قبول حق کی داستان
لجنہ اماء اللہ کینیڈا کے جریدہ ’’النساء‘‘ جنوری تا جون 2000ء میں مکرمہ مریم عائشہ جاوید صاحبہ قبول احمدیت کی داستان یوں بیان کرتی ہیں کہ اپنی عمر کی تیسری دہائی تک میرا کوئی مذہب یا عقیدہ نہیں تھا۔ میری چھ سالہ بیٹی نے ایک دن خدا کے بارہ میں مجھ سے سوال کیا تو مَیں نے اُسے صاف بتادیا کہ حقیقت یہی ہے کہ اس بارہ میں مَیں کچھ بھی نہیں جانتی۔ 1975ء میں مَیں نے Meditation میں دلچسپی لینا شروع کی اور اس موضوع پر ایک ہندو یوگی کی ایک کتاب بھی پڑھی جس نے کائنات کے خالق و مالک کا ذکر کیا تھا۔ اس طرح مَیں ایک قدم خدا تعالیٰ کے قریب آگئی۔جب ایران میں آیت اللہ خمینی نے انقلاب کے ذریعہ شاہ کو جلاوطنی پر مجبور کردیا تو اسلامی مذہب کے بارہ میں بہت سے رسائل و جرائد نے فیچر لکھے۔ مَیں نے ’’ٹائم‘‘ میں ایک مضمون پڑھا اور اسلام کے بارہ میں مزید معلومات حاصل کرنے کی تمنا میرے دل میں پیدا ہوگئی۔ اگرچہ اُس مضمون کو پڑھ کر مجھے اسلام بہت عجیب مذہب لگا تھا۔
1982ء میں مَیں بدھ مذہب کی پیروکار بن گئی جس میں عیسائیت کا رنگ بھی موجود تھا۔ بدھ ازم نے میری روزمرہ زندگی پر تو اچھا اثر ڈالا لیکن خدا کے بارہ میں میری معلومات زیادہ نہ بڑھ سکیں۔ انہی دنوں مَیں نے کیتھولک بننے کے لئے مطالعہ شروع کیا۔ مَیں کئی بار کیتھولک چرچ بھی گئی لیکن جب مجھے طلاق ہوگئی تو اس طرح خدا سے تعلق پیدا کرنے کا یہ سلسلہ ختم ہوگیا۔
1994ء میں میری دوسری شادی بھی طلاق پر منتج ہوئی۔ کیتھولک ہوتے ہوئے میرا خدا سے تعلق پیدا ہونا ناممکن تھا۔
1995ء میں مَیں نے ایک ٹی وی پروگرام میں لڑکیوں کے درمیان پردہ کرنے کے بارہ میں ایک بحث سنی۔ مَیں اس پروگرام سے اتنا متأثر ہوئی کہ اپنے لئے ایک سکارف تیار کرلیا جسے حجاب کے طور پر اوڑھنے لگی اور یہ مجھے بہت پسند آیا۔ میرے خاوند نے بھی مجھے اس کو استعمال کرنے کی اجازت دیدی۔ 1996ء میں مَیں ایک نفسیاتی مرض کا شکار ہوگئی اور کئی ماہ علاج کرواتی رہی۔ اس دوران کیتھولک چرچ میں جانا بھی شروع کردیا۔ وہاں کئی روحانی تجارب ہوئے۔ مجھے احساس ہوتا تھا کہ مَیں مریم کے سامنے نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کے حضور دعا کرتی ہوں۔ انہی دنوں ایک پارک میں گئی۔ میرا حجاب دیکھ کر ایک کینیڈین مسلمان نے مجھ سے پوچھا کہ کیا مَیں بھی مسلمان ہوں۔ مَیں نے کہا ہوں تو نہیں لیکن ہونا چاہتی ہوں۔ اُس نے بڑی محنت سے مجھے کلمہ طیبہ پڑھایا اور مَیں خوشی خوشی واپس گھر آئی۔
پھر ایک مسلمان خاتون نے مجھے اڑہائی سال تک دینی تعلیم دی لیکن احمدیت قبول کرنے کی سعادت مجھے چھ ماہ پہلے اُس وقت نصیب ہوئی جب بس میں سفر کے دوران ایک احمدی نے مجھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تصویر دکھائی اور احمدیت کا تعارف کروایا۔ ایک ہی پمفلٹ پڑھ کر مَیں نے احمدیت کی سچائی کو جان لیا اور قبول کرلیا۔ اُس کے بعد مجھے روحانی تجربہ سے بھرپور خواب دکھایا گیا جس میں مَیں نے حضرت خلیفۃالمسیح الرابع ایدہ اللہ کو دیکھا اور اس کو دیکھ کر مجھے یقین ہوگیا کہ مَیں سیدھے راستہ پر ہوں۔