اداریہ: مکتوبِ فلسطین

(اداریہ-مطبوعہ رسالہ انصارالدین نومبردسمبر2023ء)

( مضمون – مطبوعہ روزنامہ الفضل انٹرنیشنل 3؍جنوری2024ء)

یروشلم کا ایک منظر

مَیں وہ مقدّس خطّۂ ارض ہوں جسے بےشمار انبیائے علیہم السلام اور کئی پاکیزہ بزرگ ہستیوں کے قدموں نے ایسی برکت بخشی کہ مجھے ارض مقدّس کے نام سے ہی موسوم کردیا گیا۔ان پاکیزہ و روحانی وجودوں میں سے کوئی بھی ایسا نہ تھا کہ جس نے اپنے پیروکاروں کو ظلم و زیادتی اور کبرواَنا کے ساتھ مجھ پر قابض ہوکر دوسروں کو محکوم بنالینے کی تعلیم دی ہو۔ لیکن افسوس کہ انسانی سرشت میں موجود حاکمیت کے خمیر نے آنے والی نسلوں میں سے بعض پتھر دل شیطان صفت ذہنوں کو اپنے پیشواؤں کی پوتر تعلیمات کے بالکل برعکس تکبّر و فوقیت اور وسعت حاکمیت کے حصول کی ہوس نے ایسا اندھا کردیا کہ وہ اپنے ہی جیسے انسانوں پرصرف اس لیے ظلم و ستم کے پہاڑ توڑنے لگے کہ تا اُن کی زمین اور اُن کے وسائل پر قبضہ کرکے اُس ریاست کی تشکیل کا خواب پورا کرسکیں کہ جس کی پیشنگوئی اُن کے روحانی پیشواؤں نے کی تھی۔ مگر افسوس کہ وہ اس وعدے کے پس پردہ حقیقت کو یکسر فراموش کربیٹھے کہ یہ وعدہ تو عباد صالحین کے ساتھ تھا۔ یہ الٰہی بشارات تو اُن قوموں کے لیے تھیں کہ جن کے دل ایک طرف اپنے خالق حقیقی کی محبت میں سرشار تو دوسری جانب اُن کے اعمال انسانیت کی خدمت سے لبریز ہوں۔ اس حکمت کو نظرانداز کردینے کے بعد لگ بھگ ایک صدی پر محیط ظلم و ستم کا جو سلسلہ اس ارض مقدّس پر جاری ہے، آج اس کی شدّت اپنی انتہا کو پہنچ چکی ہے اور اس کی حدّت و وسعت کے خوفناک نتائج کو سامنے رکھتے ہوئے خدشہ ہے کہ کہیں عالمی امن کسی تیسری عالمگیر جنگ کی صورت اختیار نہ کرلے۔ اور ڈر ہے کہ کسی بڑی تباہی کے نتیجے میں اشرف المخلوقات کا ایک بڑا حصہ کہیں صفحۂ ہستی سے نابود نہ ہوجائے اور بنی نوع انسان کی تمام تر سائنسی ترقیات اور عقل و شعور کی حسیّات کہیں یکلخت قصۂ پارینہ نہ بن جائیں۔

مسجد اقصیٰ یروشلم کا ایک قدیم منظر

قارئین محترم! ہمارے قابل صد احترام آقا اس تعلق میں اپنے خطبات میں دعاؤں کی مسلسل تحریک فرمارہےہیں اور آج فلسطین میں نہتّے معصوموں پر ہونے والے مظالم پر آواز بلند کرتے ہوئے عالم اسلام کو اُن کی ذمہ داریوں کی طرف بھی توجہ دلا رہے ہیں۔ اپنے آقا کے درد کو محسوس کرتے ہوئے ہمارا فرض ہے کہ آپ کے ارشاد کے مطابق اپنی ہر نماز میں ایک سجدہ اس حوالے سے دعا کے لیے مختص کردیں۔ نیز اپنے دائرۂ اثر میں یہ احساس دلائیں کہ:
اوّل: ظلم کے نتیجے میں کبھی امن قائم نہیں ہوتا۔ ظلم کے نتیجے میں مزید ظلم ہی جنم لیتا ہے۔ ظلم کی مقدار کے کم یا زیادہ ہونے سے اُس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی نفرت میں کمی نہیں کی جاسکتی۔ وہ فطری نفرت آئندہ پیدا ہونے والی نسلوں کو بھی اپنا غلام بنائے رکھتی ہے۔ گویا ظلم کے نتیجے میں جنم لینے والے ظلم کا ایک لامتناہی سلسلہ اور نفرتوں کے سیلاب کے سوا کچھ بھی نہیں ہوسکتا۔
دوم:اس وقت ارض فلسطین پر ظلم کے جو پہاڑ توڑے جارہے ہیں اور حماس کے خلاف کارروائی کے نام پر عملاً مظلوم شہریوں کی نسل کشی کی جارہی ہے اُس پر دنیابھر کے شرفاء بھی بلبلا اٹھے ہیں۔ ہر مذہب اور ہر طبقۂ فکر سے تعلق رکھنے والے بےشمار صاحبانِ عقل و شعور نے اس حوالے سے آواز اٹھائی ہے۔ ہمارا کام صرف یہ ہے کہ ایسے چنیدہ افراد کے بیانات کی بھی تشہیر کریں کہ تا عوام کو احساس ہوسکے کہ آج جو ناحق ظلم اس مقدّس خطۂ ارض پر برپا ہے اس کا تعلق کسی مذہب سے نہیں۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ دہشت گردی کا تعلق کسی بھی مذہب سے ہو ہی نہیں سکتا۔ اس لیے ان واقعات کا تاریخی پس منظر اور ان کے نتیجے میں درپیش پُرخطر عواقب بھی ہمارے پیش نظر رہنے چاہئیں۔
سوم:دنیابھر میں خدا کی زمین پر ناحق قبضے کی جس خواہش نے انسان کو اخلاقی اور روحانی پستیوں میں دھکیل کر ظلم پر مجبور کیا ہے اُس کی اصل وجہ وہ دولت ہے جس کے بل بوتے پر مجبور ذہنوں کے فیصلوں پر اثرانداز ہوا جاتا ہے۔ چنانچہ بہت سی اہم سیاسی شخصیات اور سماجی طور پر اثرورسوخ رکھنے والے افراد جب کسی ایسے پلیٹ فارم پر موجود ہوتے ہیں جہاں اُن کے اظہار رائے کے نتیجے میں اُن کے علاقائی، قومی یا ذاتی معاملات کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو اور اُن کی ذاتی زندگیوں کی آسائش متأثر ہوسکتی ہو تو پھر وہی حقیقت شناس ہر قسم کی سچائی کو بالائے طاق رکھ کر کسی خفیہ مصلحت یا خودساختہ حکمت کے نام پر اپنی رائے کو سیاسی پردوں میں لپیٹ کر پیش کرتے ہیں یا اپنے بیانات کو اس انداز سے پیش کرتے ہیں کہ گویا اُن کا رازق آسمان کا خدا نہیں ہے بلکہ اُن کے افعال اب ایسے زمینی خداؤں کے نرغے میں ہیں جنہوں نے اُن کے جسموں اور ذہنوں کے ساتھ ساتھ عقل و شعور میں موجود عدل و اخلاق کے پیمانوں کو بھی اپنی گرفت میں لے رکھا ہے۔

الغرض یہ دَور حضرت اقدس مسیح الزماں علیہ السلام کے غلاموں سے ایک ایسے جہاد کا متقاضی ہے جو حضرت امیرالمومنین کے نقش قدم پر چل کر انسان کو اُس جہنم میں گرنے سے بچاسکتا ہے جس کے نتیجے میں وہ اپنی دنیا و عاقبت برباد کرنے پر تُلے ہوئے ہیں۔ مظلوم کی مدد تو بہرحال کرنی ہے لیکن ظالم کی مدد بھی کرنی ہے، اُس کا وہ ہاتھ روک کرجس سے وہ ظلم و فساد کا بازار گرم کرتے ہوئے اپنی متکبرانہ اَناؤں اور نام نہاد ذہنی برتری کی تسکین کررہا ہے۔
اے ہمارے ربّ! ہم پر رحم کی نظر کر، ظالموں کا ہاتھ روک کر مظلوموں کو نجات دے اور بنی نوع انسان کو وہ شعور عطا کر کہ وہ تیرے بھیجے ہوئے پیغامبر اور اس کے واسطہ سے صادر تیری تعلیمات پر عمل پیرا ہوکر تیرے سامنے اپنا سرتسلیم خم کردے۔ آمین

(محمود احمد ملک)

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں