نماز کا قیام
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ’’سارا گھر غارت ہوتا ہے، ہونے دو مگر نماز کو ضائع مت کرو‘‘۔ روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 22،23 اور 29؍جنوری 2003ء میں حضرت مسیح موعودؑ کے بعض صحابہ کرام اور تابعین کے نماز کے قیام کے دلکش نظارے مکرم عبدالسمیع خان صاحب کے قلم سے شامل اشاعت ہیں۔
حضرت حافظ معین الدین صاحبؓ اگرچہ آنکھوں سے نابینا تھے لیکن نماز کے لئے اذان دینے اور پہلی صف میں کھڑے ہوکر نماز ادا کرنے کے انتہائی دلدادہ تھے۔ ایک عرصہ تک حضرت اقدسؑ کے امام الصلوٰۃ ہونے کی بھی سعادت ملی۔ اسی طرح حضرت بابا کرم الٰہی صاحبؓ بھی وفات سے قریباً پانچ سال قبل بینائی سے محروم ہوگئے لیکن دیواروں کے سہارے باقاعدہ مسجد پہنچتے۔ آپؓ کا معمول تھا کہ سب سے پہلے مسجد آتے اور سب سے آخر میں واپس آتے۔
یہی حالت حضرت بابا صدرالدین صاحبؓ کی تھی کہ وہ بھی نابینا ہونے کے باوجود جب تک قدم اٹھ سکتے تھے، نماز کے لئے مسجد پہنچتے رہے۔
حضرت مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹیؓ کو نماز سے بے انتہا شغف تھا کہ 1905ء میں کثرت پیشاب کی شکایت ہونے کے باوجود التزام سے مسجد میں نمازیں ادا کرتے رہے اور حضرت مسیح موعودؑ نے جب آپکی بیماری کے پیش نظر حیرت کا اظہار کیا تو عرض کیا کہ حضورؑ کی دعا ہی ہے جو اس ہٹ اور استقلال سے حاضر ہوتا ہوں ورنہ بعض اوقات قریب بہ غش ہو جاتا ہوں۔
حضرت مسیح موعودؑ اپنے خادم خاص حضرت حافظ حامد علی صاحبؓ کے بارہ میں فرماتے ہیں: ’’مَیں نے اس کو دیکھا ہے کہ ایسی بیماری میں جو نہایت شدید اور مرض الموت معلوم ہوتی تھی اور ضعف اور لاغری سے میت کی طرح ہوگیا تھا، التزام ادائے نماز پنجگانہ میں ایسا سرگرم تھا کہ اس بیہوشی اور نازک حالت میں جس طرح بن پڑے نماز پڑھ لیتا ہے۔ مَیں جانتا ہوں کہ انسان کی خداترسی کا اندازہ کرنے کے لئے اس کے التزام نماز کو دیکھنا کافی ہے کہ کس قدر ہے اور مجھے یقین ہے کہ جو شخص پورے پورے اہتمام سے نماز ادا کرتا ہے اور خوف اور بیماری اور فتنہ کی حالتیں اس کو نماز سے روک نہیں سکتیں وہ بے شک خدا تعالیٰ پر ایک سچا ایمان رکھتا ہے۔‘‘ (ازالہ اوہام۔ روحانی خزائن جلد3 صفحہ 540)
حضرت مولانا سید سرور شاہ صاحبؓ بیماری اور ضعف کی حالت میں بھی مسجد جانا ترک نہ کرتے۔ وفات سے چند روز قبل ایسی ہی حالت میں مسجد جاتے ہوئے دو بار گرپڑے۔
حضرت نواب محمد عبداللہ خان صاحبؓ کے بارہ میں حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ نے ایک بار فرمایا کہ نماز کے عاشق تھے، خصوصاً نماز باجماعت کے قیام کے لئے آپؓ کا جذبہ اور جدوجہد امتیازی شان کے حامل تھے۔ بڑی باقاعدگی سے پانچ وقت مسجد جانے والے۔ جب دل کی بیماری سے صاحب فراش ہوگئے تو اذان کی آواز کو بھی اس محبت سے سنتے جیسے محبت کرنے والے اپنی محبوب آواز کو۔جب ذرا چلنے پھرنے کی سکت پیدا ہوئی تو بسااوقات گھر کے لڑکوں میں سے ہی کسی کو پکڑ کر آگے کرلیتے اور نماز باجماعت ادا کرنے کے جذبہ کی تسکین کرلیتے۔
حضرت سیدہ نواب امۃالحفیظ بیگم صاحبہؓ کو نماز کا اس قدر فکر رہتا تھا کہ ایک دفعہ شدید بیماری میں دو دن بیہوش رہیں۔ ہوش میں آئیں تو کمزوری کی وجہ سے بات نہ کرسکتی تھیں لیکن پہلی چیز جو اشارۃً طلب کی وہ پاک مٹی کی تھیلی تھی تاکہ تیمّم کرکے نماز ادا کرلیں۔ اپنے قریب رہنے والی لڑکیوں سے ہر نماز کے وقت پوچھتیں کہ انہوں نے نماز ادا کرلی ہے یا نہیں۔
حضرت میر ناصر نواب صاحبؓ کے لئے آخری عمر میں چلنا پھرنا مشکل ہوگیا تھا لیکن وہ نماز باجماعت میں کبھی ناغہ نہیں کرتے تھے۔
حضرت ڈاکٹر سید غلام غوث صاحبؓ کا دل ہر وقت مسجد میں اٹکا رہتا تھا۔ آخری ایام میں ڈاکٹروں نے انہیں چلنے پھرنے سے منع کردیا تھا لیکن وہ پھر بھی چھپ چھپاکر مسجد پہنچ جاتے تھے۔
حضرت بابا شیر محمد صاحب کی عمر 98 سال تھی لیکن وہ ضعف اور کمزوری کے باوجود باقاعدگی کے ساتھ مسجد تشریف لاتے رہے۔
حضرت مولوی نعمت اللہ صاحب کو 1924ء میں کابل میں شہید کردیا گیا۔ شہادت سے قبل آپؓ نے نماز پڑھنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ اجازت ملنے پر نماز پڑھی اور پھر شہادت کے لئے تیار ہوگئے۔
حضرت حاجی محمد الدین صاحب تہالویؓ نے 1903ء میں بیعت کی سعادت حاصل کی تو آپؓ کو بہت مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ ایک بار کئی لوگ اکٹھے ہوکر آپؓ کو قتل کرنے آئے تو آپؓ نے کہا کہ اگر مارنے ہی آئے ہو تو پہلے دو نفل نماز پڑھنے دو۔ آپؓ قریبی مسجد میں چلے گئے اور دیر تک نماز ادا کرتے رہے۔ باہر لوگوں نے سمجھا کہ ڈر کر اندر بیٹھے ہوئے ہیں۔ لیکن جب آپؓ باہر نکلے تو ایک گھڑسوار وہاں آیا اور للکار کر کہا کہ کوئی اِس شخص کو ہاتھ نہ لگائے۔ اُس کا دبدبہ اتنا تھا کہ مجمع منتشر ہوگیا۔ آپؓ بیان کرتے ہیں کہ اپنے علاقہ میں دعوت الی اللہ کے لئے مَیں کئی دیہات میں گیا ہوں لیکن اُس نوجوان کو کبھی نہیں دیکھا۔
حضرت بھائی عبدالرحمن صاحبؓ قادیانی جب ہندوؤں سے احمدی ہوئے تو آپؓ کے والد آپؓ کو دھوکہ دے کر قادیان سے واپس لے گئے اور بہت سختی کی حتیٰ کہ نماز کی ادائیگی سے بھی روکا گیا۔ اس زمانہ میں آپؓ کئی کئی نمازیں ملاکر یا اشاروں سے پڑھتے تھے۔ ایک روز علی الصبح قضائے حاجت کے بہانے باہر گئے اور گیہوں کے کھیت کے اندر وضو کرکے نماز شروع کردی۔ اچانک محسوس ہوا کہ کوئی شخص کدال پکڑے پاس کھڑا ہے۔ خیال آیا کہ کوئی دشمن ہوگا جو جان لینے آیا ہے۔ اسلئے زندگی کی آخری نماز سمجھ کر معمول سے زیادہ لمبی کردی۔ مگر سلام پھیرنے کے بعد معلوم ہوا کہ وہ ایک کشمیری مزدور تھا جو آپؓ کو نماز پڑھتا دیکھ کر بہت خوش ہوا۔ آپؓ نے اُسے فرمایا کہ تم میرے اسلام پر گواہ رہنا۔
حضرت شیخ فضل احمد صاحب بٹالویؓ دفتری اوقات میں نماز کے لئے چلے جاتے تھے۔ ہندو اور سکھ کلرکوں کی شکایت پر افسر نے آپؓ کو نماز پر جانے سے روکا تو آپؓ نے نوکری سے استعفیٰ دیدیا۔
حضرت مولانا سید محمد سرور شاہ صاحبؓ کی صاحبزادی حلیمہ بیگم نزع کی حالت میں تھیں کہ اذان کی آواز آئی۔ آپؓ نے بچی کا ماتھا چوما اور سر پر ہاتھ پھیر کر اُسے خدا کے سپرد کرکے مسجد چلے گئے۔ نماز کے بعد جب واپس جلدی آنے لگے تو لوگوں کے پوچھنے پر بتایا کہ بچی کو نزع کی حالت میں چھوڑ کر آیا تھا، اب تک فوت ہوچکی ہوگی۔ چنانچہ بعض دوست آپؓ کے ہمراہ گھر تک آئے تو بچی وفات پاچکی تھی۔
چنیوٹ کے محترم حاجی تاج محمود صاحب نے 1902ء میں تحریری بیعت کی۔ 1939ء میں اُس وقت وہ نماز تراویح پڑھ رہے تھے جب اُن کے گھر سے رونے کی آوازیں آئیں تو معلوم ہوا کہ اُن کی اہلیہ کا انتقال ہوگیا ہے۔ انہوں نے انّاللہ پڑھا اور اپنے نواسہ سے (جو تراویح پڑھا رہا تھا) فرمایا کہ وہ حسب معمول سیپارہ مکمل کرے۔ پھر پوری نماز ختم کرنے کے بعد وہ دیگر اقرباء کے ہمراہ گھر تشریف لے گئے۔
ایک دفعہ ایک نوجوان نے حضرت چودھری محمد ظفراللہ خان صاحبؓ سے کہا کہ یورپ میں فجر کی نماز وقت پر ادا کرنا بہت مشکل ہے۔ آپؓ نے فرمایا کہ اگرچہ مجھے اپنی مثال پیش کرتے ہوئے سخت حجاب ہوتا ہے لیکن خدا کے فضل سے نصف صدی کا عرصہ یورپ میں گزارنے کے باوجود فجر تو فجر مَیں نے کبھی نماز تہجد بھی قضا نہیں کی۔ یہی حال باقی پانچ نمازوں کا ہے۔
حضرت چودھری محمد ظفراللہ خان صاحبؓ کو ایک دفعہ ملکہ میریؔ نے ونڈسر محل میں مدعو کیا۔ دورانِ گفتگو نماز عصر کا وقت ہوگیا لیکن قاعدہ کے مطابق جب تک ملکہ ملاقات ختم نہ کرے ، اس وقت تک ملاقاتی اشارۃً بھی ملاقات کے اختتام کی کوشش نہیں کرسکتا۔ تاہم آپؓ کے چہرہ پر فکر کے آثار دیکھ کر ملکہ نے پوچھا تو آپؓ نے بتایا کہ میری نماز کا وقت ہوگیا ہے۔ اس پر ملکہ اٹھ کھڑی ہوئی اور ہدایت کی کہ چودھری صاحبؓ کے نمازوں کے اوقات نوٹ کرلئے جائیں اور اگر دورانِ ملاقات نماز کا وقت آجائے تو فوراً بتادیا جائے۔
صحابہ کرامؓ کے علاوہ تابعین میں بھی احمدیوں کی ایک بڑی تعداد نماز کے لئے ہر قربانی دیتی چلی آئی ہے۔ چنانچہ گھٹیالیاں کی احمدیہ مسجد میں 30؍اکتوبر 2000ء کو اُس وقت نمازیوں پر فائرنگ کرکے پانچ احمدیوں کو شہید کردیا گیا جب وہ نماز فجر کے وقت مسجد میں جمع تھے۔
حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ نے ایک بار بیان فرمایا تھا کہ انگلستان میں قیام کے دوران ایک مرتبہ نئے سال کے آغاز کے وقت جب لندن کے ٹرائفالگر سکوائر میں رات بارہ بجے کوئی تہذیبی یا مذہبی روک باقی نہیں رہتی، آپؒ اُس وقت بوسٹن کے انڈرگراؤنڈ سٹیشن پر تھے، آپؒ نے وہاں اخبار بچھائے اور نفل پڑھنے شروع کئے۔ اس پر ایک بوڑھا انگریز سسکیاں بھر کر کہنے لگا کہ ساری قوم اس وقت بے حیائی میں مصروف ہے اور ایک آدمی اپنے ربّ کو یاد کر رہا ہے، اس چیز کے موازنہ نے میرے دل پر ناقابل برداشت اثر کیا ہے۔
ڈاکٹر عبدالسلام صاحب بے پناہ مصروفیات کے باوجود نماز اور دیگر دینی شعارکے پابند تھے چنانچہ نوبل انعام ملنے کی اطلاع پر سب سے پہلے مسجد فضل پہنچے اور نوافل ادا کئے۔ آپ جمعہ کے روز اوّل وقت پر تشریف لاتے اور پہلی صف میں بیٹھتے۔
