عدل فاروقیؓ کی جلوہ نمائیاں

ماہنامہ ’’انصاراللہ‘‘ ربوہ مئی 2006ء میں حضرت عمر فاروقؓ کے عدل سے متعلق ایک مضمون مکرم عبدالقدیر قمر صاحب کے قلم سے شامل اشاعت ہے۔
عدلِ فاروقی ہمیشہ بے لاگ رہا اس میں دوست دشمن کی کچھ تمیز نہ تھی۔ اسی عدل نے غیرمسلموں کی نظر میں مسلم حکومت کومحبوب بنا دیا تھا اور مسلمان حکمران بھی خود کو ہر کمزور، ہریتیم اور ہر محروم کا باپ سمجھنے لگے تھے ۔ چند واقعات ملاحظہ کیجئے:
٭ ایک دفعہ ایک یہودی اور ایک مسلمان کا مقدمہ پیش ہوا۔ حضرت عمرؓ نے یہودی کے حق میں فیصلہ کیا۔ وہ بے ساختہ بول اٹھا آپ نے انصاف کے ساتھ فیصلہ کیا۔ لیکن اگر فیصلہ حضرت عمرؓ کے خلاف بھی ہوتا تو شرح صدر سے قبول فرماتے۔ ایک دفعہ آپ نے ایک شخص سے پسند کی شرط پر گھوڑا خریدا اور امتحان کے لئے ایک سوار کو دیا۔ گھوڑا سواری میں چوٹ کھا کر داغی ہوگیا۔ حضرت عمرؓ نے اس کو واپس کرنا چاہا۔ گھوڑے کے مالک نے انکار کیا۔ اس پر معاملہ قاضی شریح کی عدالت میں پہنچا۔ انہوں نے یہ فیصلہ کیا کہ اگر گھوڑے کے مالک سے اجازت لے کر سواری کی گئی تھی تو گھوڑا واپس ہو سکتا ہے ورنہ نہیں۔
٭ ایک دفعہ حضرت ابی بن کعبؓ کے ساتھ حضرت عمرؓ کا ایک تنازعہ تھا۔ حضرت ابیؓ نے حضرت زید بن ثابتؓ کی عدالت میں مقدمہ دائر کیا۔ حضرت عمر ؓ مدعاعلیہ کی حیثیت سے حاضر ہوئے۔ زید ؓنے تعظیم دی تو حضرت عمرؓ نے فرمایا: یہ تمہارا پہلا ظلم ہے۔ یہ کہہ کر حضرت ابیؓ کے برابر بیٹھ گئے۔ حضرت ا بی ؓکے پاس ثبوت نہ تھا۔ حضرت عمرؓ کو دعوے سے انکار تھا۔ حضرت ابی ؓنے قاعدہ کے موافق حضرت عمرؓ سے قسم لینی چاہی۔ لیکن حضرت زیدؓنے آپ کے رتبہ اور مقام کا لحاظ کر کے کہا کہ امیر المومنین کو قسم سے معاف رکھو۔ حضرت عمرؓ اس طرفداری سے نہایت رنجیدہ ہوئے۔ حضرت زید سے مخاطب ہو کر فرمایا: جب تک تمہارے نزدیک ایک عام آدمی اور عمردونوں برابر نہ ہوں تم منصب قضا کے قابل نہیں سمجھے جا سکتے۔
٭ جب کوفہ شہر آباد کیا گیا تو جامع مسجد کے سامنے ایک وسیع سائباں بنایا گیا جو دو سو ہاتھ لمبا تھا۔ اور سنگ رخام کے ستونوں پر قائم کیا گیا تھا جو نو شیر وانی عمارت سے نکال کر لائے گئے تھے ۔ یہ عمارت فتح مدائن کے بعد مسلمانوں کی ملکیت تھی بلکہ صحیح تو یہ ہے کہ اصول سلطنت کے لحاظ سے اگر کوئی اس کا وارث ہو سکتا تھا تو خلیفہ وقت ہوتا لیکن حضرت عمرؓ کے حکم سے مجوسی رعایا کو ان ستونوں کی قیمت ادا کی گئی۔ یعنی ان کا تخمینہ لگاکر اُس قدر رقم جزیہ سے نہیں لی گئی۔ حضرت عمرؓ کے دَور میں فوج میں یہودی، عیسائی اور ہزاروں مجوسی بھی شامل تھے جن کو مسلمانوں کے برابر مشاہرے ملتے تھے۔ ذمیوں کی جان و مال کو مسلمانوں کی جان و مال کے برابر قرار دیا گیا تھا۔ قبیلہ بکربن وائل کے ایک شخص نے حیرہ کے ایک عیسائی کو ما ر ڈالا۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ قاتل مقتول کے وارثوں کو دیدیا جائے۔ چنانچہ ایسا ہی کیا گیااور مقتول کے وارثوں نے قاتل کو قتل کردیا۔
٭ حضرت عمرؓ نے اپنے عمال اور گورنروں کو یہ حکم دے رکھا تھا کہ سب کو ایک نظر سے دیکھو۔ اگر تم نے حکومت میں ذاتی اغراض شامل کیں۔ یا غصّے میں لوگوں کو ستایا تو اس کی سزا تمہیں بھگتنی پڑے گی۔ حق اگر دن کی روشنی میں بھی قائم کرنا پڑے تو اُسے قائم کرو۔
حضرت عمرؓ کی قضاء اور اس کے اصول و احکام پر کتنی وسیع نظر تھی اس کا اندازہ اس خط سے ہوتا ہے جو آپؓ نے حضرت ابو موسیٰ اشعریٰؓ کو لکھا: ’’قضا ایک اہم فریضہ ہے جسے لوگ ہر زمانے میں انجام دیتے رہے ہیں۔ جب کوئی مقدمہ تمہارے سامنے پیش ہو اس کے تمام پہلوؤں کو اچھی طرح سمجھو اور جب صحیح نتیجہ پر پہنچ جاؤ تو اُسے نافذ کر دو کیونکہ زبانی فیصلہ بے سود ہے تاوقتیکہ اسے عملاً نافذ نہ کیا جائے۔ مدعی اور مدعاعلیہ کے ساتھ ایک سا برتاؤ کرو۔ کسی فریق سے بات کرنے یا عدالت میں بٹھا نے یا انصاف کرنے میں کوئی امتیاز نہ برتو تا کہ زوردار یہ توقع نہ کرے کہ تم رعایت برتو گے اور کمزور کو یہ اندیشہ نہ ہو کہ تم اس کے ساتھ نا انصافی سے پیش آؤ گے…جو شخص حق و انصاف کے موقعہ پر حق و انصاف قائم کرتا ہے وہ اللہ کے انعام اور اچھی شہرت کا مستحق ہوجاتا ہے۔ ‘‘
٭ جبلہ بن الا یہم غسانی ، شام کا مشہور رئیس بلکہ بادشاہ تھااور مسلمان ہو گیا تھا۔ کعبہ کے طواف میں اس کی چادر کا گوشہ ایک شخص کے پاؤں کے نیچے آگیا۔ جبلہ نے اس کے منہ پر تھپڑ کھینچ مارا۔ اس نے بھی جواب اِسی انداز میں دیا۔ جبلہ غصہ سے بیتاب ہو گیا اور حضرت عمرؓ کے پاس آیا۔ حضرت عمرؓ نے اس کی شکایت سن کر کہا ’’تم نے جو کچھ کیا اس کی سزا پائی‘‘۔ اس کو سخت حیرانی ہوئی اورکہا کہ ہم اس رتبے کے لوگ ہیں کہ کوئی ہمارے آگے گستاخی سے پیش آئے تو قتل کا مستحق ہوتا ہے۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا: جاہلیت میں ایسا ہی تھا لیکن اسلام نے پست و بلند کو ایک کر دیا۔ اس نے کہا: اگر اسلام ایسا مذہب ہے جس میں شریف و رذیل کی کچھ تمیز نہیں تو میں اسلام سے باز آتا ہوں۔ غرض وہ چھپ کر قسطنطنیہ چلا گیا لیکن حضرت عمرؓ نے اس کی خاطر قانونِ انصاف کو بدلنا پسند نہ کیا۔
٭ حضرت عمرؓ خوب جانتے تھے کہ وہی حکومت کامیاب ہوتی ہے جس میں عدل و انصاف کا بول بالا ہو۔ ایک دفعہ دو جھگڑنے والے حضرت عمرؓ کے پاس آئے تو آپ گھٹنوں کے بل بیٹھ گئے اور دعا کی: یا اللہ! ان کے بارہ میں مجھے روشنی عطا فرما ۔
عدل قائم کرنے میں وہ اپنے عزیزوں اور ساتھیوں تک سے بھی رعایت نہیں کرتے تھے اور کوئی نرمی نہ برتتے تھے۔ایک بار فرمایا کہ میں کسی ایسے شخص کو نہیں جانتا جسے میں نے کسی کا م سے روکا ہو اور پھر اُس نے وہی کام کیا ہو سوائے اس شخص کے جسے سزا دینے میںمجھ سے کمزوری ظاہر ہوئی ہو۔
٭ حضرت عمرؓ کے صاحبزادے عبدالرحمان مصر میں تھے ۔ ایک دن انہوںنے ابو سروعہ سے مل کر نبیذ پی لی۔ ان پر نشہ طاری ہو گیا۔ وہ دونوں حضرت عمروؓبن عاص گورنر مصر کے پاس پہنچے کہ ان پر حد جاری کی جائے۔ گورنر انہیں سزا نہ دینا چاہتے تھے۔ اس پر اِنہوں نے کہا: اگر آپ نے ہم پر حد جاری نہ کی تو ہم حضرت عمرؓ کے پاس جا کر یہ سب بات بتائیں گے۔ اب یہ بات گورنر بھی جانتے تھے کہ اگر میں نے حد نہ لگائی اورکسی قسم کی رعایت کی تو مجھے معزول کر دیا جائے گا اس لئے آپ نے ان پر حد جاری کی اور انہیں سزا دی۔
٭ حضرت عمرؓ کا عدل امیر و غریب اور بڑے چھوٹے میں کوئی فرق نہ کرتا تھا۔ مصر کے گورنر کے ایک بیٹے نے ایک بدوی کو مارا اور ساتھ کہا میں بڑوں کی اولاد ہوںجو چاہوں کروں۔ گورنر نے اس بدوی کو قید کر دیا کہ کہیں امیر المومنین کے پاس پہنچ کر شکایت نہ کردے۔ آخر جب وہ قید سے چھوٹا تو مدینہ جاکر سارا واقعہ بیان کر دیا۔ حضرت عمرؓ نے اُسے وہیں ٹھہرایا۔ اور مصر کے گورنر اور اس کے بیٹے کو بلا بھیجا۔ جب وہ آ گئے تو حضرت عمرؓ نے بلند آواز میں کہا ’’ مصری کہاں ہے‘‘ لے یہ دُرّہ اور بڑے کی اولاد کومار۔ مصری جب جی بھر کے مار چکا تو حضرت عمرؓ نے فرمایا: گورنر کو بھی مار کیونکہ اگر اسے باپ کے اقتدار کا گھمنڈ نہ ہوتا تو ہرگز تجھے نہ مارتا۔ اور پھر گورنر مصر کو مخاطب کر کے فرمایا: عمرو! تم نے لوگوں کو کب سے غلام بنایا۔ ان کی ماؤں نے تو انہیں آزاد جنا تھا‘‘۔
٭ ایک دفعہ ایک شخص نے شکایت کی کہ آپ کے فلاں عامل نے مجھ کو بے قصور کوڑے مارے ہیں۔ حضرت عمرؓ نے مستغیث کو حکم دیا کہ وہ مجمع عام میں اس عامل کو کوڑے لگائے۔ حضرت عمروؓ بن عاص نے التجاء کی کہ عمال پر یہ امر گراں ہوگا۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ یہ نہیں ہو سکتا کہ میں ملزم سے انتقام نہ لوں۔ عمر و بن العاص نے منت سماجت کر کے مستغیث کو راضی کیا کہ ایک ایک تازیانے کے عوض دو دو اشرفیاں لے کر اپنے حق سے باز آئے۔
٭ حضرت عمرؓ نے ایک پیرکُہن سالہ کو گداگری کرتے دیکھا تو پوچھا ’’توبھیک کیوں مانگتا ہے‘‘۔ اس نے کہا مجھ پر جزیہ لگایا گیا ہے حالانکہ میں بالکل مفلس ہوں۔ حضرت عمرؓ اُسے اپنے گھر لے آئے اور کچھ نقد رقم دے کر مہتمم بیت المال کو لکھا کہ اس قسم کے ذمّی مساکین کے لئے بھی وظیفہ مقرر کر دیا جائے۔ واﷲ! یہ انصاف نہیں ہے کہ ان کی جوانی سے ہم متمتع ہوں اور بڑھاپے میں ان کی خبرگیری نہ کریں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں