حضرت امیرالمومنین خلیفۃالمسیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے جرمنی کے سفر 14؍مئی تا 26؍مئی 1998ء کی مختصر رپورٹ

(مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 5؍جون تا 24 جولائی 1998ء- کُل 8 اقساط)

سیدنا حضرت امیرالمومنین خلیفۃالمسیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا جرمنی میں ورود مسعود

مجلس انصاراللہ اور مجلس خدام الاحمدیہ جرمنی کے سالانہ اجتماعات سے خطابات، مجالس عرفان اور جرمن و عرب مہمانوں کے ساتھ دلچسپ مجالس سوال و جواب، انفرادی و اجتماعی ملاقاتوں کے ایمان افروز پروگرام
(حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کے جرمنی کے سفر 14؍مئی تا 26؍مئی 1998ء کی مختصر رپورٹ)
(مرتّبہ: محمود احمد ملک)

حضرت امیرالمومنین خلیفۃالمسیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ۱۴؍مئی ۱۹۹۸ء بروز جمعرات صبح گیارہ بجے مسجد فضل لندن سے جرمنی کے لئے عازم سفر ہوئے- مسجد فضل لندن میں کثیر تعداد میں احباب جماعت اس وقت موجود تھے- حضور انور نے تمام افراد کو مصافحہ کا شرف عطا فرمایا اور دعا کے ساتھ سفر کا آغاز فرمایا-
شام ساڑھے نو بجے فرینکفرٹ کی حدود سے باہر ایک مقام پر مکرم عبداللہ واگس ہاؤزر صاحب امیر جماعت احمدیہ جرمنی نے مع ایک وفد کے حضور انور کو خوش آمدید کہا- رات دس بجے مسجد نور فرینکفرٹ پہنچنے پر قریباً تین صد احمدی احباب نے اپنے محبوب امام کا قطاروں میں کھڑے ہوکراستقبال کیا- کچھ ہی دیر بعد حضور انور نے مغرب و عشاء کی نمازیں پڑھائیں اور نماز عشاء کی ادائیگی کے بعد چند منٹ کے لئے مسجد میں ہی تشریف فرما ہوکر مکرم امیر صاحب جرمنی سے بعض امور کے بارے میں استفسار فرمایا-
افتتاح سالانہ اجتماع انصاراللہ جرمنی
مورخہ ۱۵؍ مئی بروز جمعہ حضرت خلیفۃالمسیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز دوپہر بارہ بجے کے بعد Bad Kreuznach کے لئے روانہ ہوئے جہاں مجلس انصاراللہ جرمنی کا ۱۸واں سالانہ اجتماع منعقد ہونا تھا- مقامِ اجتما ع پر دوپہر ایک بج کر پچاس منٹ پر پرچم کشائی کی تقریب عمل میں آئی اور حضور انور نے لوائے انصاراللہ اور جرمنی کا جھنڈا لہرایا اور دعا کروائی- اس کے بعد حضور انور مارکی میں تشریف لائے جہاں خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا اور نماز جمعہ و عصر پڑھائی- (حضور انور کے خطبہ جمعہ کا خلاصہ گزشتہ شمارہ میں علیحدہ شائع کیا جاچکا ہے-)
شام پانچ بجے حضور انور نے والی بال اور باسکٹ بال کے گراؤنڈز میں تشریف لے جاکر کھلاڑیوں کو شرفِ مصافحہ عطا فرمایا اور کچھ دیر کے لئے کھیل ملاحظہ فرمائے- ساڑھے پانچ بجے شام مجلس انصاراللہ جرمنی کی نیشنل مجلس عاملہ کے ساتھ ایک مختصر اجلاس میں حضور انور نے اہم نصائح فرمائیں اور ہدایات سے نوازا جن کا تعلق جرمنی میں مساجد کی تعمیر، دفتر انصاراللہ کی تعمیر اور انصار کی عمومی صحت سے تھا- اس کے بعد مجلس عاملہ کا حضور انور کے ساتھ گروپ فوٹو ہوا اور شام چھ بجے حضور مجلس عرفان کے لئے مارکی میں تشریف لے گئے-
مجلس عرفان
۱۵؍مئی ۹۸ء بروز جمعہ مجلس انصاراللہ جرمنی کے اٹھارویں اجتماع کے پہلے روز منعقد ہونے والی مجلس عرفان میں کئے گئے بعض سوالات اور ان کے مختصر جوابات اپنی ذمہ داری پر ذیل میں پیش کئے جارہے ہیں:
٭ ایک سوال تھا کہ برائی اور اچھائی کا تعلق شعور اور سوچ کے ساتھ ہے تو کیا ایسے لوگوں کو بھی ان کے ایسے بُرے اعمال کی سزا ملے گی جن اعمال کو اُن کے معاشرے میں برائی کی نظر سے نہیں دیکھا جاتا؟
حضور انور نے فرمایا کہ ہر انسان کا ایک ضمیر ہے جو اُس کو برائی سے آگاہ کرتا ہے- اس لئے معاشرے کی نظر میں برے عمل کا برا دکھائی دینا یا نہ دینا ایک بالکل الگ معاملہ ہے-
٭ امریکی سائنس دانوں کا ایک طبقہ طوفانِ نوحؑ کو عالمی بیان کرتا ہے اور اس کی دلیل یہ دی جاتی ہے کہ اس وقت زمین پر کوئی جگہ بھی خشکی والی باقی نہیں رہی تھی جہاں حضرت نوحؑ اپنی قوم کے ساتھ ہجرت فرماکے جابستے …-
حضور انور نے فرمایا کہ یہ ضروری نہیں ہے کہ عالمی طوفان میں ہی کشتی استعمال کی جائے- چنانچہ پنجاب کے سیلابوں میں بھی ہم کشتیاں استعمال کرتے رہے ہیں-… پھر یہ کہ وہ سیلاب جو ساری دنیا کے پہاڑوں کی چوٹیوں کو بھی غرق کرسکے اُس کے لئے پانی کی جس قدر مقدار درکار ہے وہ پوری زمین پر مہیا نہیں ہوسکتی خواہ قطبین پر جمی ہوئی برف بھی پگھلادی جائے-
ایک ضمنی سوال کے جواب میں حضور انور نے فرمایا کہ حضرت نوحؑ نے جو بعض اقسام کے جانوراپنی کشتی میں جمع کئے تھے وہ اُسی مقصد کے لئے تھے جس طرح لمبا سفر کرنے والے کھانے پینے کی چیزیں بطور زادِ راہ رکھتے ہیں- …اور اُن جانوروں میں درندے شامل نہیں تھے ورنہ وہ درندے کشتی میں سوار دوسرے جانوروں اور انسانوں کو ہی کھاجاتے-
٭ اس سوال کے جواب میں کہ جرمنی میں اکثر احمدی گھرانوں میں جگہ کی تنگی کے باعث نماز کے لئے کوئی علیحدہ کمرہ مخصوص نہیں کیا جاسکتا اور عام کمرے میں ہی نماز ادا کی جاتی ہے جس میں بعض اوقات تصاویر بھی لگی ہوئی ہوتی ہیں- حضور انور نے فرمایا کہ نماز ادا کرنے والے کمرے میں قبلہ رُخ کوئی تصویر نہیں ہونی چاہئے بلکہ دائیں بائیں بھی جہاں تک ترچھی نظر سے دکھائی دے، تصویر نہیں لگانی چاہئے- البتہ پشت والی دیوار پر تصویر لگانے میں کوئی حرج نہیں ہے-
٭ ایک سوال تھا کہ ختم نبوت والی آیت کا وہ ترجمہ جو غیر احمدی مُلاّں کرتے ہیں وہ کِس دور میں جاری ہوا؟- حضور انور نے جواباً فرمایا ’’بے عقل مولویوں کے دور میں‘‘-
٭ زندگی کے بیمہ کے بارے میں کئے گئے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے حضور انور نے فرمایا کہ اس بارے میں میری پہلے سے یہ ہدایت ہے کہ چونکہ مختلف بیموں کی شرائط بھی مختلف ہوتی ہیں اس لئے جو شخص کسی خاص پالیسی کے متعلق فتویٰ حاصل کرنا چاہے اسے چاہئے کہ تمام شرائط لکھ کر مفتی سلسلہ ربوہ کو بھجوائیں اور وہاں سے جو جواب آئے اس پر عمل کریں-
٭ اس سوال کے جواب میں کہ جس کو نظام جماعت سے اخراج کی سزا ملے کیا اس سے تعلقات رکھنا جائز ہے؟ حضور انور نے فرمایا کہ یہ انفرادی مسئلہ ہے- کبھی مکمل لاتعلّقی نہیں ہو سکتی- تاہم سزایافتہ سے میل ملاقات اِس طرح رکھنی چاہئے کہ وہ محسوس کرے کہ گویا وہ ایک الگ وجود ہوگیا ہے-
٭ مولویوں کی احمدیت کے خلاف تحریک چلانے کے بارے میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے حضور انور نے فرمایا کہ دراصل ان تحریکوں کی پشت پناہی حکومت کرتی ہے-
٭ اِس سوال کے جواب میں کہ گزشتہ انبیاء پر جب ظلم ہوتا تھا تو خدا کا عذاب اُس قوم پر نازل ہوا کرتا تھا لیکن پاکستان میں بے حدظلم ہو رہا ہے …-
حضور انور نے فرمایا کہ آپ عذاب کا انتظار کیوں کرتے ہیں، اُس رحمت کو دیکھیں جو آپ کو یہاں کھینچ لائی ہے-
٭ اسلام میں چار شادیوں کی اجازت کے بارے میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے حضور انور نے فرمایا کہ اجازت کا یہ مطلب نہیں کہ چار شادیاں کرنی چاہئیں- اگر ایسا ہوتا تو مردوں کی تین چوتھائی تعداد بغیر شادی کے ہی رہ جاتی- حضور نے فرمایا کہ اس مسئلہ پر میں کئی بار مختلف پہلوؤں سے روشنی ڈال چکا ہوں کہ بعض صورتوں میں ایک سے زیادہ شادیوں کی اجازت ہے لیکن ان میں کامل انصاف کی شرط کے ساتھ-
٭ اس سوال کے جواب میں کہ پہلی بیوی کے ساتھ حالات کس قدر خراب ہو جائیں تو دوسری شادی کی اجازت ہو جاتی ہے؟ حضور انور نے مختصراً فرمایا کہ پہلی بیوی کے ساتھ حالات کی خرابی اور دوسری شادی میں کوئی تعلق نہیں ہے- یہ دونوں الگ الگ باتیں ہیں-
٭ ایک سوال تھا کہ عیسائیوں کو یہ غلطی کیسے لگی کہ حضرت عیسیٰؑ آسمان پر چڑھ گئے ہیں- حضور انور نے فرمایا کہ یہ خیالی اور جھوٹی بات ہے- عیسائی محققین بھی متّفق ہیں کہ حضرت عیسیٰؑ کو کسی نے بھی آسمان پر چڑھتے نہیں دیکھا-
٭ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور بابا گرو نانکؒ دونوں کا تعلق پنجاب سے ہونے میں کیا حکمت ہے؟
حضور انور نے فرمایا کہ اولیاء کہیں بھی پیدا ہو سکتے ہیں اور بے شمار اولیاء پنجاب سے باہر اور بہت سے پنجاب میں بھی پیدا ہوئے ہیں- اسی طرح حضرت بابا نانکؒ بھی پنجاب میں پیدا ہوئے- لیکن صرف یہ بات اہم ہے کہ بہت سے دوسرے اولیاء کی طرح حضرت بابا نانکؒ نے بھی حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی بعثت کی پیشگوئی کی تھی اور بٹالہ میں پیدائش اور وہاں پھیلنے کا ذکر کیا تھا- بلکہ قاضیاں کا نام بھی لیا جو قادیان کا پرانا نام ہے اور اگر اس نام میں ’’ض‘‘ کو ’’د‘‘ پڑھا جائے جیسا کہ پڑھنے میں پڑھا جاتا ہے تو یہ قادیاں کا نام ہے جو حضرت بابا نانکؒ نے بیان کیا-
٭ قرآن کریم میں بیان شدہ حضرت داؤد علیہ السلام کے قصہ کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں حضور انور نے تفصیلی جواب ارشاد فرمایا- حضور نے فرمایا کہ یہ ایک تمثیلی واقعہ ہے- کیونکہ بیان کیا جاتا ہے کہ یہ واقعہ رات کو پیش آیا جبکہ یہ ممکن ہی نہیں کہ حضرت داؤدؑ کے عظیم الشان محل کی بلند دیواروں اور حفاظتی انتظامات کو توڑ کر دو شخص محل میں داخل ہو گئے ہوں اور محض یہ بات پوچھنے کیلئے- کیونکہ اگر یہی بات پوچھنی تھی تو وہ دن کو بھی دربار میں حاضر ہو سکتے تھے- پس یہ ایک کشفی نظارہ ہے جب فرشتے انسانوں کا روپ دھار کر آئے تھے- وجہ یہ تھی کہ حضرت داؤدؑ عظیم الشان سلطنت کے مالک ہونے کے باوجود بعض چھوٹی چھوٹی ہمسایہ ریاستوں پر بھی قبضہ کرنا چاہتے تھے- چونکہ جو مسئلہ دریافت کیا گیا وہ حضرت داؤدؑ کے حالات پر چسپاں ہوتا تھا اور یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے سرزنش تھی چنانچہ حضرت داؤدؑ نے سجدہ کیا اور استغفار کیا-
حضور نے مزید فرمایا کہ قرآن کریم میں اس جگہ پہنچ کر مسلمان بھی سجدہ کرتے ہیں لیکن یہ بھول جاتے ہیں کہ یہ ہر انسان سے تعلق رکھنے والا واقعہ ہے کہ وہ اپنے نفس پر غور کرے کہ کیا وہ اپنے شرکاء پر ظلم تو نہیں کرنا چاہتا-
٭ اس سوال کے جواب میں کہ حضرت عیسیٰؑ کی قبر تو ہم ثابت کرتے ہیں لیکن یوحنا کی قبر کہاں ہے؟ حضور انور نے فرمایا کہ دنیا میں ایک ہی قبر کا جھگڑا ہے- یوحنا کی قبر کا کوئی جھگڑا ہی نہیں ہے-
٭ جلاٹین سؤر کی ہڈیوں سے بنتی ہے، کیا اس کا کھانا حلال ہے؟
حضور انور نے تفصیلی جواب ارشاد فرماتے ہوئے بیان کیا کہ یہ کہنا غلط ہے کہ یہ سؤر کی ہڈیوں سے بنتی ہے بلکہ یہ ہڈیوں سے بنتی ہے خواہ وہ کسی بھی جانور کی ہوں- پھر یہ کہ جلاٹین کو بنانے کے لئے ہڈیوں کو پگھلا کر ایک نئی شکل دی جاتی ہے اور اس طرح کی کیمیائی تبدیلی واقع ہوتی ہے کہ ہڈی کا کوئی ادنیٰ سا اثر بھی اس میں باقی نہیں رہتا- … جس طرح آپ سبزی کھاتے ہیں اور وہ کیسے گند میں پلتی ہے لیکن وہ گند آپ نہیں کھاتے- اسی طرح جیلی ہے جس کا ہڈی سے کوئی تعلق بھی نہیں رہتا- وہ بالکل ایک نئی چیز ہے-
حضور انور نے مزید فرمایا کہ یہ بات ثابت ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام جیلی کھاتے تھے، حضرت مصلح موعودؓ بھی کھاتے تھے اور میں بھی کھاتا ہوں- پھر آپ کو جیلی کھانے سے کیا فرق پڑے گا؟
٭ ایک اور سوال کے جواب میں حضور انور نے فرمایا کہ ’’اقتربتِ السّاعۃ‘‘ سے مراد وہ قیامت ہے جو آنحضرت ﷺ نے برپا کی اس سے وہ روحانی انقلاب مراد ہے جو عرب سے نکل کر باقی دنیا میں پھیلا-
٭ ایک سوال تھا کہ آنحضرت ﷺ نے حضرت علیؓ کو دوسری شادی کی اجازت نہیں دی جبکہ آپؐ نے خود گیارہ شادیاں کیں-
حضور انور نے فرمایا کہ قرآن کریم میں ایک سے زیادہ شادیوں کے لئے انصاف کو لازم رکھا گیا ہے اور آنحضرت ﷺ نے جب ایک سے زیادہ شادیاں کیں تو ہمیشہ انصاف کو پیش نظر رکھا- لیکن آپؐ نے حضرت خدیجہؓ کی زندگی میں دوسری شادی نہیں کی بلکہ جب ایک سے زیادہ شادیاں کیں تو عمر کے لحاظ سے آپؐ اُس دور میں داخل ہو چکے تھے کہ آپؐ پر یہ اعتراض نہیں ہوسکتا کہ خود کیوں اتنی شادیاں کیں- اور پھر یہ بھی کہ آپؐ نے کبھی بھی ایک وقت میں چار سے زیادہ شادیاں نہیں کیں- اور یہ بھی دیکھنے والی بات ہے کہ حضرت علیؓ کی جس وقت حضرت فاطمہؓ سے شادی ہوئی تو اس موقع پر کیا مفاہمت ہوئی تھی-
٭ ایک اور سوال تھا کہ جرمنی کے ایک مرکزِ نماز میں گرمیوں کے دو تین مہینوں کے لئے اعلان کردیا جاتا ہے کہ اِس مدت میں نمازیں جمع کی جایا کریں گی، اور اس کے حق میں دلیل یہ دی جاتی ہے کہ لندن مسجد میں بھی جمعہ و عصر کی نمازیں جمع کرکے پڑھائی جاتی ہیں-
حضور انور نے فرمایا کہ اگر دو نمازیں اتنا قریب ہو جائیں کہ ان میں تفریق ممکن نہ رہے تو وہ جمع ہو سکتی ہیں- چونکہ لندن میں موسم سرما میں جمعہ کی نماز کے وقت کی عصر کی نماز کے وقت کے ساتھ تفریق ممکن نہیں ہوتی اس لئے وہ جمع کی جاتی ہیں لیکن باقی سارا ہفتہ ظہر و عصر کی نمازیں الگ الگ ادا کی جاتی ہیں-… اور یہ بھی رسول کریم ﷺ کا ارشاد ہے کہ جہاں اوقات میں تفریق نہ ہوسکے وہاں عام دنوں کا اندازہ کرکے پانچ وقتوں کی تعیین کرکے نمازیں ادا کیا کرو- چنانچہ جب میں ناروے گیا تو اسی طرح اوقات کی تعیین کرکے نمازیں الگ الگ ادا کرتا رہا-
حضور نے مزید فرمایا کہ نماز کے مرکز میں اعلان کردینا کہ آئندہ دو ماہ تک نمازیں جمع کی جایا کریں گی، یہ غلط طریق ہے- البتہ انفرادی مشکلات میں لوگ انفرادی طور پر نمازیں جمع کر سکتے ہیں لیکن نئی شریعت بنالینا غلط ہے-
اس کے بعد حضور انور مقامِ اجتماع سے مسجد نور فرینکفرٹ واپس تشریف لے آئے جہاں حضور کی اقتداء میں نماز مغرب و عشاء ادا کی گئیں-
(باقی آئندہ شمارے میں )


مجلس انصاراللہ اور مجلس خدام الاحمدیہ جرمنی کے سالانہ اجتماعات سے خطابات، مجالس عرفان اور جرمن و عرب مہمانوں کے ساتھ دلچسپ مجالس سوال و جواب، انفرادی و اجتماعی ملاقاتوں کے ایمان افروز پروگرام

فیملی ملاقاتیں
۱۶؍مئی ۹۸ء کی صبح دس بجے مسجد نور فرینکفرٹ میں فیملی ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہوا جو بعد دوپہر تک جاری رہا- اس دوران بتیس فیملیوں کے ایک صد سینتیس افراد نے حضور انور سے ملاقات کا شرف حاصل کیا-
شام پانچ بجے حضور انور مسجد نور فرینکفرٹ سے ناصر باغ کے لئے روانہ ہوئے جہاں جرمن احباب کے ساتھ مجلس سوال و جواب کا پروگرام تھا-


جرمن احباب کے ساتھ ناصر باغ میں مجلس سوال و جواب
۱۶؍مئی ۹۸ء بروز ہفتہ ناصر باغ جرمنی میں جرمن احباب کے ساتھ منعقد ہونے والی مجلس سوال و جواب کا آغاز سوا چھ بجے تلاوت قرآن کریم اور اس کے جرمن ترجمہ سے ہوا – پھر دو بچیوں نے ایک جرمن نظم ترنم سے پڑھی- اس کے بعد حضور انور نے مہمانوں کو خوش آمدید کہا اور فرمایا کہ آج کے مہمانوں میں اکثریت اُن کی ہے جو گزشتہ برس بھی تشریف لائے تھے- یہ ایک لحاظ سے خوش آئند بات ہے کہ انہوں نے اِس بار بھی اِس پروگرام میں شمولیت کا فیصلہ کیا ہے-اس مجلس میں کئے گئے بعض سوالات اور ان کے مختصر جوابات اپنی ذمہ داری پر درج ذیل ہیں:
٭ ایک سوال تھا کہ کیا خاوند اپنی بیوی کے پاس بچے کی پیدائش کے وقت موجود رہ سکتا ہے؟
حضور انور نے فرمایا کہ اگرچہ اس کی اجازت ہے لیکن بعض لوگوں کیلئے یہ بہت embarrassing ہو سکتا ہے-
٭ احمدی، مالکی، سنّی، شیعہ میں کیا فرق ہے؟
حضور انور نے اس سوال کا باقاعدہ جواب دینے سے قبل فرمایا کہ میرا خیال تھا کہ جرمن لوگ بہت Inventive لوگ ہیں جو نئے نئے سوالات کرتے ہیں، لیکن اِس بات نے مجھے مایوس کیا ہے- نیز یہ اُن احمدیوں کی غلطی ہے جنہوں نے آپ کو تیار نہیں کیا اور آج آپ کورے کاغذ کی طرح میرے سامنے بیٹھے ہیں- اِس سوال کا میں بارہا تفصیلی جواب دے چکا ہوں اور اگرچہ بار بار جواب دینا اُکتا دینے والی بات ہے لیکن میں اپنی بجائے آپ کا خیال رکھوں گا- چنانچہ حضور انور نے جواب ارشاد فرماتے ہوئے بتایا کہ اِن سب میں فرق صرف وضاحت اور تشریح کا ہے-
اسلام کا آغاز حضرت محمد رسول اللہﷺ سے ہوا- پھر خلفائے راشدین کا دور آیا جس کے بعد ایک اور دور کا آغاز ہوا-ہمیں اِس سارے وقت میں کوئی اختلاف نظر نہیں آتا کیونکہ وہ سارے مسلمان آنحضرت ﷺ کے تربیت یافتہ تھے- … لیکن اس کے بعد نہ ختم ہونے والے اختلافات کا آغاز ہوا-
حضور نے فرمایا کہ جب وقت کے ساتھ ساتھ آنحضورﷺ کے تربیت یافتہ صحابہؓ کم ہوگئے اور عمر کی زیادتی کی وجہ سے اُن کے حافظے کمزور ہونے لگے تو اُس وقت مختلف علماء مختلف ذرائع سے (یعنی مختلف افراد کے ذریعے) آنحضورﷺ تک رسائی حاصل کرنے لگے- اُس وقت حاصل ہونے والی معلومات میں لوگوں کے ذاتی تاثرات بھی شامل ہوگئے- پھر بیان کرنے کے طریق میں بھی فرق تھا اور بیان کردہ روایات کی بنیاد مختلف واقعات و حالات پر رکھی گئی تھی، چنانچہ ان واقعات و روایات کی تشریح میں علماء نے ایک دوسرے سے اختلاف کیا اور اِس طرح مختلف مکاتبِ فکر کا آغاز ہوا مثلاً حضرت امام ابو حنیفہؒ، حضرت امام شافعیؒ، حضرت امام مالکؒ اور حضرت امام احمد بن حنبلؒ وغیرہ – … آج کے دور میں مسلمانوں کی اکثریت ایسی ہے جو قرآن اور رسول اللہ ﷺ سے فیض حاصل کرنے کی بجائے انہی مشہور اماموں سے استفادہ کرتے ہیں اور انہیں اپنی تائید میں پیش کرتے ہیں-
حضور انور نے مزید فرمایا کہ اسلام اور احمدیت میں کوئی فرق نہیں، فرق صرف بعض مسلمانوں کا دوسرے مسلمانوں سے ہے- ہم احمدی یہ ایمان رکھتے ہیں کہ قرآن کریم ہر دوسری چیز پر فوقیت رکھتا ہے اور اسی طرح ہم معقولیت (Rationality) پر یقین رکھتے ہیں-
احمدی عورت اور مسلمان عورت کے حقوق و فرائض کے بارے میں ایک ضمنی سوال کا جواب ارشاد فرماتے ہوئے حضور نے فرمایا کہ ہم معقولیت (Rationality) پر یقین رکھتے ہیں کیونکہ اللہ بھی Rational ہے اور اس نے مرد اور عورت کو برابر پیدا کیا ہے- البتہ جو قوانین دونوں کے لئے مختلف ہیں ان کی بنیاد منطق اور معقولیت پر ہے- … لیکن متشدّد اور دوسرے مسلمانوں کے درمیان آپ کو ایک واضح فرق نظر آئے گا- ایک فریق حد سے زیادہ آزادی کا قائل ہے اور پھر بھی خود کو مسلمان سمجھتا ہے جبکہ دوسرا عورت کو گائے کی طرح پابند سمجھتا ہے جیسے افغانستان میں طالبان- … لیکن ایک احمدی معاشرے میں عورت کی عزت ، آزادی اور اس کی استعدادوں سے بھرپور استفادہ کیا جاتا ہے-
٭ احمدی مردوں کے ساتھ شادی کرنے والی غیرمسلم عورتوں کو مسلمان بنالینے کے بارے میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے حضور انور نے ارشاد فرمایا کہ اِس بارے میں قرآن کریم کا یہی اصول ہے کہ ’’لآ اِکراہ فی الدین‘‘- اگرچہ عورت دھریہ ہی کیوں نہ ہو، کسی کو تبدیلی مذہب پر مجبور نہیں کیا جاسکتا- تاہم احمدی مرد کو یہ سمجھایا جاسکتا ہے کہ جس گھر میں زندگی کے ہر معاملے میں نظریاتی اختلافات ہوں وہاں امن قائم نہیں رہ سکتا-
٭ بھارت کے حالیہ ایٹمی دھماکوں کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے حضور انور نے اِس مسئلہ کے بہت سے پہلوؤں پر تفصیلی روشنی ڈالی- حضور انور نے بیان فرمایا کہ میری اور دنیا کی اس بارے میں ایک ہی رائے ہے لیکن ایک فرق کے ساتھ کہ بڑی طاقتیں (Super Powers) تو اِس معاملے میں تیزی سے آگے بڑھتی چلی جا رہی ہیں لیکن تیسری دنیا کے ممالک پر پابندیاں عائد کر رکھی ہیں- میری رائے میں کسی تفریق کے بغیر ساری دنیا کو اِس بارے میں پابند کرنا چاہئے-
حضور نے فرمایا کہ جرمنی اور جاپان سمیت بہت سے ممالک ایسے ہیں جو جوہری ہتھیاروں کی ٹیکنالوجی میں ترقی یافتہ ہیں لیکن وہ اِس کا اظہار نہیں کرتے جبکہ غریب ممالک دوسرے ممالک کو خوفزدہ کرنے کے لئے اِس علم کو استعمال کر رہے ہیں، اگرچہ انہیں دفاع کا پورا حق حاصل ہے-اسی طرح اس کا تعلق اس بات سے بھی ہے کہ بعض قوموں نے بھی تجارتی برتری حاصل کرنے کے لئے ایک دوسرے کے خلاف تجارتی جنگ شروع کر رکھی ہے-
بھارت کی طرف سے کئے جانے والے ایٹمی دھماکوں کا ذکر کرتے ہوئے حضور انور نے فرمایا کہ اِس خطّے میں اصل جھگڑا کشمیر کا ہے جسے حل کرنے کی کوشش بڑی طاقتیں نہیں کر رہیں- اسی جھگڑے کی وجہ سے دو بڑی جنگیں لڑی گئیں اور اُس موقع پر بڑی طاقتوں نے ہی اپنے ناکارہ ہتھیار پاکستان کو فراہم کرکے بھاری منافع حاصل کیا اور بنیادی طور پر یہ امریکہ ہی ہے جس نے ایسا کیا تھا- اس لئے ان کے کھلے اعلانات پر غور نہ کریں بلکہ ان سرگوشیوں پر غور کریں جو ان ممالک کے ایک طبقے کے ساتھ امریکی حکام کر رہے ہیں- امریکہ کے حکام کی نام نہاد پریشانی یہ ظاہر کر رہی ہے گویا کہ وہ جوہری ہتھیاروں کی جنگ کے خلاف ہیں- لیکن مجھے یقین ہے کہ امریکہ کو اس بارے میں پہلے سے علم تھا اور ان کی خفیہ تنظیمیں جانتی تھیں- اُن کے آلات تو سمندر کی تہہ میں پائی جانے والی مچھلیوں کی حرکات ریکارڈ کر سکتے ہیں-حضور انور نے نیٹو کے بعض سائنسدانوںکے حوالے سے بتایا کہ یہ کہنا کہ امریکہ کو علم نہیں تھا احمقانہ بات ہے یا پھر دھوکہ دہی ہے- کیونکہ جب ایٹمی دھماکہ کرنا تھا تو بڑی بڑی مشینری صحراؤں میں لے جائی گئی تو یہ کیسے ممکن ہے کہ امریکہ کی نظروں سے یہ بات پوشیدہ رہی ہو-
حضور انور نے فرمایا کہ میرے خیال میں اِس شور کا مقصد صرف حکومت پاکستان کو مطمئن کرنا ہے کہ ہم وقت سے پہلے نہیں جان سکے تاکہ اب وہ اپنی مرضی سے پاکستان کو ایٹمی ہتھیار بنانے سے روک سکیں اور پابندیاں عائد کر سکیں- میرا ایک خیال یہ بھی ہے کہ ممکن ہے امریکہ نے پاکستان کے خلاف بھرپور کارروائی کا ارادہ کیا ہو-
اسی طرح بھارت کے سابق وزیر اعظم کا پاکستان کو ایٹمی دھماکہ کرنے کا مشورہ دینا بھی ایک عجیب بات ہے تاکہ یا تو پاکستان بھی جوہری ہتھیار بنانے کی کوشش کرے تو اس پر پابندیاں عائد کی جائیں اور اگر وہ ایسا نہ کرسکے تو پاکستان کو یہ احساس دلا دیا جائے کہ وہ بھارت کی بالادستی قبول کرلے-
٭ مرکز احمدیت کے بارے میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے حضور انور نے فرمایا کہ مرکز پہلے بھارت میں قادیان میں تھا پھر پاکستان میں ربوہ منتقل ہوا اور اب فرینکفرٹ میں ہے یعنی یہ مرکز خلیفۂ وقت ہے- خلیفۂ وقت جہاں بھی ہوگا وہی مرکز ہوگا- یہ ایسے ہی ہے جیسے کہا جائے کہ مشینری کہیں اور ہے اور دماغ یہاں ہے-
٭ آنحضرت ﷺ کی تصویر کشی کے بارے میں ایک سوال پر حضور انور نے فرمایا کہ میرے علم کے مطابق ماضی میں کبھی آنحضورﷺ کی کوئی تصویر دستیاب نہیں ہوئی- ہاں الفاظ کے ذریعہ بعض نے بہت خوبصورت تصویر کشی کی ہے-
ـحضور نے فرمایا کہ تصویر بنانا ناپسندیدہ ہے کیونکہ تصاویر کے ذریعے ہی گزشتہ انبیاء کو خدائی صفات کا مظہر دکھایا گیا اور ان کی عبادت کی طرف لوگوں کو رغبت دلائی گئی-
٭ اس سوال کے جواب میں کہ خدا کا انسان سے ہمکلام ہونے کے بارے میں کیا ثبوت ہے؟ حضور انور نے فرمایا کہ یہ دو طرح سے ہے: اول یہ کہ کوئی چیز میں دیکھ اور سُن رہا ہوں- اور دوسرے یہ کہ وہ باتیں بعد کے زمانہ میں درست ثابت ہو رہی ہیں-
٭ ایک سوال کے جواب میں حضور انور نے فرمایا کہ اگرچہ اسلام اور عیسائیت اس بات پر اتفاق کرتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام بغیر باپ کے پیدا ہوئے لیکن اختلاف یہ ہے کہ عیسائیت میں خدا کی مریم سے شادی کی گئی اور پھر بیٹے کی پیدائش ہوئی-
ایک ضمنی سوال ہوا کہ اگر خدا انسان سے زیادہ قدرت رکھتا ہے تو پھر وہ زمین پر آکر کیوں انسان کی طرح Holy Ghost کا کردار ادا نہیں کر سکتا؟ حضور انور نے فرمایا کہ خدا خالق ہے اور وہ اپنی مخلوق سے وہ انسانی تعلق قائم نہیں کرسکتا جو انسان انسان سے قائم کرتا ہے- پھر یہ بھی کہ عیسائی محققین اور سائنسدانوں کے مطابق بھی ایسا ممکن ہے کہ ایک عورت مرد کے ملاپ کے بغیر لڑکے کو جنم دیدے-
حضور انور نے اپنی کتاب Christianity – A Journey from Facts to Fiction کا ذکر بھی فرمایا اور بتایا کہ اس کتاب میں آپ کو عیسائیت کے بارے میں اٹھائے گئے اکثر سوالات کا جواب مل جائے گا-
٭ اِس سوال کے جواب میں کہ کیا کسی مسلمان کا اپنے ملک کی فوج میں شامل ہوکر مخالف فوج کے مسلمان کو قتل کرنا جائز ہے؟ حضور انور نے فرمایا کہ دنیا میں ممالک کی تقسیم سیاسی وجوہات کی بنیاد پر کی گئی ہے اور اپنے ملک کا دفاع کرنا اس ملک کے ہر شہری کا فرض ہے ورنہ بہت سی پیچیدگیاں جنم لے سکتی ہیں-
حضور انور نے یہ بھی فرمایا کہ جس ملک میں احمدیوں کی حکومت ہوگی وہ سیکولر ہوگا اور حکومت کی بنیاد Absolute Justice پر رکھی جائے گی-
اس مجلسِ سوال و جواب میں چالیس جرمن احباب و خواتین نے شرکت کی-

(باقی آئندہ شمارہ میں)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

مجالس عرفان اور جرمن و عرب مہمانوں کے ساتھ دلچسپ مجالس سوال و جواب،
انفرادی و اجتماعی ملاقاتوں کے ایمان افروز پروگرام

جرمنی کی مرکزی ہومیوپیتھک ڈسپنسری کا معائنہ
۱۶؍مئی ۹۸ء کے روز ناصر باغ میں جرمن احباب کے ساتھ مجلس سوال و جواب کے اختتام پر حضور انور کچھ دیر کیلئے ناصر باغ میں قائم کی جانے والی جرمنی کی مرکزی ہومیوپیتھک ڈسپنسری میں تشریف لے گئے- اس ڈسپنسری کا قیام قریباً ایک سال قبل عمل میں آیا تھا جبکہ اِس وقت ملک بھر میں سولہ سے زائد ذیلی ڈسپنسریاں کام کر رہی ہیں- جرمنی میں ہومیوپیتھک امور کے نگران مکرم رانا سعید احمد صاحب ہیں جن کے ساتھ ان کے معاونین کی ایک ٹیم کام کر رہی ہے- انہوں نے حضور انور کو بتایاکہ صرف ناصر باغ کی ڈسپنسری میں دواؤں کی تعداد گیارہ سو سے زائد ہے اور یہاں سے قریباً پانچ سو مریض ہر ماہ استفادہ کرتے ہیں- حضور انور نے جرمنی میں ہومیوپیتھی کی ٹیم کی کارکردگی پر خوشنودی کا اظہار فرمایا- حضور انور کے دورہ کے دوران مکرم رانا سعید احمد صاحب، عبدالقادر صاحب اور ہارون بابر صاحب اپنی موبائل ڈسپنسری کی مدد سے ہر جگہ مریضوں کو ہومیوپیتھک ادویات فراہم کرتے رہے-
فیملی ملاقاتیں
۱۷؍مئی ۹۸ء کی صبح دس بجے مسجد نور فرینکفرٹ میں فیملی ملاقاتوں کا سلسلہ جاری ہوا جو بعد دوپہر ختم ہوا- اس دوران پینتیس فیملیوں کے ایک صد انچاس افراد نے حضور انور سے ملاقات کا شرف حاصل کیا- بعد ازاں حضور انور نے نماز ظہر و عصر جمع کرکے پڑھائی اور مجلس انصاراللہ جرمنی کے سالانہ اجتماع کے اختتامی اجلاس میں شرکت فرمانے کے لئے Bad Kreuznach تشریف لے گئے-
اجتماع انصاراللہ جرمنی
۱۷؍مئی ۹۸ء کو مجلس انصاراللہ کے اٹھارویں سالانہ اجتماع کے آخری روز حضور انور نے انصار کی ٹیموں کا کبڈی کا میچ ملاحظہ فرمایا اور فٹ بال کی گراؤنڈ میں بھی تشریف لے گئے جہاں فائنل میں پہنچنے والی دونوں ٹیموں کو اول قرار دے دیا- اس کے بعد حضور انور نے مقام اجتماع پر آنے والے بہتّر (۷۲) نومبائعین کو مصافحہ کا شرف عطا فرمایا اور مختلف قومیتوں کے افراد کی خواہش پر ان کے ساتھ کھڑے ہوکر تصاویر بنوائیں-
بعد میں حضور انور نے مارکی میں تشریف لے جاکر اجتماع سے اختتامی خطاب فرمایا جس کا خلاصہ قبل ازیں الفضل انٹرنیشنل میں شائع کیا جاچکا ہے-
گروپوں سے اجتماعی ملاقات اور تعلیم القرآن کے متعلق اہم نصائح
مقام اجتماع سے واپس تشریف لانے کے بعد شام ساڑھے آٹھ بجے حضور انور نے مسجد نور فرینکفرٹ میں دو گروپوں سے علیحدہ علیحدہ اجتماعی ملاقاتیں فرمائیں اور انہیں اہم نصائح سے نوازا- پہلا گروپ بوزنین احمدیوں کا تھا جبکہ دوسرا لجنہ اماء اللہ جرمنی کی مجلس عاملہ کا-
حضور انور نے لجنہ اماء اللہ کی مجلس عاملہ کو قرآن کریم ناظرہ اور اس کا ترجمہ پڑھنے اور پڑھانے کے بارے میں خصوصی ہدایات ارشاد فرمائیں- حضورنے فرمایا کہ مسلم ٹیلی ویژن احمدیہ انٹرنیشنل پر نشر ہونے والی میری کلاسوں کی آڈیو اور وڈیو کیسٹس تیار کرکے ان سے استفادہ کیا جائے اور یہ بھی کہ ترجمہ قرآن سیکھنے کی خواہشمند ہر شاگرد اپنے نوٹس کی کاپی اِس نیت سے تیار کرے کہ وہ کاپی اس کے لئے ساری عمر کام دے گی-
حضور نے فرمایا کہ میں نے ترجمہ قرآن عربی گرامر کے تمام پہلوؤں کو سامنے رکھ کر تیار کیا ہے لیکن جب میں اُن علماء سے سوال کرتا ہوں جو جامعہ میں قرآن پڑھاتے رہے ہیں اور عرب ممالک میں جاکر عربی کی تعلیم حاصل کرتے رہے ہیں تو انہیں بھی اکثر میرے سوال کی سمجھ نہیں آتی-
حضور نے فرمایا کہ قرآن کریم شروع سے آخر تک پڑھنا ضروری ہے- اور جو ترجمہ قرآن سیکھنے کا عہد کرے اسے چاہئے کہ اپنی ساری زندگی کے نوٹس جمع کرنے کیلئے کاپی تیار کرے- بعض کی زندگی گزر جائے گی، بعض کے دس سال لگ جائیں گے تب کچھ حاصل ہوگا لیکن اگر آپ یہ کرلیں تو اگلی نسلوں کو سنبھال سکیں گی- پھر قرآن کا ترجمہ سیکھنے کے لئے دعائیں کریں-
حضور نے فرمایا کہ میں نے بھی ترجمہ سیکھنے کیلئے دعائیں کی ہیں- میری تعلیم القرآن کلاس میری زندگی کا ماحصل ہے- پس ترجمہ قرآن سیکھنے کے لئے اس سے فائدہ اٹھائیں- البتہ ناظرہ آپ پڑھاسکتی ہیں اُس کی کلاسیں شروع کریں-
فیملی ملاقاتیں
۱۸؍مئی ۹۸ء کی صبح دس بجے مسجد نور فرینکفرٹ میں فیملی ملاقاتوں کا پروگرام دوپہر ایک بجے تک جاری رہا- اس دوران انتیس فیملیوں کے ایک صد چوبیس افراد نے حضور انور سے ملاقات کا شرف حاصل کیا- بعد ازاں حضور انور نے نماز ظہر و عصر جمع کرکے پڑھائی-
جرمنوں کے ساتھ مجلس سوال و جواب
۱۸؍مئی ۹۸ء بروز سوموار نیڈا (جرمنی) میں جرمن احباب کے ساتھ ایک کامیاب مجلس سوال و جواب کا انعقاد ہوا جس میں ایک سو ستاسی جرمن احباب و خواتین نے شمولیت کی- حسب پروگرام حضور انور ایدہ اللہ شام چار بجے کے بعد مسجد نور فرینکفرٹ سے نیڈا کے لئے روانہ ہوئے اور قریباً پونے چھ بجے وہاں پہنچے- تقریب کے مقام پر پہنچنے پر بچوں اور بچیوں کے ایک گروپ نے جھنڈیاں لہرا کر اور جرمن زبان میں ایک ترانہ کورس میں پڑھتے ہوئے حضور انور کو خوش آمدید کہا- سوا چھ بجے تقریب کا آغاز تلاوت قرآن کریم اور اس کے جرمن ترجمہ سے ہوا- اس کے بعد Kreis Wetterrau Landrat کے نمائندے نے حضور انور کو خوش آمدید کہتے ہوئے حضور کی وسیع حوصلگی کی تعریف کی اور اپنے صوبے کی جانب سے یادگاری شیلڈ پیش کی- حضور نے بھی انہیں ایک شیلڈ عطا فرمائی- پھر شہر کے میئرکے نمائندے نے حضور انور کو خوش آمدید کہا اور انکے شہر کو اپنی مجلس کے لئے پسند کرنے پر حضور کا شکریہ ادا کیا- پھر یادگاری شیلڈز کا تبادلہ کیاگیا اور اس کے بعد حضور انور نے مہمانوں کے تشریف لانے پر ان کا شکریہ ادا کیا اور سوالات کرنے کی دعوت دی- اس مجلس میں کئے گئے بعض سوالات اور ان کے مختصر جوابات اپنی ذمہ داری پر درج ذیل ہیں:
٭ اس سوال کے جواب میں کہ کیا اسلام تلوار کے زور سے پھیلا ہے، حضور انور نے فرمایا کہ قرآن کریم کی آیت ’’لآ اِکراہ فی الدّین‘‘ طاقت کے استعمال کے ہر پہلو کو ختم کرتی ہے- آنحضرت ﷺ کی زندگی میں طاقت ہمیشہ دشمنوں کی طرف سے استعمال ہوئی- مکّی زندگی میں بھی اور مدنی زندگی میں بھی ہمیشہ دشمنوں کی طرف سے مسلمانوں کے خلاف تلوار اٹھائی گئی لیکن آنحضور ﷺ نے کبھی خود تلوار نہیں اٹھائی حتّٰی کہ فتح مکہ کے وقت بھی نہیں جب آپؐ پر تلوار اٹھانے والا دشمن شکست تسلیم کر چکا تھا- اس لئے اگر آپ تعصب سے بالا ہوکر تاریخ کا مطالعہ کریں تو آپ کو حقیقت معلوم ہو جائے گی –
حضور انور نے فرمایا کہ کونسی تلوار نے اسلام کو انڈونیشیا میں ، ہندوستان میں، بنگلہ دیش اور مشرق بعید میں پہنچایا ہے؟ دراصل یہ اسلام کی سچائی تھی جس نے لوگوں کے دلوں کو فتح کیا- حضور نے فرمایا کہ بعض بنیاد پرست مسلمان اِس مغربی انداز فکر کی تائید میں ہتھیار اپنے ہاتھوں میں اٹھائے ہوئے ہیں لیکن آج بھی مسلمان ممالک کے ہتھیار دراصل مغربی طاقتوں ہی کے عطا کردہ ہیں-
حضور انور نے چین میں اسلام کی تعلیم کے پہنچنے کی مثال پیش کرتے ہوئے فرمایا کہ وہاں تو اسلام آنحضور ﷺ کے زمانے میں ہی پہنچ گیا تھا اور وہاں کسی قسم کی طاقت استعمال نہیں کی گئی-
٭ ایک سوال کے جواب میں حضور نے فرمایا کہ اسلام کے مطابق تمام مذاہب آغاز میں خدا کی طرف سے ہی نازل کئے گئے تھے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ مذہبی لیڈروں کی بددیانتی نے خدا اور عقیدے کا غلط تصور عوام الناس کے ذہنوں میں بٹھا دیا-
٭ مسلمانوں اور عیسائیوں کے مختلف اندازِ معاشرت (کلچر) رکھتے ہوئے بھی یورپ میں اکٹھے رہنے کے بارے میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے حضور انور نے فرمایا کہ اسلام کے نزدیک اگر مملکت سیکولر اور منصف مزاج ہو تو خواہ کتنے ہی مذہبی یا معاشرتی گروپ ہوں، وہ اکٹھے رہ سکتے ہیں- اور دراصل Culture is a growth of civilisation اور اسلام اس بات کے خلاف نہیں ہے- بلکہ اسلام صرف اس کلچر کے خلاف ہے جو غیرمذہبی ہے اور خدا کے خلاف ہے اور یہی انداز فکر عیسائیت کا بھی ہے-
حضور انور نے جرمنی میں بسنے والے احمدیوں کو نصیحت کی کہ وہ اپنے کلچر کو جرمن لوگوں اور ان کے ملک پر Impose نہ کریں کیونکہ یہ ان کے ملک کا کلچر ہے نہ کہ اسلام کا- حضور نے مزید فرمایا کہ بعض لوگ ایسے کلچر سے آئے ہیں جو اچھا نہیں ہے تو انہیں اپنے کلچر کو ختم کرنا چاہئے کیونکہ اچھے کلچر کو اپنے ملک سے یہاں لانا تو ٹھیک ہے لیکن برائیوں کو لانا ٹھیک نہیں-
٭ ایک ملک سے کسی دوسرے ملک میں جاکر بسنے والے لوگوں کی ملک کی دفاعی ذمہ داریوں کے بارے میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے حضور انور نے فرمایا کہ یہ ایک عالمی سطح کا سوال ہے- کسی بھی مملکت میں جب کئی قوموں کے لوگ آکر آباد ہو جائیں (جیسا کہ امریکہ میں ہوا ہے) تو وہ اس ملک کے شہری ہیں اور اسلام میں مملکت کے ہر شہری کو اپنی مملکت کا وفادار ہونا چاہئے اور اس بات کو بھول جانا چاہئے کہ اس کے ملک کے مدّمقابل اس کے ہم مذہب ہیں یا کوئی اور- اس لئے کوئی اپنے ملک کے لئے لڑنے سے یہ کہہ کر انکار نہیں کر سکتا کہ مدّمقابل اس کا ہم مذہب ہے- اگر یورپ کی تاریخ دیکھیں تو جو قومیں آپس میں برسرِ پیکار رہی ہیں وہ عیسائی تھیں لیکن ان کے درمیان یہ سوال کبھی نہیں اٹھا تھا کہ مدّمقابل کا مذہب کیا ہے کیونکہ اُن کا اپنا ضمیر صاف تھا کہ دفاع کا تعلق مملکت سے ہے-
٭ پاکستان میں احمدیوں پر ہونے والے مظالم کے بارے میں سوال کا جواب دیتے ہوئے حضور نے فرمایا کہ جب احمدیوں کو دوسرے مسلمان تکلیف پہنچاتے ہیں تو یہ بات تاریخِ مذاہب کے عین مطابق ہے- ہر مذہب کا جب آغاز ہوتا ہے تو ایسا ہی ہوتا ہے- اور یہ بھی کہ جو قوم خدا کی خاطر دکھ دی جاتی ہے اللہ اس کی مدد کرتا ہے چنانچہ یہی وجہ ہے کہ ان مظالم اور روکاوٹوں کے باوجود ہم آج ہر طرف ترقی کرتے چلے جا رہے ہیں-
٭ اس سوال کے جواب میں کہ کیا جماعت احمدیہ کا ماٹو ’’محبت سب کے لئے ، نفرت کسی سے نہیں‘‘ ایک تصوراتی بات نہیں ہے؟ حضور انور نے فرمایا کہ نہیں- کیونکہ ہم جہاں بھی گئے ہیں محبت لے کر گئے ہیں اور محبت کے ساتھ پھیلے ہیں- اور اگر ہم نفرت پھیلانے والے ہوں گے تو یہ بات ہمارے خلاف کام کرے گی- اگر ہم جرمنی میں آئے ہیں تو محبت کے ساتھ آئے ہیں- اگر نفرت کے ساتھ آتے تو زیادہ نفرت جواب میں ملتی- چنانچہ دنیا کے کئی ایسے حصوں میں جہاں احمدیوں کی اکثریت ہے وہاں بھی کبھی غیراحمدیوں کو نفرت کی نگاہ سے نہیں دیکھا گیا-
٭ اسلامی پردے پر ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے حضور انور نے فرمایا کہ عورتیں جب پردہ اتار دیتی ہیں تو پھر Cosmetics استعمال کرتی ہیں اور اس کا مقصد صرف یہ ہوتا ہے کہ مردوں کو متوجہ کیا جائے- حالانکہ اگر وہ صرف خاوندوں کے لئے ایسا کرتی ہیں تو پھر اپنا بناؤسنگھار وہ گھروں میں ہی کر سکتی ہیں- لیکن وہ تو بازار جاتے ہوئے سنور کر نکلتی ہیں- جبکہ مرد ایسا نہیں کرتے… اور یہ ایک قدرتی بات ہے کہ جب عورتیں بن سنور کر باہر نکلتی ہیں تو معاشرہ خراب ہونے لگتا ہے- … پھر ایڈز کا مسئلہ بھی اسی وجہ سے ہے اور آپ کسی ایک مسئلے کو دوسرے سے علیحدہ نہیں کرسکتے-
حضور نے فرمایا کہ مردوں کو بھی حکم ہے کہ وہ اپنی نظروں کی حفاظت کریں- یہ مساوات ہے مردوں اور عورتوں میں- اگر مرد ایسا نہیں کریں گے تو خدا کی نظر میں قابل سزا ٹھہریں گے- یہ ایک عمومی جواب ہے- لیکن اب میں خاص طور پر پردے کے بارے میں کچھ بیان کرتا ہوں-
حضور نے فرمایا کہ یہ پردہ جو آپ کے خیال میں اسلامی پردہ ہے ، وہ اسلامی پردہ نہیں ہے- عورتوں کو تمام صحتمندانہ معاشرتی سرگرمیوں میں حصہ لینے کی اجازت ہے- حتیّٰ کہ اسلامی جنگوں میں مسلم خواتین بغیر کسی پردے کے شامل ہوئیں- آج بھی احمدی عورتیں ڈاکٹر، نرس اور پروفیسر ہیں اور وہ اپنی ڈیوٹی کے دوران پردہ نہیں کر سکتیں- اسلام اس چیز سے منع نہیں کرتا بلکہ اسلام یہ کہتا ہے کہ خود کو باوقار طور پر ملبوس رکھو تاکہ مردوں کی بدنظری سے محفوظ رہ سکو-
حضور نے مزید فرمایا کہ اسلام سر ڈھانکنے کو پسند کرتا ہے اور یہی بات آپ کو ابتدائی عیسائیت میں بھی نظر آئے گی- اس زمانے کی تصاویر دیکھیں- یہ اس لئے ہے کیونکہ عورت کے بال اس کے حسن کا حصہ ہیں اور یہ بات پسندیدہ ہے کہ انہیں پردے میں رکھا جائے-
٭ غیرشادی شدہ عورتوں کے علیحدہ آزاد رہنے کے بارے میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اسلام اس کو پسند نہیں کرتا- جو عورتیں اپنی عمر کو پہنچ جاتی ہیں انہیں شادی کر لینی چاہئے کیونکہ جب تک ان کے پاس حسن ہوتا ہے وہ مختلف مردوں کے ساتھ Dating کرتی رہتی ہیں اور جب یہ حسن ختم ہو جاتا ہے تو مرد اُن سے نظریں چرا لیتے ہیں- لیکن دراصل اس بات کو اسلام کی نگاہ سے یوں دیکھیں کہ وہ مرد جو کسی عورت کو پسند کرے اس کو کہا گیا ہے کہ وہ اس عورت سے شادی کرلے لیکن آزادی کی راہ کو اسلام نے پسند نہیں کیا-
حضور نے فرمایا کہ یہ بھی اہم بات ہے کہ جس معاشرے میں بھی ایسی آزادی ہوگی اس کا فائدہ صرف مردوں کو ہی پہنچتا ہے، عورتوں کو نہیں- وہ آپ کو آزادی دیتے ہیں کیونکہ وہ آپکی آزادی سے لطف اندوز ہوتے ہیں- … شادی کے ٹوٹنے کی ایک وجہ وفاداری میں کمی بھی ہے- میرے تجربہ میں ایسے شادی شدہ جوڑے ہیں جو خوش باش زندگی بسر کر رہے ہیں اور ایک دوسرے سے وفادار ہیں اور یہ چیز عمر کے ساتھ ساتھ بڑھ رہی ہے-لیکن جو لوگ بدکرداری میں پڑ جاتے ہیں وہ کچھ عرصے بعد ہی وفاداری سے کنارہ کش ہو جاتے ہیں- آپ اپنے معاشرے میں ہی دیکھ لیں کہ جو لوگ شادی سے پہلے کسی اور سے تعلقات قائم نہیں کرتے وہ خوشگوار ترین زندگیوں سے لطف اندوز ہو رہے ہیں-
٭ پاکستان میں لاگو توہین مذہب کے قانون میں سزائے موت دیئے جانے کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں حضور نے فرمایا کہ اسلام کسی زبانی جرم کی بدنی سزا نہیں دیتا- اسلام کہتا ہے کہ ہر جرم کا بدلہ برابر ہوگا لیکن اگر تم معاف کردو یہ بات بہت بہتر ہے-
حضور نے فرمایا کہ قرآن کریم اور آنحضور ﷺ کی زندگی سے ثابت ہے کہ کسی بدزبان کو سزا نہیں دی گئی- آپؐ کی زندگی میں آپؐ کو انتہائی بدزبانی سے دُکھ دیا گیا -کیا آج کا مُلاّ آنحضورﷺ سے بھی زیادہ قرآن کو سمجھتا ہے؟ نہیں، بلکہ یہ اس کی اپنی اختراع ہے-
٭ خدا پر ایمان لانا کیوں ضروری ہے؟ حضور انور نے فرمایا کہ خدا پر ایمان لانا اسی طرح ضروری ہے جس طرح ہم حقائق پر یقین رکھتے ہیں- اگر حقائق خدا کی طرف راہنمائی کریں تو ہمیں بھی خدا کو مان لینا چاہئے-
حضور نے فرمایا کہ آنکھ کے نظام کو دیکھئے- کوئی انسانی کیمرہ اس کا متبادل نہیں ہو سکتا- یہ محض ایک مثال ہے اور اسی طرح کی کروڑوں مثالیں ہیں- پس آپ کیوں خالق کے اس ہاتھ کو نہیں دیکھتے جو مخلوق کے ذریعہ ہمیں نظر آ رہا ہے- یہ سوال بہت وسیع جواب چاہتا ہے – اس کے بعد حضور انور نے اپنی تازہ کتاب Revelation, Rationality, Knowledge and Truth کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ اس کتاب میں ایسے زاویوں سے اس سوال کا جواب دیا گیا ہے کہ کوئی دہریہ، خواہ ایمان لائے یا نہ لائے، ان شواہد کا انکار نہیں کر سکتا- اور وہ شواہد ایسے ہیں جو غیرمسلم دنیا نے اکٹھے کئے ہیں- … اسکے بعدحضور انور نے مکرم ہدایت اللہ ہیوبش صاحب کو کہا کہ اس کتاب کا جلد جرمن ترجمہ کرنے کیلئے سکالرز کا ایک گروپ تیار کریں لیکن چونکہ اس کام میں ابھی دیر لگے گی اسلئے جو جرمن انگریزی جانتے ہیں وہ براہ راست اس کتاب سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں-
٭ ساٹھ کی دہائی میں جرمن سکولوں میں مخلوط تعلیم کا آغاز کیا گیا تھا لیکن اب دوبارہ لڑکوں اور لڑکیوں کے علیحدہ تعلیمی اداروں کا رجحان ہو رہا ہے- اس بارے میں حضور انور نے اپنی رائے یوں بیان فرمائی کہ میں یقین رکھتا ہوں کہ یہ طریق تعلیم کے فروغ کے لئے نہایت عمدہ ہے اور بہت سے مسائل جو مخلوط تعلیم کی وجہ سے کلاس کے اندر اور باہر پیدا ہوتے ہیں وہ ختم ہو سکتے ہیں- اکٹھے بیٹھ کر تعلیم حاصل کرنے کی صورت میں پڑھائی کی بجائے ایک دوسرے میں دلچسپی پیدا ہوتی ہے اور بہت سے معاشرتی مسائل جنم لیتے ہیں-
٭ مختلف مذاہب کے ماننے والوں کے درمیان محبت کی شادی کے بارے میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے حضور انور نے فرمایا کہ اسلام میں Arranged Marriages اس طرح نہیں ہیں جس طرح مغرب نے پیش کی ہیں- بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ صرف لڑکی کو تنہا رہ کر اپنا خاوند چننے کی اجازت نہیں ہے بلکہ اس معاملہ میں والدین بھی شامل ہوں گے- کیونکہ بہت سے مرد جس طرح اپنے آپ کو پیش کرتے ہیں ، دراصل وہ اُس طرح نہیں ہوتے- وہ دھوکہ دیتے ہیں- بعض لڑکیاں بھی جس طرح خود کو پیش کرتی ہیں وہ بھی اُس طرح نہیں ہوتیں- چنانچہ والدین تھرڈ پارٹی ہیں- اگر تو والدین اپنی لڑکی کا انتخاب مان لیں یا والدین کا انتخاب لڑکی مان لے تو پھر تو کوئی مسئلہ ہی پیدا نہیں ہوتا- لیکن اگر اختلاف ہو جائے تو لڑکی کو بالا اتھارٹیز Higher Authorities تک جانے کی اجازت دی گئی ہے- کئی بار احمدی لڑکیاں بھی مجھے خط لکھتی ہیں اور جب بھی تحقیق کی گئی ہے اکثر معاملہ فوراً حل ہو جاتا ہے- کبھی کبھی آخـری فیصلہ مجھ پر بھی چھوڑ دیا جاتا ہے-
٭ ایک دلچسپ سوال میں حضور انور سے دریافت کیا گیا کہ آپ نے یہ حکمت و دانائی کہاں سے لی ہے کیونکہ اس سے پہلے ہم نے اس طرح جواب دیتے ہوئے کسی کو نہیں دیکھا – حضور انور نے سوال کرنے والے کا شکریہ ادا کرتے ہوئے فرمایا کہ حکمت اور چالاکی دو علیحدہ علیحدہ چیزیں ہیں- غیرمتعصّب اور دیانتدار ہونا حقیقت پسند ہونے کا متقاضی ہے-
٭ احمدیت کو قائم کرنے کا کیا جواز ہے؟ حضور انور نے فرمایا کہ یہ تو اللہ تعالیٰ کو ہی معلوم ہے کیونکہ اسی نے اس کی بنیاد رکھی ہے، کسی دوسرے نے نہیں رکھی- اگر ہم سچے ہیں تو ہماری حکمت آپ کو دوسروںکے مقابل پر نمایاں نظر آئے گی اور اگر آپ دیانتداری اور معقولیت کے ساتھ فیصلہ کریں گے تو ہمیشہ یہ فیصلہ احمدیت کے حق میں ہی ہوگا اور دراصل احمدیت اسلام ہی ہے-
٭ جماعت احمدیہ کے مالی نظام کے بارے میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے حضور انور نے فرمایا کہ ہماری آمد کا راز دو باتوں میں ہے- ایک تو یہ کہ ہر احمدی اپنی آمد کا مخصوص حصہ جماعت کے لئے پیش کرتا ہے- اور جرمنی کی جماعت اپنے فنڈز پر کنٹرول رکھتی ہے جسے حکومت آڈٹ کرواتی ہے اس لئے فراڈ کا کوئی شائبہ نہیں ہو سکتا-
دوسرے یہ کہ ہزاروں احمدی بغیر کسی معاوضہ کے جماعت کے لئے رضاکارانہ خدمات انجام دے رہے ہیں-چونکہ وہ خاموش خدمت بجا لا رہے ہیں- اسلئے دوسروں کو اس کا علم ہی نہیں ہوتا-
اس کے ساتھ ہی یہ کامیاب مجلس سوال و جواب بخیر و خوبی اختتام پذیر ہوئی-
(باقی آئندہ شمارہ میں)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

فیملی ملاقاتیں
۱۹؍مئی ۹۸ء کی صبح دس بجے مسجد نور فرینکفرٹ میں فیملی ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہوا جو بعد دوپہر تک جاری رہا- اس دوران چالیس فیملیوں کے ایک صد ستانوے افراد نے حضور انور سے ملاقات کا شرف حاصل کیا- سہ پہر چار بجے حضور انور نے نماز ظہر و عصر جمع کرکے پڑھائیں اور دو تبلیغی نشستوں کے لئے Immenhausen تشریف لے گئے-

عربوں کے ساتھ مجلس سوال و جواب
۱۹؍مئی ۹۸ء کو Immenhausen میں عرب دوستوں کے ساتھ ایک بھرپور مجلس سوال و جواب کا انعقاد ہوا جس میں ایک سو چالیس سے زائد عرب احباب شریک ہوئے اور تقریباً دو گھنٹے تک نہایت دلچسپی سے پروگرام کو سنا- جب تقریب کا وقت ختم ہوا تو بھی بہت سے سوالات کے جوابات دینا ابھی باقی تھے اس لئے حضور انور نے اعلان فرمایا کہ وہ تمام سوالات جن کے جوابات یہاں نہیں دیئے جاسکے اُن کے جوابات انشاء اللہ مسلم ٹیلی ویژن احمدیہ انٹرنیشنل کے پروگرام لقاء مع العرب میں دیئے جائیں گے اور سوال کرنے والوں کو اس پروگرام کی ویڈیو ٹیپ بھجوائی جائے گی- چنانچہ بہت سے عرب دوستوں نے اپنے سوالات کے ساتھ پتہ جات بھی لکھوائے- اس مجلس میں جن سوالات کے جوابات حضور انور نے عطا فرمائے اُن میں سے بعض کا خلاصہ اپنی ذمہ داری پر ہدیہ قارئین ہے-
٭ اس سوال کے جواب میں کہ باقی علماء احمدیوں کی تکفیر کیوں کرتے ہیںحضور انور نے سائل سے دریافت فرمایا کہ کیا وہ علماء گزشتہ تیرہ سو سال سے ایک دوسرے کی تکفیر نہیں کر رہے؟- اگر جواب ہاں میں ہے تو پھر تو یہ سوال بہت پہلے اٹھنا چاہئے تھا کہ جب سب مسلمان قرآن و سنت کے قائل ہیں تو پھر کیوں ایک دوسرے کی تکفیر کرتے رہے ہیں- تاریخ بتا رہی ہے کہ یہ جھوٹے ہیں ورنہ ناممکن تھا کہ ایک دوسرے کی تکفیر کرتے- جھوٹے کا لفظ ممکن ہے بعض لوگوں کو برا لگے لیکن آپ بھی اسی نتیجے پر پہنچیں گے کہ پہلی صدی میں سچے کی علامت یہ تھی کہ وہ تکفیر نہیں کرتے تھے-
حضور انور نے فرمایا کہ آج جماعت کے خلاف یہ سارے علماء اکٹھے ہوگئے ہیں جو پہلے کبھی اکٹھے نہیں ہوئے تھے- یعنی ’’الکفر ملّۃ وّاحدۃ‘‘- یہ تاریخ اسی وقت دہرائی جاتی ہے جب اللہ تعالیٰ کسی کو بھیجتا ہے- چنانچہ حضرت مسیح ناصری علیہ السلام کے وقت میں بھی وہ یہود جو ایک دوسرے کی جان کے دشمن تھے وہ سب اجتماعی طور پر حضرت مسیحؑ کے خلاف متحد ہوگئے-
٭ ایک ضمنی سوال تھا کہ احمدیوں کا دوسرے مسلمانوں سے عقائد کا اختلاف ہے یا عمل کا؟
حضور انور نے فرمایا اختلاف دونو قسم کے ہوتے ہیں- ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ رسول اللہ کے زمانہ میں چلے جاؤ اور اُس زمانہ کے قرآن کو پکڑ لو اور بعد کے زمانہ کے فرق کو بھول جاؤ- اگر ہم ایسا کریں تو سوائے ان ابتدائی باتوں کے باقی ہر معاملہ میں اختلاف ہو جائے گا جن پر بعد کے علماء کی سنت پر عمل کیا جا رہا ہے- یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے پیشگوئی فرمائی تھی کہ مسیح حَکم اور عدل بن کر آئے گا، وہ اللہ کی راہنمائی سے فیصلے کرے گا اس لئے اس کا فیصلہ قبول کرنا لازم ہوگا-
٭ جماعت احمدیہ اور دیگر مسلمان فرقوں میں فرق کی وضاحت کرتے ہوئے حضور انور نے فرمایا کہ پہلی بات تو یہ ہے کہ ہم حضرت محمد رسول اللہﷺ کو اور آپؐ کے خلفائے راشدین اور پہلی صدی کے مسلمانوں کو حق پر سمجھتے ہیں اور ہر اختلاف جو بعد میں آیا اسے غلط سمجھتے ہیں-
دوسرے یہ کہ حضرت رسول اللہﷺ نے مسیح کی آمد کی جو پیشگوئی فرمائی تھی جس کے بارے میں ارشاد تھا کہ وہ امّت محمدیہ کے اختلافات کا فیصلہ کرے گا- دوسرے علماء کہتے ہیں وہ نازل نہیں ہوا- ہم کہتے ہیں کہ انہیں نازل ہوئے ہوئے ایک سو سال ہو چکے ہیں- یوں ہمارے اختلاف تو دور ہوگئے کیونکہ ہر فرقے سے لوگ ٹولیوں کی صورت میں ہمارے ساتھ شامل ہو رہے ہیں اور جب شامل ہوتے ہیں تو پھر ایک ہو جاتے ہیں-
٭ احمدیہ عقائد کی اسلامی ممالک میں قبولیت کے بارے میں ایک سوال کا جواب ارشاد فرماتے ہوئے حضور نے بیان کیا کہ غیراحمدیوں کوجماعت کا علم ہے کیونکہ وہ جماعت کے خلاف فتویٰ دے رہے ہیں لیکن انہیں حقیقت کا علم نہیں اور ہمیں بھی اجازت نہیں دیتے کہ ہم حقیقت بیان کریں- چنانچہ ان سب جگہوں پر جہاں جماعت کی دشمنی ہے اگر حکومت کو علم ہو جائے کہ کسی کے پاس لٹریچر ہے یا کوئی ایم-ٹی-اے دیکھتا ہے تو اسے سزا ملے گی- اس لئے جماعت اصحاب کہف کی طرح چھپ چھپ کر پھیل رہی ہے اور اس صورتحال کی ذمہ داری علماء پر عائد ہوتی ہے-
حضور انور نے فرمایا کہ ہمارا تجربہ ہے کہ جب لوگ ہم سے مل کر واپس جاتے ہیں تو علماء ان کے گھروں کے دروازے کھٹکھٹاتے ہیں کہ کہاں گئے تھے … اگر کوئی عیسائی ہو جائے ، دہریہ ہو جائے تو کوئی بھی پرواہ نہیں کرے گا لیکن علماء کو یہ پسند نہیں کہ کوئی احمدیت قبول کرلے- اسی طرح جیسے مشرکین مکہ کسی بھی گناہ سے منع نہیں کرتے تھے لیکن اگر کوئی اسلام قبول کر لیتا تھا تو اسے سزائیں دیتے تھے- … اگر آپ تدبّر کریں تو یہی دلیل احمدیت کے حق میں کافی ہونی چاہئے-
٭ اس سوال کے جواب میں کہ کیوں شیعہ کو بطور مسلمان قبول کرکے حج اور عمرہ پر جانے دیا جاتا ہے لیکن احمدیوں کو عرب ممالک میں داخل بھی نہیں ہونے دیتے؟ حضور انور نے فرمایا کہ یہ بات تو اُن عرب ممالک سے پوچھیں!
حضور نے مزید فرمایا کہ سعودی حکومت شیعوں کے خلاف ہے اور اُن کے بارے میں مشرک اور پکے کافر ہونے کے فتوے موجود ہیں لیکن چونکہ وہ ایک مضبوط حکومت سے تعلق رکھتے ہیں اس لئے سعودی ڈر جاتے ہیں- ہمارا عقیدہ ہے کہ جو بھی خدائے واحد کی پرستش کرنا چاہتا ہے اسے وہاں جانے سے کوئی نہیں روک سکتا- اگر کوئی ایسا کرتا ہے تو وہ خدائی اپنے ہاتھ میں لیتا ہے- تاہم بہت سے احمدی عرب ممالک میں جاتے ہیں-
حضور نے فرمایا کہ عربوں کے شہزادے امریکہ جاکر ہر برائی کرتے ہیں اور ان کے محلات میں شرابیں چلتی ہیں، سونے اور زر و جواہر سے ان کے محل مرصّع ہیں حالانکہ اللہ نے ان سے منع فرمایا ہے- اور جب وہ جماعت احمدیہ کے خلاف کام کرتے ہیں تو صرف اس لئے کہ عام مسلمانوں پر اپنی سرداری ثابت کرسکیں-
حضور نے فرمایا کہ شیعہ عقیدہ کے مطابق حضرت ابو بکرؓ، عمرؓ، عثمانؓ تینوں امرائے منافقین تھے اور جنہوں نے ان کی بیعت کی وہ پکے منافق تھے- (نعوذ باللہ من ذٰلک)- اب سعودی حکومت کے نزدیک ان شیعوں کے دین کا کیا حال ہے جب وہ ان کو اجازت دیتے ہیں کہ خانہ کعبہ میں آئیں اور آکر ان خلفائے راشدین پر تبرّا کریں- سعودیوں کو ان کا تبرّا منظور ہے اور ہمارا درود و سلام منظور نہیں- یہیں ان کا جھوٹ طشت از بام ہو جاتا ہے-
٭ ایک اور سوال کا جواب دیتے ہوئے حضور انور نے فرمایا کہ جماعت احمدیہ کا عقیدہ ہے کہ حج اسی طرح فرض ہے جس طرح باقی فرائض یعنی کلمہ ، نماز، روزہ اور زکوٰۃ فرض ہیں- لیکن حج کا فریضہ اس بات کے ساتھ مشروط ہے کہ راستہ صاف اور پُرامن ہونا چاہئے- اگر دشمن روکے تو حج کے لئے جانا ضروری نہیںبلکہ رُکنا ضروری ہے- چنانچہ صلح حدیبیہ کے وقت سارے مسلمان اصرار کر رہے تھے کہ ہم خون بہا دیں گے لیکن حج ضرور کریں گے لیکن رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہرگز نہیں، راستہ میں امن نہیں اور خدا کہتا ہے کہ امن کے بغیر داخل نہیں ہونا- پس ہم بھی حج کو فرض سمجھنے کے باوجود خدا کے اس حکم پر بحیثیت جماعت عمل کرنے سے عاجز ہیں- لیکن بہت سے احمدی مخفی طور پر یا سعودیوں کی دعوت پر وہاں جاتے اور حج کرتے ہیں- لیکن قانونی طور پر سعودی عرب اس راہ میں حائل ہے جس کا انہیں کوئی حق نہیں ہے-
٭ اسلام کے خلاف ہونے والی عالمی سطح کی سازشوں کے بارے میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے
حضور ایدہ اللہ نے فرمایا کہ جماعت احمدیہ ساری دنیا میں اسلام کے خلاف ہونے والی سازشوں کا جواب دے رہی ہے اور مسلم ٹیلی ویژن احمدیہ انٹرنیشنل اس کیلئے وقف ہے اور ہر زبان میں ہمارا لٹریچر بھی اس پر گواہ ہے – لیکن سارے عالَم عرب کو دیکھیں کہ وہ اس جماعت پر حملہ کرتے ہیں جو دشمنِ اسلام پر حملہ کر رہی ہے- ہمارا رُخ اُس طرف ہے اور یہ ہماری پیٹھ پیچھے ہمارے خلاف حملے کر رہے ہیں-
حضور نے فرمایا کہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ہونے والی سازشوں کو ہم کھول کھول کربے نقاب کرتے ہیں خواہ وہ امریکہ میں طے پائیں یا کہیں اور- مثلاً خلیج کی جنگ کے بارے میں میری کتاب اٹھا کر دیکھیں- یہ توفیق سعودی عرب یا اُن عربوں کو نہیں ملی جو دشمن کے ساتھ عراق کے خلاف حملے میں شامل ہو گئے تھے- پس ہمیں ہی یہ توفیق ملتی ہے- … عراق کے خلاف دس مسلمان ممالک جن میں مصر اور پاکستان بھی شامل تھے ، ان سب کو اکٹھا کرنے میں سعودی عرب ہی سردار تھا اور اس کی وجہ سے امریکہ نے کئی عیسائی ممالک کو اکٹھا کرنے کی جرأت کی- چنانچہ جتنے لوگ اس کے بعد وہاں مرے اور جتنی تکالیف وہاں کے عوام نے اٹھائیں ان کی ذمہ داری ان مسلمان ممالک پر عائد ہوتی ہے-
حضور انور نے فرمایا کہ صدام حسین سے مجھے اختلاف ہے لیکن (تکالیف کا سامنا کرنے والے وہ) معصوم مسلمان جن کا کوئی قصور نہیں ہے، ان کے حق میں آواز اٹھانے والی صرف جماعت احمدیہ ہے اور ہم اُس نقصان کی بھی پرواہ نہیں کرتے جو یہ لوگ ہمیں پہنچاتے ہیں کیونکہ یہ رسول اللہ ﷺ کی طرف منسوب ہونے والے لوگ ہیں-
٭ فلسطین کے معاملہ میں جماعت احمدیہ کے کردار پر روشنی ڈالتے ہوئے حضور انور ایدہ اللہ نے فرمایا کہ جس طرح عالم اسلام کو میں ہمیشہ متنبہ کرتا رہا ہوں اسی طرح اہل فلسطین کو بھی صحیح راستہ کی طرف راہنمائی کرتا رہا ہوں لیکن وہ میری بات نہیں مانتے کیونکہ وہ مجھے کافر سمجھتے ہیں حالانکہ اگر میں حکمت کی بات کہتا ہوں تو پھر انہیں میری بات مان لینی چاہئے- اگر وہ اُن باتوں پر عمل کرتے تو آج اسرائیل کو اتنا پھیلنے کا موقع نہ ملتا- یہ تو اس وقت لڑتے ہیں جب ہاتھ میں تلوار بھی نہیں ہے- سارا مغرب اسرائیل کے پیچھے ہے چنانچہ ہر جنگ میں یہ اپنا کچھ علاقہ اسرائیل کو دے دیتے ہیں-
حضور انور نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ الارض (فلسطین) کے وارث میرے صالح بندے بنیں گے- اس کا مطلب یہ ہے کہ فلسطینی عبادالصالحین نہیں رہے- پس یہ سزا ہے کہ انہوں نے اسلام کی قدروں کی پرواہ نہیں کی- … میں یقین رکھتا ہوں کہ اگر ہم دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو عقل اور رضاکی راہ پر چلائے اور ہم عبادالصالحین ہو جائیں تو یقینا اللہ تعالیٰ فلسطین کو یہود کے قبضہ سے آزاد کروا دے گا-
حضور نے فرمایا کہ دوسری بات جو ضروری ہے اور جسے سارے مسلمان بھول گئے ہیں یہ ہے کہ فلسطین میں اسرائیلی حکومت انہی فلسطینیوں کی وجہ سے قائم ہوئی ہے کیونکہ یہود کے پاس زمین نہیں تھی اس لئے ان کی ریاست کو کسی کے تسلیم کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا- اُس وقت میرے مرحوم والد نے متنبہ کیا تھا کہ فلسطینی روپے کے لالچ میں زمین یہود کو نہ بیچیں- اگر فلسطینی مان جاتے تو آج اس مصیبت کا مونہہ نہ دیکھتے –
٭ اس سوال کے جواب میں کہ احمدیت کا آغاز کیسے ہوا؟ حضور انور نے فرمایا کہ احمدیت خود نہیں آئی بلکہ اللہ تعالیٰ نے اسے اسلام کی زندگی کی خاطر خود بھیجا ہے اور یہ سب کچھ آنحضرت ﷺ کی پیشگوئیوں کے مطابق عمل میں آیا ہے-
٭ ایک سوال کے جواب میں حضور انور نے پاکستان سے اپنی ہجرت کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا کہ
رسول اللہ ﷺ بھی مکہ چھوڑ کر مدینہ چلے گئے تھے کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ امن کی طرف جاؤ- مجھے بھی انگلستان میں امن نصیب ہے اور باوجود اِس کے کہ میں اُن کے مذہب اور سیاست کی مخالفت کرتا ہوں، ان میں اتنا انصاف ہے کہ اُن کے قانون کے تابع رہنے والی پُر امن جماعت کو امن مہیا کرتے ہیں-
حضور انور نے فرمایا کہ آنحضرتﷺ اور آپؐ سے پہلے بھی کئی انبیاء نے ہجرت کی- میری ہجرت بھی رسول اللہ ﷺ کی غلامی کی وجہ سے اور آپؐ کی متابعت میں ہجرت ہے کیونکہ پوری کوشش کرنے کے باوجود بھی جب فائدہ نہ ہو اور حالات بہتر نہ ہوسکیں تو ہجرت کی اجازت ہوتی ہے-
ایک ضمنی سوال کے جواب میں حضور انور نے فرمایا کہ کیا میں لندن کی بجائے لیبیا جاتا جہاں قذافی نے اپنے ہموطنوں پر اتنے مظالم کئے ہیں کہ اُن کے بولنے کا حق بھی چھین لیا ہے … پاکستان میں بھی اگر آپ احمدی ہیں تو لآ اِلٰہَ اِلااللہ محمّد رّسولُ اللہ نہیں پڑھ سکتے- میں مسلمان ہوں اور میں اسے کیسے چھوڑ سکتا ہوں- اور یہی وجہ تھی کہ محمد رسول اللہ ﷺ نے مکہ سے ہجرت کی تھی-
٭ دجال کے بارے میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے حضور انور نے فرمایا کہ تمام مغربی طاقتیں جو اسلام کے ساتھ فریب کر رہی ہیں اور دھوکہ دے رہی ہیں وہ ’’دجال‘‘ ہیں- حضور نے فرمایا کہ میں اِن کے ملک میں بیٹھ کر انہیں دجال کہتا ہوں- ان کی خوبی یہ ہے کہ ان کے قوانین کی مخالفت نہ کرو تو یہ برداشت کرتے ہیں- ان مغربی ممالک کی ایک آنکھ روشن اور دوسری آنحضور ﷺ کی پیشگوئی کے مطابق اندھی ہے-
حضور نے مزید فرمایا کہ پادری بھی دجال ہیں جنہوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا حلیہ بگاڑ دیا ہے- وہ خود کو حضرت عیسیٰؑ کا نمائندہ کہتے ہیں اور دجل سے کام لیتے ہوئے عیسیٰؑ کو خدا بنا دیتے ہیں-
٭ ایک سوال کے جواب میں حضور نے فرمایا کہ شیعہ عقائد امام مہدی کے بارے میں اس لئے غلط ہیں کہ امام کے بارے میں اُن کے دعوے مختلف ہیں اور یہ جھوٹے دعوے بلاثبوت ہیں جنہیں کسی حدیث سے پیش نہیں کیا جاسکتا حتّٰی کہ شیعہ احادیث میں بھی یہ باتیں نہیں ہیں-
٭ ایک اور سوال کے جواب میں حضور نے فرمایا کہ نماز ہم عربی میں پڑھتے ہیں کیونکہ محمد رسول اللہ ﷺؓ نے عربی میں نماز پڑھی اور قرآن عربی میں ہے- قرآن اسلئے عربی میں نازل ہوا کیونکہ عربی ’’ام الالسنۃ‘‘ ہے-
٭ ایک اور سوال کے جواب میں حضور انور ایدہ اللہ نے فرمایا کہ جنّ و انس سے مراد دنیا کے بڑے لوگ اور عامّۃالناس ہیں- اور یہ پیشگوئی تھی کہ دنیا دو حصوں میں بٹ جائے گی- اس کا ثبوت یہ ہے کہ جنّوں کے بارے میں آتا ہے کہ اچھے جنّ اور برے جنّ- لیکن جنت میں کوئی جنّ نظر نہیں آتا اور یوم حشر میں جنّوں سے سوالات بھی نہیں ہوتے- اس لئے جنّ و انس انسانوں میں سے ہی ہیں اور جنّوں کے بارے میں عوامی تصور غلط ہے-
مجلس سوال و جواب کے اختتام پر حضور انور بیت الظفر Immenhausen تشریف لے آئے جو ریجن Hessen-Thuringen کا مرکز بھی ہے- یہاں حضور نماز مغرب و عشاء کی ادائیگی کے بعد چند منٹ احباب کے درمیان رونق افروز رہے اور بعض امور دریافت فرماتے ہوئے ہدایات سے نوازا- رات کو حضور انور نے مسجد سے ملحقہ مربی ہاؤس میں قیام فرمایا-
(باقی آئند ہ شمار ے میں)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

فیملی ملاقاتیں
۲۰؍مئی ۹۸ء کی صبح دس بجے مسجد بیت الظفر Immenhausen میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ فیملی ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہوا جو بعد دوپہر تک جاری رہا- اس دوران قریباً چالیس فیملیوں کے قریباً ڈیڑھ صد افراد نے حضور انور سے ملاقات کا شرف حاصل کیا- شام سوا چھ بجے اسی علاقہ میں جرمن احباب کے ساتھ ایک مجلس سوا ل و جواب کا پروگرام تھا-

جرمن احباب کے ساتھ مجلس سوال و جواب
۲۰؍مئی ۹۸ء کو Immenhausen میں جرمن احباب کے ساتھ ایک کامیاب مجلس سوال و جواب کا انعقاد ہوا جس میں کثیر تعداد میں جرمن تشریف لائے ہوئے تھے- علاقہ کے میئر نے بھی اس تقریب میں شرکت کی اور تقریب کے اختتام پرحضور انور کا اُن کے شہر میں تشریف لانے پر شکریہ ادا کیا-اس مجلس میں کئے گئے بعض سوالات کے جوابات اپنی ذمہ داری پر ہدیہ قارئین ہیں:
٭ اسلام میں عورت کے حقوق کے بارے میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ آنحضرت ﷺ کی بعثت سے قبل عورت کے حقوق کا کوئی تصور موجود نہیں تھا اور وہ خود جائیداد متصور ہوتی تھی- حتّٰی کہ عیسائی مما لک میں، جن میں جرمنی بھی شامل ہے، گزشتہ صدی تک بھی یہی کیفیت رہی ہے- آنحضورﷺ وہ پہلے نبی ہیں جنہوں نے عورت کو جائیداد سمجھنے کی بجائے جائیداد کا مالک بنادیا اور مرد اور عورت کو ہر لحاظ سے مساوی درجہ دیا- اگرچہ قرآنی تعلیمات بھی اسی اللہ کی طرف سے نازل کی گئی ہیں جس کی طرف سے دیگر انبیاء پر بھی تعلیمات اتاری گئی ہیں لیکن اسلام نے عورتوں کے بارے میں جو پُرشفقت تعلیم پیش کی ہے وہ کسی اور مذہب نے پیش نہیں کی-
٭ حضور انور نے اپنی ذاتی تعلیم و تربیت کے بارے میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے فرمایا کہ جرمنی کے علاوہ جہاں محض چند تعلیمی اداروں نے مجھے یہ موقع دیا ہے ورنہ جہاں بھی میں گیا ہوں امریکہ، کینیڈا، افریقن ممالک، مشرقی ممالک میں (جاپان کے علاوہ)، وہاں کے سکولوں اور یونیورسٹیوں نے مجھے اپنے ہاں مدعو کیاہے اور اس طرح مجھے اُن کے تعلیمی نظام کو سمجھنے اور انہیں راہنمائی مہیا کرنے کا موقع ملا ہے-
حضور نے فرمایا کہ میری عمومی تعلیم کوئی خاص نہیں ہے بلکہ مذکورہ بالا تجربہ ہی میری تعلیم ہے لیکن جو کچھ اللہ نے مجھے عطا کیا ہے وہ میرے ذاتی تجربات ہیں-
٭ جماعت احمدیہ کے نظام کے بارے میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے حضور انور نے فرمایا کہ ہماری جماعت میں ایک دلچسپ جمہوری نظام رائج ہے- پس جہاں کہیں بھی چند ایک احمدی جمع ہوجاتے ہیں وہ انتظامی امور کی سرانجام دہی کے لئے اپنے میں سے عہدیداران کا انتخاب کرتے ہیں جن کی منظوری امیر سے حاصل کی جاتی ہے-… لیکن ہمارا نظام عام دنیا کے نظاموں سے کچھ مختلف ہے کیونکہ ہمارے ہاں لوگ کسی عہدہ کے لئے خود اپنا نام پیش نہیں کرتے، اسی طرح کسی قسم کا پراپیگنڈہ کرنے کی بھی اجازت نہیں ہے اور پھر یہ کہ انتخابات کے باوجود عہدہ کسی کو عطا کئے جانے کا آخری فیصلہ امیر کے پاس ہوتا ہے کہ وہ اس کی منظوری دے- چنانچہ بعض اوقات کسی کے بارے میں بعض خفیہ رپورٹس کی بناء پر اس کا نام کسی عہدہ کے لئے منظور نہیں کیا جاتا اور ساری جماعت بخوشی اس فیصلہ کو قبول کرتی ہے- چنانچہ ہمارے ہاں کے نظام کو IDEAL DEMOCRACY کہا جاسکتا ہے-
حضور انور نے مزید فرمایا کہ اس نظام کے لئے جب بھی رقم کی ضرورت پڑتی ہے تو ہر احمدی اس قربانی میں حصہ لیتا ہے اور اس کے دو طریق ہیں- اول یہ کہ وہ اپنی آمد کا کچھ حصہ پیش کر دیتے ہیں- … لیکن دنیا کی کوئی حکومت ہماری مالی مدد نہیں کرتی- جرمنی میں بھی حکومت ہمارے مالی نظام کی نگرانی کرتی ہے اور اس کا آڈٹ کرتی ہے اور ماضی میں کی جانے والی آڈٹ رپورٹس کی بنیاد پر انہوں نے ہم کو بعض سہولتیں بھی دی ہیں جو کہ یہاں Charitable کمیونٹی کو دی جاتی ہیں مثلاً ٹیکس سے چھوٹ وغیرہ
ہماری مالی قربانی کا دوسرا حصہ بلامعاوضہ خدمت کرنا ہے- بہت سے ایسے لوگ ہیں جو اپنا وقت پیش کرتے ہیںاور کبھی بھی اس خدمت کا معاوضہ نہیں مانگتے- امر واقعہ یہ ہے کہ وقت بہت قیمتی ہوتا ہے ، رقم سے بھی زیادہ قیمتی-
٭ اسلامی ممالک میں احمدیت پر مظالم کی وجہ اور پاکستان کے حالات میں تبدیلی کے بارے میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے حضور انور نے فرمایا کہ احمدی تو بہت سے غیرمسلم ممالک میں بھی مظالم کا نشانہ بنتے ہیںمثلاً بھارت، نیپال، سری لنکا اور کئی افریقن ممالک میں بھی- لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کسی جماعت کو کیوں ظلم و ستم کا نشانہ بنایا جائے؟ اور احمدی تو وہ ہیں جو اپنے اپنے ملک کے قانون کے تابعدار ہیں-… دراصل یہ وہی تاریخ میں محفوظ سلوک ہے جو پہلے بھی ہر نبی پر ایمان لانے والوں کے ساتھ کیا جاتا رہا ہے- چنانچہ عیسائیوں پر بھی رومن حکومت کے دور میں مسلسل تین سو سال تک ظلم کئے گئے جبکہ اُن عیسائیوں نے عوام یا رومن حکومت کے خلاف کوئی جرم نہیں کیا تھا- یہی معاملہ احمدیوں کے ساتھ ہے-… درحقیقت یہ ایک نفسیاتی معاملہ ہے- ہر نبی نہایت سادہ اور عام حالت سے ترقی کرنا شروع کرتا ہے اور اخلاقی تعلیمات دیتا اور دوسروں کی اخلاقی حالت کو بلند کرنے کی کوشش کرتا ہے- اگرچہ وہ کسی کو دھمکی نہیں دیتا لیکن معاشرہ سمجھتا ہے کہ اُس کا پیغام بہت طاقتور اور چھا جانے والا ہے- پس یہ خوف اور حسد ہوتا ہے جو انہیں نبی اور اس کے ماننے والوں پر مظالم کرنے پر مجبور کرتا ہے- مذاہب کی تاریخ میں ہمیشہ ہی یہ ہوتا آیا ہے کہ معاشرہ اپنی ساری طاقتیں اُس پیغام کو آغاز میں ہی کچلنے کے لئے استعمال کرتا ہے-
اسلامی ممالک احمدیوں سے کچھ زیادہ ہی نفرت کرتے ہیں اور احمدیوں کے خلاف مختلف قوانین کا نفاذ بھی کرتے ہیں کیونکہ انہیں یہ احساس ہے کہ احمدیہ جماعت کا نظریۂ اسلام ہی محمد رسول اللہ ﷺ کا اسلام ہے اوریہی بالآخر فتح پانے والا ہے جبکہ اُن کا اپنا اسلام درمیانے دور کا اسلام ہے- پس وہ جانتے ہیں کہ ہماری ویلیوز (Values) اُن کی ویلیوز کو شکست دینے کی اہل ہیں اور یہی وہ حسد ہے جو انہیں مجبور کرتا ہے کہ وہ احمدیوں کے خلاف اقدامات کریں-
حضور نے فرمایا کہ مجھے پاکستانی حکومت اور حزب اختلاف کی سوچ میں کوئی تبدیلی دکھائی نہیں دیتی- دونوں ہی اپنے مفاد کے لئے احمدیوں کے خون کو مُلاّ کے ہاتھوں فروخت کر سکتے ہیں- اور بنیادی انسانی حقوق کی ایسی پامالی کے باوجود بھی امریکہ جیسی سپرپاور پاکستانی حکومت پر کوئی دباؤ نہیں ڈالتی کیونکہ انہیں افغانستان میں اپنا مفاد عزیز ہے-
حضور نے فرمایا کہ اللہ کی طرف سے کیا مقدّر ہے، یہ کوئی نہیں جانتا لیکن جب بھی یہ ہوگا تو اچانک (بغتۃً) ہوگا-
٭ اس سوال کے جواب میں کہ آپ کیوں خلیفہ بنائے گئے؟ حضور نے فرمایا یہ تو میں نہیں جانتا-
ایک اور ضمنی سوال کے جواب میں کہ عورتیں کیوں خلیفہ نہیں بن سکتیں، حضور انور نے فرمایا کہ گو مذہبی تاریخ میں تو ایسا نہیں ہوتا لیکن سیاست میں ہم عورتوں کو راہنما کے طورپر دیکھتے ہیں- اور آج کل
بے نظیر بھٹو کے بارے میں بھی یہ کہا جاتا ہے کہ وہ خدا کی راہنمائی میں لیڈنگ رول کر سکتی ہیں- … لیکن مذہب میں ایسا نہیں ہوتا جس کی وجہ جسمانی بناوٹ کا فرق ہے- مثلاً عورتیں بچوں کو جنم دیتی ہیں، اور ایسی صورتوں میں انہیں اپنے ماننے والوں سے لمبے عرصہ کے لئے رابطہ منقطع کرنا پڑے گا- اگرچہ مذہبی معاملات میں عورتیں مردوں کے شانہ بشانہ کام کرتی ہیں اور احمدیوں میں تو اپنی عہدیداروں کا انتخاب بھی وہ خود کرتی ہیں-
٭ ایک سوال تھا کہ اگر کوئی اسلام کو سچا سمجھے لیکن خوف کی وجہ سے اسے قبول نہ کرسکے تو کیا کرے-
حضور انور نے فرمایا کہ اس مسئلہ میں پہلے تو دعا کرنی چاہئے کیونکہ یہ خدا کا مذہب ہے- پس اُسی سے مدد مانگے تو وہ آسانی پیدا فرمائے گا یعنی یا جرأت بڑھائے گا یا دوسروں کی طرف سے ڈالے جانے والے معاشرتی دباؤ سے اُس کو محفوظ رکھے گا-
٭ ابدیت (Eternity) اور آزادی کے کردار اور ان کے آپس کے تعلق کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں حضور انور نے فرمایا کہ ہر زندہ چیز ہمیشہ زندہ رہنا چاہتی ہے اور میرے حاصل مطالعہ کے مطابق عمل تولید بھی اِسی خواہش کی ایک شکل ہے ، خواہ یہ عمل جنسی (Sexual) ہو یا غیرجنسی (A-sexual) اور یہ عمل ارتقاء کو اور زندگی کی خصوصیات کو ترقی بھی دے رہا ہے- ابتدائی جانور محض چند خصوصیات کے حامل تھے لیکن ارتقاء کے ساتھ ساتھ انسان جب وجود میں آیا تو وہ بے شمار خواص اپنے اندر رکھتا تھا- اسی طرح زیادہ سے زیادہ جگہ کی ملکیت حاصل کرنا بھی ابدیت پانے کی کوشش سے تعلق رکھتا ہے-
حضور نے فرمایا کہ آزادی ہر انسان کا بنیادی حق ہے لیکن کسی ایک کی آزادی کے لئے کسی دوسرے کی آزادی میں خلل نہیں ڈالا جاسکتا- انگریزی کا مقولہ ہے کہ جہاں تک تمہارا ہاتھ جاسکتا ہے وہاں تک حرکت میں تم آزاد ہو لیکن یہ آزادی وہاں ختم ہو جائے گی جہاں سے دوسرے کی ناک شروع ہوتی ہے- پس جو دنیاوی قوانین ہیں وہ ہمیشہ ابدیت اور آزادی کی بنیادوں پر ہی استوار کئے جاتے ہیں-
٭ سخاوت اور اقتصادیات کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں حضور انور نے فرمایا کہ قرآن کریم میں تفصیل کے ساتھ اس بارے میں بیان کیا گیا ہے کہ ضرورتمندوں کے لئے خرچ کرنا ہمیشہ ہی اچھا فعل نہیں ہے کیونکہ بعض لوگ ایسے کام صرف اپنے نام و نمود کی خاطر کرتے ہیں جبکہ قرآنی تعلیمات کے مطابق صرف خدا کی خاطر ہی خرچ کرنا چاہئے بے شک وہ مقدار میں بہت کم ہو-
حضور نے مزید فرمایا کہ ایسا شخص جو دوسروں کا دُکھ نہ دیکھ سکتا ہو اور ضرورتمندوں کی بھرپور مدد کا خواہشمند ہو لیکن اس کے ذرائع اس قدر نہ ہوں تو پھر عین ممکن ہے کہ وہ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے اپنے اقرباء کا حق مارے- پس قرآن کریم کہتا ہے کہ اتنا نہ خرچ کرو کہ تم خود غریب ہو جاؤ بلکہ ایسے خرچ کرو اور کرتے جاؤ جیسا کہ مواقع کا تقاضا ہو-
٭ ہر مذہب میں وقت کے ساتھ ساتھ جو کمزوریاں راہ پا لیتی ہیں اُن کے بارے میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے حضور انور نے فرمایا کہ احمدیت میں بھی کمزوریوں کی شمولیت کا مجھے خوف ہے کیونکہ کسی کو بھی دوام حاصل نہیں ہے- پس اپنی اچھی خصوصیات کو لمبے عرصے تک برقرار رکھنا شدید محنت چاہتا ہے- اگرچہ برائی ہمیشہ ہی داخل ہوتی رہتی ہے لیکن خدا کے بندے برائیوں کے خلاف مستقل جہاد میں مسلسل مشغول رہتے ہیں-
٭ اعضاء کا عطیہ دینے کے بارے میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے حضور انور نے فرمایا کہ اپنے اعضاء اور خون کا عطیہ دینا اسلام میں پسندیدہ ہے لیکن وہ مسلمان ہم سے متّفق نہیں ہوں گے جو یہ سمجھتے ہیں کہ ہم مرنے کے بعد بھی اپنی اِسی جسمانی حالت میں ہی اٹھائے جائیں گے اور اگر کسی کی آنکھ کسی دوسرے شخص کو لگائی گئی تو عطیہ دینے والا بغیر آنکھ کے اٹھایا جائے گا-
٭ اسلام میں بہترین امّت ہونے کے تصوّر کے بارے میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ نے فرمایا کہ قرآن کریم یہ کہتا ہے کہ تم زمین میں اس لئے بہترین قوم ہو کیونکہ تم دوسروں کی مدد کرتے ہو اور اُن کے لئے قربانی کرتے ہو- اگر تم ایسا نہ کرو یا ایسا کرنے سے رُک جاؤ تو پھر تم بہترین قوم نہیں رہو گے-
٭ ایک سوال تھا کہ ’’آپ کے خیال میں اللہ کیوں مرد ہے؟‘‘ – حضور نے فرمایا کہ اللہ نہ مرد ہے اور نہ عورت بلکہ اللہ دراصل روح ہے اور روح کی اس طرح کی تخصیص نہیں ہوسکتی-
اس کے ساتھ ہیمجلس سوال و جواب اختتام پذیر ہوئی اور پھر چار بچیوں نے مکرم ہدایت اللہ ہیوبش صاحب کا ایک جرمن نغمہ کورس کی شکل میں پیش کیا- نغمہ کا عنوان تھا: ’’اے خدا میں تیری بہترین خصوصیات جاننا چاہتا ہوں‘‘- آخر میں شہر کے میئر نے حضور انور کا شکریہ ادا کیا-

فیملی ملاقاتیں
۲۱؍مئی ۹۸ء کی صبح دس بجے مسجد نور فرینکفرٹ میں فیملی ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہوا جو بعد دوپہر تک جاری رہا- اس دوران انتالیس(۳۹) فیملیوں کے ایک سو ساٹھ (۱۶۰) افراد نے حضور انور سے ملاقات کا شرف حاصل کیا-
معائنہ مقام اجتماع خدام الاحمدیہ
حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ۲۱؍مئی ۹۸ء کو شام ۵ بجے مجلس خدام الاحمدیہ جرمنی کے انیسویں سالانہ اجتماع کے انتظامات کا معائنہ فرمانے کیلئے مقام اجتماع Bad Kreuznach تشریف لے گئے- جب حضور چھ بجے مقام اجتماع پہنچے تو مارکی میں خدام کے کارکنان کی بڑی تعداد مختلف شعبہ جات کے تحت منظم طور پر موجود تھی- اس پر حضور انور نے فرمایا کہ اس طرح کا انتظام تو جلسہ سالانہ کی روایات میں سے ہے نہ کہ اجتماع کی- پھر حضور انور نے اپنی یادداشت کے حوالے سے مقام اجتماع کے معائنہ سے تعلق میں بعض امور بیان فرمائے اور پرائیویٹ سیکرٹری صاحب کو ہدایت فرمائی کہ ربوہ اور قادیان میں مقام اجتماع کے معائنہ کی روایات کے بارے میں معلومات منگوائیں- تاہم حضور انور نے ازراہ شفقت مکرم امیر صاحب جرمنی سے فرمایا کہ آج میں آپ کے پہلے سے ترتیب دیئے گئے انتظامات کے مطابق ہی معائنہ کروں گا- چنانچہ حضور انور نے تمام شعبہ جات کے ناظمین کو شرف مصافحہ عطا فرمایا اور پھر بازار کی سجی ہوئی دکانوں کا جائزہ لیتے ہوئے لنگر خانہ میں تشریف لے آئے- بعد میں مجلس عاملہ خدام الاحمدیہ کے ساتھ ایک اجلاس میں حضور انور نے کارکنان کو اہم نصائح فرمائیں-

افتتاح اجتماع خدام الاحمدیہ
مورخہ ۲۲؍مئی ۱۹۹۸ء کو حضور انور صبح مسجد نور سے مجلس خدام الاحمدیہ جرمنی کے انیسویں سالانہ اجتماع ۹۸ء کا افتتاح فرمانے کے لئے مقام اجتماع Bad Kreuznach تشریف لے گئے- دوپہر ایک بج کر پچپن منٹ پر حضور انور نے لوائے خدام الاحمدیہ اور جرمنی کا پرچم لہرایا اور دعا کروائی- پھر حضور انور نے مارکی میں تشریف لے جاکر خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا (جس کا خلاصہ قبل ازیں الفضل انٹرنیشنل میں شائع کیاچکا ہے) جس کے ساتھ ہی سالانہ اجتماع کا افتتاح بھی عمل میں آیا- شام کو حضور انور نے خدام کے بعض علمی اور ورزشی مقابلہ جات ملاحظہ فرمائے اور پھر مارکی میں تشریف لے آئے جہاں خدام کے ساتھ ایک مجلس علم و عرفان کا انعقاد ہوا-
بعد ازاں حضور انور واپس مسجد نور فرینکفرٹ تشریف لے آئے جہاں نماز مغرب و عشاء ادا فرمائیں-

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

فیملی ملاقاتیں
۲۳؍مئی ۹۸ء کی صبح دس بجے مسجد نور فرینکفرٹ میں فیملی ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہوا جو بعد دوپہر تک جاری رہا- اس دوران تینتالیس (۴۳) فیملیوں کے دو صد پانچ (۲۰۵) افراد نے حضور انور سے ملاقات کا شرف حاصل کیا-

جرمن احباب کے ساتھ مجلس سوال و جواب
مورخہ ۲۳؍مئی ۹۸ء کی شام حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز مسجد نور فرینکفرٹ سے ویزبادن کے لئے روانہ ہوئے جہاں جرمن احباب کے ساتھ ایک دلچسپ مجلس سوال و جواب منعقد ہوئی- اس مجلس میں ۵۳؍ جرمن احباب شامل ہوئے- حضور انور نے مہمانوں کو خوش آمدید کہا اور تلاوت کلام پاک سے مجلس کا باقاعدہ آغاز ہوا جس کے بعد سوال و جواب کا سلسلہ شروع ہوا- بعض سوالات اور ان کے مختصر جوابات اپنی ذمہ داری پر ہدیہ قارئین ہیں:
٭ اس سوال کے جواب میں کہ جماعت احمدیہ کی بنیاد رکھنے کی کیا وجہ ہے؟ حضور انور نے فرمایا کہ ہمارا عقیدہ ہے کہ اس جماعت کی بنیاد خدا کے ذریعہ رکھی گئی ہے اورآنحضرت ﷺ اور دیگر کئی انبیاء کی پیشگوئیوں کے عین مطابق اِس کی بنیاد رکھی گئی- یہ پیشگوئیاں ایک ایسے مصلح کی آمد کے بارے میں تھیں جو آخری زمانہ میں مبعوث ہوکر عالمی سطح پر اصلاح کا کام سرانجام دے گا- ہمارا دعویٰ ہے کہ وہ مصلح حضرت مرزا غلام احمد قادیانی (علیہ السلام) ہیں-
٭ حضور انور سے ایک سوال یہ تھا کہ آپ کو کس خطرے سے بچانے کے لئے حفاظتی عملہ کے اراکین سٹیج پر کھڑے ہیں- حضور نے جواباً فرمایا کہ میرا خیال ہے کہ کسی خطرے کی صورت میں یہ لوگ میری کوئی حفاظت نہیں کرسکتے لیکن ایسا کرنے میں محض مقامی جماعت کی انتظامیہ کا اطمینان ہے-
٭ اسلام میں عورت کے مقام اور اس کی آزادی کے بارے میں ایک سوال کا حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے تفصیلی جواب ارشاد فرمایا- حضور نے فرمایا کہ مغرب میں عورت کو جو آزادی حاصل ہے اسے آپ دیکھ ہی رہے ہیں-یہ آزادی عیسائیت کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ عیسائیت سے بغاوت کے اظہار کا نتیجہ ہے- یہاں وہ وقت بھی تھا جب عورتوں کو زندہ جلا دیا جاتا تھا اور جانوروں کی طرح کے سلوک کا انہیں مستحق سمجھا جاتا تھا- انگلستان میں ایک ہی وقت میں پانچ ہزار عورتوں کو جادوگری کے جرم میں موت کے گھاٹ اتار دیا گیا- جرمنی میں جو کچھ ہوا وہ ناقابل بیان ہے اور یہ سب کچھ عیسائیت کے نام پر ہی ہوا تھا اور اسی قسم کے حالات ساری دنیا میں تھے- جبکہ عرب میں چودہ سو سال پہلے حضرت محمد رسول اللہ ﷺٰ نے آکر عورتوں کے خلاف تمام جرائم کا خاتمہ کردیا اور انہیں مَردوں کے برابر مقام عطا فرمایا-
حضور نے فرمایا کہ عیسائیت میں عورتوں کی معصومیت کا جو امتحان رکھا گیا تھا وہ یہ تھا کہ جادو کے الزام میں لائی جانے والی عورت کو ہاتھ پاؤں باندھ کر پانی میں ڈال دیا جائے – اگر وہ ڈوب جائے تو وہ معصوم ہے اور اگر بچ جائے تو اسے جادوگری کے جرم میں زندہ جلا دیا جاتا تھا یعنی دونوں طرح سے عورت کے مقدر میں موت ہی تھی-
حضور نے فرمایا کہ جرمنی میں چند دہائیاں پہلے تک عورت کسی جائیداد کی مالک نہیں بن سکتی تھی بلکہ وہ خود جائیداد متصور ہوا کرتی تھی- پس یہاں عیسائیت سے بغاوت تھی جس نے عورت کو آزادی سے ہمکنار کیا- دوسری طرف اسلام میں عورت ملکیت کا حق رکھتی ہے- وہ رشتہ کرنے میں آزاد ہے اور دوسرے تمام معاملات میں اس کو قابل احترام سمجھا جاتا ہے-
حضور نے فرمایا کہ اسلامی تعلیم کے خلاف سب سے بڑا الزام یہ ہے کہ مرد اپنی بیویوں کو مار پیٹ سکتے ہیں- لیکن پہلی بات یہ ہے کہ مردوں کو ایسا کرنے کے لئے کوئی مذہبی لائسنس درکار نہیں ہے اور جرمنی سمیت ساری دنیا میں ہزاروں لاکھوں مرد اپنی بیویوں کو بری طرح مار پیٹ کر زخمی کر دیتے ہیں اور اُس کی بڑی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ مرد شراب کے نشہ میں تھا- یہ پولیس کے بیان کردہ اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے اور بے شمار ایسے کیسز ہیں جو پولیس میں کبھی درج ہی نہیں کروائے جاتے – اب خود سوچیں کہ یہ موجودہ ترقی یافتہ دور کی باتیں ہیں اور الزام ہے چودہ سو سال پہلے کے زمانے پر-
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ آپ کے سامنے اسلام کی یہ بالکل غلط تصویر پیش کی جارہی ہے- آپ نے اگر اسلام کو بہترین طور پر سمجھنا ہو تو پھر صرف محمد رسول اللہ ﷺ کی سیرت کو دیکھیں- آپؐ نے تو زندگی بھر کبھی ایک دفعہ بھی اپنی کسی بیوی پر ہاتھ نہیں اٹھایا- پس اسلام کو جانچنا ہے تو محمد رسول اللہﷺ کے ذریعہ جانچیں، آج کے مُلاّ کے حوالے سے نہیں- محمد رسول اللہ ﷺ کے علاوہ کسی اور کے حوالے سے اسلام پر حملہ کرنے کا حق کسی کو حاصل نہیں ہے-
حضور نے فرمایا کہ اس سوال کے جواب میں ہر گزشتہ مذہب کو اسلام کے مقابلہ پر رکھ کر آپ کو پرکھنا ہوگا- مثلاً ہندومت کو دیکھیں جس میں لاکھوں عورتوں کو بغیر کسی جرم کے صرف اس لئے موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا رہا کہ ان کے خاوند فوت ہوگئے تھے- اور لاکھوں عورتوں نے از خود موت کو قبول کرنا پسند کرلیا کیونکہ ان کی زندگیاں مُردوں سے بدتر ہوچکی تھیں اور اُن کے ساتھ جو وحشیانہ سلوک ہوتا تھا وہ اُن کے مذہب کی روشنی میں ہی کیا جاتا تھا-
حضور انور نے اپنے جواب کو ختم کرتے ہوئے فرمایا کہ درحقیقت اِس موضوع پر بات کرنے کے لئے کئی گھنٹے درکار ہیں-
٭ آخری زمانہ کی پہچان کے بارے میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے حضور انور نے فرمایا کہ مذہب جب بھی آخری زمانہ کی بات کرتا ہے تو اس کی بعض نشانیاں بیان کرتا ہے- وہ نشانیاں حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے بھی بیان فرمائی تھیں اور قرآن و حدیث میں بھی ملتی ہیں- کرشنا اور دوسرے انبیاء نے بھی جو بیان کیا وہ بھی پورا ہوچکا ہے- پس یہی وہ آخری زمانہ ہے جس میں اُس مصلح نے ظہور پانا تھا جس نے عالمی سطح پر بنی نوع انسان کو ہدایت کی طرف بلانا تھا-
٭ اسلام میں طلاق کے بارے میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے حضور انور نے فرمایا کہ اب میں آپ کو محمد رسول اللہﷺ کے زمانہ میں لے جانا چاہتا ہوں، آج کے مُلاّ کے حوالے سے بات نہیں کرنا چاہتا- آنحضرتﷺ کے پاس ایک خاتون نے حاضر ہوکر عرض کیا کہ میرا خاوند بہت اچھا آدمی ہے لیکن میں اُسے پسند نہیں کرتی تو آنحضورﷺ نے اُس عورت کو آزاد کروادیا- جہاں تک مرد کے طلاق دینے کا تعلق ہے، اسلام میں طلاق ایک ہی وقت میں تین بار نہیں دی جاسکتی بلکہ تین تین ماہ کے تین دور ہوتے ہیں- اُن تین مہینوں میں خاوند بھی بیوی سے تعلق قائم نہیں کرسکتا تاکہ اسے بھی احساس دلایا جائے- اور اس دوران مرد کے علاوہ اگر عورت بھی صلح کی خواہشمند ہو تو صلح ہوسکتی ہے ورنہ نہیں-
حضور انور نے فرمایا کہ جرمن قانون میں بھی علیحدگی کے بعد طلاق سے پہلے دو سال دیئے جاتے ہیں تاکہ سوچ بچار کا کافی وقت مل سکے لیکن جرمن قانون کسی مرد یا عورت کو کسی دوسرے کے ساتھ تعلقات قائم کرنے سے نہیں روک سکتا جبکہ اسلام میں ایسے تعلقات کی سختی سے ممانعت ہے-
٭ ایک سوال کے جواب میں حضور انور نے فرمایا کہ آج مذہب کے نام پر مختلف ممالک میں ہونے والے مظالم اُن سیاستدانوں کی وجہ سے ہیں جو مذہب کو اپنے مفادات کے لئے استعمال کرتے ہیں-
٭ ’’فنا‘‘ کی حقیقت کے بارے میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے حضور ایدہ اللہ نے فرمایا کہ اس کا مطلب ہے Nothingness اور Total non-existence- حضور نے فرمایا کہ درحقیقت انسان کبھی بھی فنا کی حالت میں نہیں جاتا کیونکہ مرنے کے بعد روح کسی اور شکل میں چلی جاتی ہے- یہ فنا نہیں ہے- اور جب ساری کائنات ختم ہو جائے گی تو وہ کائنات کی فنا ہوگی- لیکن روح پھر بھی ختم نہیں ہوگی اس لئے کہ فنا کا تعلق صرف مادہ (Matter) سے ہے نہ کہ روح (Spirit) سے-
حضور نے فرمایا کہ اسلام کے مطابق فنا کا دور بار بار آتا رہا ہے اور ہمیشہ ایسا وقت آتا رہتا ہے جب خدا کے علاوہ کسی اور کا وجود نہیں ہوتا- البتہ روح باقی رہے گی- اور چونکہ خدا خود لامحدود (Limitless) ہے اس لئے خدا کا روحوں کی تخلیق کا عمل بھی لامحدود ہے-
٭ ایک ضمنی سوال کے جواب میں حضور نے فرمایا کہ ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا دوبارہ آنا نہیں مانتے کیونکہ کوئی روح بھی واپس اِس دنیا میں نہیں آ سکتی-
٭ عیسائیت میں گناہ کے ساتھ انسانی پیدائش کا جو تصور پایا جاتا ہے اس بارے میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے حضور انور نے فرمایا کہ دراصل گناہ کے ساتھ انسانی پیدائش کا عقیدہ، عیسائیت کا نہیں بلکہ پولوس کا عقیدہ ہے- حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے مطابق ہر شخص خدا کے کیریکٹر میں پیدا ہوتا ہے اور ناممکن ہے کہ اِس فقرہ کے ہوتے ہوئے گناہ کی وراثت کو بھی ساتھ شامل کردیا جائے-
٭ ایک سوال تھا کہ اسلام کا مطلب تو امن و شانتی ہے پھر الجیریا میں بچوں کو ہلاک کیا جارہا ہے …؟
حضور انور نے فرمایا کہ بچے تو جرمنی اور انگلستان میں بھی قتل ہوتے ہیں اور یہاں کی رپورٹس کے مطابق ابھی سارے واقعات ریکارڈ میں نہیں آتے- اس لئے یہ ایک مذہبی سوال نہیں ہے بلکہ یہ حرکت تو مذہب سے دور جانے کی وجہ سے ہے- الجیریا کے مُلاّؤں کا ظالمانہ رویہ الجیریا پر حکومت کر رہا ہے اور وہ ڈنڈے کے زور پر کہتے ہیں کہ یہی اسلام ہے-
حضور نے فرمایا کہ مغربی دنیا میں اُن بچوں کے قتل کی تعداد کہیں زیادہ ہے جو ابھی پیدا بھی نہیں ہوئے اور اپنی ماؤں کے ذریعے قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ہلاک کردیئے گئے- یہ قتل ہے- اسے جو بھی نام دیں یہ قتل ہی رہے گا- حضور نے فرمایا کہ میں مغرب کا اس لئے ذکر نہیں کرتا کہ میں متعصّب ہوں بلکہ اس لئے کرتا ہوں کہ آپ مغرب کو زیادہ سمجھتے ہیں-… اگرچہ مشرقی ممالک میں یہاں سے کہیں زیادہ بچے ہلاک کردیئے جاتے ہیں مثلاً پاکستان، بنگلہ دیش وغیرہ میں
بے شمار عورتیں صرف اس لئے اپنے نوزائیدہ بچوں کو خود ہلاک کردیتی ہیں کیونکہ وہ زنا کی سزا میں قتل نہیں ہونا چاہتیں- لیکن چونکہ مغربی ممالک میں ایسی کوئی سزا نہیں ہے اسلئے یہاں کا معاملہ دوسرا ہے-
حضور انور نے مزید فرمایا کہ افغانستان میں ظلم کی وجہ اسلام کی قربت یا اس سے دوری نہیںہے بلکہ یہ امریکہ ہے جسے وہاں کا اسلام زیادہ فائدہ دیتا ہے- اس طرح وہاں کی صورتحال میں سارا الزام تو اسلام کو جائے گا اور سارا فائدہ امریکہ کو پہنچے گا-
٭ مہاتما گاندھی کی عدم تشدد کی تحریک پر تبصرہ کرتے ہوئے حضور نے فرمایا کہ اگرچہ فلاسفی اور اصول کے لحاظ سے تو مہاتما گاندھی ٹھیک تھے لیکن عملی طور پر میں انہیں ولی کا درجہ نہیں دے سکتا کیونکہ اُن کے اصولوں کے برخلاف ہندوستان میں مسلمانوں کی خونریزی ہوئی-
٭ ایک سوال تھا کہ چونکہ ہم جنس پرستی کا تعلق ایک جین (Gene) کے ساتھ ہے اس لئے اس عمل پر کسی کا اختیار نہیں ہوسکتا اور جس عمل پر اختیار نہ ہو اس کی سزا نہیں دی جاسکتی-
حضور انور نے فرمایا کہ ہم جنس پرستی جیسے جرم کو جینیٹک (Genetic) خرابیوں کی بنیاد قرار دے کر خود بری ہو جانا میرے نزدیک درست نہیں ہے- اسی طرح دیگر کئی جرائم کا تعلق بھی Gene سے ہی ہے لیکن اُن کے لئے یہ رویّہ نہیں رکھا جاتا- ذرا تصور کریں کہ کسی ہم جنس پرست شخص کے گھر کوئی ڈاکو آئے اور جب سب کچھ سمیٹ کر جانے لگے تو یہ کہے کہ اس ڈاکو کا یہ عمل اس کی جینیٹک کی وجہ سے ہے !!- حضور نے فرمایا کہ جینیٹک کے اصول قوانین قدرت کے مطابق چلتے ہیں، اُن کے خلاف نہیں-
٭ شادی سے پہلے کی آزادروی کے بارے میں ایک سوال کا مختصر جواب دیتے ہوئے حضور انور نے فرمایا کہ شادی سے پہلے جنسیاتی لذات کے حصول کے نقصانات آپ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں- ایڈز، شادی میں ناکامی، مرد و عورت میں وفا کی کمی وغیرہ یہ سب کچھ شادی سے پہلے کی آزادی کی وجہ سے ہیں-
٭ پاکستان میں توہین مذہب کے قانون کی آڑ میں عیسائیوں پر ہونے والے مظالم پر تبصرہ کرتے ہوئے حضور نے فرمایا کہ پاکستان میں عیسائیوں پر ہونے والے ایسے مظالم اُسی طرح غلط ہیں جس طرح احمدیوں پر ہونے والے مظالم غلط ہیں- لیکن ایک فرق کے ساتھ کہ عیسائیوں کے خلاف صرف دو تین واقعات ہی ہوئے ہیں اور عیسائی ممالک نے شور مچادیا ہے جبکہ احمدیوں کے خلاف سینکڑوں واقعات ہیں لیکن عیسائی ممالک اُن کے بارے میں کوئی اظہار نہیں کرتے-
حضور نے فرمایا کہ پاکستان میں توہین مذہب اور توہین رسالت کی تعریف اُس وقت بدل دی جاتی ہے جب کسی احمدی کے خلاف مقدمہ قائم ہو- یعنی عیسائی کو تو اس وقت عدالت میں لایا جاتا ہے جب وہ آنحضورﷺ کے کردار پر اعلانیہ حملہ کرے- لیکن اگر کوئی احمدی صرف کلمہ پڑھے یعنی خدا کی وحدانیت اور محمد رسول اللہ ﷺ کی رسالت کا اقرار کرے تو اسے بھی مجرم گردانا جاتا ہے-
حضور نے فرمایا کہ گزشتہ دنوں مجھ پر بھی ایک ایسی ہی فرد جرم عائد کی گئی ہے جس کی سزا موت ہے اور اب مجھے انٹرپول کے ذریعے پاکستان کی عدالت میں پیش کرنے کے مطالبے ہو رہے ہیں- یہ کیس ایک سابق چیف سیکرٹری صوبہ سندھ کنور ادریس صاحب کے نام میری ایک تحریر کی بنیاد پر دائر کیا گیا- … لیکن احمدیوں پر ہونے والے مظالم کا مشاہدہ کرنے کے لئے آپ کو پاکستان جانے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ مجلس تحفظ ختم نبوت کے کارندے جرمنی میں بھی موجود ہیں اور یہاں بھی جرمن حکومت کی آزادی سے ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے پاگل مُلاّ احمدیوں کے قتل کا مطالبہ کر رہا ہے- میں نے امیر صاحب جرمنی کو ہدایت کی ہے کہ وہ حکومت جرمنی کو اس بارے میں توجہ دلائیں کہ حکومت اس بارے میں اپنی آنکھیں بند نہ کرے-
٭ ایک ضمنی سوال کے جواب میں حضور انور نے فرمایا کہ میں لندن سے نہ صرف پاکستان بلکہ ساری دنیا کے احمدیوں سے رابطہ کر سکتا ہوں اور خدا کے فضل سے دنیا بھر میں جہاں بھی میں ہوں گا، وہاں سے مسلم ٹیلی ویژن احمدیہ انٹرنیشنل کے ذریعہ ساری دنیا کے احمدیوں سے مخاطب ہوسکتا ہوں-
اس کے بعد مجلس سوال و جواب اختتام پذیر ہوئی اور حضور انور واپس مسجد نور فرینکفرٹ تشریف لے آئے-

(باقی آئندہ شمارہ میں ملاحظہ فرمائیں)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

فیملی ملاقات اور روانگی برائے اجتماع
۲۴؍مئی ۹۸ء کی صبح مسجد نور فرینکفرٹ میں ایک فیملی کے چار افراد نے حضور انور سے ملاقات کا شرف حاصل کیا- اس کے بعد حضور انور قریباً دس بجے صبح مجلس خدام الاحمدیہ جرمنی کے انیسویں سالانہ اجتماع کے تیسرے روز کے پروگرام ملاحظہ فرمانے کے لئے مقام اجتماع Bad Kreuznach روانہ ہوئے- حضور انور نے خدام و اطفال کے بہت سے فائنل ورزشی مقابلہ جات ملاحظہ فرمائے اور کھیلوں کے عمدہ معیار سے لطف اندوز ہوئے-

خدام کے ساتھ مجلس علم و عرفان
مورخہ ۲۴؍مئی ۹۸ء بروز اتوار مجلس خدام الاحمدیہ جرمنی کے انیسویں سالانہ اجتماع کے تیسرے روز قبل از دوپہر نوجوان خدام کے ساتھ حضرت امیرالمومنین خلیفۃالمسیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی مجلس عرفان کا انعقام ہوا- اس مجلس میں کئے جانے والے سوالات اور ان کے مختصر جوابات اپنی ذمہ داری پر ہدیہ قارئین ہیں:
٭ ہندوؤں کے خدا ’’رام‘‘ کے بارے میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے حضور انور نے فرمایا کہ حضرت رام کے بارے میں مختلف روایات ہیں- بعض کے نزدیک یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا پہلا نام ابرام تھا جو بعد میں رام بن گیا-ایک خیال یہ بھی ہے کہ ’’رام‘‘ خدا کے ایک نبی تھے جنہیں بعد میں قوم نے خدا کا درجہ دے دیا جیسا کہ مذہبی دنیا میںبعض اوقات ہوتا آیا ہے-
٭ اس سوال کے جواب میں کہ کیا جانوروں میں بھی روح ہوتی ہے؟- حضور نے فرمایا کہ جانوروں میں روح انسانوں کی روح کی طرح نہیں ہوتی- انسانی روح اعمال کے لحاظ سے ذمہ دار ہے- جانور وراثتاً اپنی حرکتوںمیں آزاد نہیں ہے اس لئے اپنی حرکتوں کا ذمہ دار نہیں ہے- مثلاً انسان خواہ سبزی کھائے یا گوشت لیکن شیر گوشت کھانے پر مجبور ہے- اس لئے جانور کے لئے نہ جزا ہے نہ سزا ہے- اسی لئے جانوروں کے لئے ’’نفس‘‘ کا لفظ استعمال ہوتا ہے- اگرچہ انسان کے لئے بھی نفس کا لفظ استعمال ہوتا ہے-
٭ ایک سوال تھا کہ کائنات میں دوسرے سیاروں پر بھی مخلوق کی موجودگی کے بارے میں اور کسی زمانے میں اُن کے ساتھ رابطہ ہونے کے بارے میں قرآن کریم سے علم ہوتا ہے، اسی طرح قرآن کریم کی ایک اور آیت میں اللہ تعالیٰ انسان کو مخاطب کرکے فرماتا ہے کہ تم یہیں (اسی زمین میں) پیدا ہوئے ہو، یہیں مرو گے اور یہیں سے دوبارہ زندہ ہوگے- لیکن رابطہ ہونے کے بعد اگر کوئی شخص کسی دوسرے سیارے پر مر جائے تو اُس پر دوسری آیت کا اطلاق کیسے ہوگا؟
حضور نے فرمایا کہ اِس آیت کا مطلب ہے کہ زمین کی فضا ہماری زندگی کیلئے ضروری ہے خواہ یہ فضا ہم راکٹ میں پیدا کریں یا چاند پر پیدا کریں- اسلئے اگر زمین کے بجائے کسی اور سیارے پر کسی مخلوق سے ملاقات ہوئی تو یہ فضا انسان کو اپنے ہمراہ لے جانی پڑے گی-
٭ اس سوال کا جواب ارشاد فرماتے ہوئے کہ جو ارب ہا ارب کائناتیں موجود ہیں کیا قرآنی تعلیم اُن پر بھی حاوی ہے؟ حضور انور نے فرمایا کہ قرآنی تعلیم تو زمین پر بھی حاوی نہیں ہے مثلاً یہاں جانور ہیں- اس کا مطلب ہے کہ جب سرشت بدل جائے تو وہ تعلیم حاوی نہیں ہوا کرتی-
٭ ایک سوال تھا کہ دنیا بھر میں مختلف خطوں کے مسلمان مختلف دنوں میں کیوں عید مناتے ہیں؟ حضور انور نے فرمایا کہ عید قرآن کریم کی شرائط کے مطابق منائی جاتی ہے اور یہ قرآن کی سچائی کی دلیل ہے- اُس زمانہ میں جب یہ تعلیم نازل ہوئی تو زمین کا گول ہونا وغیرہ جیسی سائنسی باتوں کا تصور ہی نہیں تھا- پس دنیا میں ایک ہی وقت عید کا مقرر ہو جانا قانون قدرت کے خلاف ہے اور چاند کے ساتھ عید کو باندھنے کے بعد یہ مولوی کا ہی خیال ہے کہ ایک وقت میں عید کیوں نہیںہوتی-
٭ سینٹ پال کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں حضور انور نے فرمایا کہ سینٹ پال پہلے عیسائیوں کی ایذا رسانی میں شامل تھا اور پھر اُس نے عیسائیت قبول کرلی- بعض کا خیال ہے کہ وہ ایجنٹ تھا- لیکن یہ خیال ضروری نہیں کہ درست ہو- لیکن جب وہ عیسائی ہوا تو اُس نے بہرحال عیسائیت کا بھلا نہیں کیا-
٭ ایک اور سوال کے جواب میں حضور انور نے بیان فرمایا کہ حضرت سید احمد بریلویؒ کی حضرت یحیٰ
علیہ السلام (John the Baptist) سے بہت مشابہت ہے- دونوں مشابہہ حالات سے گزرے ہیں- جس طرح حضرت یحیٰ جان بچا کر لوگوںکی نظروں سے غائب ہوگئے اور اُن کے بارے میں کسی اور جزیرہ میں پہنچنے کا ذکر بھی ملتا ہے- اسی طرح بعید نہیںکہ حضرت سید احمد شہیدؒ بریلوی کے بھی حالات ہوں اور دونوں نے بددل ہوکر پہاڑی علاقوں میں اپنی زندگیاں بسر کردی ہوں- John the Baptist کے بارے میں تو ثبوت موجود ہیں لیکن حضرت سید احمدؒ بریلوی کے بارے میں تحقیق جاری ہے-
٭ سورۃ الشوریٰ کی آیت ۳۰ (ترجمہ: اور آسمانوں اور زمین کی پیدائش اور جو کچھ ان دونوں کے درمیان جانداروں کی قسم سے اس نے پھیلایا ہے اس کے نشانوں میں سے ہے اور جب وہ چاہے گا اُن سب کے جمع کرنے پر قادر ہوگا) کے حوالے سے ایک سوال ہوا کہ آئن سٹائن کی تھیوری کے مطابق روشنی کی رفتار سے کسی مادہ کی رفتار بڑھ نہیں سکتی- اور چونکہ کائنات کے معلوم حصہ میں جو فاصلہ میں کئی نوری سال کی دوری تک ہے، کسی دوسری مخلوق کی موجودگی کا علم نہیں ہوسکا- اور اگر اُس سے پرے کہیں مخلوق موجود ہوئی تو پھر اُس سے ملنے کے لئے سفر کا جتنا عرصہ درکار ہوگا وہ انسانی عمر کے لحاظ سے بہت زیادہ بنتا ہے اور ایسی صورت میں بظاہر ملاقات ہونا ممکن نظر نہیں آتا- حضور انور نے فرمایا کہ مخلوق کو جمع کرنے کے لئے ضروری نہیں کہ جسمانی طور پر ہی ملاقات ہو بلکہ ایسا مواصلات کے ذریعہ سے بھی ہو سکتا ہے-
٭ ایک سائل نے سورہ مومن کی آیت ۵۸ (ترجمہ: آسمانوں اور زمین کی پیدائش انسانوں کی پیدائش سے بڑا کام ہے مگر اکثر انسان جانتے نہیں) اور اسی مضمون کی بعض دوسری آیات پیش کرکے ان کی تشریح چاہی- حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ کائنات انسانی تخلیق سے پہلے اتنی پیچیدہ چیز ہے کہ سائنس دان جتنا غور کرتے ہیں اتنا ہی اُن کے لئے پیچیدگی بڑھتی چلی جاتی ہے- کائنات میں ہر طرح کے جانور اور طرح طرح کی مخلوق ہے- اور انسان کو توجہ دلائی گئی ہے کہ تم کس طرح بڑھکیں مار رہے ہو-
حضور نے فرمایا کہ آئن سٹائن کے نزدیک خالی Space کا تصور ممکن نہیں تھا- ۱۹۴۸ء میں پہلی بار تحقیق سے یہ پتہ چلا کہ Inter-space بے انتہا چھوٹے چھوٹے ذرات سے بھری ہوئی ہے جس کا مادہ کم از کم اتنا ہے جتنا کہ Galaxies کا مادہ ہے- بعد کی تحقیقات کے مطابق پھر یہ بھی علم ہوا کہ ہر Matter کا ایک Anti-matter بھی ہے-… پس خدا تعالیٰ کا یہ کہنا کہ ہم نے ایسی پیچیدہ کائنات بنائی ہے دراصل انسان کو اس کی حیثیت دکھانے والی بات ہے-
٭ سورہ الانبیاء کی آیت ۳۱ (ترجمہ: کیا کفار نے یہ نہیں دیکھا کہ آسمان اور زمین دونوں بند تھے، پس ہم نے ان کو کھول دیا اور ہم نے پانی سے ہر زندہ چیز کو بنایا ہے- پس کیا وہ ایمان نہیں لاتے؟) کے حوالہ سے کیئے جانے والے ایک سوال کے جواب میں حضور انور نے فرمایا کہ اس آیت کا واضح طور پر Big Bang سے تعلق ہے کیونکہ ایک سیکنڈ کے کروڑویں حصہ میں بِگ بینگ کے فوراً بعد دھواں پیدا ہوکر پھیلنا شروع ہوتا ہے اور الیکٹران ، ایٹم وغیرہ وجود میں آتے ہیں-
٭ ایک نوجوان نے سوال کیا کہ جس طرح آنحضورﷺ نے بادشاہوں کو تبلیغی خطوط لکھے تھے، کیا حضور ایدکم اللہ بھی اس سنت پر عمل کرتے ہیں-
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے ملکہ وکٹوریہ کو اسلام کا پیغام پہنچایا تھا- لیکن جس طرح رسول اللہﷺ کے خلفاء نے بادشاہوں کو خطوط نہیں لکھے اسی طرح حضرت مسیح موعودؑ کے خلفاء کا یہ کام نہیں ہے-
٭ تیسری جنگ عظیم کے وقت کے بارے میں کیئے جانے والے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے حضور انور نے فرمایا کہ تیسری جنگ عظیم کا وقت تو معین نہیں ہے، لیکن اس کی نشانیاں ظاہر ہو رہی ہیں، یعنی دنیا پھٹ رہی ہے، جوہری توانائی دنیا کی کسی طاقت کے بس میں نہیں رہے گی-
٭ مذہب اور سیاست کے آپس میں تعلق کے بارے میں حضور نے فرمایا کہ مذہب سیاست سمیت ہر شعبہ زندگی پر حاوی ہے- جیسا کہ فرمایا کہ جب بھی ووٹ دو تو امانت دار کو دو اور تقویٰ اختیار کرو- ایسی سیاست جس احمدی نے بھی کرنی ہے اسے اجازت ہے لیکن چونکہ کوئی سیاسی جماعت بھی اس معیار پر پورا نہیں اترتی اس لئے اُن پارٹیوں کا حصہ بننے کی اجازت نہیں ہے-
٭ ایک طالبعلم نے بتایا کہ اُس کی کلاس میں بعض اساتذہ اسلامی تعلیمات کے خلاف باتیں کرتے ہیں- اس پر حضور انور نے فرمایا کہ انتظامیہ کو توجہ دلائیں کہ اُن کے اصولوں کی خلاف ورزی ہو رہی ہے- جرمن قانون کو اساتذہ توڑ نہیں سکتے، کلاس سے باہر آکر جو مرضی کریں-
٭ ایک سوال تھا کہ خدا تعالیٰ بھی اپنے بارے میں ’’نحن‘‘ کا لفظ استعمال کرتا ہے جو جمع کا صیغہ ہے، حضور انور نے فرمایا کہ ’’ہم‘‘ کا لفظ جب بھی اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب ہوتا ہے تو وہ اس کی عظیم بادشاہت کا آئینہ دار ہے اور بلند شان کا اظہار ہے- لیکن جب Third Person کا ذکر آئے گا تو کبھی یہ استعمال نہیں ہو گا کہ ’’انہوں نے ‘‘ بلکہ ہمیشہ یہی کہا جائے گا کہ ’’اُس نے‘‘-
٭ ایک سوال ہوا کہ آنحضور ﷺ پر قرآن کریم فرشتہ کے ذریعہ کیوں نازل کیا گیا ، کیوں براہ راست دل پر الہام نہیں کیا گیا- حضور نے فرمایا کہ قرآن کا نزول ایک نظام چاہتا ہے اور اللہ تعالیٰ نے جو نظام قائم کر رکھا ہے وہ حضرت جبرائیلؑ کے سپرد ہے لیکن جبرائیلؑ کسی سلسلہ کی کڑی نہیں ہے-
٭ نماز تسبیح کے بارے میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے حضور انور نے فرمایا کہ اس نماز کا کوئی ذکر رسول اللہ ﷺ کے ہاں نہیں ملتا، صحاح ستہ میں بھی اس کا کہیںذکر نہیںہے- یہ چھ سات سو پہلے لکھی جانے والی کتابوں میں شامل کی گئی ہے-
٭ اس سوال کے جواب میں کہ فرض نماز کی پہلی دو رکعات میں تو قرآن کریم کے کسی دوسرے حصہ کی تلاوت بھی کی جاتی ہے لیکن تیسری اور چوتھی رکعت میں نہیں کی جاتی، اس کی کیا وجہ ہے؟ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ایسا سورہ فاتحہ کی اہمیت ظاہر کرنے کے لئے ہے-
٭ یورپ کے اکٹھا ہونے کے بارے میں ایک سوال کا تفصیلی جواب دیتے ہوئے حضور نے فرمایا کہ یورپ کو اکٹھا کرنے کا نظریہ چرچل نے پیش کیا تھا اور اُس کے مطابق آئندہ جنگ کے خطرہ سے بچنے کے لئے یعنی جرمن قوم کو دبانے کے لئے یورپ کو اکٹھا کرنا ضروری تھا- لیکن چرچل ایک انسان تھا، وہ خدا نہیں تھا- وہ جرمن قوم کی عظمت کو حقیقت میں سمجھ نہیں سکا کہ اُس کے نظریہ کا دوسرا رُخ بھی ظاہر ہو سکتا ہے جیسا کہ اب ہو رہا ہے-
حضور نے فرمایا کہ اب ایک اور تقسیم ایسی ہو رہی ہے کہ جنگ کا خطرہ ٹالا نہیں جا رہا- برطانیہ کی کوشش ہے کہ وہ ایک طرف کینیڈا اور امریکہ کے ساتھ اپنے تعلقات کو زیادہ مضبوط کرے اور دوسری طرف یورپ کے ساتھ بھی- یعنی دونوں طرف اپنی ٹانگ رکھے جو کہ ممکن نہیں ہے- اب یورپ جرمنی کی طاقت کے ساتھ مل کر ایسی طاقت بن کر ابھر رہا ہے کہ امریکہ کی وہ پہلے والی حیثیت نہیں رہے گی اور امریکہ کے مالی مفادات میں یورپ اپنا حق مانگے گا- یہ لازمی ہوگا اور اس طرح متحدہ یورپ جنگ ٹالنے کی بجائے خطرہ بڑھانے کا موجب بن جائے گا-
حضور نے فرمایا کہ اسی طرح چین کوریا اور جاپان وغیرہ کا ایک اور مرکز ہے جو یورپ اور امریکہ کے اقتصادی مفادات کو چیلنج کرے گا- اسی لئے مجھے یقین ہے کہ دنیا تیسری جنگ عظیم کی طرف بڑھ رہی ہے-

اجتماع کا اختتامی اجلاس
مجلس خدام الاحمدیہ جرمنی کے انیسویں سالانہ اجتماع کا اختتامی اجلاس ۲۴؍ مئی ۱۹۹۸ء کی سہ پہر Bad Kreuznach میں منعقد ہوا- تلاوت قرآن کریم اور اس کے ترجمہ کے بعد حاضرین نے کھڑے ہوکر خدام کا عہد اردو اور جرمن زبانوں میں دہرایا- نظم کے بعد صدر مجلس خدام الاحمدیہ نے رپورٹ پیش کرتے ہوئے بتایا کہ اجتماع میں دس ہزار خدام و اطفال اور زائرین نے شرکت کی- جن میں پانچ سو اسّی (۵۸۰) نومبائعین خدام بھی شامل تھے- شامل ہونے والے اطفال کی کُل تعداد ۱۴۹۸؍ تھی- اجتماع کے لئے ۴۶ مختلف شعبہ جات قائم کئے گئے تھے اور اجتماع کی کارروائی کے تراجم بیک وقت آٹھ زبانوں میں پیش کئے جاتے رہے-
تقسیم انعامات کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے حاضرین کو بہت روح پرور اور ولولہ انگیز اختتامی خطاب سے نوازا جس میں نہایت اہم نصائح فرماتے ہوئے نیک توقعات کا اظہار بھی فرمایا اور تربیت کے امور میں مجلس خدام الاحمدیہ جرمنی کے کام پر خوشنودی کا اظہار بھی فرمایا- حضور انور نے فرمایا کہ آج صبح کی مجلس میں ایک سوال ’’خیر امۃ‘‘ ہونے کے بارے میں تھا جس کا قرآن مجید نے دعویٰ کیا ہے- اس میں بتایا گیا ہے کہ امۃ مسلمہ کی وجہ فضیلت یہ ہے کہ وہ بنی نوع انسان کی بھلائی کے لئے کام کرتی ہے- حضور انور نے اس حدیث کا بھی حوالہ دیا کہ ’’الیدالعلیا خیر من الیدالسفلیٰ‘‘ یعنی عطا کرنے والا ہاتھ وصول کرنے والے ہاتھ سے بہتر ہے-
حضور انور نے فرمایا کہ قرآن کریم نے ہمیں یہ پیغام دیا ہے کہ جب تک تم دوسروں کی خدمت کرتے رہو گے، بہترین رہوگے- جب اپنے مفاد کے لئے کام کرنا شروع کردو گے تو اِس مقام پر نہیں رہو گے- اِس آیت میں جو لفظ ’الناس‘ استعمال ہوا ہے اس سے بنی نوع انسان مراد ہیں-
حضور نے فرمایا کہ پہلے گزری ہوئی امّتیں محض اپنے علاقوں اور اپنی قوموں کے لئے ہوا کرتی تھیں، ساری دنیا کے لئے نہیں تھیں- پس ایسی امّت جس کا تعلق ساری دنیا کی بھلائی سے ہو وہ یقینا مقامی امّتوں سے بہتر ہے-
حضور انور نے فرمایا کہ بھلائی کی بہترین قسم یہ ہے کہ کسی کو اچھی بات کا حکم دیا جائے اور بُری بات سے روکا جائے- اب بے شمار لوگ دھریہ اور مذہب سے متنفّر ہیں اور خدا کی ہستی کے قائل نہیں رہے- ایسی صورت میں انہیں معروف باتوں کی طرف بلایا جائے- ہر شخص خواہ وہ بد بھی ہو جانتا ہے کہ سچائی اچھی چیز ہے اور بھلائی اچھی چیز ہے- پس معروف کا حکم دیں اور منکر سے روکیں- اس صورتحال کا اطلاق ساری دنیا پر یکساں ہو رہا ہے-
حضور انور نے فرمایا کہ ساری دنیا میں اگر کسی امت نے جہاد کرنا ہے تو یہ امت محمدیہ ہے جس کے سپرد یہ ذمہ داری کی گئی ہے اور پھر یہ شرط ہے کہ اللہ پر ایمان لاتے ہوئے ایسا کرو- ورنہ کئی لوگ نرم دلی یا اپنی تہذیب کی وجہ سے ایسا کرتے ہیں- لیکن اگر کوئی لِلّٰہ کرے گا تو خدا اس کا مددگار بھی ہوگا- ایمان باللہ کا نیک تعلیم دینے اور برائی سے روکنے سے گہرا تعلق ہے- آنحضرت ﷺ بھی یہ کام اللہ کی خاطر ہی کیا کرتے تھے- اور یہ انسانوں کی بگڑی ہوئی عادت ہے کہ اللہ کی خاطر کام شروع کرو تو ضرور مخالفت کرتے ہیں- پس عرب بھی تلواریں لے کر آپ پر چڑھ دوڑے- ایسے میں اللہ سہارا اور ذمہ دار ہے کہ تمہیں دلشکنی سے اِس حد تک روکے کہ تم یہ کام ہی چھوڑ بیٹھو- چنانچہ جو اللہ پر ایمان کی خاطر ایسا کریں اور پھر کبھی بھی نہ چھوڑیں اُن سے بہتر کون ہو سکتا ہے؟! پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اہل کتاب میں بھی اچھے لوگ ہیں، یہود اور عیسائیوں میں، لیکن ان کے ایمان کی کمی کا ذکر کیا گیا ہے کہ اگر وہ ایمان لے آتے تو اُن کی نیکیاں ضائع نہ ہو جاتیں- فرمایا اُن میں مومن تو ہیں لیکن بہت تھوڑے اور اکثریت فاسق ہے-
حضور نے فرمایا کہ برائیوں سے روکنے کا بہترین طریق نماز ہے- نماز ہی ہے جو بدیوں کے خلاف جہاد کا طریق بتاتی ہے اور عام ناپسندیدہ باتوں سے بھی منع کرتی ہے- اللہ کے ذکر سے بھری ہوئی نماز ہی برائیوں سے بچنے کی ترغیب دے گی- پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اللہ تمہارے اعمال کو اچھی طرح جانتا ہے- یہ اس لئے کہ بہت سے لوگ نماز پڑھتے ہیں لیکن نماز نہ اُن کو منکر سے نہ فحشاء سے روک سکتی ہے- پس اکثر کویہ وہم ہوتا ہے کہ وہ نماز پڑھتے ہیں- اور یہ کہ وہ نماز نہیں پڑھتے، یہ اُن کے بعد کے حالات بتاتے ہیں- اگر وہ نماز کے بعد پھر انہی برائیوں میں چلے جائیں تو پھر اُن کو نماز کا کیا فائدہ ہے؟
حضور انور نے فرمایا کہ خدام الاحمدیہ کو ہدایت دی گئی تھی کہ وہ بچوں کو نماز پڑھنے کا طریق بتائیں اور ترجمہ سکھائیں- آپ نے تو ساری دنیا کی اصلاح کا بیڑا اٹھایا ہے اور ساری دنیا سے منکر اور فحشاء کو دور کرنا آپ کے مقدّر میں لکھ دیا گیا ہے- حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ قیامت کے دن جس چیز کا حساب سب سے پہلے لیا جائے گا وہ نماز ہے- لیکن ہم نے اسے سب سے آخر میں رکھا ہوا ہے- پس اِس نصیحت کو غور سے سنیں- آنحضورﷺ نے فرمایا کہ اگر یہ حساب ٹھیک رہا تو وہ کامیاب ہوگیا اور اُس نے نجات پائی-
حضور انور نے فرمایا کہ موت پر ہمارا کوئی اختیار نہیں اس لئے نماز کا حساب ٹھیک کرنے کا وقت ہمارے پاس بہت تھوڑا ہے- اگر غفلت ہوئی تو بہت دیر ہوچکی ہوگی- نمازوں کے متعلق اللہ تعالیٰ نے جو حساب بنا رکھا ہے وہ بہت منصفانہ ہے- حساب کیسے ہوگا؟ حضور انور نے آنحضورﷺکی ایک اور حدیث بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ حدیث کے مطابق اگر کسی کے فرضوں میں کچھ کمی ہوئی تو اللہ تعالیٰ اُس سے نوافل کی ضرور توقع رکھتا ہے جیسا کہ فرمایا ’’دیکھو میرے بندے کے کچھ نوافل بھی ہیں‘‘- بہت پیارا انداز ہے جو فرمایا ’’میرا بندہ‘‘-
حضور انور نے فرمایا کہ یہ حدیث ہمارے لئے مشعل راہ ہے کہ اس طرح نماز سکھائیں جس کے ساتھ نوافل کی طرف بھی خدام کی توجہ ہو- حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام یہ مضمون یوں بیان فرماتے ہیں کہ یہ پانچ وقت تو خدا نے بطور نمونہ کے مقرر فرمائے ہیں ورنہ خدا کی یاد میں ہر وقت دل کو لگا رہنا چاہئے اور کبھی غافل نہ ہونا چاہئے- جو شخص خدا کے دربار میں پہنچنا چاہتا ہے نماز اس کے لئے ایک سواری ہے- مسلمانوں نے جب سے نماز کو ترک کیا تبھی سے اسلام کی حالت معرض زوال میںآئی ہے- یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ نماز سچی پڑھتے اور اسلام کی حالت نہ بدلتی- جب سے نماز کو ترک کیا تو خود متروک ہوگئے-
حضور نے فرمایا کہ میں ایسے احمدیوںکو جانتا ہوں جن کی نمازیں ختم ہونے سے پہلے ہی مقبول ہو جاتی ہیں- پس اپنی نمازوں کو پہچانیں- نماز میں کیا ہوتا ہے، یہی کہ بندہ عرض کرتا ہے ، وہ سنتا ہے- پھر ایک ایسا وقت آتا ہے کہ جو سنتا تھا وہ بولتا بھی ہے- حضور نے ایک بزرگ کا واقعہ بیان فرمایا جو ایک لمبے عرصہ تک ایک دعا کرتے رہے اور اُنہیں جواب ملتا رہا کہ یہ دعا قبول نہیں ہوگی- جب ان کے ایک شاگرد نے جو چند روز اُن کے پاس ٹھہرا تھا، یہ منظر دیکھا تو وہ تھک گیا اور اُس نے بزرگ سے کہا کہ جب اللہ تعالیٰ نے بتادیا ہے کہ دعا قبول نہیںہوگی تو پھر کیوں وہی دعا کرتے چلے جاتے ہیں؟- بزرگ نے کہا کہ دیکھو سائل کا کام کیا ہے سوائے ہاتھ پھیلانے کے- وہ مالک ہے، اُس کی مرضی ہے … تب خدا تعالیٰ نے فرمایا کہ اے میرے بندے! گزشتہ تیس سال کی تیری ساری دعائیں میں نے قبول کرلی ہیں- … حضور انور نے فرمایا کہ اُس بزرگ سے تو خدا تعالیٰ کا تعلق ذاتی تھا، جماعتی نہیں تھا- لیکن حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام سے جب خدا بولتا ہے تو آپؑ کے ماننے والے جگہ جگہ خدا کی ہستی کے ثبوت پیش کرتے ہیں-
حضور نے خدام الاحمدیہ جرمنی سے اس امر پر خوشنودی کا اظہار فرمایا کہ انہوں نے بہت خوش اسلوبی سے نماز کے بارے میں کوشش کی ہے، بہت پیاری سکیم بنائی ہے، کیسٹس بنائی ہیں اور کتابچہ بھی تیار کیا ہے- بچوں کا جو ماحول میں دیکھ رہا ہوں وہ میرے دل کو تسکین سے بھر رہا ہے کہ آپ کی آئندہ نسلیں انشاء اللہ تعالیٰ نجات یافتہ ہوں گی- جن نسلوں سے میرا براہ راست رابطہ ہوتا ہے ان میں نمایاں تبدیلی واقع ہوتی ہے- اب چھوٹے چھوٹے بچے بھی دین سے گہرا تعلق رکھ رہے ہیں- جگہ جگہ اُن کی تربیت کے لئے طوعی سکول کھولے جا رہے ہیں- یہ آج کی نسل ہے جو کل کی راہنما بننے والی ہے- ہم خدا کا شکر کر سکتے ہیں کہ اس نے ہمیں ان کا تقویٰ دکھا دیا ہے-
حضور نے ہجرت کے دونوں پہلوؤں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ ہجرت کے کچھ مالی فوائد تو آپ کو دکھائی دے رہے ہیں لیکن اصل وسعت یہ ہے کہ جس ملک میں کلمہ پڑھنے کی اجازت نہیں تھی ، نمازوں پر قدغن تھی ، وہاں سے ایک مذہبی آزادی والی جگہ کی طرف ہجرت ہے-
حضور نے فرمایا کہ میں نے خدام الاحمدیہ اور وقف جدید میں کام کرتے ہوئے ہر مجلس کے دورے کئے ہیں اور اُن دوروں میں میں نماز کو اوّلیت دیتا رہا ہوں- اللہ مبارک کرے کہ آپ کی آئندہ نسلیں اسلامی قدروں کی محافظ بن گئی ہیں اور ان کا فیض آئندہ نسلوں کو بھی پہنچے گا-
حضور انور نے اپنے خطاب کو ختم کرنے سے قبل فرمایا کہ نماز سب سے پہلے اپنے دل اور نفس کو تعلیم دیتی ہے اور جب اپنا نفس اثر قبول کرتا ہے تو وہ وجود نکلتے ہیں جو دنیا کو تعلیم دیتے ہیں- حضور نے فرمایا کہ میں جلسے میں حاضر ہوں گا، اس عرصے میں کوشش کریں تاکہ اس کے اثرات نظر آئیں، نومبائعین کی طرف بھی خصوصی توجہ دیں جنہوں نے اللہ کی خاطر ہجرت کی ہے، جنہیں اُن کے خاندانوں نے محبت کے تعلق سے منقطع کردیا ہے- پس اُن کی تربیت کریں تا وہ انقلاب جو کَل آنا ہے ، آج ہی آجائے-
(باقی آئندہ شمارہ میں)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

فیملی ملاقاتیں
۲۵؍مئی ۹۸ء کی صبح دس بجے مسجد نور فرینکفرٹ میں فیملی ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہوا جو بعد دوپہر تک جاری رہا- اس دوران اڑتیس (۳۸) فیملیوں کے ایک سو ساٹھ (۱۶۰) افراد نے حضور انور سے ملاقات کا شرف حاصل کیا- نیز شعبہ ہومیوپیتھک جرمنی کے چھ ارکان نے بھی ملاقات کی سعادت حاصل کی- نماز ظہر و عصر ادا فرمانے کے بعد حضور انور اپنے اس بابرکت سفر کے آخری مرحلے میں کولون کے لئے روانہ ہوئے جہاں جرمن احباب کے ساتھ ایک مجلس سوال و جواب کا اہتمام تھا-

جرمنوں کے ساتھ مجلس سوال و جواب
۲۵؍مئی ۱۹۹۸ء کی شام احمدیہ مشن ہاؤس کولون میں جرمن احباب کے ساتھ ایک مجلس سوال و جواب کا انعقاد ہوا- اس مجلس میں کئے جانے والے سوالات اور ان کے مختصر جوابات اپنی ذمہ داری پر ہدیہ قارئین ہیں:
٭ پہلا سوال تھا کہ کیا ہم خدا کا حصہ ہیں؟
حضور انور نے فرمایا کہ نہیں ، ہم خدا کا حصہ نہیں ہیں لیکن ہم میں کچھ خدائی خصوصیات موجود ہیں کیونکہ وہ ہمارا خالق ہے اور خالق کی اپنی مخلوق پر ایک مُہر ہوا کرتی ہے-
٭ ایک سوال کے جواب میں حضور انور نے فرمایا کہ جس کو دنیا میں خوشی نہ ملے، اُسے آخرت میں بھی خوشی نہیں مل سکتی لیکن یہ عام خوشی کی بات نہیں ہے بلکہ یہ خدا کے امن کی خوشی ہے جو نبیوں اور نیک لوگوں کو عطا کی جاتی ہے-
٭ بعض لوگوں کے اسلام کی صداقت کا علم ہونے کے باوجود اسلام قبول نہ کرنے کے بارے میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے حضور انور نے فرمایا کہ وہ لوگ جو اسلام قبول نہیں کرتے اُن کی دو اقسام ہیں- اول وہ جو نہیں جانتے کہ اسلام کیا ہے اور دوسرے وہ جو اسلام کی ساری خصوصیات سے آشنا ہیں اور اگر وہ ایمان نہ لائیں تو تکلیف اٹھائیں گے مثلاً اگر کوئی جانتا ہو کہ آگ جلائے گی اور پھر بھی وہ اپنا ہاتھ اس میں ڈالے تو یہ اس کی مرضی ہے لیکن وہ تکلیف ضرور اٹھائے گا-
٭ ایک سوال کے جواب میں زندگی کے مقاصد بیان کرتے ہوئے حضور انور نے فرمایا کہ زندگی کا مقصد خدا کی طرف ترقی کرتے چلے جانا ہے- یہ نہ صرف انسانی زندگی کا مقصد ہے بلکہ ارتقاء کا رُخ بھی یہی ہے اور ارتقاء کا مقصد بھی یہی ہے کہ زندگی کو اس قابل کیا جائے کہ وہ خدا تک پہنچ سکے- اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے انسانوں کو عبادت کے لئے پیدا کیا ہے- عبادت کا مطلب ہے اطاعت- یعنی خدا کی اطاعت ہی مقصد حیات ہے-
٭ بائبل کی اسلام کے نزدیک کیا حیثیت ہے؟ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے حضور انور نے فرمایا کہ اسلام کے مطابق دیگر تمام گزشتہ الہامی کتب بنیادی طور پر ایک ہی تھیں یعنی جن میں انسان کی خدمت کے راستے بتائے گئے ہیں لیکن جیسے انسان کی ہڈیاں ایک طرح کی ہیں لیکن گوشت پوست سے شکل و صورت مختلف ہو جاتی ہے اسی طرح ان تمام کتب کی بنیاد ایک ہی ہونے کے باوجود بھی ان کے ماننے والے مختلف نظر آتے ہیں-
٭ ایک سوال تھا کہ احمدیوں کے اِس عقیدہ کا کیا ثبوت ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام ایک سو بیس برس کی عمر میں فوت ہوئے- حضور انور نے فرمایا کہ اس کی بنیاد آنحضرت ﷺ کی ایک حدیث پر ہے کہ آپؐ حضرت عیسیٰؑ سے نصف زندگی پائیں گے- پس ہم یقین رکھتے ہیں کہ عیسیٰؑ واقعہ صلیب کے لمبے عرصہ بعد فوت ہوئے اور انہوں نے اس بات کا اظہار بھی کیا تھا کہ وہ اسرائیل کی گمشدہ بھیڑوں یعنی گمشدہ قبائل کی تلاش میں جانے والے ہیں- چنانچہ نئے عہد نامہ کے مطابق وہ سفر کرتے ہوئے مسلسل جائے صلیب سے دورہوتے گئے-
حضور نے فرمایا کہ عیسائی مؤرخین کے مطابق اسرائیلی افغانستان اور کشمیر میں بھی آ بسے تھے- چنانچہ اگر آپ افغانیوں اور کشمیریوں کے چہروں کے نقوش پر غور کریں تو آپ کو علم ہو جائے گا کہ یہ برّصغیر میں بسنے والوں کی نسبت اسرائیلیوں سے کس قدر مشابہت رکھتے ہیں- … اپنے جواب کو مختصر کرتے ہوئے حضور انور نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی سرینگر کشمیر میں واقع قبر کا ذکر کیا جس کے بارے میں مشہور ہے کہ وہاں ایک نبی ایک سو بیس برس کی عمر پاکر فوت ہوکر مدفون ہوا-
٭ ایک سوال تھا کہ ’’محبت سب کے لئے ، نفرت کسی سے نہیں‘‘ کے ماٹو پر پورا یقین ہے لیکن عملاً ایسا معاشرہ وجود میں کیسے آ سکتا ہے؟- حضور نے فرمایا کہ دنیا میں ہر شخص کا ایک شیطان ہے جو اُس کے برے خیالات کا دوسرا نام ہے- اگر ہر شخص اپنی ذہانت کے مطابق چلنے سے پہلے اس شیطان کو ذہن سے نکال دے تو ایک پُرامن معاشرہ وجود میں آ سکتا ہے-
٭ ’’آخری زمانہ‘‘ ، قیامت کے قرب کی نشانیوں اور اس کے بارے میں پیشگوئیوں کا ذکر کرتے ہوئے حضور انور نے فرمایا کہ قیامت ایک دن کی نہیں ہے- دراصل قوانین قدرت جو لاگو ہوتے ہیں وہ برے لوگوں کے خلاف عمل پیرا ہیں لیکن لوگ نہیں جانتے کہ ایسا کیوں ہے- حضور نے فرمایا کہ ’’آخری دنوں‘‘ کا مطلب ہے کہ کئی دن مسلسل ایسے آئیں گے جب جنگوں کے تسلسل کی وجہ سے انسان انسان کو سزا دے گا- حضور نے دونوں عالمگیر جنگوں کا ذکر کرنے کے بعد فرمایا کہ ہمیں یقین ہے کہ تیسری سزا بھی آنے والی ہے جو گزشتہ دونوں سے سنگین تر ہوگی اور انسان ہی انسان کی تباہی کا باعث بنے گا- قرآن کریم کے مطابق اس سزا کے بعد انسان کو اپنی حیثیت کا احساس ہوگا اور وہ خدا کی طرف جھکے گا- اور یہ بات اُس یوم جزا سزا کے ساتھ بہت مشابہت رکھتی ہے جس کے بارے میں عام طور پر ہم نے سُن رکھا ہے- حضور نے فرمایا کہ یہ بنی نوع انسان کا خاتمہ نہیں ہے بلکہ ایک نئے دور کا آغاز ہے اور اللہ جانتا ہے کہ اس کے بعد انسان اور یہ کائنات کتنا عرصہ باقی رہیں گے-
٭ اسلام میں عورت کے مقام کے بارے میں متعدد سوالات کا یکجائی طور پر جواب دیتے ہوئے حضور انور نے فرمایا کہ عورت اسلام میں اپنے خاوند کی اجازت کے بغیر کام نہیں کرسکتی کیونکہ خاوند نان و نفقہ کا ذمہ دار ہے- اگر خاوند اخراجات کے لئے کافی آمد پیدا نہیں کرسکتا تو باہمی رضامندی سے کسی فیصلہ پر پہنچا جاسکتا ہے- اور عورت اپنے خاوند سے مطالبہ کرسکتی ہے کہ یا رقم زیادہ پیدا کرو یا طلاق دے دو- لیکن اسلام میں عورت کا کام کرنا یا کام کے لئے باہر جانا منع نہیں ہے-… یورپین معاشرہ میں مرد اور عورت اگر کما رہے ہوں تو وہ اپنی آمد Share کرتے ہیں لیکن اسلام میں عورت کی کمائی صرف اُسی کی ہے اور وہ خاوند کو اُس میں سے دینے سے انکار کر سکتی ہے-
٭ اس سوال کے جواب میں کہ اگر بچے نہ پیدا ہوں تو کیا خاوند دوسری شادی کر سکتا ہے؟ حضور انور نے فرمایا کہ دوسری شادی کرنا خاوند کا حق ہے لیکن اگر پہلی بیوی اس بات کو ناپسند کرے تو وہ طلاق لے سکتی ہے لیکن کئی اور باتیں ہیں جنہیں پیش نظر رکھنا چاہئے- مثلاً جب جنگوں کے بعد عورتیں تعداد میں مَردوں کی نسبت زیادہ ہو جائیں جیسا کہ جرمنی میں دونوں عالمگیر جنگوں کے بعد ایسا ہوا تو ایسی صورت میں اسلام مرد کو ایک سے زیادہ شادیوں کی اجازت دیتا ہے- لیکن کوئی بھی صورت ہو اسلام یہ شرط بھی عائد کرتا ہے کہ ایک سے زیادہ بیویوں میں انصاف کرنا لازمی ہے- آج کے دور میں جو ایک سے زیادہ شادیاں کرتا ہے ، اگر وہ انصاف سے کام لے تو پہلی بیوی یقینا اُس کے ساتھ رہنے کو ترجیح دے گی لیکن چونکہ آجکل عموماً ایسا نظر نہیں آتا اس لئے پہلی بیوی تکلیف اٹھانے کے بعد علیحدگی پسند کرتی ہے-
٭ ’’اسلام‘‘ کے بارے میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے حضور انور نے فرمایا کہ اسلام کا مطلب ہے سلامتی اور امن یعنی سلامتی دینا- ایک مسلمان اللہ سے سلامتی لیتا ہے اور دنیا کو سلامتی پہنچاتا ہے- درحقیقت آپ صرف خدا سے سلامتی پا سکتے ہیں- اگر آپ اُس سلامتی کو حاصل کرلیں تو پھر اُسے دنیا میں تقسیم کر سکتے ہیں- حضور نے فرمایا کہ اسلام صرف ایک مذہب ہی نہیں ہے بلکہ ہر مذہب کا نام اسلام ہے کیونکہ ہر مذہب کا یہی مقصد ہے-
٭ اسلام میں عورت کے لئے پردہ کا حکم کیوں ہے؟ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے حضور انور نے ارشاد فرمایا کہ عورت کو بُرے لوگوں سے محفوظ رکھنے کے لئے پردہ ہے- آج کے جدید معاشرہ میں یہ رواج ہوگیا ہے کہ کسی عورت کی خوبصورتی کو بُرے لوگ چند روز کے لئے استعمال کرتے ہیں اور اُسے تباہ کرکے اپنی راہ لیتے ہیں-
حضور نے فرمایا کہ پردہ عورت کی اپنی شان میں اضافہ ہے اور روزمرہ کی باتوں میں آپ دیکھتے ہیں کہ مرد عورتوں کی عزتوں کو کس طرح پامال کرتے ہیں لیکن مرد محفوظ ہیں- اس لئے عورتوں کی عزت کی حفاظت کے لئے پردہ رکھا گیا ہے-
حضور نے فرمایا کہ دو صدیاں پہلے پردہ عیسائی دنیا میں ایک نمایاں مقام رکھتا تھا- آپ پرانی تصاویر دیکھیں جن میں عورتوں کے سر ڈھکے ہوئے آپ کو ملیں گے-… پھر عورتوں کے پردے کے نتیجہ میں معاشرہ میں وفاداری پیدا ہوتی ہے کیونکہ پھر عورت کا حسن اور اس کی دلکشی صرف اس کے خاوند کے لئے ہی ہوگی اور اس بات کا ردّعمل بہت خوبصورت ہوتا ہے-
حضور نے مزید فرمایا کہ عورتیں اپنے خاندان میں جہاں اُن کی عزتیں محفوظ ہوں، پردہ اتار سکتی ہیں- اسی طرح ایسی پیشہ وارانہ ذمہ داریوں مثلاً سرجری وغیرہ کے دوران میں پردہ نہ کرنے میں کوئی حرج نہیں-
٭ اسلام میں عورت اور مرد کے حقوق کے بارے میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے حضور انور نے فرمایا کہ ہمارے عقیدہ کے مطابق عورت اور مرد کے حقوق برابر ہیں- فرق صرف جسمانی ساخت کا ہے- عورتوں کو اللہ تعالیٰ نے بچہ پیدا کرنے کے قابل بنایا ہے اور اِس حقیقت کو عورتیں بھی بخوبی جانتی ہیں چنانچہ اگر انہیں اولمپک مقابلوں میں مَردوں کے شانہ بشانہ حصہ لینے کے لئے کہا جائے تو وہ احتجاج کریں گی- امر واقعہ یہ ہے کہ ہر ایسا قانون جو مرد اور عورت کے صنفی فرق کو ملحوظ نہیں رکھتا وہ ناقابل عمل ہے- اس لئے اسلام میں دونوں صنفوں کے فرق کوملحوظ رکھا گیا ہے-
حضور نے فرمایا کہ میں آپ کے سامنے وہ اسلام پیش کر رہا ہوں جس کی بنیاد قرآن اور محمد رسول اللہ ﷺ کی سنت پر ہے- چنانچہ جنگوں کے دوران مسلمان خواتین نے سر پر اوڑھنی لئے بغیر بھی حصہ لیا لیکن عام حالات میں بہتر یہی ہے کہ وہ سروں کو ڈھانپ کر رکھیں- … دوسرے روایتی مسلمانوں میں آپ کو ایسا اسلام نہیں ملے گا- وہاں آپ کو انتہا پسند نظر آئیں گے- ایک اُس قسم کے جیسے کہ افغانستان میں ملتے ہیں اور دوسری وہ عورتیں جو خود کو اتنا بھی ڈھانپ کر نہیں رکھتیں جتنا کہ یہاں کی مہذب عورتیں رکھتی ہیں اور وہ پھر بھی مسلمان کہلاتی ہیں-
٭ پاکستان میں احمدیوں کے حقوق کے بارے میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے حضور انور نے فرمایا کہ وہ جرمن جن کے احمدیوں کے ساتھ تعلقات ہیں وہ احمدیوں کو پسند کرتے ہیں ، نفرت نہیں کرتے- لیکن پاکستان میں عوام کو مُلاّ احمدیوں سے تعلقات بڑھانے کی اجازت نہیں دیتا- اگر ایسا ہو جائے تو سارا پاکستان احمدی ہو جائے- اس لئے وہ یہ پراپیگنڈہ کرتا ہے اور اس کام میں میڈیا اُن کی مدد کرتا ہے کہ احمدیوں پر مختلف الزامات عائد کئے جائیں- اور جب کبھی لوگ یہ الزامات سن کر بھی احمدیوں کے قریب آتے ہیں تو نہ صرف خود احمدی ہو جاتے ہیں بلکہ دوسروں کو بھی احمدیت میں لانے کا باعث بنتے ہیں- … لیکن ایسا ہر مذہب کے آغاز میں ہوتا رہا ہے کہ جو لوگ زیادہ پارسا ہوتے ہیں وہ نفرت کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں-
٭ ایک سوال تھا کہ قبروں پر چراغ جلانا کیوں ناجائز ہے؟- حضور انور نے جواباً فرمایا ’’کیونکہ مُردے دیکھ نہیں سکتے!‘‘-
٭ ایک سوال احمدیت میں خلافت کے بارے میں تھا کہ خلیفہ کون ہوتا ہے، وہ کیسے منتخب ہوتا ہے اور اس کے فرائض کیا ہیں؟
حضور انور نے فرمایا کہ خلیفہ کو ایک عالمی انتخابی مجلس کے ذریعہ سے چُنا جاتا ہے- یہ مجلس ایک خلیفہ کی زندگی میں بالکل خاموش ہوتی ہے لیکن خلیفہ کی وفات کے ساتھ ہی اگلے خلیفہ کے انتخاب تک وہ جماعت کے معاملات کو اپنے ہاتھ میں لے لیتی ہے- خلافت کے انتخاب کے لئے کوئی پراپیگنڈہ نہیں کیا جاتا- کوئی شخص خود اپنا نام پیش نہیں کرسکتا- مجلس انتخاب کے اراکین انسانی نقطہ نظر سے متقی ہوتے ہیں جو اپنے ذاتی مفادات کے مطابق ووٹ نہیں دیتے بلکہ اللہ کی خاطر ہی اُن کا عمل ہوتا ہے- اسی طرح کے انتخابات ہر جگہ ہوتے ہیں جہاں سے مقامی عہدیدار منتخب کئے جاتے ہیں اور پھر یہ بنیادی تربیت ایک عالمی مجلس کو جنم دیتی ہے-
حضور نے فرمایا کہ ہمارا عقیدہ ہے کہ اللہ بالواسطہ طور پر خلیفہ منتخب کرتا ہے اور مجھے بھی اُسی نے ۱۹۸۲ء میں خلیفہ بنایا تھا- اُس وقت مجلس انتخاب میں جو نام پیش ہوئے تھے ان میں حضرت چودھری محمد ظفراللہ خان صاحبؓ کا نام بھی شامل تھا جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی تھے اور اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی اور عالمی عدالت انصاف کے صدر بھی رہ چکے تھے- اور میرے بڑے بھائی مرزا مبارک احمد صاحب کا نام بھی شامل تھا- لیکن کمیٹی نے مجھے ووٹ دیا تو اپنے تقویٰ کی وجہ سے دیا- اور میں حیران تھا کہ میں کیسے منتخب کرلیا گیا- لیکن بعد میں اللہ تعالیٰ نے مجھے جو عالمی سطح پر کام کرنے کی توفیق بخشی ہے اُس سے مجھے یقین ہے کہ یہ انتخاب اللہ کا ہی تھا-
٭ ایک ضمنی سوال کے جواب میں حضور انور نے بتایا کہ خلیفہ بننے سے قبل میرے فرائض میں دیہی علاقوں کے دورے کرنا تھے-
٭ اس سوال کے جواب میں کہ چونکہ اللہ نے ہر چیز کو کسی خاص مقصد کے لئے پیدا کیا ہے، پھر اُن سے محبت کیوں نہیں کی جاتی؟- حضور انور نے فرمایا کہ بعض چیزوں کو محبت نہ کرنے کے لئے پیدا کیا گیا ہے- مثلاً بہت سے ذہین جانوروں میں سے سانپ زیادہ ذہین ہے لیکن آپ سانپ سے محبت نہیں کرتے-
کولون مشن میں ہونے والی یہ مجلس سوال و جواب حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کے اس دورہ جرمنی کی آخری تقریب تھی- مجلس کے اختتام کے بعد حضور انور برطانیہ کے لئے واپس روانہ ہوئے-

جرمنی سے روانگی اور بیلجئم میں قیام
۲۵؍مئی ۹۸ء کی شام کو جرمنی سے روانہ ہوکر رات ساڑھے دس بجے کے قریب حضور انور برسلز (بیلجیئم) کے احمدیہ مشن ہاؤس پہنچے جہاں نماز مغرب و عشاء باجماعت ادا کی گئیں- نماز کے بعد حضور انور کچھ دیر کے لئے احباب میں تشریف فرما رہے اور مکرم سید حامد شاہ صاحب امیر جماعت احمدیہ بیلجیم سے برسلز میں مسجد و مشن ہاؤس کے لئے زمین کی خرید کے متعلق استفسار فرمایا اور ہدایات سے نوازا- رات کو حضور کا قیام مشن ہاؤس میں رہا-
۲۶؍مئی ۱۹۹۸ء کو صبح نماز فجر کی ادائیگی کے بعد ایک بنگالی دوست مکرم فیروز احمد بائل صاحب نے حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ تعالیٰ کے دست مبارک پر قبول احمدیت کا شرف حاصل کیا- یہ دوست قبل ازیں حضور انور کے دورہ بیلجئم کے دوران منعقد ہونے والی مجالس سوال و جواب میں شامل ہوچکے تھے لیکن دلچسپی لینے کے باوجود احمدیت قبول نہیں کی تھی- بعد میں اللہ تعالیٰ نے خواب کے ذریعہ ان کی راہنمائی فرمائی اور انہیں یہ سعادت بھی عطا فرمائی کہ حضور انور نے ان کی درخواست قبول فرماتے ہوئے ان سے بیعت لی اور دعا کروائی- اللہ تعالیٰ یہ اعزاز انہیں مبارک فرمائے اور ثبات قدم عطا فرمائے-

بیلجیم سے روانگی اور لندن میں تشریف آوری
قریباً ایک گھنٹے کے بعد حضور انور نے دعا کے ساتھ بیلجئم سے برطانیہ تک کے اپنے سفر کا آغاز فرمایا اور فیری کے ذریعہ قبل از دوپہربخیر و عافیت مسجد فضل لندن تشریف لے آئے- اللہ تعالیٰ حضور انور کے اس سفر کو ہر لحاظ سے بابرکت فرمائے اور ہمیں حضور انور کی نصائح پر عمل کرنے اور اُن برکات کا مشاہدہ کرنے کی توفیق عطا فرماتا چلا جائے جو خلافت کی اطاعت سے وابستہ ہیں-

حضور انور نے از راہِ شفقت حسب ذیل افراد کو اِس سفر کے دوران اپنے قافلہ میں شمولیت کی سعادت عطا فرمائی:۱۔ مکرم منیر احمد جاوید صاحب (پرائیویٹ سیکرٹری)-۲- مکرم مجید احمد سیالکوٹی صاحب-۳- مکرم بشیر احمد صاحب-۴- مکرم میجر محموداحمد صاحب (افسر حفاظت) -۵- مکرم سخاوت احمد باجوہ صاحب-۶- مکرم رانا نعیم الدین صاحب- ۷- مکرم نعیم احمدزاہد صاحب-۸- خاکسار محمود احمد ملک-

100% LikesVS
0% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں