محترم لطف الرحمٰن شاکر صاحب اور محترم عبدالجبار صاحب
قادیان کے زمانہ سے جماعت کے ہسپتال کا نام حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؒ کے نام نامی پر نور ہسپتال رکھا گیا تھا۔ ہجرت کے بعد ربوہ میں بھی یہ ہسپتال اسی نام سے موسوم رہا تا آنکہ نئی عمارت بننے کے بعد جماعت کی انتظامیہ نے حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ سے درخواست کی کہ جماعت کے نئے مرکزی ہسپتال کا نیا نام رکھا جائے تو مناسب ہوگا۔ حضرت صاحب نے صدر انجمن احمدیہ کے تجویز کردہ نام فضل عمر ہسپتال پر صاد فرما دیا۔ خلافت رابعہ میں اسی ہسپتال کی توسیع ہوئی اور نیا حصہ طاہر ہارٹ انسٹیٹیوٹ کے نام سے خدمت خلق میں مصروف ہے۔ روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 18اپریل 2012ء میں مکرم ڈاکٹر پرویز پروازی صاحب کے قلم سے دو ایسے خدمت گزار احباب کا ذکرخیر شامل اشاعت ہے جنہیں فضل عمر ہسپتال ربوہ میں لمبا عرصہ غیرمعمولی خدمت کی سعادت عطا ہوئی۔ یعنی محترم لطف الرحمٰن شاکر صاحب اور محترم عبدالجبار صاحب۔
مضمون نگار رقمطراز ہیں کہ ایک زمانہ تھا کہ ہسپتال کو سوائے صاحبزادہ ڈاکٹر مرزا منور احمد صاحب کے کوئی M.B.B.S. ڈاکٹر میسر نہیں تھا۔ ہسپتال کے انچارج حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ خاں صاحب L.S.M.F. یعنی لائسنس یافتہ ڈاکٹر تھے۔ اسی طرح لیڈی ڈاکٹر غلام فاطمہ مرحومہ بھی لائسنس یافتہ ڈاکٹر تھیں۔ یہ تو اللہ تعالیٰ کا کرم ہے اسی ہسپتال میں مکرم ڈاکٹر لطیف احمد قریشی صاحب جیسے F.R.C.P ہارٹ سپیشلسٹ، محترم صاحبزادہ ڈاکٹر مرزا مبشر احمد صاحب جیسے F.R.C.S. سرجیکل سپیشلسٹ یا مکرمہ ڈاکٹر نصرت جہاں صاحبہF.R.C.S. گائنی سپیشلسٹ آئے اور خدمت کے لئے دھونی رما کر بیٹھ گئے اور اب محترم جنرل مسعود الحسن نوری صاحب جیسے ہارٹ سپیشلسٹ طاہر ہارٹ انسٹیٹیوٹ کا چراغ روشن کئے بیٹھے ہیں۔ ہسپتال میں پہلی ایم بی بی ایس لیڈی ڈاکٹر مکرمہ ڈاکٹر فہمیدہ منیر صاحبہ تھیں۔ اور اب ہر شعبہ کے سپیشلسٹ موجود ہیں۔ لیبارٹری سارے ملک میں جانی پہچانی ہے مگر اس جان پہچان سے ہی مکرم لطف الرحمن شاکر صاحب کا ذکر شروع ہونا چاہئے کہ لطفی ہسپتال کا واحد لیبارٹری ٹیکنیشن تھا وہی پیتھالوجسٹ تھا جس کی رپورٹ پر سارے ڈاکٹر انحصار کر کے تشخیص کرتے تھے۔
لطف الرحمن شاکر بڑا تجربہ کار لیبارٹری ٹیکنیشن تھا ساتھ میں اس کا ہاتھ ہلکا تھا یعنی ٹیکہ لگاتے وقت مریض کو اذیت سے دوچار نہیں کرتا تھا۔ پھر اس کی خصوصیت یہ تھی کہ حضرت خلیفۃ المسیح کو بھی ٹیکہ وغیرہ لگانے کا کام اسی کے سپرد تھا بلکہ حضرت صاحب یورپ کے دورہ پر گئے تو بھی لطفی کو خاص اپنے ساتھ لے کر گئے کہ اپنے اعتبار کا پیرامیڈک میسر ہونا چاہئے۔ ربوہ میں بھی اس کی بہت مانگ تھی۔ جماعت کے اکابر بیمار ہوتے تو گھروں پر ٹیکہ لگانے یا بلڈ پریشر چیک کرنے کو لطفی ہی بھیجا جاتا۔ کیونکہ ہسپتال میں داخلے کا رواج بہت بعد کو ہوا۔ ہسپتال بنتے بنتے بنا ہے۔ بستی بسنا کھیل نہیں ہے بستے بستے بستی ہے۔ عمارتیں تو بن جاتی ہیں روایتیں بننے میں وقت لگتا ہے۔
عبد الجبار صاحب وقت کے لحاظ سے بہت بعد کو آئے مگر اپنی دھیمی طبیعت اور ہمدردانہ لب و لہجے کی وجہ سے اہل ربوہ کے دل میں گھر کر لیا۔ سرجری کے ساتھ وابستہ تھے اس لئے مریضوں کے آپریشن روم کے ہمدرد ساتھی تھے۔ ہر مریض کے ساتھ ہمدردی اور محبت سے پیش آتے تھے۔ بیماری کے بعد گھر پر تیمارداری اور مناسب علاج کے لئے تو اتر سے آتے رہنا بھی ان کی شخصیت کا حصہ تھا اور وہ مریضوں کے گھر جانے کی کوئی فیس وغیرہ نہیں لیتے تھے۔ اگر دن میں چار بار کسی کو ٹیکہ لگانے کی ضرورت ہے تو عبدالجبار عین وقت پر اپنی سائیکل پر آموجود ہوں گے۔سردی ہویا گرمی کوئی چیز ان کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنتی تھی۔ سلسلہ کے بزرگوں کی خدمت گزاری کا انہیں خاص شوق تھا۔ ان کی خدمت بڑی تندہی اور محنت سے کرتے تھے۔ وہ زمانہ ڈسپوزایبل سرنجوں سوئیوں کا زمانہ نہیں تھا اس لئے ہر بار سرنجوں کو ابالنا اور جراثیم سے پاک کرنا پڑتا تھا۔ ان کے تھیلے میں کئی کئی تیار شدہ سرنجیں اور سوئیاں موجود رہتی تھیں کیونکہ وقت بے وقت مریض انہیں آگھیرتے تھے۔ ایک بار عزیز نسیم مہدی کو جامعہ کی طالب علمی کے زمانہ میں دمہ کا شدید دورہ پڑا۔
اس کے دوست نے رات کے ایک بجے عبدالجبار صاحب کا دروازہ جا کھٹکھٹایا اور انہیں ساتھ لے آیا۔ مریض کی حالت ہسپتال لے جانے کی بھی نہیں تھی۔ عبدالجبار نے اللہ کا نام لے کر امائینوفائلین یا کسی ایسی ہی دوا کا ٹیکہ دھیرے دھیرے کوئی آدھ پون گھنٹے میں لگایا۔ جب نسیم مہدی کی طبیعت بحال ہوئی تو عبدالجبار نے بتایا کہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہو گیا ہے ورنہ جب میں نے ٹیکہ لگانا شروع کیا تھا مجھے سخت تشویش تھی کہ اتنی بگڑی ہوئی حالت میں دوا اثر کرتی ہے یا نہیں۔
عبدالجبار کی یہی خصوصیت انہیں ہردلعزیز بنائے رکھتی تھی کہ وہ ہر وقت خدمت کے لئے حاضر تھے۔ کسی نے کبھی ان کو انکار کرتے نہیں دیکھا یا سنا اور اس خدمت گزاری کا دائرہ صرف خوش حالوں تک محدود نہیں تھا۔ ہر کوئی ان کی خدمت گزاری کا مورد تھا غریب مریضوں کے گھروں میں بھی اسی پابندی اور خدمت گزاری کے جذبہ سے جاتے تھے۔
اُس زمانہ میں کسی کو اچانک کوئی شدید تکلیف آگھیرتی تو وہ بجائے ہسپتال کا رُخ کرنے کے ڈاکٹروں یا پیرامیڈکس کی تلاش میں نکلتا۔ ایسے وقتوں میں ڈاکٹر تھے ہی کتنے جو کام آتے۔ یہی لطفی یا جبار صاحب جیسے پیرامیڈکس ہی کام آتے اور اللہ تعالیٰ ان کے ذریعہ لوگوں کو شفا بھی دے دیتا۔ لطفی تو رہتا بھی ہسپتال میں تھا اس لئے بیماروں کا زیادہ تر ہدف بھی وہی تھا۔ ایک بات دونوں میں مشترک تھی وہ تھی ان کی خوش خلقی اور چہروں پر ہمہ قت کھیلتی ہوئی مسکراہٹ۔ پھر بزرگوں کی خدمت کر کے انہوں نے ایک بات سیکھی تھی کہ علاج اپنی جگہ، دعا اپنی جگہ۔ چنانچہ دونوں ٹیکہ لگاتے وقت زیر لب دعائیں پڑھتے رہتے تھے۔ دونوں ٹیکہ لگانے سے پہلے بسم اللّٰہ الرّحمٰن الرّحیم تو آواز کے ساتھ پڑھتے تھے اس کے بعد زیر لب دعائیں۔
اُس زمانہ میں ربوہ کا کوئی ہی گھرانہ ایسا ہو گا جس کی انہوں نے خدمت نہ کی ہو۔ طبی مشورے دینا، مناسب علاج کی طرف توجہ دلاتے رہنا، خود خدمت کے لئے حاضر رہنا، بات کرتے ہوئے مسکرانا اور مریض کی جلی کٹی سننا پڑے تو وہ بھی خندہ پیشانی سے سن لینا ان لوگوں کا شیوہ تھا۔ ہمارے فضل عمر ہسپتال کی شہرت کی ایک وجہ اس کا پیرامیڈیکل سٹاف بھی تھا۔ برسوں پہلے کی بات ہے سرگودھا کے ایک نامی گرامی وکیل سڑک کے ایک حادثہ میں زخمی ہوگئے۔ پنڈی بھٹیاں روڈ پر حادثہ ہوا مگر انہوں نے کہا کہ مجھے چنیوٹ ہسپتال میں نہ لے جاناربوہ لے چلو۔ ربوہ لائے گئے اور لمبے عرصہ تک زیر علاج رہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے شفایاب ہوکر واپس گئے تو ہمارے ایک دوست سے کہا کہ ربوہ کے ہسپتال کا سٹاف فرشتوں پر مشتمل ہے۔ دیگر ہسپتالوں میں ہر روز کا کام کرنے والے لوگ بھی ہر روز انعام و کرام کے طالب رہتے ہیں اور ان کے منہ میں لقمہ نہ ڈالیں تو بات ہی نہیں سنتے مگر ربوہ ہسپتال میں مَیں مہینوں قیام کر کے آیا ہوں۔ کسی کو انعام دینے کی کوشش بھی کی ہے تو اس نے نہیں لیا اور یہی کہا ہے کہ جو خدمت وہ کر رہے ہیں وہ ان کا فرض ہے اس کا معاوضہ کیسا؟ یہ ساری تربیت اس جماعتی نظام کی دین ہے جس سے یہ سب لوگ منسلک تھے۔ اور تو اور پنجاب کے ایک وزیر جو چنیوٹ کے رہنے والے تھے عارضۂ قلب کا شکار ہوئے تو آپ نے بھی خود کہہ کر ربوہ ہسپتال میں آکر علاج کروایا اور الحمدللہ شفا پائی۔