حضرت مولانا ظہور حسین صاحب بخارا کو جاسوسی کے الزام میں روس کی جیلوں میں بہت اذیتوں کا سامنا کرنا پڑا لیکن آپ نے وہاں بھی عبادت کا جھنڈا بلند رکھا۔ چنانچہ بیان فرماتے ہیں کہ مَیں روزانہ تہجد اور نمازیں پڑھتا اور قرآن شریف کی تلاوت کرتا۔ یہ دیکھ کر اشک آباد جیل کے ترک قیدیوں کو مجھ سے شدید محبت ہوگئی۔ تاشقند جیل میں بھی بہت سے مسلمان قیدی تھے جنہوں نے مجھے اپنا امام منتخب کرلیا۔
الحاج مولوی محمد شریف صاحب کو حج کے مناسک ادا کرتے ہوئے مکہ میں اُس وقت گرفتار کرلیا گیا جب آپ قرآن کریم کی تلاوت کر رہے تھے۔ آپ نے جیل میں جاتے ہی قرآن کریم طلب کیا اور اکثر وقت اس کی تلاوت میں گزارتے رہے۔ جیل میں جو وصیت اپنے بیٹوں کے نام لکھی اس میں فرمایا: ’’تمام نمازیں باجماعت ادا کرنے کی کوشش کیا کریں‘‘۔
حضرت بھائی عبدالرحیم شرما صاحب (کشن لعل) نے جب احمدیت قبول کی تو آغاز میں ایک لمبا عرصہ چھپ کر نماز پڑھتے رہے۔ جب گھر میں اس بات کا علم ہوا تو پہلے آپکو سمجھانے کی بہت کوشش کی گئی، پھر سختی کی گئی لیکن آپؓ نے ہر اذیّت کو خندہ پیشانی سے برداشت کیا اور نماز کو ترک کرنا گوارا نہ کیا۔
مکرم غلام احمد چشتی صاحب معلم وقف جدید پہلے فوج میں ملازم تھے۔ دوسری جنگ عظیم کے اختتام پر آپ کو فوج سے فارغ کرتے ہوئے آپ کے افسر نے لکھا کہ اس نوجوان کے دماغ میں کوئی عارضہ ہے جس کی وجہ سے یہ راتوں کو اٹھ اٹھ کر عبادت کرتا اور روتا ہے۔
سویڈن کے نواحمدی محمود ارکسن صاحب جب لازمی فوجی تربیت میں تھے تو آپ نے بادشاہ کو براہ راست درخواست دی کہ آپ کو نماز کے صحیح وقت پر ادا کرنے کے لئے رخصت دی جائے۔ یہ درخواست منظور ہوئی۔
حضرت شیخ محمد شفیع صاحب آف بھیرہ محکمہ نہر میں ضلعدار تھے۔ ایک دن مہتمم نہر نے (جو ہندو تھا) جمعہ کی نماز کے وقت آپ کو بلابھیجا تو آپ نے انکار کردیا اور اُس نے سپرنٹنڈنٹ سے شکایت کردی۔ آپ کا جواب سن کر افسر نے نماز جمعہ کے لئے ملازمین کو مستقل ایک گھنٹہ کی رخصت محکمہ سے منظور کروا دی۔
قادیان اور ربوہ کے بہت سے دوکاندار اور قلی مزدور بھی نماز باجماعت کے ایسے عاشق تھے کہ انہیں اپنے کام کی پرواہ کئے بغیر نماز کے وقت صرف مسجد جانے کا ہی خیال رہتا۔ حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ نے جب 1988ء میں تحریک فرمائی کہ یورپ کے احمدی جمعہ پڑھنے کا اہتمام کریں اور اگر نوکریاں اس راہ میں حائل ہوں تو وہ بھی چھوڑ دیں، اس پر کئی ایک نے نوکریوں سے استعفے دیدئے اور اللہ تعالیٰ نے اکثر کو پہلے سے بہتر روزگار عطا فرمایا جبکہ بعض کو شدید مشکلات سے بھی گزرنا پڑا۔
مختلف احباب کی روایات ہیں کہ حضرت حاجی غلام احمد صاحب باقاعدگی سے نماز تہجد پڑھتے تھے، ایک دفعہ دعوت الی اللہ کے لئے گئے اور رات دو بجے تک گفتگو ہوتی رہی۔ پھر سونے کے لئے لیٹے لیکن ایک گھنٹے بعد ہی نماز تہجد کے لئے جاگ گئے۔ حضرت مولوی ابوالعطاء صاحب بھی باقاعدہ تہجد ادا کرتے تھے خواہ رات کو کتنی ہی دیر سے سوئے ہوں۔ حضرت مولوی عطاء اللہ کلیم صاحب کو بھی سفر و حضر میں کبھی تہجد کا ناغہ کرتے نہیں دیکھا۔ مکرم قریشی نورالحق تنویر صاحب حصول تعلیم کے لئے چھ سال مصر میں مقیم رہے اور روزانہ ڈائری کا آغاز اسی فقرہ سے ہوتا کہ الحمدللہ آج بروقت تہجد کے وقت آنکھ کھل گئی۔