محترم عمیر احمد ملک صاحب شہید
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 19فروری 2011ء میں مکرم عمیر احمد ملک صاحب (شہید لاہور) ابن مکرم ملک عبدالرحیم صاحب کا ذکرخیر مکرم اقبال احمد عابد صاحب کے قلم سے شامل اشاعت ہے۔
محترم عمیر احمد ملک صاحب کے ساتھ قریباً بیس سالہ گہرے تعلق کی بِنا پر کہہ سکتا ہوں کہ آپ کثرت سے درود شریف پڑھنے والے، خدمت دین کا بھرپور جذبہ رکھنے والے، خلافت کے فدائی، مالی قربانی میں پیش پیش، غرباء کی مدد کرنے والے، عزیز رشتہ داروں کے حقوق ادا کرنے والے نوجوان تھے۔ اکثر اللہ تعالیٰ کا یہ سلوک بیان کرتے کہ حسب ضرورت خدا تعالیٰ آپ کی ضروریات کا کفیل ہوجاتا اور آپ کی جیب کبھی خالی نہ رہتی۔ ہر سال قادیان کے جلسہ میں شامل ہوتے اور نئے سال کا آغاز وہاں کرکے واپس آتے۔ چہرہ پر ہمیشہ مسکراہٹ اور متانت نظر آتی۔ مہمان نوازی بڑی محبت سے کرتے۔ عید پر دوستوں کو بھی تحائف دیتے۔ ایک بار وقف عارضی کرنے کی بھی توفیق پائی۔ کسی احمدی کی شہادت کی خبر سنتے تو اُس کی موت کو قابل رشک قرار دیتے اور بڑی حسرت سے اس قربانی کا ذکر کرتے۔ پہلی بیٹی چند ماہ کی ہوکر فوت ہوگئی تو کمال صبر کا نمونہ دکھایا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ایک بیٹا اور ایک بیٹی عطا فرمائے۔
حضور انور نے اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ 11جون 2010ء میں شہید مرحوم کا ذکرخیر کرتے ہوئے فرمایا کہ عمیر احمد ملک صاحب شہید کے پردادا حضرت حافظ نبی بخش صاحبؓ تھے جو قادیان کے قریب فیض اللہ چک کے رہنے والے تھے ۔ ان کے دادا ملک حبیب الرحمن صاحب جامعہ احمدیہ میں انگلش پڑھانے کے علاوہ ٹی آئی سکول کے ہیڈماسٹر بھی رہے۔ حکیم فضل الرحمن صاحب مبلغ سلسلہ گولڈکوسٹ، شہید مرحوم کے والد کے تایا تھے۔ شہید مرحوم خدام الاحمدیہ کے بہت ہی فعّال رکن تھے۔ سات سال سے ناظم اشاعت ضلع لاہور تھے۔ اور جماعت کی کمپیوٹر پروفیشنلز کی ایسوسی ایشن کے آڈیٹر رہے اور تین سال سے لاہور چیپٹر کے صدر تھے۔ نظامِ وصیت میں شامل تھے۔ شہادت کے وقت عمر 36سال تھی۔ مسجد ماڈل ٹاؤن میں گولیاں لگیں، زخمی حالت میں جناح ہسپتال پہنچ کر جامِ شہادت نوش فرمایا۔ جمعہ کے روز خلافِ معمول نیا سفید جوڑا پہن کر گھر سے نکلے اور والد صاحب نے کہا کہ آج بڑے خوبصورت لگ رہے ہو۔ دفتر کے ملازم نے بھی یہی کہا۔ مسجد بیت النور میں خلافِ معمول پہلی صف میں بیٹھے۔ دہشتگرد کی گولی لگنے سے ہال کے اندر دوسری صف میں الٹے لیٹے رہے۔ فون پر اپنے والد سے باتیں کرتے رہے۔ وہ بھی وہیں تھے اور کہا کہ اللہ حافظ، مَیں جا رہا ہوں اور مجھے معاف کر دیں۔ اپنے بھائی کے بارے میں پوچھا اور پانی مانگا۔ ڈائس سے اٹھا کر ایک کارکن نے ان کو پانی دیا۔ آواز بہت ضعیف اور کمزور ہو گئی تھی۔ بہرحال ایمبولینس کے ذریعے ان کو ہسپتال لے جایا گیا۔ بلڈپریشر بھی نیچے گرتا چلا جارہا تھا۔ جب ہسپتال پہنچے ہیں تو وہاں والدہ کو آنکھیں کھول کر دیکھا اور والدہ سے پانی مانگا۔ والدہ جب چہرے پر ہاتھ پھیر رہی تھیں تو ان کی انگلی پر کاٹا صرف یہ بتانے کے لئے کہ میں زندہ ہوں اور پریشان نہ ہوں۔ اندرونی کوئی انجری(Injury) تھی جس کی وجہ سے بلیڈنگ ہو رہی تھی۔ اور آپریشن کے دوران ہی ان کو شہادت کا رتبہ ملا۔ ان کے اچھے تعلقات تھے ۔ واپڈا کے کنٹریکٹر تھے، کنسٹرکشن کے ٹھیکے لیتے تھے۔ خدمتِ خلق کا بہت شوق اور جذبہ تھا۔ شہادت پر آنے والے لوگوں نے بتایا کہ عمیر کا معیار بہت اچھا تھا اور ان کے سامنے کوئی بھی چیز مسئلہ نہیں ہوتی تھی۔…