محترم ڈاکٹر حمید احمد خان صاحب

محترم ڈاکٹر حمید احمد خان صاحب زندگی کے ہر پہلو سے ایک مثالی اور ممتاز شخصیت تھے۔ اُن کی معاشرتی زندگی، دینی اسلوب، علمی کاوشیں، اخلاقی اقدار بالخصوص عجز اور انکسار قابل رشک حد تک نمایاں ہیں۔ ان کی سب سے بڑی کامیابی اور نمایاں حیثیت ایک کامیاب ترین داعی الی اللہ کی تھی۔ روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ کے مختلف شماروں میں محترم ڈاکٹر صاحب کے بارہ میں جو مضامین شائع ہوئے ہیں انہیں یکجائی طور پر ذیل میں پیش کیا جارہا ہے۔
محترم ڈاکٹر صاحب کے بھائی مکرم کرنل ایاز محمو د احمد خان صاحب بیان کرتے ہیں کہ محترم ڈاکٹر صاحب 23؍مارچ 1943ء کو ویرووال افغاناں ضلع امرتسر میں پیدا ہوئے۔ قیام پاکستان کے بعد ہمارا گھرانہ پہلے لاہور آگیا اور پھر زرعی زمین کی وجہ سے سمندری میں منتقل ہوگیا اور 1951ء میں ربوہ میں رہائش پذیر ہوا۔ تاہم حمید جو اُس وقت سمندری میں چوتھی جماعت میں زیرتعلیم تھے اس لئے ربوہ نہ آسکے کہ آپ کے ہیڈماسٹر صاحب کی خواہش تھی کہ آپ چوتھی جماعت کا وظیفہ کا امتحان اُن کے سکول کی طرف سے دیں۔ اس امتحان میں آپ نے وظیفہ حاصل کیا اور پھر تعلیم الاسلام ہائی سکول ربوہ میں پانچویں جماعت میں داخل ہوگئے۔ آپ کے اساتذہ ہمیشہ آپ کی تعریف کرتے رہے۔
1952ء میں ہمارے والد محترم خان عبدالمجید خان صاحب نے دارالنصر ربوہ میں اپنا مکان تعمیر کرلیا۔گھر کے ساتھ ایک خالی پلاٹ میں ہم بھائیوں نے اپنے ہاتھوں سے ایک تھڑا بنایا جس کیلئے پتھر قریبی پہاڑی سے اکٹھے کرکے لائے اور پھر اُس پر لپائی کردی۔ یہ اس محلہ کی پہلی مسجد تھی۔ گرمیوں میں یہاں صرف تین نمازیں ادا کی جاسکتی تھیں۔ حمیداور مَیں اذان دینے کے بعد انتظار کرتے کہ شاید کوئی اَور نمازی آجائے۔ چند ماہ بعد جب قریب قریب کئی اَور گھر بھی بن گئے تو وہاں باقاعدہ نماز باجماعت کی ادائیگی شروع ہوگئی۔
1958ء میں میٹرک کے امتحان میں آپ نے پنجاب بھر میں تیسری پوزیشن حاصل کی۔ حضرت مصلح موعودؓ کے ارشاد پر میڈیکل مضامین میں داخلہ لے لیا۔ اُس وقت تعلیم الاسلام کالج میں بیالوجی کا کوئی استاد نہ تھا۔ حضرت مرزا ناصر احمد صاحبؒ پرنسپل تھے، آپؒ کے ارشاد پر حمید خود کتاب سے لیکچر تیار کرتے اور اگلے روز اپنی کلاس کے دوسرے طلباء کو لیکچر دے دیتے۔ 1960ء میں F.Sc کے امتحان میں وہ پنجاب بھر میں اوّل آئے اور قومی اخبارات میں یہ خبر اُن کی تصاویر کے ساتھ شائع ہوئی اور ریڈیو پر نشر ہوئی۔ پھر کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج کے پرنسپل نے خط لکھا کہ اُن کی خواہش ہے کہ حمید اُن کے کالج میں داخل ہوں۔ میڈیکل کالج میں بھی آپ نے اپنا معیار برقرار رکھا۔ اظہار تشکر کے لئے ایک سال فضل عمر ہسپتال میں خدمت کی۔ ہاؤس جاب امریکہ میں کیا۔ پھر انگلینڈ جاکر ایک سال میں MRCP کی ڈگری حاصل کی اور مختلف جگہوں پر کام کرنے کے بعد ہارٹلے پول میں مستقل سکونت اختیار کرلی۔
حمید کی نمایاں خوبی یہ بھی تھی کہ کبھی وقت ضائع نہیں کرتے تھے، سچائی پر ہمیشہ کاربند رہے، گھر کے کاموں کے علاوہ دینی کاموں میں حصہ لینا روز کا معمول تھا۔ فٹ بال کے بھی بہت اچھے کھلاڑی رہے۔ خوش مزاج مگر خاموش طبع انسان تھے، لوگوں سے اُن کی ذہنی سطح کے مطابق گفتگو کرتے۔ آپ کی شادی 31؍جنوری 1969ء کو محترم بریگیڈیئر وقیع الزماں خان صاحب کی صاحبزادی ساجدہ سے ہوئی۔ دونوں میاں بیوی کو ہارٹلے پول میں انگریزوں کی جماعت قائم کرنے میں جو غیرمعمولی کامیابی حاصل ہوئی اس کے پیچھے حمید کی گہری محنت اور ان کا صالح عملی کردار شامل تھا۔ ایک انگریز احمدی نے بتایا کہ مَیں کئی سال تک ڈاکٹر حمید کی زندگی کے اصول، اخلاق اور ہر پہلو کو دیکھتا رہا اور مجھے اس بات کا یقین ہوگیا کہ جس مذہب پر ڈاکٹر حمید صاحب قائم ہیں وہ یقینا ایک بہت ہی اچھا نمونہ ہے چنانچہ جونہی ایک دن ڈاکٹر صاحب نے مجھ سے اسلام کے موضوع پر بات کی اور احمدیت کا پیغام پہنچایا تو مَیں جیسے منتظر ہی بیٹھا تھا کہ ڈاکٹر صاحب بات کریں تو مَیں اس کو قبول کروں۔
محترم ڈاکٹر صاحب نے اپنے گھر میں ایک بہت بڑا گیراج جماعتی مرکز کے طور پر وقف کر رکھا تھا جس میں نمازیں بھی ہوتی ہیں، لائبریری بھی قائم ہے، ایم۔ٹی۔اے بھی لگا ہوا ہے، عورتوں کے لئے پردہ کا بھی انتظام ہے۔ اُن کا گفتگو کا انداز اپنی فطری خوش مزاجی کے ساتھ دلکش تھا۔ ایک اہم خوبی مہمان نوازی کی غیرمعمولی صفت بھی تھی۔ اُن کا مقولہ تھا کہ اگر کوئی شکایت ہو تو مہمان ہمیشہ حق بجانب ہوتا ہے۔ جن انگریزوں کو آپ نے احمدی بنایا پھر اُن کی تربیت میں بھی کوئی کسر اٹھا نہ رکھی چنانچہ اُن کی وفات کے بعد ایک نواحمدی انگریز محترم بلال ایٹکنسن صاحب کو صدر جماعت مقرر کیا گیا ۔ محترم ڈاکٹر صاحب کی وفات کے بعد انگریز احمدیوں نے جس طرح غسل، تکفین و تدفین وغیرہ کے انتظامات کئے اُنہیں دیکھ کر حیرانی ہوتی تھی کہ محترم ڈاکٹر صاحب نے ان سب کو جماعتی تنظیم اور دینی ضروریات کی ساری باتیں پہلے سے سمجھا رکھی تھیں۔ محترم ڈاکٹر صاحب نے احمدیوں کے لئے ایک قطعہ زمین قبرستان کے طور پر حاصل کررکھا تھا۔ محترم بلال صاحب کو جب ڈاکٹر صاحب کے پاس بیٹھ کر سورۃ یٰسین کی تلاوت کرتے ہوئے ہم نے دیکھا تو حضرت سیدہ طاہرہ صدیقہ ناصر صاحبہ نے بڑی خوشگوار حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ ہے ڈاکٹر حمید کی کامیابی۔ اسی طرح ہسپتال کی میٹرن محترمہ پام صاحبہ بھی ہارٹلے پول کی ابتدائی احمدیوں میں سے ہیں اور ربوہ بھی کئی بار آچکی ہیں۔ محترم ڈاکٹر صاحب جتنے دن ہسپتال میں رہے، موصوفہ اپنی ڈیوٹی کے دوران بار بار آپ کے پاس آتیں اور ڈیوٹی سے فارغ ہونے کے بعد تو وہیں آجاتیں۔ ڈاکٹر صاحب کی آخری سانسوں کے وقت وہ نمناک آنکھوں سے شفقت سے آپ کو سہلارہی تھیں۔ ایسی ہی محبت اور دلی جذبات کا اظہار سبھی انگریز مرد و خواتین کرتے رہے۔
محترم ڈاکٹر صاحب اپنی والدہ کی خدمت میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھتے۔ والدہ کوئی اشارہ بھی کردیں تو فوراً تعمیل کرتے۔ اسی وجہ سے والدہ صاحبہ بھی سال کا بیشتر حصہ انہی کے پاس گزارتی تھیں۔ اس کے علاوہ حضرت سیدہ طاہرہ صدیقہ ناصر صاحبہ حرم حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ بھی ان کے پاس قیام فرما رہتیں۔ اُن کی شادی کے بعد تو اُن کا احترام گویا ڈاکٹر صاحب نے اپنے اوپر فرض کرلیا تھا۔
محترم ڈاکٹر صاحب خلفائے کرام سے گہری عقیدت اور مثالی محبت رکھتے تھے۔ جب بھی خلفاء کرام کی آمد کی اطلاع ملتی تو خوشی سے دیوانہ ہوجاتے اور خود سارے انتظامات کی نگرانی کرتے، سب گھر والوں کی ڈیوٹیاں لگاتے اور اپنے ہاتھ سے باتھ رومز تک صاف کرتے تو تسلّی ہوتی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں