صحابہؓ کی خدمتِ والدین و عائلی زندگی

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ کے سالانہ نمبر1999ء میں شامل اشاعت مکرم محمد محمود طاہر صاحب کے ایک تفصیلی مضمون میں صحابہ رسولؐ کی خدمت والدین، تربیت اولاد اور عائلی زندگی کا بیان ہے۔
آنحضرتﷺ نے والدین کی نافرمانی کو گناہ کبیرہ قرار دیا۔ چنانچہ وہ صحابہؓ جن کے والدین ایمان نہیں لائے تھے، وہ بھی اپنے والدین کی خدمت میں کوئی کمی نہیں کرتے تھے۔
حضرت ابوہریرہؓ کا اپنی مشرک والدہ سے حسن سلوک ایک لمبے عرصہ تک پھیلا ہوا ہے۔ آپؓ اُن کے سخت کلمات سنتے لیکن صلہ رحمی میں کوئی کمی آنے نہ دیتے۔ آخر آنحضورﷺ کی دعا سے وہ بھی ایمان لے آئیں۔
حضرت اسماء بنت حضرت ابوبکر صدیقؓ نے آنحضورﷺ سے دریافت کیا کہ اُنکی مشرک والدہ اُنکے پاس آئی ہیں، کیا اُن سے اچھا سلوک کروں۔ تو آپؐ نے حضرت اسمائؓ کو اپنی والدہ سے صلہ رحمی کرنے کا ارشاد فرمایا۔
صحابہؓ اپنے والدین کے دوستوں سے بھی حسن سلوک میں کمی نہ کرتے۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ کو راستہ میں ایک اعرابی ملا تو آپؓ نے اُسے اپنے گدھے پر سوار کرلیا اور اپنا عمامہ اُسے دیدیا۔ ساتھیوں نے اس قدر حسن سلوک کی وجہ پوچھی تو فرمایا کہ اس شخص کا باپ میرے والد عمرؓ بن الخطاب سے بہت محبت رکھنے والا تھا اور مَیں نے آنحضورؐ سے سنا ہے کہ یہ بہت بڑی نیکی ہے کہ کوئی بیٹا اپنے باپ کے دوستوں کے ساتھ حسن سلوک کرے۔
حضرت سعدؓ بن عبادہ نے آنحضورﷺ کی خدمت میں عرض کیا کہ میری والدہ وفات پاگئی ہیں لیکن انہوں نے ایک نذر مانی تھی، کیا مَیں اُسے پورا کروں؟۔ فرمایا: ہاں، اپنی والدہ کی خواہش پوری کرو۔
ایک عورت نے رسول اللہﷺ کی خدمت میں عرض کیا کہ میرا باپ اتنا بوڑھا اور ضعیف ہوچکا ہے کہ وہ سواری پر صحیح طرح بیٹھ بھی نہیں سکتا، کیا مَیں اس کی طرف سے حج کا فریضہ ادا کردوں۔ آپؐ نے فرمایا: ہاں۔
حضرت اسامہ بن زیدؓ نے کھجور آنے کے موسم سے پہلے کھجور کے ایک درخت میں شگاف کرکے اس سے اس کا جمار نکالا تو لوگوں نے کہا کہ اس وقت ایسا کرنے سے پھل کو بہت نقصان پہنچے گا۔ آپؓ نے کہا کہ میری والدہ نے اس کی مجھ سے فرمائش کی تھی اور جہاں تک ہوسکتا ہے، مَیں اُن کی فرمائش کی تعمیل کرتا ہوں۔
حضرت اویس قرنیؓ کی خدمتِ والدہ کا تذکرہ کتب سلف میں محفوظ ہے۔ آپؓ یمن کے رہنے والے تھے اور آپؓ نے اگرچہ آنحضورﷺ کا زمانہ پایا لیکن صرف اپنی والدہ کی خدمت کی وجہ سے خدمت رسالت میں حاضر ہونے کی سعادت سے محروم رہے۔ آپؓ کو دربار رسالت سے یہ اعزاز بھی ملا کہ آنحضورﷺ نے صحابہؓ سے فرمایا کہ جب اُس سے ملو تو میرا سلام کہو۔
حضرت ابن عمرؓ نے ایک یمنی آدمی کو اس حالت میں بیت اللہ کا طواف کرتے دیکھا کہ وہ اپنی والدہ کو اپنے کاندھوں پر اٹھائے ہوئے تھا اور یہ شعر پڑھ رہا تھا کہ مَیں اپنی والدہ کے لئے اس کی ماتحت سواری ہوں۔ اگرچہ والدہ کی اصل سواری تو گھبراگئی ہے لیکن مَیں گھبرانے والا نہیں ہوں۔
صحابہؓ نے اپنے بچوں کی تربیت اور پرورش کا حق بھی بخوبی ادا کیا اور اپنے جذبات کی قربانی دینے سے بھی دریغ نہ کیا۔ چنانچہ حضرت امّ سلیمؓ کے بیٹے حضرت انس بن مالکؓ ابھی بہت چھوٹے تھے جب انسؓ کے والد کا انتقال ہوگیا۔ ابو طلحہ نے حضرت امّ سلیمؓ کی طرف شادی کا پیغام بھیجا تو آپؓ نے فرمایا کہ جب تک انسؓ بڑا نہیں ہوجاتا، مَیں شادی نہیں کروں گی۔ جب انسؓ بڑے ہوگئے تو ابوطلحہ نے شادی کا پیغام دوبارہ بھیجا۔ اس پر حضرت امّ سلیم نے فرمایا کہ مَیں مسلمان ہوچکی ہوں۔ چنانچہ ابوطلحہ نے بھی اسلام قبول کرلیا اور دونوں کے درمیان حق مہر ’’اسلام‘‘ طے ہوا۔
حضرت عبدالرحمن بن حارثؓ ابھی بچے ہی تھے کہ ان کے والد کا انتقال ہوگیا اور انکی والدہ فاطمہؓ بنت ولید بن مغیرہ سے حضرت عمرؓ نے نکاح کرلیا۔ حضرت عمرؓ نے حضرت عبدالرحمن کی نہایت اعلیٰ رنگ میں تربیت فرمائی چنانچہ آپؓ کہتے تھے کہ مَیں نے حضرت عمرؓ سے بہتر کوئی پالنے والا نہیں دیکھا۔
قریش کی عورتوں کے بارہ میں ایک بار آنحضورﷺ نے فرمایا: ’’قریش کی عورتیں نیک بخت ہیں۔ یہ اپنے بچوں پر بچپن میں بہت شفقت کرتی ہیں اور مہربان ہوتی ہیں اور اپنے خاوند کے مال و اسباب کی بھی خوب حفاظت کرتی ہیں‘‘۔
غزوہ تبوک کے بعد آنحضورﷺ نے جن تین صحابہ سے ناراضگی کا اظہار فرمایا تھا اُن میں حضرت ہلالؓ بن امیہ بھی شامل تھے۔ جب ان صحابہؓ کے ساتھ معاشرتی تعلق نہ رکھنے کی ہدایت کی گئی تو انہوں نے احسن رنگ میں ثبات قدم کے ساتھ اس سزا کو نبھایا۔ تاہم ہلالؓ بن امیہ کی بیوی نے آنحضورﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا کہ میرا خاوند بہت بوڑھا اور محتاج ہے۔ اُس کے پاس کوئی خادم بھی نہیں۔ اگر مَیں اس کے کام کاج کردوں تو آپؐ برا تو نہیں منائیں گے۔ آپؐ نے فرمایا: نہیں، مگر وہ تیرے قریب نہیں آئے گا۔
حضرت عبداللہ بن ابی بکرؓ کو اپنی اہلیہ عاتکہ بنت زید سے بہت محبت تھی اور بیوی کی جدائی برداشت نہ تھی اس لئے بعض غزوات میں شریک نہ ہوسکے تو حضرت ابوبکرؓ نے انہیں اپنی بیوی کو طلاق دینے کیلئے کہا۔ انہوں نے والد کے اصرار پر طلاق تو دیدی لیکن دل اُسی کی طرف مائل رہا اور اُسکے اخلاق حسنہ کا تذکرہ کرتے ہوئے بعض شعر کہے۔ حضرت ابوبکرؓ نے جب یہ شعر سنے تو حضرت عبداللہؓ کو رجوع کی اجازت دیدی۔… جب عبداللہ کی وفات ہوئی تو عاتکہ نے بھی غم سے بھرا ہوا مرثیہ اپنے خاوند کی یاد میں کہا اور اُن کی خوبیوں کا تذکرہ کیا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں