محترم چودھری عبدالستار خان کاٹھگڑھی

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 2 دسمبر 2010ء میں مکرم چودھری عبدالرزاق خان صاحب کاٹھگڑھی کا ایک مختصر مضمون شائع ہوا ہے جس میں محترم چودھری عبدالستار خاں صاحب کا ذکرخیر کیا گیا ہے۔
محترم چودھری عبدالستار خاں صاحب بہت دانشمند حوصلہ مند، حلیم، مہمان نواز، زُودفہم، جرأتمند، اور نیک انسان تھے۔ 1917ء میں کاٹھگڑھ ضلع ہوشیار پور (انڈیا) میں چوہدری نور محمد رائیکہ کے گھرمیں پیدا ہوئے۔ آپ اکلوتے بیٹے تھے اور آپ کی چار بہنیں تھیں۔ ا بتدائی تعلیم احمدیہ مڈل سکول کاٹھگڑھ سے حاصل کی۔ 13 سال کے تھے تو والد صاحب کا انتقال ہو گیا اور پھر آپ خاطر خواہ تعلیم حاصل نہ کرسکے اور برٹش انڈین آرمی میں بھرتی ہوگئے۔ پاکستان بننے کے بعد آپ ککّی نَو ضلع جھنگ میں اپنی برادری کے ساتھ آباد ہوگئے۔
آپ بہت ہی معقول اور دانشمند انسان تھے۔محکمہ مال کے امور کے متعلق بہت گہرا علم رکھتے تھے۔ قیام پاکستان کے فوراً بعداحمدی احباب کی زمینوں کے کلیم الاٹ کروانے میں اُن کی مدد کرتے رہے۔ برادری کے سربراہ ہونے کے ناطے جھگڑوں کے فیصلے اور دیگر امور میں مشوروں کے لئے آپ سے رجوع کیا جاتا۔ ککّی نَو میں آپ کی کوششوں سے جماعت کا قیام عمل میں آیا اور احمدیہ مسجد بھی تعمیر ہوئی۔ عرصہ دراز تک صدر جماعت بھی رہے۔ مہمانوں کا بہت احترام کرتے تھے اور ہر فرد کی ضروریات کا خیال رکھتے اور اُن کے کام آتے تھے۔
آپ بہت ہی نڈر اور دلیر تھے۔ 1928ء میں ایک بڑے زمیندارنے ایک حافظ قرآن کو قتل کر دیا تو علاقہ بھر میں اس قاتل کے خلاف کوئی بھی سچی گواہی دینے کے لئے تیار نہ تھا۔ مگر آپ نے اس گواہی کے لئے خود کو پیش کردیا۔ آپ کو بہت سی دھمکیاں بھی ملیں مگر آپ ثابت قدم رہے۔ گواہی دی اور قاتل کو چودہ سال قید کی سزا ہوئی۔
جماعتی وقار کا ہمیشہ خیال رکھتے۔ علاقہ کے افسران سے آپ کا گہرا تعلق تھا۔ مشکل سے مشکل کام بھی بغیر رشوت کے اور مناسب اندازبیان سے کروالیتے تھے۔
آپ کی والدہ شریفن بی بی صاحبہ بہت ہی نیک اور پابند صوم و صلوٰۃ خاتون تھیں مگر ابھی احمدی نہ ہوئی تھیں۔ ہمارے والد محترم عبداللطیف خاں صاحب (جو کہ ان کے داماد تھے) نے اپنی ساس کو احمدیت کی سچائی کے بارے میں استخارہ کرنے کا بتایا جوکہ آپ روزانہ سونے سے قبل کرتی رہیں۔چند دنوں کے بعد انہوں نے اپنا خواب بتایا کہ میں ایک راستے پر جارہی ہوں اور کسی منزل کا راستہ ایک بزرگ سے پوچھتی ہوں۔اس نورانی چہرے والے بزرگ نے مجھے کہا کہ مائی تم غلط راستے پر ہو۔ یہ سیدھا راستہ جو میں آپ کو بتارہا ہوں یہی آپ کو منزل مقصود تک پہنچادے گا، اس طرف جاؤ۔میرے والد صاحب نے جب انہیں حضرت مسیح موعودؑ کا فوٹو مبارک دکھایا تو فوراً کہہ اٹھیں کہ یہی وہ بزرگ تھے جو میں نے خواب میں دیکھے۔ اور پھر فوراً بیعت کرلی۔
محترم چودھری عبدالستار خان صاحب کی وفات مارچ 2001ء میں ہوئی تو علاقہ کے بہت سے غیراز جماعت دوستوں نے بھی تعزیت کی اور ان کی مفارقت کو محسوس کیا۔ آپ کے دو بیٹے اور تین بیٹیاں ہیں۔ آپ نے اپنی زندگی میں ہی اپنی ساری زرعی زمین شرعی طور پر اپنے بچوں اور بچیوں میں منتقل کردی تھی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں