سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کی سیرۃ

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 10؍دسمبر 2003ء میں مکرم پیر محمد عالم صاحب کارکن دفتر پرائیویٹ سیکرٹری کی یادوں پر مشتمل ایک مضمون شامل اشاعت ہے۔ آپ بیان کرتے ہیں کہ میں1984ء میں شعبہ تعلیم لاہور سے بطور ڈپٹی ڈائریکٹر ریٹائر ہونے کے بعد ربوہ چلا گیااورجب حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ خلیفہ منتخب ہوئے تو میں نے اپنی خدمات پیش کیں۔ حضور رحمہ اللہ کے خلیفہ بننے سے قبل میں بیمار تھا اور اتفاق سے حضورؒ ہی کے زیر علاج تھا۔ میرے وقفِ زندگی پر حضور نے فرمایا: پہلے تندرست ہوجاؤ پھر اپنے آپ کو خدمت کے لئے پیش کرنا۔ کچھ عرصہ بعد ایک شادی کے موقع پر حضورؒ نے مجھے دیکھ لیا اوراپنے پاس بلاکر پوچھا کہ اب صحت کیسی ہے ۔ میں نے عرض کیا حضور اب پہلے سے کافی بہتر ہوں۔ چنانچہ حضورؒ نے میرا وقف قبول فرماکر انگلش سیکشن کا کام میرے سپرد کردیا۔ چنانچہ میں نے مارچ 1983ء میں دفتر پرائیویٹ سیکرٹری ربوہ میں باقاعدہ کام شروع کیا ۔ 1984ء میں حضور کو لندن ہجرت کرنا پڑی اور 1985ء میں حضور نے مجھ سے پوچھا کہ کیاآپ لندن آنے کے لئے تیار ہیں؟ میں نے عرض کیا حضور میں توواقف زندگی ہوں، حضور کا جو بھی حکم ہوگااس کی تعمیل کرنا میرا فرض ہے۔ چنانچہ ضروری دفتری کارروائی کے بعد میں 28؍اکتوبر 1985ء کو حضور کی خدمت میں لندن حاضر ہوگیا۔ یہاں بھی حضور نے ازراہ شفقت انگلش سیکشن میں ہی کام کرنے کا موقع عطا فرمایا۔ حضور ازراہ شفقت مجھے اکثر پیر جی کہہ کر مخاطب کیا کرتے تھے ۔ ایک مرتبہ حضورؒ نے پوچھا کہ تم دفتر کتنے بجے آجاتے ہو۔ میں نے کہا: آٹھ یا ساڑھے آٹھ تک آجاتا ہوں۔ حضور فرمانے لگے کہ میں بھی اس وقت آجایا کروں گا۔ چنانچہ اس کے بعد حضورؒ ساڑھے آٹھ بجے دفتر تشریف لے آتے۔ بعض دفعہ جب میں بیمار ہوجاتا تو حضور فون پر میرا حال دریافت فرماتے اور ہدایات دیتے کہ فلاں فلاں دوائی کھاؤ۔ پھر اگرمیری بیماری کے دوران حضور دورہ پر ہوتے تو وہیں سے ڈاکٹر مجیب الحق صاحب کو تاکیداً پیغام بھجواتے کہ احتیاط سے علاج کریں اور اگر ضرورت ہو تو ہسپتال میں داخل کرائیں۔
جب صبح حضور دفتر تشریف لاتے توآپ کا اکثر یہ معمول تھا کہ مجھے بلاکر پاس بٹھا لیتے اور میری ملازمت کے زمانہ کے حالات دریافت فرماتے۔ میرا جواب ہمیشہ یہی ہوتا کہ مجھے جو مزا زندگی وقف کرنے کے بعد حضور کی قربت میں خدمت کرنے کا حاصل ہوا ہے اس کا ملازمت کے زمانہ سے کوئی مقابلہ ہی نہیں۔ پھر ایک دفعہ اردو کلاس میں حضور کی گفتگو کا محور صرف میری ذات ہی رہی۔ حضور نے تفصیل سے میرے خاندان کا اور خصوصاً میری والدہ کا ذکر فرمایا اوربتایا کہ میں جب دفتر پہنچتا ہوں تو یہ باقاعدگی سے وہاں موجود ہوتے ہیں۔
ایک دفعہ شہدائے قادیان کا ذکر خطبہ جمعہ میں فرمایا تو میرے چھوٹے بھائی پیر سلطان عالم نائب ناظر ضیافت قادیان کے ذکر کے بعد پھر میرا ذکر فرمایا کہ ان کے بڑے بھائی میرے ساتھ وہاں دفتر میں کام کرتے ہیں۔ وقت کے انتہائی پابند ہیں اور میں جب بھی انہیں بلاؤں وہ موجود ہوتے ہیں۔
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ میں دفتر میں کسی کام کے سلسلہ میں مقررہ وقت سے پہلے پہنچ گیا اس دن میں نے ابھی ناشتہ بھی نہیں کیا تھا ۔ سیر سے واپس آکر حضور دفتر میں تشریف لائے۔ تو لائٹ ہونے پر میں اندر گیا تو حضور نے مجھے دیکھتے ہی پوچھا کہ پیر جی کیا آپ نے ناشتہ کرلیا ہے؟ اس پر میں خاموش رہا تو حضور نے ازخود ہی فرمایا کہ معلوم ہوتا ہے کہ آج آپ نے ابھی ناشتہ نہیں کیااور فرمایا: اب آپ یہیں بیٹھیں میں آپ کو ناشتہ کرواتا ہوں ۔ چنانچہ حضور اوپر تشریف لے گئے جب واپس آئے تو حضور کے ہاتھ میں دوکپ اور کچھ ناشتے کا سامان تھا۔ حضور نے فرمایا کہ آپ بھی ناشتہ کریں اور میں بھی کرتا ہوں۔ چنانچہ ہم دونوں نے اکٹھے اس روز ناشتہ کیا۔ ایسا دو تین دفعہ ہوا۔
مہمان نوازی کے سلسلہ میں ایک اور دلچسپ واقعہ بیان کرتا ہوں ۔ عید کے موقع پر حضور اپنے عزیزوں اور چند دیگر احباب کی محمود ہال میں دعوت کیا کرتے تھے۔ ایک موقع پر منتظم مہمان نوازی مجھے اطلاع نہ کرسکے۔جب حضور ہال میں تشریف لائے تو حضور کی دوربین نگاہ نے فوراً بھانپ لیا کہ میں وہاں موجود نہیں۔حضور نے اسی وقت میرے گھر آدمی بھیجا کہ اسے بلاکر لاؤ۔ میں یہ اطلاع ملتے ہی فوراً حاضر ہوا تو حضور نے فرمایا کہ مجھے افسوس ہے کہ آپ کو اطلاع نہ ہوسکی۔اور پھر ازراہِ شفقت اپنے ساتھ والی کرسی پر بٹھایااور فرمایا کہ سیر ہوکر کھاؤاور ساتھ ساتھ حضور باتیں بھی کرتے رہے۔
حضور کے ساتھ مجھے خدا کے فضل سے ایک لمبا عرصہ کام کرنے کی سعادت نصیب ہوئی اس دوران میں نے کبھی حضور کو ناراض ہوتے یا تلخ کلامی سے بات کرتے نہیں دیکھا۔ ہمیشہ پیاراور محبت کا سلوک فرماتے۔ اگر کسی وقت کوئی فروگذاشت ہوجاتی تو خندہ پیشانی سے نظر انداز فرما دیتے۔ وہ ایک ایساشفیق روحانی باپ تھا جس کو ہم کبھی بھلا نہیں سکتے ۔

اپنا تبصرہ بھیجیں