حضرت صاحبزادی امۃالحکیم بیگم صاحبہ

(فرخ سلطان محمود)

حضرت خلیفۃالمسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے 20 جولائی 2001ء کے خطبہ جمعہ میں اختتام سے قبل چند مرحومین کا ذکرخیر کرتے ہوئے اپنی بڑی ہمشیرہ حضرت صاحبزادی امۃالحکیم بیگم صاحبہ کے حوالہ سے فرمایا:
“سب سے پہلے تو مَیں اس افسوسناک خبر کی اطلاع دے رہا ہوں کہ 18؍ جولائی بروز بدھ دن کے گیارہ بج کر45 منٹ پر میری بڑی بہن بی بی امۃالحکیم ، فضل عمر ہسپتال ربوہ میں وفات پاگئیں۔

انّا للہ وانّا الیہ راجعون۔

آپ کی عمر 75 سال تھی۔ ساڑھے سترہ سال کی عمر میں نظام وصیت میں شمولیت کی۔ آپ کے وصیت فارم پر گواہ کے طور پر حضرت ابا جان (سیدنا حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ) اور حضرت مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دستخط تھے۔
آپ غریبوں کی ہمدرد، مستجاب الدعوات اور صاحب رؤیا و کشوف تھیں۔ کئی دفعہ میرے سامنے بھی آپ نے اپنے رؤیا اورکشوف بیان کئے۔ غریبوں اور مساکین کی باقاعدہ سرپرستی کرتی تھیں اور طرز زندگی میں فقیری اور درویشی نمایاں تھی۔ دوسروں کا دُکھ دیکھ کر تڑپ اٹھتیں اور پھر مسلسل ان کے لئے دعاؤں میں لگی رہتیں۔ آپ کی شادی اپنے ماموں حضرت سید محموداللہ شاہ صاحب کے بیٹے محترم سید داؤد مظفر شاہ صاحب کے ساتھ 10؍نومبر1946ء کو ہوئی جس کے بعد لمبا عرصہ آپ کا سندھ میں قیام رہا اور وہاں خصوصاً لجنہ کی تنظیم کو فعال بنانے کے سلسلے میں آپ کو گرانقدر خدمات کی توفیق ملی۔
آپ کو خدا تعالیٰ نے چھ بیٹوں اور تین بیٹیوں سے نوازا۔ آپ کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ ان میں سے تین بیٹے واقفِ زندگی ہیں اور انہیں جماعت میں اچھی خدمت کی توفیق مل رہی ہے اور تینوں بیٹیاں واقفین زندگی سے بیاہی گئی ہیں۔18؍ جولائی 2001ء کو آپ کی وفات ہوئی۔ اناللہ و انا الیہ راجعون۔
ان کی وفات پر دنیا بھر سے تعزیت کے پیغامات، فیکسز اور خطوط موصول ہورہے ہیں۔ اس ہمدردی اور اظہار محبت پر ہم سب آپ سب کے شکرگزار ہیں لیکن فرداً فرداً ہر ایک کو جواب دینا میرے لئے اور میرے دفتر کے عملے کے لئے ممکن نہیں۔ اس لئے مَیں انہی الفاظ کے ذریعے سب احباب جماعت کا جنہوں نے عزیزہ بی بی امتہ الحکیم کے لئے تعزیت کا اظہار کیاہے ان کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔”
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی پاکیزہ نسل میں ایسے کئی بابرکت وجود ہمیں نظر آتے ہیں جن کی شفیق اور محبت کرنے والی اداؤں نے ملنے والوں کو اپنا اسیر بنا رکھا تھا- ایسی ہی ایک دعاگو اور ہمہ وقت ذکرالٰہی میں مصروف رہتے ہوئے کمزوروں اور محتاجوں کی مدد پر آمادہ ہستی حضرت سیدہ مرحومہ تھیں- سالہا سال سے اپنے گھر میں آپ کی پاکیزہ زندگی کے مختلف پہلوؤں کا ذکر سنتا رہا- پھر آپ کے بچوں سے تعلق بڑھا تو حضرت سیدہ کی دعاؤں کے ثمر بھی نظر آنے لگے- روحانی وجودوں کے دائرے میں آپ اس طرح نظر آتی ہیں جیسے کسی تاج میں جڑا ہوا نہایت روشن ہیرا اپنی تابناکی سے اپنی طرف متوجہ کررہا ہو- آپ مامورزمانہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی پوتی، مصلح موعود جیسے عظیم الشان خلیفہ کی دختر، حضرت خلیفۃالمسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ اور حضرت خلیفۃالمسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کی ہمشیرہ محترمہ اور ہمارے پیارے آقا سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کی خوشدامن تھیں- مزید یہ کہ آپ کی اولاد کو بھی جس گرانقدر خدمات دین کی توفیق عطا ہورہی ہے وہ بھی غیرمعمولی ہے- چنانچہ آپ کے صاحبزادے محترم برادرم سید خالد احمد شاہ صاحب ناظراعلیٰ کی شخصیت جن ظاہری اور باطنی خوبیوں سے لبریز نظر آتی ہے یا سب سے بڑی صاحبزادی حضرت سیدہ آپا جان محترمہ امۃالسبوح مدظلہاالعالی (حرم حضورانور ایدہ اللہ) کو جن دینی خدمات کی سعادت عطا ہورہی ہے ان پر نظر ڈالتے ہوئے واضح طور پر ان عاجزانہ دعاؤں کی قبولیت کا یقین ہوجاتا ہے جو ان کے بزرگ والدین نے سالہاسال اپنی اولاد کے لئے کی ہیں- راقم الحروف کا خیال ہے کہ کسی بھی بابرکت وجود کے تعلق باللہ کا اندازہ لگانا ہو تو اس کی دعاؤں کی قبولیت نیز اس کے دوسروں سے تعلق کا مشاہدہ کرکے لگایا جاسکتا ہے- دوسروں سے مراد والدین، بچے، دوست، ہمسائے اور دیگر ایسے افراد ہیں جو زندگی کے مختلف راستوں میں قریب آتے رہتے ہیں. ان سارے پہلوؤں کا مشاہدہ کرنے سے حضرت سیدہ کے تعلق باللہ کا اندازہ کسی حد تک کیا جاسکتا ہے-
حضرت صاحبزادی امۃالحکیم بیگم صاحبہ کے صاحبزادے سید صہیب احمد صاحب نے بارہا اپنی والدہ محترمہ کی قبولیت دعا کے ایسے انمول واقعات بیان کئے ہیں جن کو سن کر حضرت سیدہ کے تعلق باللہ اور قلب صافی کا اندازہ ہوتا ہے- خدا کرے کہ آپ کے قبولیت دعا کے واقعات اور رؤیا و کشوف کو محفوظ کرنے کا کام آپ کے بچوں‌ یا عزیزوں میں سے کوئی کرسکے- یقینا یہ بہت بڑی خدمت ہوگی-
بلاشبہ آپ بے نفسی کی زندگی گزارنے والا ایسا وجود تھیں جس کی ساری زندگی خداتعالیٰ کا دست رحمت، غیب سے مددگار اور رہنما بنا رہا- دعا ہے کہ خداتعالیٰ اس جہان میں بھی آپ کے ساتھ غیرمعمولی رحمت کا سلوک فرماتے ہوئے آپ کو آپ کے پیاروں کا قرب عطا فرمائے اور آپ کی دعاؤں کے ثمرات آپ کی اولاد کے ذریعہ قیامت تک جاری و ساری رہیں- آمین
حضرت سیدہ کی وفات کے بعد خاکسار نے الفضل ڈائجسٹ کی زینت ایک مختصر مضمون بنایا تھا جو روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 15؍جولائی 2002ء میں مکرم وسیمہ صاحبہ کے قلم سے شائع ہوا تھا-
اپنے مختصر مضمون میں ایک درویش صفت اور دعاگو وجود حضرت صاحبزادی امۃالحکیم بیگم صاحبہ کا ذکر خیر کرتے ہوئے مضمون نگار بیان کرتی ہیں کہ جب مَیں شادی کے بعد آپ کی خدمت میں حاضر ہوتی تو نصیحت فرمایا کرتیں کہ واقف زندگی شوہر سے کبھی تقاضے نہیں کرنے چاہئیں، یہ بھی قربانی ہے۔ آپ اپنے حالات بھی بتاتیں کہ کس طرح سندھ میں قیام کے دوران کوئی آسائش نہ ہونے کے باوجود آپ نے اپنے واقف زندگی شوہر کے ساتھ وقت گزارا۔ اور یہ کہ واقف زندگی کی تھوڑی تنخواہ میں بھی بڑی برکت ہوتی ہے۔
آپ بہت سادہ اور محبت کرنے والی تھیں۔ بہت سی عورتیں آپ کے پاس آتیں اور آپ ہر ایک کی بات بڑے انہماک اور تسلی سے سنتیں۔ کسی نے کہا کہ ایسا کرنے سے آپ تھکتی نہیں ہیں؟ فرمایا کہ لوگ کہانیاں پڑھتے ہیں اور گھنٹوں اپنا وقت اُنہیں پڑھنے میں صرف کرتے ہیں۔ مَیں وہی لوگوں سے سنتی ہوں اور انہیں تسلی دیتی ہوں۔
مضمون نگار بیان کرتی ہیں کہ میری بڑی آپا کی شادی ایک مربی سلسلہ سے ہورہی تھی۔ جب آپ دعائیں دیتے ہوئے رخصت ہونے لگیں تو دولہا کو اندر بلانے سے پہلے نصیحت کی کہ وہ مربی سلسلہ ہیں اس لئے کوئی ایسا ویسا مذاق اُن سے نہیں کرنا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کے دل میں واقفین زندگی کی کتنی قدر تھی!۔

اپنا تبصرہ بھیجیں