الجاحظ … مشرق کا والٹیئر

(مطبوعہ رسالہ انصارالدین جنوری و فروری 2024ء)

الجاحظ

(کلیم احمد کِم)

جاحظ کا پورا نام ابو عثمان عمرو بحرالکنانی البصری تھا اور وہ 776 عیسوی میں بصرہ میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کا خاندان بےحد غریب تھا اور ان کے دادا ساربان تھے۔جاحظ خود بچپن میں بصرہ کی نہروں کے کنارے مچھلیاں بیچا کرتے تھے۔ ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ بدہیئت تھے جس کی وجہ سے لوگ ان کا مذاق اڑایا کرتے تھے۔عربی لفظ جاحظ کا مطلب ایسا شخص ہے جس کے دیدے باہر کو نکلے ہوئے ہوں لیکن جاحظ نے ان رکاوٹوں کو آڑے نہیں آنے دیا اور تہیا کر لیا کہ اپنے مخالفوں کو علم کی طاقت سے شکست دیں گے۔ اس مقصد کے لیے انہوں نے تعلیم حاصل کرنے کا سلسلہ جاری رکھا۔ وہ خود لکھنے پڑھنے کے ساتھ ساتھ فارغ اوقات میں مختلف علمی محافل میں جا کر تقاریر اور مباحثے سنا کرتے تھے۔
جدید عربی کے نقاد جاحظ کو مشرق کا والٹیئر کہتے ہیں۔ مامون الرشید، معتصم باللہ، واثق باللہ، متوکل علی اللہ کے زمانہ میں تلاش معاش کے لیے بغداد کا سفر کیا ۔ جاحظ کو کتب بینی کا بڑا شوق تھا ۔ جو کتاب ہاتھ آتی اسے مکمل پڑھ کر چھوڑتا ۔ کبھی کبھی کتب فروشوں کی دکان کرایہ پر لے کر اپنا مطالعہ کا شوق پورا کرتا۔ اس دَور میں معتزلہ فرقہ جڑ پکڑ رہا تھا اور ان کی محافل میں مذہبی مسائل، فلسفہ اور سائنس پر دھواں دھار بحثیں ہوا کرتی تھیں۔ جاحظ نے باقاعدگی سے ان محفلوں میں شرکت کی جس سے انہیں اپنے نظریات وضع کرنے میں مدد ملی۔
عام طور پر چارلس ڈارون کو نظریہ ارتقاء کا بانی سمجھا جاتا ہے لیکن صدیوں قبل الجاحظ نے اس نظریہ کے متعلق اپنی تصنیف ’’کتاب الحیوان‘‘ میں بیان کر دیا تھا۔ تاہم چارلس ڈارون نےاس کو سائنسی بنیادوں پر بڑی مہارت سے پیش کیا اور تھوڑے ہی عرصہ میں اس کے نظریہ کو دنیا نے قبول کر لیا ۔جاحظ ’’کتا ب الحیوان‘‘ میں نظریہ ارتقا کے بنیادی نقطہ ’’قدرتی انتخاب‘‘ کا ذکر کر چکا ہےجو کہ حیرت انگیز طور پر چارلس ڈارون کے نظریے سے مشابہ ہے۔

Charles-Robert-Darwin

یہ عباسی سلطنت کے عروج کا زمانہ تھا۔ یعنی عباسی خلیفہ ہارون الرشید اور مامون الرشید کا دَور، کتب خانوں، علمی بحثوں، اور بیت الحکمہ کا دور تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب دنیا بھر سے علوم و فنون عربی زبان میں ترجمہ ہو رہے تھے اور مسلم دنیا نت نئے نظریات سے روشناس ہو رہی تھی۔ مسلمانوں نے ابھی حال ہی میں چینیوں سے کاغذ بنانے کا کارآمد فن سیکھا تھا جس نے علم و دانش کے میدان میں انقلاب برپا کر دیا تھا۔ نوجوان جاحظ نے اس ماحول سے بھرپور فائدہ اٹھایا اور مختلف و متنوع موضوعات پر ایک کے بعد ایک تصنیف پیش کرنا شروع کر دی۔ جلد ہی ان کی شہرت دور و نزدیک تک پہنچ گئی یہاں تک کہ خود عباسی خلیفہ مامون الرشید بھی ان کے قدردانوں میں شامل ہو گئے۔ بعد میں خلیفہ المتوکل نے انہیں اپنے بچوں کا استاد مقرر کر دیا۔
جاحظ نے سائنس، جغرافیہ، فلسفہ، صرف و نحو اور علم البیان جیسے کئی موضوعات پر قلم اٹھایا۔ ان کی کتابوں کی تعداد دو سو کے قریب بتائی گئی ہے، تاہم ان میں سے صرف ایک تہائی محفوظ رہ سکی ہیں۔ جاحظ کی کتاب ’’البخلاء‘‘ (بخیلوں کی کتاب) نویں صدی کے عرب معاشرے کا زندہ مرقع ہے جس میں انہوں نے متعدد لوگوں کی جیتی جاگتی تصویروں کو قلمی رنگ پہنایا ہے۔
ارتقاء کے سلسلے میں جاحظ کی تصنیف ’’کتاب الحیوان‘‘ نہایت دلچسپ ہے۔ اس انسائیکلوپیڈیائی کتاب میں انہوں نے ساڑھے تین سو جانوروں کا احوال بیان کیا ہے۔ اس کتاب میں جاحظ نے چند ایسے تصورات پیش کیے جو حیرت انگیز طور پر ڈارون کے نظریۂ ارتقا سے مشابہ ہیں۔ ان نظریات کو بنیادی طور پر درج ذیل تین حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے:

بقا کی جدوجہد:

جاحظ لکھتے ہیں کہ ہر جاندار ہر وقت بقا کی جدوجہد میں مصروف ہے۔ جانور زندہ رہنے کے لیے خود سے چھوٹے جانوروں کو کھا جاتے ہیں، مگر خود بڑے جانوروں کی خوراک بن جاتے ہیں۔ یہ جدوجہد نہ صرف جانوروں کی مختلف نسلوں کے درمیان پائی جاتی ہے بلکہ ایک ہی نسل کے جانور بھی ایک دوسرے سے مقابلہ کرتے ہیں۔

ایک نسل کی دوسری نسل میں تبدیلی:

جاحظ اس بات کے قائل تھے کہ جانوروں کی ایک نسل مختلف عوامل کی وجہ سے دوسری نسل میں تبدیل ہو سکتی ہے۔

ماحولیاتی عوامل کا اثر:

جاحظ کا خیال تھا کہ خوراک، ماحول اور پناہ گاہ ایسے عوامل ہیں جو جانوروں پر اثر انداز ہو سکتے ہیں اور انہی کے زیرِ اثر جانوروں کی خصوصیات بھی تبدیل ہو جاتی ہیں۔ یہ خصوصیات ایک نسل سے دوسری نسل میں منتقل ہوتی رہتی ہیں اور جانور بتدریج اپنے ماحول میں زیادہ بہتر طریقے سے ڈھلنے لگتا ہے۔ اس طرح بہتر خصوصیات والے جانور بقا کی دوڑ میں کامیاب رہتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں: جانور اپنی بقا کی مسلسل جدوجہد میں مگن ہیں اور وہ ہر وقت خوراک حاصل کرنے، کسی کی خوراک بننے سے بچنے، اور اپنی نسل آگے بڑھانے کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔ یہ وہی مخصوص نظریہ ہے جو بعد میں survival of the fittest کہلایا۔ جاحظ کے ان خیالات کا اثر بعد میں آنے والے مسلمان مفکرین پر بھی ہوا، چنانچہ ہمیں ان کی بازگشت فارابی، ابن العربی، رومی، البیرونی، ابنِ خلدون اور دوسرے حکماء کے ہاں ملتی ہے۔ علامہ اقبال اپنے خطبات کے مجموعے ’’اسلامی مذہبی فکر کی تشکیلِ نو‘‘ میں لکھتے ہیں کہ یہ جاحظ تھا جس نے نقلِ مکانی اور ماحول کی وجہ سے جانوروں کی زندگی میں آنے والی تبدیلیوں کی طرف اشارہ کیا ہے۔ ارتقاء کے بارے میں مسلمانوں کے یہ تصورات 19ویں صدی کے یورپ میں خاصے عام تھے۔ حتیٰ کہ ڈارون کے ایک ہم عصرجان ولیم ڈریپر نے 1878ء میں نظریۂ ارتقاء کو محمڈن تھیوری آف ایوولوشن (Muhammadan Theory of Evolution) یعنی مسلمانوں کا نظریۂ ارتقاء سے موسوم کیا تھا۔ تاہم جاحظ کا یہ اعزاز ضرور ہے کہ جو بات 19ویں صدی میں ڈارون کو سوجھی، اس کی طرف وہ ایک ہزار سال قبل اشارہ کر چکے تھے۔
علم و دانش اور کتابوں سے عشق جاحظ کی موت کا سبب بھی بن گیا۔ کہا جاتا ہے کہ 92 سال کی عمر میں شیلف سے ایک کتاب نکالتے ہوئے بھاری بھرکم شیلف ان کے اوپر آ گرا اور یوں اسلامی تاریخ کا یہ یکتا دانشور کتابوں ہی کے ہاتھوں اپنے انجام کو پہنچا۔ جاحظ کی وفات 255ھ بمطابق 868ء میں ہوئی۔
جاحظ کی تصانیف کی تعداد دو سو سے زائد ہے۔ چندمشہور تصانیف یہ ہیں:
البیان والتبیین ،کتاب الحیوان ،کتاب البخلاء ( یہ کتاب قدیم عربی کتب میں مزاح نگاری پر بے مثال ہے )، المحاسن والأضداد ،البرصان والعرجان، التاج في أخلاق الملل، البغال ،تاب خلق القرآن، تاب أخلاق الشطا، العديد من الرسائل ۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں