دو اسیرانِ راہ مولیٰ: حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحبؓ اور حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحبؒ

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 17؍مارچ 1999ء میں مکرم محمد بشیر زیروی صاحب کا ایک مضمون ماہنامہ ’’خالد‘‘ کے ’’سیدنا ناصر نمبر‘‘ سے منقول ہے۔ مضمون نگار کو 1953ء میں اسیر راہ مولیٰ بننے کا شرف حاصل ہوا اور یہ سعادت بھی کہ تین روز تک آپ کو اُسی کوٹھڑی میں پابندسلاسل رکھا گیا جہاں حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحبؓ اور حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحبؒ بھی اسیر بناکر رکھے گئے تھے۔

Hazrat Mirza Sharif Ahmad Sahib

آپ بیان کرتے ہیں کہ جب ہمیں ٹرک میں بٹھاکر جیل کی طرف لے گئے تو حضرت میاں ناصر احمد صاحبؒ نے ٹرک میں بیٹھتے ہی بلند آواز سے

’’لا الہ الاّ انت سبحانک انّی کنت من الظّٰلمین‘‘

کا ورد شروع کردیا۔ عمر کے لحاظ سے ہم سب میں بڑے اور صحت کے لحاظ سے کمزور حضرت میاں شریف احمد صاحبؓ تھے مگر حوصلہ کے اعتبار سے ازحد مضبوط تھے۔ ہماری دلی گھبراہٹ چہرہ سے بھانپ جاتے اور حضرت میاں ناصر احمد صاحبؒ سے فرماتے کہ یہ بچے تو مجھے دل چھوڑتے معلوم ہوتے ہیں، ان کی حوصلہ افزائی کریں۔ تب حضرت میاں صاحبؒ ہمیں اپنے مخصوص انداز میں ہر آنے والے وقت کے لئے تیار کرتے رہتے۔

جب ایک نوجوان نے اپنے بیان میں کسی قدر جھوٹ ملایا تو حضرت مرزا شریف احمد صاحبؓ بہت بے تاب ہوگئے اور بار بار فرمایا کہ ’’اب یہ سزا سے نہیں بچ سکے گا، اس نے اپنا ثواب بھی ضائع کرلیا‘‘۔ پھر ہم میں سے ایک ایک سے فرماتے کہ ہم خدا کی خاطر یہاں آئے ہیں۔ یہ ہمارے ایمانوں کی آزمائش ہے۔ اگر ہم آزمائش میں پورا نہ اترے تو ہمارے جیسا بدنصیب کوئی نہ ہوگا۔ اور اگر کامیاب ہوگئے تو اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث ہوں گے، اگر جھوٹ بولا تو اُس کی نصرت سے محروم ہوجائیں گے اس لئے خواہ کتنی بڑی سزا مل جائے مگر سچ کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا۔… آپؓ یہ تلقین اس تکرار سے کرتے کہ بعض دفعہ محسوس ہوتا جیسے آپؓ کو اس معاملہ میں کچھ وہم سا ہوگیا ہے۔
پہلی رات نہایت ہی کرب میں گزری۔ صبح کوٹھڑیوں سے نکالا گیا تو ہم نماز سے فارغ ہوکر باہر کمبل بچھاکر بیٹھ گئے۔ حضرت میاں ناصر احمد صاحبؒ نے میری اداسی دیکھ کر فرمایا سورۃ ملک یاد ہے؟۔ عرض کیا یاد ہے۔ فرمایا سناؤ۔ چنانچہ سنائی۔ پھر فرمایا ’’کوئی خواب آئی ہے؟‘‘۔ عرض کیا: جی۔ فرمایا: سناؤ۔ میں نے عرض کیا کہ گویا ہمارے لئے ایک ریلوے لائن تیار ہوئی ہے جس کے بائیں پہلو سے ایک چھوٹی سی لائن تیار ہوئی ہے وہ صرف میرے لئے ہے۔ آگے جو مین لائن ہے اس کے ساتھ کچھ لوگ پگھلا ہوا لوہا چپکا رہے ہیں۔ یہ سُن کر فرمایا ’’آپ تو Interrogation میں ہی رہا ہو جائیں گے‘‘ پھر خاموش ہوگئے گویا تعبیر کا کچھ حصہ بتانا نہ چاہتے ہوں۔ میں نے عرض کیا حضور آپ کے لئے بھی اس میں رہائی کی خوشخبری ہے۔ فرمایا درست ہے۔ مگر پھر بھی مزید تعبیر بیان نہیں فرمائی۔
اتنے میں جیل سے ناشتہ آگیا جو سیاہ ابلے چنوں کا تھا۔ میں نے اُن چنوں کی طرف کچھ ترچھی نگاہ سے دیکھا تو حضرت میاں صاحبؒ فوراً میرے دل کی کیفیت بھانپ گئے اور چنوں کو چادر پر ہاتھ سے بکھیرنے کے بعد مزے لے لے کر کھانا شروع کردیا۔ آپؒ کھاتے بھی جاتے اور فرماتے بھی جاتے کہ دیکھئے یہ تو بے حد لذیذ ہیں۔
اُسی دن دوپہر سے حضورؒ کے گھر سے کھانا آنا شروع ہوگیا جو اس قدر وافر ہوتا تھا کہ ہم سب سیر ہوکر کھا لیتے تھے تو پھر بھی بچ جاتا۔ یہاں بھی آپؒ سارا کھانا میرے سپرد کرکے فرماتے اسے تقسیم کریں اور خود میرے گھر سے آیا ہوا کھانا لے بیٹھتے کہ مَیں تو یہ کھاؤں گا۔ میرے اصرار کے باوجود وہ سادہ سا کھانا جو بعض اوقات ڈبل روٹی کے چند ٹکڑے ہوتے تھے، حضورؒ خود تناول فرماتے۔
حضورؒ اور حضرت میاں شریف احمد صاحبؓ جب تک ہمارے پاس رہے ہمیں اداس اور غمگین نہیں ہونے دیا اور جیل میں بھی مجلس علم و عرفان جمتی رہی۔ ایک دن مجھے پریشان دیکھ کر فرمایا ’’بشیر! تمہیں پانچ سال قید ہوگی‘‘۔ میں نے بھی اسی بے تکلفی سے عرض کیا کہ میاں صاحب! آپ خدا کے فضل سے خود بھی بزرگ ہیں، پھر بزرگوں کی اولاد بھی ہیں۔ میرے حق میں اس پاکیزہ منہ سے تو کلمہ خیر ارشاد فرمائیں۔ فرمانے لگے میرا مطلب ہے Think worst۔
جیل میں مَیں نے آپؒ کو ایک لمحہ کے لئے بھی پریشان نہیں پایا۔ بلکہ یوں محسوس ہوتا تھا کہ آپکی صحت روز بروز بہتر ہورہی ہے۔ ایک روز مَیں نے عرض کیا کہ جب مجھے گرفتار کیا گیا تو میری بھوک پیاس بالکل ختم ہوگئی اور ایک کپ چائے کے سوا کچھ ناشتہ بھی نہ کر پایا۔ یہ سُن کر آپؒ نے فرمایا کہ جب مجھے گرفتار کیا گیا تو میں نے پہلے نہایت ہی اطمینان سے غسل کیا، پھر سیر ہوکر ناشتہ کیا کیونکہ ایسے وقتوں میں مجھے خوب بھوک لگتی ہے، پھر کپڑے تبدیل کئے۔ نیز فرمایا خدا کے فضل سے میرے جوہر بحران میں کھلتے ہیں اور اندرونی طاقتیں نمایاں ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔
جس طرح اللہ تعالیٰ نے خواب میں ظاہر فرمادیا تھا یہ عاجز تین دن بعدInterrogation میں ہی رہا ہوگیا۔ حضرت میاں صاحبان کو سزائیں سنائی گئیں اور وہ چند ماہ بعد رہا ہوئے۔ میں نے اسیری کے اُن تین دنوں میں ان پاک وجودوں سے یہ سیکھا کہ کس طرح استقلال کے ساتھ مصائب کا مقابلہ کیا جاتا ہے اور یہ بھی کہ کس طرح اللہ تعالیٰ حق کی حمایت کرتا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں