مقبرہ جہانگیر لاہور

مغل بادشاہ جہانگیر کا اصل نام سلیم تھا جو 1564ء میں شہنشاہ اکبر اعظم کے ہاں راجپوت رانی مریم الزمانی کے بطن سے پیدا ہوا- 1605ء میں تخت نشین ہوا اور قریباً ساڑھے اکیس سال نہایت شان سے حکومت کرکے 8؍نومبر 1627ء کو کشمیر سے لاہور واپس آتے ہوئے راجوری کے مقام پر فوت ہوا- اُسے دریائے راوی کے کنارے واقع ملکہ نور جہاں کے باغ دلکشا کے وسط میں دفن کیا گیا- اس باغ کو جہانگیر نے باغ دلآمیز کے نام سے بھی یاد کیا ہے- جہانگیر کا مقبرہ اُس کے بیٹے شاہجہاں نے بنوایا تھا جو دس سال کی مدّت میں دس لاکھ روپے کی لاگت سے مکمل ہوا- اس مقبرے کے بارے میں ایک مختصر مضمون مکرم عطاء المنان طاہر صاحب کے قلم سے روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ یکم ستمبر 1998ء میں شامل اشاعت ہے-
باغ دلکشا کے گرد بلند و بالا فصیل ہے اور اس کا ہر پہلو 1538؍ فُٹ ہے- باغ کے اندر پختہ روشیں اور سڑکیں ہیں- باغ فواروں اور بارہ دریوں سے آراستہ ہے اور اس میں داخل ہونے کے لئے پچاس فٹ اونچا دو منزلہ دروازہ ہے-
مقبرہ جہانگیر، چار فُٹ اونچے پلیٹ فارم پر تعمیر کی گئی ایک مربع عمارت میں ہے جس کا ہر پہلو 267؍فُٹ ہے- عمارت کے چاروں طرف متعدد کمرے ہیں جن کے آگے محرابی چھتوں والے برآمدے بنائے گئے ہیں- عمارت کے اندر پھولدار ڈیزائن ہے اور دیواروں پر پچی کاری اور غالب کاری کی گئی ہے- مقبرے کی چاروں اطراف سنگ سرخ سے مزیّن ہیں جس کی سِلوں پر سنگ مر مر سے آرائشی کام کیا گیا ہے-
عمارت کے چاروں کونوں پر ہشت پہلو مینار ہیں- ہر مینار سو فُٹ بلند ہے جسکی پانچ منزلیں اور ساٹھ سیڑھیاں ہیں- مینار پر سنگ مرمر اور پیلے پتھروں سے خوبصورت لہریا بنایا گیا ہے- عمارت کے وسط میں نہایت کشادہ، ہشت پہلو کمرہ ہے جس میں جہانگیر کی قبر ہے- قبر کا تعویذ سنگ مرمر سے آراستہ ہے جس پر قیمتی پتھروں سے جڑائی کی گئی ہے اور اس کے دونوں طرف خدا تعالیٰ کے ننانوے صفاتی نام کندہ ہیں- سر کی طرف یہ تحریر ہے: ’’ھواللہ الذی لاالہ الا ھو عالم الغیب والشہادہ ھوالرحمان الرحیم‘‘-
مقبرے کے مغرب میں اکبری سرائے ہے جس کے چاروں اطراف میں 180 کمرے ہیں اور ہر کمرے کے سامنے برآمدہ ہے- سرائے میں دو دروازے ہیں اور اس سے آگے تین گنبدوں والی مسجد ہے جس کے درمیان میں حوض ہے-
رنجیت سنگھ کے زمانہ میں یہ سرائے چھاؤنی بنادی گئی تھی اور مقبرے کو شدید نقصان پہنچا تھا- پھر جنرل امائس اور سلطان محمد خان نے اس مقبرے کو بطور رہائش استعمال کیا جس سے مزید نقصان ہوا- انگریزوں نے 1889ء میں مقبرے کی مرمّت کا کام شروع کیا-
ایک مرتبہ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیرالدین محمود احمد صاحبؓ نے اپنے بچپن میں حضرت مسیح موعودؑ سے کہا کہ میں جہانگیر کا مقبرہ دیکھنا چاہتا ہوں- اس پر حضرت اقدسؑ نے فرمایا ’’میاں تم جہانگیر کا مقبرہ دیکھنے کے لئے بے شک جاؤ لیکن اُس کی قبر پر کھڑے نہ ہونا کیونکہ اُس نے ہمارے ایک بھائی حضرت مجدّد الف ثانیؒ کی ہتک کی تھی‘‘-

اپنا تبصرہ بھیجیں