قرآن کریم کی صداقت کا روشن ثبوت — ارم شہر کی دریافت
(مطبوعہ الفضل ڈائجسٹ 25 جنوری 2019ء)
ماہنامہ ’’النور‘‘ امریکہ جنوری 2012ء میں مکرم محمدزکریاورک صاحب کے قلم سے قرآن کریم کی صداقت کا ایک بیّن ثبوت یعنی اِرَمؔ شہر کی دریافت سے متعلق ایک معلوماتی مضمون شامل اشاعت ہے۔
عمان میں مدفون ایک شہر ارمؔ کا ذکر سورۃ الفجر میں ہؤا ہے جس میں عاد کی قوم آباد تھی۔ اس قوم کی سطوت و جبروت کا ذکر قرآن کریم کی 63 آیات میں موجود ہے۔ مثلاً:’’حضرت ہود علیہ السلام نے اپنی قوم عاد سے کہا: کیا تم ہر ایک اونچے مقام پر جھوٹی شہرت کے لئے یادگار عمارتیں بناتے ہو اور تم بڑے بڑے محل تعمیر کرتے ہو جیسے تم ہمیشہ زندہ اور قائم رہوگے۔‘‘ (الشعراء 129-130:)
’’اور عاد کو بھی اور ثمود کو بھی (ایک ہلادینے والے عذاب نے پکڑ لیا) اور( اے اہل مکہ) تم کو ان بستیوں کا حال خوب معلوم ہے۔‘‘ (العنکبوت39:)
’’کیا تجھے معلوم ہے کہ تیرے ربّ نے قومِ عاد سے کیا معاملہ کیا یعنی ارمؔ شہر والوں سے جو بڑے بڑے ستونوںوالی عمارتوں میں مسکن بناتے تھے وہ لوگ جن کے زور و قوت کے برابر کوئی قوم ان ملکوں میں پیدا ہی نہیں کی گئی تھی۔‘‘ (الفجر7:تا9)
’’اور عاد ایک ایسے عذاب سے ہلاک کئے گئے جو ہوا کی صورت میں آیا تھا جو یکساں چلتی تھی اور سخت تیزتھی اللہ نے ہو ا کو متواتر سات رات اور آٹھ دن ان کی تباہی کے لئے مقرر کر چھوڑا تھا۔ پس اے دیکھنے والے تو اس قوم کو ایک کٹی ہوئی گری پڑی حالت میں پائے گا گویا کہ وہ ایک کھوکھلے درخت کی جڑیں ہیںجن کو تیز آندھی نے گرادیا تھا۔‘‘ (الحاقہ 7:تا 9)
عربی قصص و حکایات میں محفوظ ایک شہر ’اوبار ‘ (Ubar) تھا۔ یہ شہر دولت سے مالامال ہونے کے علاوہ بد اعمالیوں اور فسق و فجور میں بھی شہرت رکھتا تھا۔ تین ہزار سال پہلے یہ شہر درخت سے نکلنے والے رَس ’لوبان‘ کا عظیم الشان تجارتی مرکز تھا۔ اونٹوں کے کارواں یہاں سے لمبے سفروں کے لئے روانہ ہوتے تھے۔ لوبان بطور مرہم کے استعمال ہونے کے علاوہ مُردوں کو جلانے کی رسوم میں بھی استعمال ہوتا تھا۔ بعض لوگ اسے بطور خوشبو بھی جلاتے تھے۔ اس کی تجارت بہت نفع مند تھی۔
شہر اوبار کے مرکز میں ایک کنواں تھا جس کے ارد گرد ایک قلعہ تعمیر کیا گیا تھا اور جس کسی کا اس کنویں کے پانی پر قبضہ ہوتا تھا وہی ہرچیز کو کنٹرول کرتا تھا۔ کنویں کے ارد گرد تاجروں کی آبادی تھی۔ دوسرے لوگ یہاں لین دین کے لئے یا کاروانوں میں شامل ہونے کے لئے آیا کرتے تھے۔ شہر بذات خود چھو ٹا تھا مگر اس میں بہت بڑی عارضی آبادی مقیم رہتی تھی۔
اوبار کا آخری بادشاہ شدّاد بن عاد بہت ریاکار، عیاش اور دولتمند شخص تھا۔ یہ شہر قہر الٰہی کے تحت اپنی بداعمالیوں کی وجہ سے تباہ ہوا۔ 230 بعد مسیح میں لوبان کی تجارت ایک دَم ختم ہوگئی۔ جب لوبان کی قیمت بھی گرگئی تو گویا یہ اس شہر کی اقتصادی موت تھی۔ اوبار کے اصل شہر کے موجودہ کھنڈرات میں جاکر مشاہدہ اور تحقیق کرنے سے معلوم ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ شہر کا قلعہ اُس سنک ہول (sink-hole) میں گر کر تباہ ہؤا تھا جو اُن کی واٹرسپلائی کا واحد ذریعہ تھا۔
بعض محققین کے مطابق قومِ عاد کا مرکزی قلعہ موجودہ شہرالشسر(Ash Shisar) کے نیچے مدفون ہے اور اوبار (Ubar) کے نام سے معروف ہے۔
اوبار شہر کا ذکر مشہور زمانہ عربی کتاب الف لیلۃ و لیلۃ میں بھی ہوا ہے ۔ اسی طرح لارنس آف عریبیہ نے اس شہر کا ذکر کتاب Atlantis of Sandمیں بھی کیا تھا۔ اس حوالہ سے ایک کتاب “Arabia Felix” کے برطانوی مصنّف اور محقّق برٹرام ٹامس نے 1932ء میں لکھا تھا کہ عمان کے بدوؤں نے اُن سے شدّاد ابن عاد کی جنت ارضی کے وجود کا ذکر شہر اوبار کے حوالہ سے کیا تھا جو ریت کے نیچے کہیں مدفون تھا۔ عرب بدوؤں نے ٹامسؔ کو ریت میں بنے ہوئے صدیوں پرانے وہ راستے بھی دکھائے تھے جو شہر اوبار کی طرف لے جا تے تھے۔
چنانچہ تین ہزار سال پرانے شہر اوبار کی تلاش کے لئے 1981ء میں مسٹر کلیپ (Clapp) نے ایک منصوبہ شروع کیا۔ انہوں نے کیلیفورنیا کی شہرہ آفاق Huntington Library، میں محفوظ پرانے مسودات اور نقشوں سے اس کا تعین کر لیا کہ حقیقت میں شہر اوبار عمان میں ریت کے نیچے کہیں دفن ہے۔ مسٹر کلیپ (Clapp) نے اس مقصد کے لئے جو نقشے استعمال کئے ان میں مشہور یونانی جیوگرافر بطلیموس Ptolemy کے بنائے ہوئے ہزاروں سال پرانے نقشے بھی شامل تھے جو اُس نے 200 صدی قبل مسیح بنائے تھے۔ اسکندریہ کے یونانی نقشہ نویس نے اپنے نقشوں میں ایک اہم تجارتی مرکز کا مقام بھی دیا تھا جس کا نام اس نے Omanum Emporium لکھا تھا۔ بطلیموس کے نقشے اور سیٹلائٹ کے ذریعے لی گئی تصاویر کے مطابق اس شہر کا اصل مقام شہرالشسر(Ash Shisar) کے نخلستان میں بنتا تھا۔ کیونکہ 1984ء میں امریکی خلائی ایجنسی ناسا کے سپیس شٹل چیلنجر کے ریڈار امیجنگ سسٹم (remote sensing satellites) سے لی جانے والی تصاویر کی مدد سے اس کے صحیح مقام کا تعین بھی کیا گیا تھا جس کے بعد نومبر1991ء میں اس شہر کی تلاش اور کھدائی کا کام شرو ع ہوا تھا اور جنوری 1992ء میں یہ شہر تلاش زمین سے برآمد کرلیا گیا۔ اب اس شہر کی کھدائی مکمل طور پر کی جاچکی ہے۔
جب اوبار شہر کے مقام کی کھدائی کا کام شروع ہؤا تو 600 فٹ ریت کے نیچے مدفون ایک قلعہ دریافت ہؤا جو قریب دو ہزار سال پرانا تھا۔ آٹھ سمتوں پر مشتمل اس مضبوط قلعہ کی دیواریں60 فٹ لمبی، دو فٹ موٹی اور بارہ فٹ اونچی تھیں۔
ماہرین کا کہنا تھا کہ یہ شہر لوبان (خوشبو) کی خریدوفروخت کا اپنے وقت کا عظیم الشان مرکز تھا۔ جنوبی عمان کے علاقہ الربع الخالی سے اس شہر کے جو آثار دریافت ہوئے ہیں اس کے مطابق گھروں کی دیواریں آٹھ سمت کے کٹے ہوئے چونے (لائم سٹون) کے پتھروں سے بنی ہوئی تھیں۔ قلعے کے آٹھ بلند مینار تھے جن میں سے سات میناروں کے آثار مل گئے ہیں جو پکی اینٹوں سے بنے ہوئے تھے۔ گھروں میں کشادہ کمرے تھے جن میں لوبان جلانے کے لئے چولہے بنائے گئے تھے۔
تاریخی طور پر ارم شہرتین ہزار سال تک تجارت کا اہم مرکز رہا اور یہ 300 بعد مسیح میں نابود ہؤا تھا۔ جیورس زارینز نے چار بار یہاں کھدائی کا کام کیا تھا اور یوں اس نے بھی ثابت کر دیا تھا کہ واقعی تاریخ میں عاد نام کی کوئی قوم تھی جس نے ارم شہر آباد کیا تھا۔ بہرحال اس برباد شہر اور اس کے نابود قلعہ کی دریافت قرآن مجید کی صداقت کا ایک روشن ثبوت ہے۔