت ﷺ سے سب سے زیادہ محبت کرنے کی وجہ سے تھا۔ پس اس محبت کی وجہ سے خداتعالیٰ نے بھی آپ سے محبت کی اور آنحضرت ﷺ کے بعد اللہ تعالیٰ کے اس نُور کو جو زمین و آسمان پر حاوی ہے، جو روحانی انقلاب لانے کا ذریعہ بنتا ہے، اپنے آقا کی غلامی میں آپ بھی اس نُور کا پرتو بنے۔ وہ وحی جو آنحضرت ﷺ کے پاک سینے پر اتری تھی اس کے علوم ومعارف آپ پر بھی کھولے گئے تاکہ دنیا کو بتا سکیں کہ اس تعلیم کی اصل تفسیر یہ ہے جو آنحضرت ﷺ کے عاشق صادق نے کی ہے۔ آپ کو دنیاوی شہرت کی کوئی خواہش نہیں تھی لیکن جب اللہ تعالیٰ کا نُور کسی پر پڑنے کا فیصلہ کرتا ہے تو پھر خود خداتعالیٰ اس کو دنیا میں شہرت دیتا ہے تاکہ وہ شخص خداتعالیٰ کے نور کو پھیلانے کا باعث بنے۔ آپ کو خداتعالیٰ نے الہاماً فرمایا کہ:’’تُو اس سے نکلا اور اس نے تمام دنیا سے تجھ کو چنا …تُو جہان کا نُور ہے… تو خدا کا وقار ہے۔ پس وہ تجھے ترک نہیں کرے گا… اے لوگو! تمہارے پاس خدا کا نُور آیا۔ پس تم منکر مت ہو‘‘۔
(تذکرہ صفحہ 258)
پس یہ نور آپ پر اللہ تعالیٰ نے خود اتارا اور آپ کی پاک فطرت کی وجہ سے آپ کا خداتعالیٰ سے جو ایک تعلق قائم ہوا اور پھر آنحضرت ﷺ سے محبت کی وجہ سے اور آنحضرت ﷺ کی قوت قدسی کی وجہ سے وہ نُور جو صحابہ کے ظاہری قالب پر پانی کی طرح بہا۔ 1400سال بعدبھی اس نے نہ صرف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اس نُور سے بھر دیا بلکہ اللہ تعالیٰ نے آپعلیہ السلام کو وہ نُور آگے پھیلانے کا مقام بھی عطا فرمایا۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ: ’’میرے لئے یہ کافی تھا کہ وہ میرے پر خوش ہو۔ (یعنی اللہ تعالیٰ میرے پر خوش ہے) مجھے اس بات کی ہرگز تمنا نہ تھی (کہ مَیں مسیح موعود کہلاؤں یا مسیح ابن مریم سے اپنے تئیں بہتر ٹھہراؤں)۔ مَیں پوشیدگی کے حجرہ میں تھا اور کوئی مجھے نہیں جانتا تھا اور نہ مجھے یہ خواہش تھی کہ کوئی مجھے شناخت کرے۔ اس نے گوشہ تنہائی سے مجھے جبراً نکالا۔ مَیں نے چاہا کہ مَیں پوشیدہ رہوں اور پوشیدہ مروں۔ مگر اس نے کہا کہ مَیں تجھے تمام دنیا میں عزت کے ساتھ شہرت دوں گا‘‘۔
(حقیقۃ الوحی۔ روحانی خزائن جلد 22صفحہ 153)
پس خداتعالیٰ کا یہ طریق ہے کہ جب کسی کو اپنے نور سے سجاتا ہے تو تمام دنیا میں اس کا اظہار بھی کروا دیتا ہے۔ ایک انسان کی بنائی ہوئی عام روشنی بھی جہاں روشنی ہو وہاں اپنا نشان ظاہر کر رہی ہوتی ہے تو خداتعالیٰ کے نُور کو کس طرح چھپایا جا سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ یہ نُور جب اپنے بندے کو دیتا ہے اور جب یہ اعلان فرما دیتا ہے کہ اس کا نُور یعنی اللہ تعالیٰ کا نُور تمام زمین و آسمان پر حاوی ہے تو اس سے یہ بھی مراد ہے کہ جو روحانی نُور اللہ تعالیٰ کے خاص فیض سے اس کے خاص بندوں پر آسمان سے اترا ہے اب اس کے فیض عام کا بھی سلسلہ جاری ہو گیا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ کے ان خاص بندوں سے جڑ جاؤ تو یہ نُور پھر تمہارے دلوں کو بھی روشن کر دے گا۔ چاہے چھوٹے چھوٹے طاق بنیں۔ چاہے چھوٹے چھوٹے گلوب ہوں۔ چاہے اس کی روشنی کو پھیلانے کی ایک عام مومن کی استعدادوں کے مطابق کوئی حد مقرر ہولیکن جو جڑیں گے وہ پھر اس نُور سے حصہ پاتے ہوئے آگے بھی نُور کو پھیلانے والے بنتے جائیں گے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کا نُور جب کسی انسان تک پہنچتا ہے، کسی مومن تک پہنچتا ہے اگر اس نے حقیقی نور حاصل کیا ہے تو وہ اس تک پہنچ کر اسے فیضیاب کرتے ہوئے دوسروں کو فیض پہنچانے کا باعث ضرور بنتا ہے۔ پس اس کے حاصل کرنے اور اس سے زیادہ سے زیادہ فیضیاب ہونے کے لئے خداتعالیٰ کے محبوب ترین کا اسوہ اختیار کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ عبادات میں، اخلاق میں، عادات میں جب اس شوق سے اس اسوہ کو اختیار کرنے کی کوشش اور سوچ ہو گی اور آنحضرت ﷺ کی کامل اطاعت اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق ہو گی تو اس کا اعلان خداتعالیٰ نے آنحضرت ﷺ سے قرآن کریم میں یوں کروایا ہے کہ

قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہ(آل عمران:32)

کہ کہہ دے کہ اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری اتباع کرو۔ اللہ تعالیٰ بھی پھر تم سے محبت کرے گا۔ پس یہ محبت تھی جو صحابہ نے آپ سے کی تو وہ بھی اللہ تعالیٰ کے نور سے منور ہو گئے اور یہی محبت ہے جو اس زمانے میں حقیقی رنگ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے آنحضرت ﷺ سے کی ہے۔ تو آپ خداتعالیٰ کے محبوب بن کر اس زمانہ میں نور پھیلانے کا اعزاز پانے والے بن گئے۔
پس آج اگر کسی کو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول سے محبت کا دعویٰ ہے تو مسیح موعودؑسے تعلق جوڑنا بھی ضروری ہے۔ یہ بھی خداتعالیٰ کے حکموں میں سے ہے اور یہی رسول اللہ ﷺ کے حکموں میں سے ہے۔ آج جماعت احمدیہ ہی ہے جو اس سلسلہ تعلق کی وجہ سے خلافت سے بھی جڑی ہوئی ہے اور اس نُور سے بھی فیض پا رہی ہے جو اللہ تعالیٰ روحانی نُور کی صورت میں انبیاء کے ذریعہ ظاہر فرماتا ہے اور جس کا عظیم ترین معیار اور مقام جیسا کہ مَیں نے کہا آنحضرت ﷺ کی ذات ہے اور جس کا احیاء اس زمانے میں اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کے عاشق صادق کے ذریعہ سے فرمایا ہے۔ پس اب جہاں روحانی ترقیات حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے جڑنے سے وابستہ ہیں وہاں دنیاوی امن کا قیام بھی مسیح موعود سے ہی وابستہ ہے کیونکہ آپ نے ہی آنحضرت ﷺ کے اس ارشاد کو پورا فرمایا کہ دنیاکو پیارمحبت اور صلح کی طرف بلاتے ہوئے، اسے قائم کرنے کی تلقین کرتے ہوئے اور خداتعالیٰ کے حقوق قائم کرتے ہوئے، اللہ تعالیٰ کے نور سے منور کریں اور دنیا کے امن کا ذریعہ بن جائیں۔
آنحضرت ﷺ کا یہ ارشاد تھا کہ

یَضَعُ الْحَرْب،

جب مسیح آئے گا تو جنگوں کا خاتمہ ہو گا اور اسی

یَضَعُ الْحَرْب

کی وجہ سے پھر امن اور سلامتی کے پیغام بھی پھیلیں گے اور آپ کی تعلیم کی روشنی میں ہی، آنحضرت ﷺ کے ارشاد کی روشنی میں ہی دائمی سلسلہ خلافت نے اس کو پھر آگے بڑھاتے چلے جانا ہے۔
حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی تفسیر میں نور کی تفسیر بیان فرماتے ہوئے اس نکتہ کو بھی بیان فرمایا ہے کہ اس نُور کے دنیا میں انتشارکے لئے تین چیز یں ضروری ہیں۔ نمبرایک الوہیت، اللہ تعالیٰ کی ذات دوسرے نبوت اور تیسرے خلافت۔ اور جب تک مومن اپنے اندر ایمان اور اعمال صالحہ پر توجہ دیتے رہیں گے اس چیز کو اپنے اندر قائم رکھیں گے اس نُور کا سلسلہ لمبا ہوتا چلا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق عطا فرمائے کہ ہم خداتعالیٰ کے نور سے ہمیشہ فیضیاب ہوتے چلے جانے والے بنتے چلے جائیں اور کبھی ہم خداتعالیٰ کے نور سے محروم نہ ہوں۔
آج مسلم اُمّہ بھی اگر اس حقیقت کو سمجھ لے، ہمارے جوباقی مسلمان بھائی ہیں اس حقیقت کو سمجھ لیں تو مغرب میں اسلام کے خلاف جو آئے دن ابال اٹھتا ہے اورکوئی نہ کوئی وبال اٹھتا ہی رہتا ہے اس کی بھی غیروں کو کبھی جرأت نہ ہو۔ وحدت میں ہی طاقت ہے اور اس کو قائم کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو بھیجا ہے۔
گزشتہ دنوں سوئٹزر لینڈ میں میناروں کے خلاف، مساجد کے میناروں کے خلاف بھی ایک شور اٹھا۔ میناروں سے انہیں کیا تکلیف ہے یہ تو خدا بہتر جانتا ہے۔ ان کے اپنے چرچوں کے بھی تو مینارے ہیں اور کیا ان میناروں کو گرانے سے اگر کوئی شدت پسند ہیں تو ان کی زندگی بدل جائے گی۔ بہرحال یہ جو شور اٹھا ہے وہ بھی اسی اسلام دشمنی کی ایک کڑی ہے اور اس کے پیچھے بھی ایک گہری سازش نظر آتی ہے۔ یہ ابتدا لگ رہی ہے اور مزید ان کے اور بھی مطالبے ہونے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فضل فرمائے اور ان کے ہر شر سے اسلام کو بھی بچائے۔ ہمیں یہ دعا کرنی چاہئے کہ خداتعالیٰ اسلام کے دشمنوں کی ہر سازش کو ناکام و نامراد کر دے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں