ذکرِ حبیب علیہ السلام
حضرت ڈپٹی میاں محمد شریف صاحبؓ 15 برس کی عمر میں مارچ 1897ء میں اپنے چچا حضرت معراج الدین صاحب عمرؓ (جو 313؍اصحاب میں شامل تھے) کے ہمراہ قادیان گئے اور 5؍مارچ کو بیعت کی سعادت حاصل کی- آپؓ نے اپنی بعض خوبصورت یادیں جلسہ سالانہ 1963ء کے موقع پر بیان کیں جو روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 6؍نومبر 1998ء میں ایک پرانی اشاعت سے منقول ہیں-
حضرت مسیح موعودؑ گرمیوں میں نماز مغرب کے بعد مسجد مبارک کی چھت پر رونق افروز ہوتے تھے اور کھانا بھی اپنے مہمانوں کے ساتھ ہی تناول فرمایا کرتے تھیـ ، کھانا تھوڑا ہی کھاتے تھے، روٹی کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کرکے شوربے کے ساتھ لگا لگا کر کھاتے تھے- اگر کسی کے پاس سالن کم ہو جاتا تھا تو حضورؑ اپنے سامنے سے سالن کا زائد پیالہ اُس کے سامنے بڑھا دیتے تھے- مسجد کی چھت پر جانے کے لئے لکڑیوں کی ایک سیڑھی تھی، حضورؑ پیرانہ سالی کے باوجود اُس کے بازوؤں کا سہارا لئے بغیر ایک پہلوان کی طرح سیدھے اوپر چڑھتے تھے- حضورؑ کے پاس بیٹھنے والوں کو حضورؑ کی طرف سے ایک اعلیٰ قسم کی بھینی بھینی خوشبو آتی تھی جو عام خوشبوؤں سے نرالی اور عجیب ہوتی تھی- غالباً 1901ء میں میرے ایک واقفِ کار خان شجاع الدین خان (سپرنٹنڈنٹ ڈاک خانہ جات) جو اپنے سرکاری کام سے قادیان آئے ہوئے تھے، مسجد مبارک میں آئے- وہ مجھے جانتے تھے اس لئے جاتے ہوئے مجھے اپنے ساتھ ڈاک خانہ میں لے گئے- وہاں ایک ہندو پوسٹ ماسٹر بیٹھا ہوا تھا- خان صاحب نے مجھ سے پوچھا کہ حضرت مرزا صاحب کے پاس سے جو یہ خوشبو آئی تھی وہ کس چیز کی تھی- پوسٹ ماسٹر کہنے لگا کہ مرزا صاحب کے مرید افریقہ وغیرہ سے جو عنبر اور کستوری بھیجتے رہتے ہیں یہ انہی چیزوں کی خوشبو ہے- اس پر خان صاحب نے قدرے ترش لہجے میں کہا کہ میں کیا اُن چیزوں سے واقف نہیں ہوں، وہ خوشبو تو ان سے الگ تھی- میں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ اپنے مقربین کو طرح طرح سے نوازتا ہے اور اُس کے بندوں میں روحانیت کے غلبہ کی وجہ سے نور بھرا ہوا ہوتا ہے جس سے ایسی خوشبو آتی ہے جو عام خوشبوؤں سے نرالی اور بالاتر ہوتی ہے- اس پر وہ کہنے لگے ہاں میں یہ بات ماننے کے لئے تیار ہوں-
1902ء میں مشن کالج لاہور میں بی-اے میں زیر تعلیم ایک عیسائی نوجوان عبدالحق نامی قادیان آگئے اور چند روزہ تحقیق کے بعد اسلام قبول کرلیا- پھر وہ تعلیم الاسلام ہائی سکول میں ٹیچر مقرر ہوگئے- کچھ عرصہ بعد حضورؑ نے انہیں پچاس روپے عطا کرکے فرمایا کہ لاہور جاکر کتابیں خرید لائیں اور بی-اے کا پرائیویٹ امتحان دے لیں تاکہ پادری یہ نہ کہیں کہ احمدی ہوجانے کی وجہ سے آپ کی ترقی رُک گئی ہے- چنانچہ جب وہ امتحان دے کر واپس قادیان گئے تو حضورؑ کے دریافت فرمانے پر عرض کیا کہ پرچے تو معمولی ہی ہوئے ہیں- حضورؑ نے فرمایا کہ میں نے آپ کی کامیابی کے لئے بہت دعا کی ہے- قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ کی کامیابی کی بشارت بھی مل جائے، مجھے پادریوں کی شماتت کا بڑا خیال ہے- اس کے بعد حضورؑ نے کامیابی کی بشارت بھی اُنہیں دے دی تھی- چنانچہ وہ کامیاب ہوگئے-
حضرت میاں محمد شریف صاحبؓ مزید بیان کرتے ہیں کہ 1905ء میں میں نے بی-اے پاس کرکے حضرت اقدسؑ سے ولایت جاکر مزید تعلیم حاصل کرنے کی اجازت چاہی- آپؑ نے فرمایا کہ اپنے رشتہ داروں سے مشورہ کرلیں اور استخارہ بھی کرلیں پھر جس طرف طبیعت مائل ہو اسے اختیار کرلیں- اس کے چند منٹ بعد حضورؑ نے مجھے فرمایا کہ میں کسی نوجوان کا وہاں جانا پسند نہیں کرتا کیونکہ وہاں دہریت پھیلی ہوئی ہے اور مذہب کو لوگ ایک سوسائٹی سمجھتے ہیں اور اگر کوئی خدا کا نام لے تو لوگ اس پر ہنسی کرتے ہیں … آپؓ مزید بیان کرتے ہیں کہ حضورؑ کا یہ مشورہ صرف میرے لئے ہی تھا اور اس وقت سے مخصوص تھا کیونکہ ان ایام میں ہندوستان سے باہر ہماری کوئی مسجد نہیں تھی اور کوئی مرکز یورپ میں موجود نہیں تھا جہاں جاکر نوجوان علمِ دین حاصل کرسکیں اور دہریت کی فضا سے محفوظ رہ سکیں- مجھے حضورؑ کے اس مشورہ سے بہت فائدہ ہوا اور میں نے حضرت مصلح موعودؓ کی دعا اور ارشاد کے ماتحت EAC کا عہدہ حاصل کرلیا-
حضرت مسیح موعودؑ کو اللہ تعالیٰ نے بڑی فراست عطا کی ہوئی تھی- 1905ء میں ایک دن مسجد اقصیٰ میں حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ نے ایک نوجوان کو حضورؑ کی خدمت میں پیش کرکے عرض کیا کہ یہ لدھیانہ سے آئے ہیں، پہلے عیسائی تھے اب بیعت کرنا چاہتے ہیں- حضرت اقدسؑ نے ایک نظر اٹھاکر نوجوان کو دیکھا اور فرمایا کہ آپ تین چار دن ٹھہر جائیں پھر دیکھا جائے گا- اس کے بعد مفتی صاحبؓ نے ایک اور نوجوان کو پیش کرکے کہا کہ یہ کراچی سے آئے ہیں، پہلے ہندو تھے اب احمدی ہوگئے ہیں اور بیعت کرنا چاہتے ہیں- حضورؑ نے نظر اٹھا کر انہیں دیکھا اور فرمایا کہ ہاں آپ بیعت کرلیں- … پہلا نوجوان دو تین دن کے اندر واپس چلا گیا اور عیسائی ہو گیا-
1906ء میں حضرت مسیح موعودؑ نے خواجہ کمال الدین صاحب کو تار دے کر بلایا اور فرمایا میں نے یہ خواب دیکھا ہے کہ آپ گندے پانی کی نہر کے کنارے پر کھڑے ہیں- جس کامطلب یہ ہے کہ آپ کے کاموں میں دنیا کی ملونی ہوتی ہے، اس سے آپ کو پرہیز کرنا چاہئے-
رسالہ ’’الوصیۃ‘‘ شائع ہونے کے بعد 1906ء میں حضرت اقدسؑ کی خواہش پر مستری محمد موسیٰ صاحب نے بہشتی مقبرہ کا نقشہ تیار کروایا جس میں قبروں اور راستوں کے نشانات دکھائے گئے تھے- حضورؑ نے نقشہ پسند فرمایا اس پر مستری صاحب نے ایک قبر پر انگلی رکھ کر عرض کیا کہ حضور یہ قبر میرے لئے مخصوص کردی جائے- حضورؑ نے فرمایا کہ کوئی قبر کسی کے لئے مخصوص نہیں کی جاسکتی کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ کسی کو یہ معلوم نہیں کہ اُس نے کس زمین پر مرنا ہے- مستری صاحب خاموش ہوگئے- اس کے قریباً دو سال بعد جب حضرت مسیح موعودؑ وفات پاگئے تو حضرت مستری صاحبؓ نے مجھے بتایا کہ وہی قبر جو میں نے اپنے لئے چاہی تھی اب حضورؑ کا جسدِ اطہر اس میں دفن کیا گیا ہے- دراصل یہ وہ قبر تھی جو حضورؑ کو کشف میں چاندی کی طرح چمکتی ہوئی دکھائی گئی تھی-
عام گفتگو میں بھی حضرت اقدسؑ آئندہ کے متعلق جو گفتگو فرماتے تھے وہ اکثر پوری ہو جاتی تھی- 1907ء میں مَیں قادیان میں قانون کے پہلے امتحان FEL کے نتیجہ کا انتظار کر رہا تھا- ایک روز اطلاع آئی کہ ہندو ممتحن نے امتحان میں شامل تمام مسلمانوں کو فیل کر دیا ہے- جب حضورؑ کو یہ بات معلوم ہوئی تو فرمایا کہ آپ کوئی فکر نہ کریں اور آئندہ سال پھر امتحان دے دیں، اللہ تعالیٰ آپ کو کامیاب کردے گا- … چونکہ حضورؑ نے مجھے آئندہ سال امتحان میں کامیابی کی بشارت دے دی تھی اس لئے میں نے تعلیم الاسلام سکول میں ملازمت کرلی اور امتحان میں تین ماہ پہلے لاہور جاکر تیاری شروع کی مگر میں بفضلہ تعالیٰ کامیاب ہوگیا-
ایک دفعہ گرمیوں کے موسم میں ایک دوست نے عرض کیا کہ آجکل تو اس جگہ بہت گرمی ہے لیکن کشمیر میں بڑا اچھا موسم ہوتا ہے، وہاں جانا چاہئے- اس پر حضورؑ نے فرمایا اللہ تعالیٰ قادر ہے کہ اسی جگہ کو کشمیر کردے- چنانچہ جب حضورؑ اُٹھ کر مکان میں تشریف لے گئے تو ٹھنڈی ہوا چلنے لگی اور بارش شروع ہوگئی-
حضورؑ کی وفات سے کچھ عرصہ پہلے میں اپنے تایا کے ساتھ لاہور میں خدمت اقدسؑ میں حاضر ہوا- حضورؑ نے کچھ گفتگو کے بعد فرمایا کہ جلدی جلدی آنا چاہئے اب وقت بہت تھوڑا رہ گیا ہے- چنانچہ اس کے بعد جلد ہی حضورؑ وفات پاگئے-
حضرت مسیح موعودؑ اپنی وفات سے ایک دن پہلے جب نماز عصر کے لئے تشریف لائے تو لاہور کا ایک شخص ڈاکٹر محمد سعید ملاقات کے لئے آیا اور اُس نے سلسلہ کے متعلق سوالات شروع کئے- حضورؑ نے فرمایا کہ میں اپنا کام ختم کرچکا ہوں اور میں نے سب کچھ اپنی کتابوں میں لکھ دیا ہے- یہ فرما کر حضورؑ نماز کے لئے کھڑے ہوگئے- مجھے تعجب ہوا تھا کہ حضورؑ نے خلاف عادت سائل کو نہایت مختصر جواب دے کر یہ فرمایا کہ میں اپنا کام ختم کرچکا ہوں- لیکن دوسرے دن صبح کو آپؑ کا یہ فرمانا پورا ہوگیا اور آپؑ وفات پاگئے-