کہاں ممکن ترے فضلوں کا ارقام – خلافت احمدیہ کے لئے اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 24مئی 2011ء میں مکرم عبدالماجد طاہر صاحب (ایڈیشنل وکیل التبشیر لندن) کا ایک مضمون شائع ہوا ہے جس میں خلافت احمدیہ کے لئے اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت کے ایمان افروز واقعات بیان کئے گئے ہیں۔
حضرت اقدس مسیح موعودؑکو اللہ تعالیٰ نے الہاماً یہ بشارت دی تھی کہ میں تیری محبت لوگوں کے دلوں میں ڈالوں گا اور میں اپنی آنکھوںکے سامنے تیری پرورش کروںگا۔ حضور کے ساتھ یہ ا لٰہی وعدہ نہ صرف آپ کی زندگی میں بڑی شان سے پورا ہوا بلکہ آج تک آپ کے بعد قائم ہونے والی خلافت حقہ کے ذریعہ پورا ہوتا چلا جاتا ہے۔ احمدیوں کو اپنے پیارے امام سے جو للّٰہی محبت کا تعلق ہے اس کا بیان الفاظ میں ممکن نہیں ۔ تاہم بعض اوقات اس محبت وفدائیت کے نظارے غیر معمولی طورپر ابھر کر سامنے آتے ہیں۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ جب 21؍ جون 2004ء کو کینیڈا تشریف لائے تو استقبال کا پروگرام MTA پر Liveدکھایا گیا۔ سیٹلائٹ پر سگنل بھیجنے والے ٹرک کا آپریٹر ایک عیسائی تھا۔ وہ استقبال کا منظر دیکھ کر ایسا مبہوت ہوا کہ گویا اس کوکچھ سمجھ نہ آئی کہ کیاہو رہاہے؟ کچھ دیر کے بعد کہنے لگا میرے ذہن میںمسیح کی آمد ثانی کا جو نقشہ تھا و ہ بعینہٖ یہ ہے جو آج مَیں نے دیکھا ہے۔
سسکاٹون کے ایک دوست نے لندن میں جلسہ پر جانے کے لئے ٹکٹ خریدے تو اُنہیں حضورانور کے دورۂ کینیڈا کاعلم ہوا۔ اُن کی دو بچیوں نے ضد شروع کردی کہ ہم نے ٹورانٹو ضرور جاناہے (سسکاٹون سے ٹورانٹو تقریباً 3000کلومیٹر دور ہے )۔ والد نے کہا کہ میں مزید خرچ کی استطاعت نہیں رکھتا۔ اس پر بچیوں نے رو رو کر دعائیں شروع کیں تو اللہ نے فضل فرمایااور اچانک 600ڈالر کا ٹکٹ 200ڈالر میں Sale پر آگیا جو گرمیوں کی چھٹیوں میں قریباً ناممکنات میں سے ہے۔
=…ایسا ہی معجزہ کیلگری کی جماعت میں اُن لوگوں نے بھی دیکھا جو کرایہ زیادہ ہونے کی وجہ سے حضور انور کے دیدار کی تڑپ دل میں چھپائے بیٹھے تھے۔ اچانک ٹکٹ 650 ڈالرسے 398ڈالر ز میں ملنے لگا اور چند دن میں پانچ سو سے زیادہ احباب نے بکنگ کروالی۔
=…کیلگری کے ایک دوست مالی حالت بہتر نہ ہونے کی وجہ سے اپنے سات افراد خانہ کے ہوائی سفر اخراجات برداشت نہ کر سکتے تھے اس لئے وہ اپنی ذاتی گاڑی پر تین ہزار کلومیٹر کا فاصلہ طے کرکے ٹورانٹو گئے۔
=…کئی افراد نے دُوردراز علاقوں سے ٹورانٹو جاکر حضور انور کی زیارت کرنے کا خرچ پورا کرنے کے لئے قرض بھی لیا۔
=…ایک صاحب نے مع بچگان اور والدین جلسہ میں شمولت کا پروگرام بنایا ۔ تمام فیملی کی آمد و رفت کے اخراجات کا اندازہ خرچ 10ہزار ڈالرز لگایا۔ انہوں نے بینک سے دس ہزار ڈالرز قرض کی درخواست کردی لیکن اُن کا ایک مکان جو کچھ عرصہ قبل برائے فروخت لگایا گیا تھا وہ چند ہی روز میں نہ صرف فروخت ہوا بلکہ ان کے سفر کے اخراجا ت یعنی عین دس ہزار ڈالرز نفع ہوا جو ان کے ازدیاد ایمان کا باعث بنا۔
=…کینیڈا میں 4؍جولائی کی اجتماعی ملاقات ایک تاریخی اور مثالی ملاقات تھی ۔پانچ ہزار سے زائد مرد وزن بچے بوڑھے حضور انور کا دیدار کرنے کی تڑپ میں وقت مقررہ سے ایک گھنٹہ پہلے ہی صفیں باندھ کر کھڑے ہو گئے۔ اس دوران سیاہ بادل آئے اور شدید بارش شروع ہوگئی۔ لیکن تمام احباب ملاقات کے انتظار میں بارش میں کھڑے رہے۔ یہ لوگ جب ملاقات کے لئے حاضر ہوئے تو ان کے کپڑے پانی سے نُچڑ رہے تھے ۔ حضور انور کی خدمت میں حاضرہونے سے قبل ہر ایک اس کوشش میں تھا کہ ہاتھ خشک کرلوں تا میرے گیلے ہاتھوں سے حضور انور کو تکلیف نہ پہنچے ۔ ادھر حضور انور ا س تکلیف سے تڑپ رہے تھے کہ افراد جماعت ان کی محبت میں سرشار شدید بارش میں بھیگ رہے ہیں۔ حضور انور نے چند مرتبہ انتظامیہ کو فرمایا کہ سائبان میں بٹھائیں۔ لیکن خلافت سے عشق ایسا تھا کہ کسی کو اس بات کی پرواہ نہ تھی کہ وہ بارش میں بھیگ رہاہے۔
=… مکر م علی احمد صاحب نے مصر سے حضور انور ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں لکھا:
حضور! آپ ہی میرے آقا اور میرے باپ اور میرے بھائی اور میری آنکھوں کی ٹھنڈک اور میرے سرتاج ہیں۔ میرے دل میں آپ کے لئے محبت کے ایسے جذبات ہیں جن کے بیان کے لئے میرے پا س الفاظ نہیں ہیں۔
صرف یہی عرض ہے کہ مجھے آپ سے محبت ہے۔ مجھے آپ سے محبت ہے۔ مجھے آپ سے محبت کیوں نہ ہو جبکہ آپ میرے آقا احمدؑ کے خلیفہ ہیں ۔ مجھے آپ سے اتنی محبت کیوں نہ ہو جبکہ مجھے معلوم ہے کہ خدا آپ کے ساتھ ہے۔ مجھے آپ سے اس قدر محبت کیوں نہ ہو جبکہ آپ ہم عربوں سے اس قدر محبت فرماتے اور اس قدر ہمارا خیال رکھتے ہیں۔ مجھے آپ سے اس قدر محبت کیوں نہ ہو جبکہ مجھے اچھی طرح اندازہ ہے کہ ایم ٹی اے العربیہ کی نشریات نائل 7 پر بحال کرنے کے لئے آپ نے کس قدر مال اور وقت خرچ کیا ہے۔ حضور ! اس با ت کی عربوں کے لئے کتنی اہمیت ہے اسے سوائے آپ جیسی مؤید من اللہ شخصیت کے کوئی نہیں سمجھ سکتا … ۔
=…مکرم محمد عرفہ صاحب (مصر) بیان کرتے ہیں کہ ایم ٹی اے کی نشریات نائل 7پر بحال ہونے سے 48گھنٹے قبل مَیں نے خواب میں حضور انور کو دیکھا اور آپ نے فرمایا کہ ہم مصر کے ہرگھر میں داخل ہوں گے۔
=… مکرم ہانی محمد الزہیری صاحب مصر سے لکھتے ہیں:ایم ٹی اے العربیہ کے ذریعہ جماعت کا تعارف ہوا۔ جماعت سے تعارف سے قبل اسلام کی ترقی کی کوئی صورت نظر نہیں آتی تھی۔ … جب جماعت سے تعارف ہوا تو وہ کچھ پایا جس کی مجھے تلاش تھی۔ خلافت کے بارہ میں میرا نقطہ نظر یکسر بدل گیا۔… خلافت کی برکت سے مَیں قرآن کو اپنی تمام خوبصورت تعلیما ت کے ساتھ زمین میں چلتا پھرتا دیکھتا ہوں۔ قرآن اب محض تاریخ کی کتاب نہیں رہ گئی جس سے صرف گزشتہ اقوام کے قصے پڑھے جا سکتے ہیں بلکہ مَیں اس کی پیشگوئیوں کو اپنے سامنے پور ی ہوتے ہوئے دیکھتا ہوں۔
=…مکرم صفا غانم السامرائی صاحب کردستان عراق سے لکھتے ہیں کہ مئی 2007ء میں رات کے وقت مَیں مختلف چینل تلاش کررہاتھا کہ مَیں نے کسی کو یہ کہتے ہوئے سنا 10888۔ مَیں بہت گھبرا گیا ۔ لیکن مَیں نے یہ فریکوئنسی ریسیورمیں Feedکی اور Searchکی تو اچانک میرے سامنے نئے چینلز کی ایک لسٹ آگئی جن میں سے ایک MTAتھا۔ اس چینل پر حضرت خلیفۃ المسیح الرابع تھے جو ’لقاء مع العر ب‘ پروگرام کر رہے تھے۔ مَیں تو ایک لمبے عرصہ سے امام مہد ی کو تلاش کررہا تھا، الحمدللہ کہ اللہ تعالیٰ نے امام مہدی کو(ٹی وی کے ذریعہ ) میرے گھر بھیج دیا ۔ پھر ایک پروگرام میں مَیں نے سیدنا احمدؑ کا یہ کلام سنا کہ میرے بارہ میں خدا سے دعا کرو اور استخارہ کرو۔دو رکعت نماز ادا کرو اورخدا سے کہو، اے اللہ !اگر مرزا غلام احمد اما م مہدی ہے اور سچا ہے تو مجھے اس کی صداقت کا کوئی نشان دکھا تو اللہ تعالیٰ ضرور کوئی نشان دکھادے گا۔ چنانچہ مَیں نے خلوص نیت سے دعا کی تو مجھے مکمل انشراح صدر ہو گیا اور ایک ہفتہ بعد ہی میرے لئے وہ نشان بھی ظاہر ہو گیا جو کہ درحقیقت بہت عظیم نشان تھا۔ میری دوسری شادی 2001ء میں ہوئی تھی لیکن ہم اولاد کی نعمت سے محروم تھے۔ لیکن اس دعا کے ایک ہفتہ بعد مجھے میری بیوی نے بتایا کہ وہ حاملہ ہے۔ چنانچہ میں نے فوراً امام مہدی کی بیعت کرلی۔
=…مکرم سعد ا لفضلی صاحب آف کویت نے الحوار المباشر میں بذریعہ فون کہا کہ مَیں غیراحمدی ہوں لیکن مَیں کہتاہوں کہ آ پ اسلام کے دفاع میں صف اوّل میں کھڑے ہیں اور مَیں سمجھتا ہوں کہ اسلام کے دفاع میں ہمیں آپ کی سپورٹ میں کھڑے ہونا چاہئے ۔
=…مصر کی ادیبہ مکرمہ شحاتہ عطیہ صاحبہ لکھتی ہیں کہ مجھے اس بات کا اعتراف کئے بغیر چارہ نہیں کہ اگر کوئی واقعۃً اخلاص کے ساتھ اسلام کی خدمت کررہاہے تو وہ صرف جماعت احمدیہ ہے ۔ مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ دیگر لوگ اسلام کے حقیقی پیغام سے غفلت اور سستی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ بڑی مصیبت یہ ہے کہ وہ اس دجّال سے بھی غافل ہیں جس نے زمین میں فساد پھیلا رکھا ہے۔
=…بورکینافاسو میں ایک شیعہ عالم نے احمدی مبلغ کو بلاکر اپنے دوستوں سے کہاکہ یہ سچے لوگ ہیں کبھی ان کے راستے میں حائل نہ ہونا اور کبھی ان کونہ روکنا ۔ کہنے لگے ایم ٹی اے پر کوئی عربی پروگرام ایسا نہیں جو میں نہ دیکھتا ہوں۔ یہی لوگ سچ پر قائم ہیں۔ ان کی اس گواہی کے بعد اب اس علاقہ میں تبلیغ میں بہت سہولت پیدا ہوگئی ہے۔
=… عمر احمد گلاسگو اسسٹنٹ کمشنر آف پولیس گیانا نے دس سال قبل عیسائیت ترک کرکے اسلام قبول کیا تھا۔ چند سال بعد وہ یہ کہہ کر احمدیت میں داخل ہوگئے کہ قرآن کریم میں خلافت کا ذکر ہے جو کہ سوائے جماعت احمدیہ کے کہیں اور نہیں ہے۔ پس یہی سچی جماعت ہے۔
=…بورکینا فاسوکی ایک عیسائی خاتون ریڈیو پر احمدیہ پروگرام بہت شوق سے سنتی ہیں اور کہتی ہیں کہ خلیفۃالمسیح، اللہ کابندہ ہے، جس کی خدا سنتاہے۔ ان کا ایک سترہ سالہ بیٹا حادثہ میں شدید زخمی ہوا تو خاتون نے حضور انور کا نام لے کر دعا کی کہ ا ے اللہ! اس خلیفہ کے نام پر میرے بچے کو تین دن کے اندر شفا دے۔ چنانچہ تیسرے دن بچہ ہسپتال سے گھر لے آئے۔ ا س کے بعد یہ خاتون اپنے بڑے بیٹے کے ساتھ احمدیہ مشن میں آئیں اورکہا کہ مَیں آ پ کو خوشخبری دینے آئی ہوں کہ آپ کاخلیفہ برحق اور سچا ہے۔ اس کے بڑے بیٹے نے 500 فرانک سیفا کا چندہ بھی ادا کیا۔
=… جرمنی کے بعض داعیان الی اللہ نے ٹریئر (Trier) شہر میں سٹال لگایا تو ایک کرد فیملی سے رابطہ ہوا۔ وہ صاحب بہت خفا ہوئے۔ جو کتب اُنہیں دی گئیں بعد میں فون پر انہوں نے بتایا کہ وہ انہوں نے جلادی ہیں۔ کھانے پر بلایا گیا تو روزہ رکھ کر آئے تاکہ احمدیوں کا کھانا نہ کھائیں۔ لیکن اُس روز بحث میں اتنا وقت گزر گیا کہ انہیں روزہ وہیں افطارکرنا پڑا۔ انہوں نے مولویوں کے حوالہ سے بتایا کہ وہ آئندہ احمدیوں سے کوئی تعلق قائم نہیں رکھنا چاہتے۔ تاہم مسلسل دعا اور کوشش کے نتیجہ میں انہوں نے یہ وعدہ کرلیا کہ چالیس روز صاف دل ہوکر خدا تعالیٰ کے حضور حضرت مسیح موعودؑ کی سچائی کے بارہ میں درد دل سے دعا کریں گے۔ ابھی تیسرا دن تھا کہ اُن کا ٹیلیفون آیا اور انہوں نے پوچھا کہ تمہارے پاس حضرت خلیفۃ المسیح کا کوئی فوٹو ہے۔ پھر بتایا کہ ابھی مجھے غائبانہ آواز آئی ہے کہ ثبوت کیا مانگتے ہو، ثبوت توہم تمہیں دکھا چکے ہیں۔ اور ساتھ ہی ان کووہ پرانی خواب یاد دلائی گئی جس میں انہوں نے حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کو ایک کمانڈر اِن چیف کے طور پر کھڑا دیکھا تھا جن کے اوپرنور کا سایہ تھا اور سامنے ایک فوج تھی جو گندمی رنگ کے لوگ تھے اور فرشتوں کی جماعت کے طورپر انہیں دکھائے گئے ۔
پھر وہ جلسہ سالانہ انگلستان میں شامل ہوئے اور بیعت کے لئے خواہش کی کہ مَیںحضور انور کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لینا چاہتاہوں۔ انہیں کہا گیا کہ اتنے بڑے جلسہ میں اس کاوعدہ تو نہیں کیا جاسکتا ۔ لیکن عالمی بیعت کے دن جو جگہ ان کے حصہ میں آئی وہ بالکل حضور انور کے سامنے تھی ۔ اس طرح ا للہ نے ان کی خواہش پوری کردی ۔ بعد میں وصیت کے نظام میں شامل ہوئے اور اپنے دوستوں اور عزیزوں میں سے بعض کی بیعتیں بھی کرواچکے ہیں۔ نواحمدیوں میں ان کے وہ دوست بھی شامل ہیں جو اِن کو احمدیت سے تائب کروانے کے لئے آئے تھے اور بحث کے بعد خود بھی احمدیت قبول کرلی۔
========================
کہاں ممکن ترے فضلوں کا اِرقام
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 21مارچ 2011ء میں مکرم عبدالماجد طاہر صاحب نے اپنے مضمون میں جماعت احمدیہ کی حقانیت اور خلافت احمدیہ کی برکات کے حوالہ سے اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت کے ایمان افروز واقعات بیان کئے ہیں۔
٭ مکرم ناظم صاحب وقف جدید ربوہ لکھتے ہیں کہ ایک نومبائع کو حضور انور ایدہ اللہ کی طرف سے برسات کے لئے دعائیہ خط کا یہ جواب موصول ہوا کہ برسات ضرور ہوگی۔ چنانچہ اگلے دن وہ نومبائع خط لے کر اپنے کھیتوں میں چلاگیا۔ وہاں جاکر ا س نے بڑی عقیدت سے حضور انورکے خط کو چوما او رخدا تعالیٰ کو مخاطب کرکے کہنے لگا کہ خدایا! اگر یہ آدمی سچا ہے تو برسات نازل فرما۔یہ دعا کرنے کے بعد وہ ابھی گھر بھی نہیں پہنچا تھا کہ بارش شروع ہوگئی۔
٭ مکرم امیر صاحب آسٹریلیا لکھتے ہیں : کونسل نے میلبورن احمدیہ سینٹر کومسجد اور کمیونٹی سینٹر کے طورپر استعمال کی مخالفت کے باوجود اجازت دیدی تھی۔ بعد میں ایک شخص نے عدالت میں اپیل کردی۔ ہم نے پریشانی میں حضورایدہ اللہ کی خدمت میں دعا کے لئے لکھا تو جواب آیا کہ ’’اللہ تعالیٰ آئندہ بھی اس راہ میں آنے والی رکاوٹوں کو خود دور کرے گا‘‘۔ چنانچہ حضور انور کی دعا بڑی شان سے پوری ہوئی اور عدالت کا فیصلہ جماعت کے حق میں ہوا جس پر اپیل بھی نہیں ہو سکتی۔
٭ مکرم سرکل انچارج صاحب ڈائمنڈ ہاربر انڈیا تحریر کرتے ہیں کہ :علاقہ سندربن میں جماعت کی شدید مخالفت ہو رہی تھی۔ حضور انور ایدہ اللہ کی خدمت میں دعا کے لئے لکھا گیا تو حضورانور نے جواباً تحریر فرمایا کہ ’’اللہ مخالفین کے شر کو انہیں پر لوٹا دے‘‘۔ اسی شام مخالفین کی آپس میں کسی بات پر لڑائی ہوئی۔ 17افراد شدید زخمی ہوئے اور ہسپتال میں داخل ہوئے ۔ یوں ان کے شر انہیں پر الٹ گئے۔
٭ مکرم امیر صاحب برکینافاسو لکھتے ہیں کہ جیجینی (Djejen) ریجن کے ایک احمدی سَونگا لُوتَراَوِرے کی ایک سالہ بیٹی حوّا اس قدر بیمار ہوئی کہ تمام علاج معالجہ کے باوجود ڈاکٹروں نے کہا کہ گھر لے جائو یہ مرجائے گی۔ گھر آ کر پریشانی کے عالم میں تھا کہ خیال آیا کہ مربی صاحب نے تقریر میں کہاتھاکہ اللہ تعالیٰ خلیفۃ المسیح کی دعائیں سنتاہے ۔ اب مَیں فوراً تو ان کو دعا کے لئے پیغام نہیں بھجوا سکتا لیکن اے اللہ! تُو کوئی نشان دکھا کہ مَیں اس بات پر تسلی پاجائوں۔ کہتے ہیں کہ اس اثناء میں سوگیا تو خواب میں دیکھا کہ حضورانورآئے ہیں اور اُس کے علاقہ میں پائے جانے والے ایک درخت Gaba Bley کے متعلق فرمانے لگے کہ اس کے پتے اُبال کر اس کے پانی سے لڑکی کو نہلائو اور وہ ابلا ہوا پانی اس کو پلائو۔ جاگنے پر وہ فوراً پتے لایا اور لڑکی کا علاج کیا۔ خدا کے فضل سے رات آنے سے قبل وہ لڑکی رُو بصحت ہوگئی اور آج تک تندرست و توانا ہے۔
٭ مکرم امیر صاحب برکینا فاسو بیان کرتے ہیں کہ ایک احمدی گَو سعیدُو صاحب تلاشِ معاش کے سلسلہ میں براستہ مالی آئیوری کوسٹ جارہے تھے کہ Yamasokro کے علاقہ میں پولیس نے دہشتگردی کے شبہ میں پکڑلیا۔ جب ان کو یقین ہوگیاکہ پولیس والے شُوٹ کردیںگے تو انہوں نے دعا کی کہ یا اللہ!اگر خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ ا للہ تیری طرف سے ہیں تو ان کی بدولت میری جان ان پولیس والوں سے چھڑا دے۔ اس اثنا ء میں ایک پولیس والا کہنے لگا کہ یہ آدمی شکل سے دہشتگرد نہیں لگتا، اس کو واپس اس کے ملک بھجوا دو۔ چنانچہ ایسا ہی کیا گیا۔
٭ مکرم یوسف بن صالح صاحب مربی سلسلہ غانا لکھتے ہیں کہ ٹیچی مان کی ایک مخلص عمر رسیدہ خاتون مریم عبداللہ نے حضور انور ایدہ اللہ کے دورۂ غانا 2008ء کے موقع پر ایک بھیڑ بطور تحفہ پیش کی تھی۔ اس عورت کی بیٹی خدیجہ کے دو بچے ہیں مگر ایک لمبے عرصہ سے کسی مزید بچے کی ولادت نہیں ہوئی ۔ ان کا ایمان تھا کہ اگر وہ جلسہ پر جاکر حضور کے پیچھے نماز ادا کریں اور بچے کی پیدائش کے لئے دعا کریں تو ان کی بیٹی کے ہاں ضرور اولاد ہوگی۔ چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا۔اللہ کے فضل سے جلسہ کے معاً بعد ان کی بیٹی حاملہ ہوئی اور ایک خوبصورت اور صحتمند بچی کو جنم دیا۔
٭ مکرم امیر صاحب بنگلہ دیش لکھتے ہیں : سید فضل رومی صاحب اور ستار ہ اختر صاحبہ کی شادی2004 ء میں ہوئی لیکن اولاد نہیں ہو رہی تھی۔ 2007ء میں یہ دونوں احمدیت میں دلچسپی لینے لگے۔ احمدی ہونے سے پہلے ہی اہلیہ نے حضورانورایدہ اللہ کی خدمت میں اولاد کے لئے دعا کی درخواست کی تو حضور انور نے 7؍جون 2008ء کو جوابی خط میں نیک اولادکے لئے اور احمدیت کی سچائی سمجھنے کی توفیق عطا ہونے کی دعا دی۔ چنانچہ میاں بیوی دونوں نے 26؍اگست 2008ء کو بیعت کرلی اور اس کے ٹھیک دس ماہ بعد ان کے ہاں پہلی بیٹی پیدا ہوئی۔
٭ مکرم محمد اشرف ضیاء صاحب مبلغ بلغاریہ لکھتے ہیں: ایک زیرتبلیغ فیملی کے ہاںاولاد نہ تھی اور شادی کو چار سال سے زائد عرصہ ہوچکا تھا۔ اُس خاتون نے خواب میں کسی عورت کو یہ کہتے سنا کہ آ پ رفعت کے پاس جائیں آپ کواولاد بھی ملے گی اور برکتیں بھی۔ (ہماری صدر لجنہ کا نام رفعت جہاں ہے)۔ چنانچہ وہ احمدیہ مرکز میں آئے اور ہمارے کہنے پر حضورانور کی خدمت میں دعائیہ خط لکھا۔ حضور انور کی طرف سے جواب موصول ہونے پر چیک اَپ کروایا گیا تو ڈاکٹر نے بتایاکہ یہ حاملہ ہیں۔ اس پر موصوفہ نے بیعت کرلی۔ اب اللہ نے اُن کو بیٹا عطا فرمایا ہے۔
٭ مکرم امیر صاحب کانگو لکھتے ہیں کہMichel Ikina صاحب ایڈووکیٹ جنرل تھے۔ اُن کی بیوی بیمار تھی۔ میرے کہنے پر انہوں نے حضور انور کی خدمت میں خط لکھا اور دو باتوں یعنی اپنی سروس میں ترقی اوربیوی کی شفا کے لئے دعا کی درخواست کی۔ یہ دعا یوں قبول ہوئی کہ موصوف نے بحیثیت اٹارنی جنرل بعض مجسٹریٹس کا احتساب کیا تو اس منفرد معاملہ کو انٹرنیشنل سطح پر بھی شہرت ملی۔ نیشنل لیول پر ایک اعلیٰ سطحی کانفرنس موصوف کی زیر صدارت منعقد کی گئی۔ جب حضور انور کی طرف سے خط کا جواب انہیں موصول ہوا تو اس وقت ان کے جذبات غیرمعمولی تھے۔ خط کو چُوما اور پھر اپنی بیوی کی شفا کے حوالہ سے بتایا کہ ان کی بیوی سائوتھ افریقہ میں علاج کے لئے مقیم تھی۔ ایک دن ڈاکٹر نے معمول کا چیک اَپ کیا اور چلاگیا۔ اسی وقت ڈاکٹر نے ایک کانفرنس کے سلسلہ میں اٹلی روانہ ہونا تھا اور ہسپتال سے سیدھا ائرپورٹ جاناتھا۔ جب ڈاکٹر روانہ ہوا تو مریضہ کی حالت بگڑ گئی۔ اُدھر ڈاکٹر اپنا بیگ مریضہ کے کمرہ میں بھول گیا۔ چنانچہ راستہ سے واپس اپنا بیگ لینے آیا اور مریضہ کی حالت دیکھی تو علاج میں مصروف ہوگیا۔ جب مریضہ کی حالت بہتر ہوئی تو فلائٹ کا وقت نکل چکا تھا ۔ لیکن ڈاکٹر نے ائر پورٹ جانے کا فیصلہ کیا کہ شاید ابھی جہاز نہ نکلاہو۔ ادھر جہاز پرواز کے لئے بالکل تیار تھا کہ آخری وقت میں جہاز کے ٹائروں میں کوئی خرابی نظر آئی اور اس کو ٹھیک کرنے کے لئے فلائٹ لیٹ ہوگئی اور ڈاکٹر موصوف جہازتک پہنچ گئے ۔ بعدازاں موصوف نے حضور انور کا خط اپنی بیوی کو بھجوایا اور ہدایت کی کہ اسے ہمیشہ اپنے تکیہ کے نیچے رکھا کرو۔ خدا کے فضل سے ان کی بیوی قریباً ایک سال بیمار رہنے کے بعد مکمل شفا پاگئی۔
٭ مکرم شریفی عبدالمومن صاحب الجزائر سے لکھتے ہیں کہ جماعت کے عقائد معلوم ہوئے تو مَیں دل سے احمدی ہوگیا لیکن کچھ سمجھ نہیں آرہی تھی کہ اب کیا کرناچاہئے۔ چنانچہ خدا تعالیٰ نے مجھے دو خوابیں دکھائیں۔ پہلی میں حضورانور کے چہرۂ مبارک پر ایسا نور دیکھا جسے بیان نہیں کیا جاسکتا۔ دوسری خواب میں دیکھا کہ حضور سے پوچھ رہا ہوں کہ کیا کرنا چاہئے جس پر آپ مجھے دو بیعت فارم پکڑاتے ہیں۔ مَیں نے بیدار ہوکر انٹرنیٹ کھولا تو وہی بیعت فارم مجھے مل گئے۔ چنانچہ مَیںنے فوراً بیعت کرلی۔ اس وقت سے مَیں اپنے اندر ایک نمایاں تبدیلی محسوس کرتاہوں۔
٭ مکرم تمیم ابو دقہ صاحب (اُردن) لکھتے ہیںکہ عراق کے ایک قومی شاعر نے انٹرنیٹ پر اپنے قصائد اور کچھ ویڈیو Clips ڈالے ہوئے ہیں۔ ان ویڈیوز میں حضرت مسیح موعودؑ اور آپ کے خلفاء کرام کی تصاویر بھی ہیں۔ یہ قصائد حضرت مسیح موعودؑ، آپ کے خلفاء کرام اور خلافت کی محبت سے لبریز ہیں ۔ ان سے یہ بھی نظر آتاہے کہ یہ شاعر اور ان کے ساتھی ہماری جماعت کے عقائد و روایات کو بڑی حد تک سمجھتے ہیں۔ حضرت مسیح موعودؑ کی مدح میں ان کے بعض اشعار کا ترجمہ اس طرح ہے:
= اے امام مہدی تیری محبت میری روح کی پیاس ہے اور تیرے نور نے میرے اندر محل تعمیر کررکھے ہیں۔
= مَیں نے تیری بیعت کی ہے اور اب تیری محبت مجھ میں ٹھاٹھیں مار رہی ہے جو حضرت علی کی محبت کا پرتَو ہے ۔
= مجھے آپ سے عشق ہے۔ آپ کی شخصیت سے مجھے بارانِ رحمت کی امید ہے جس کا مَیں طلبگار ہوں۔
ایک دوسرے قصیدہ میں خلافت کا ذکرکرتے ہوئے اہل عراق کو احمدیت قبول کرنے کی تلقین کرتے ہیں۔
٭ برکینافاسو سے سوڈوگوموسیٰ صاحب بیان کرتے ہیں کہ مَیں ایک مسجد میں امام تھا۔ میرا شاگرد احمدی ہوگیا اور اکثر مجھے تبلیغ کرتاتھا۔ ایک دن مَیں نے خواب میں دیکھا کہ دنیا ختم ہوگئی ہے اور لوگ دو گروپس میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ ایک گروپ سفید لباس میں اور نورانی چہروں وا لے ہیں جبکہ دوسرا گروپ کالے لباس میں ہے اور ان کے چہرے بگڑے ہوئے ہیں ۔کہتے ہیں میرا شاگرد مجھے سفید لباس والوں کے ساتھ نظر آیا۔ پھر یہی خواب ایک دن دوبارہ دیکھی جس میں ایک بزرگ کو دیکھا جو سفید لباس والوں کے ساتھ تھے اور وہ مجھے اپنی طرف کھینچتے ہیں۔ اگلے روز مَیں اپنے شاگرد کے ہاں گیا تو دیکھا کہ اُنہیں بزرگ کی تصویر اُس کے گھرمیں لگی ہے۔ میرے پوچھنے پر اُس نے بتایا کہ یہ ہمارے موجودہ خلیفہ کی تصویر ہے۔ یہ سُن کر مَیں سیدھا احمدیہ مرکز آیا اور بیعت کرلی۔
٭ آئیوری کوسٹ کے ایک معلم وتریٰ آزمائونہ صاحب ا س قدر بیمار ہوئے کہ موت کے قریب پہنچ گئے ۔ انہوں نے اپنے ورثاء کو جمع کرلیا اور اپنے ترکہ کی تقسیم کے بارہ میں انہیں وصیت کردی اور خود موت کا انتظار کرنے لگے ۔ بظاہر زندگی کی کوئی امید نہیں تھی۔ اسی دوران ایک رات خواب میں دیکھا کہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تشریف لائے ہیں اور ان کے سر پرہاتھ رکھ کر ان کی صحت کے لئے دعا کی ہے ۔ صبح اٹھے تو بالکل صحتمند تھے اور بیماری کا نام و نشان نہ تھا۔ سارے خاندان کو اکٹھا کیا اور بتایا کہ اس طرح مَیں نے خواب دیکھاہے اب مجھے اس بیماری سے موت نہیں آئے گی۔ انشاء اللہ۔ چنانچہ اس کے بعد یہ مسلسل خدمت دین میں مصروف ہیں۔
٭ مکرمہ ہالہ محمد الجوہری صاحبہ آف مصر لکھتی ہیں: مَیں نے خواب میں دیکھا کہ حضرت امام مہدی اور آپ کی جماعت پانی کے اوپر چل رہے ہیں ۔ مَیں نے درخواست کی کہ مجھے بھی شرف مصاحبت بخشیں۔ انہوں نے کہاکہ واپسی پر ہم آپ کو بھی ساتھ لے لیںگے۔ اس رؤیا کے بعد مَیں نے صوفی ازم میں تلاشِ حق شروع کی لیکن اطمینان نہ ہوا۔ مَیں نے کہا کہ میری خواب سے مراد صوفی فرقہ نہیں ہو سکتا۔ اگرچہ اُن لوگوں کا ا صرار تھا کہ مَیں نے انہی کو خواب میں دیکھا ہے۔ پھر ٹی وی پر مختلف چینل دیکھتے ہوئے ایم ٹی اے العربیہ نظر آیا تو میر ی حیرت کی انتہا نہ رہی کہ مَیں نے اس چینل پر وہی شخص دیکھا جس کوخواب میں دیکھا تھا کہ وہ امام مہدی ہے اور پانی پر چل رہا ہے اور یہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تھے۔
٭ مکرم امیر صاحب ناروے لکھتے ہیں کہ حضور انور کا خطبہ جمعہ فرمودہ 7؍مئی 2004ء ایک ٹی وی چینل سے نشر ہوا تو ایک غیر از جماعت دوست نے فون کیا اور پھر مسجد آکر بتایاکہ خطبہ جمعہ سن کر اُن میں ایک نمایاں تبدیلی پیدا ہوئی ہے اور ان کی دنیا ہی بد ل گئی ہے۔ انہیں ’دعوت الامیر‘ اور چند دوسری کتب دیں۔ چند دنوں کے بعد انہوں نے بیعت کرلی۔
٭ مکرم الحسن بشیر صاحب مبلغ گیانا ایک دوست مکرم اسماعیل محمد صاحب کی بیعت کا واقعہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ یہ صاحب گیانا میں شیعوں کے امام تھے اور مجتہد کے مقام تک پہنچ چکے تھے۔ ان کو ٹی وی پروگرام کی وجہ سے جماعت کا تعارف ہوا۔ پھر احمدیہ مرکز آئے اور بتایا کہ ابھی حضرت مسیح موعودؑکی نبوت کے متعلق ان کو شرح صدر نہیں ہے ۔ ان کو کتاب “Invitation to Ahmadiyyat” دی گئی تو چار پانچ دن بعد ہی انہوں نے بیعت کرلی اور پھر اپنے ساتھیوں میں تبلیغ شروع کردی اور اب تک متعدد بیعتیں کروا چکے ہیں۔