ایک سو سال پہلے … تاریخ کا ایک زرّیں ورق

(مطبوعہ رسالہ انصارالدین جنوری و فروری 2024ء)

(مرتّب: محمود احمد ملک)

حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ کا پہلا انگریزی خطاب

حضور نے ۹ ؍ستمبر ۱۹۲۴ء کی شب ایسٹ اور ویسٹ یونین کے اجلاس میں یونین کے صدر مسٹر داس گپتا (Mr. Das Gupta) کی درخواست پر شرکت فرمائی۔ جو مختصر لیکچر حضور نے اس تقریب کے لیے تحریر فرمایا تھا ( اور محترم چودھری محمد ظفراللہ خان صاب نے اس کا انگریزی میں ترجمہ کیا تھا) وہ لیکچر حضورنے بنفس نفیس پڑھ کر سنایا ۔ حضور نے یہ خطاب گلڈ ہائوس میں فرمایا۔ حضور کا انگلستا ن میں یہ پہلا خطاب تھا جو حضور نے خود انگریزی زبان میں فرمایا۔حضور نے اپنے لیکچر میں سوسائٹی کے اغراض و مقاصد کی تعریف کی یعنی مشرق و مغرب کے درمیان اتفاق اور محبت قائم کرنا۔
حضورؓ نے اپنے خطاب میں یہ بھی فرمایا:
’’دین کا امن دنیا کے لوگوں کے ذریعہ نہیں ہوسکتا کیونکہ صلح کرانے والایا مغربی ہوگا یا مشرقی۔ اس وجہ سے ایک یا دوسری قوم اُس کو شک کی نگاہوں سے دیکھے گی۔ صلح اُس ہستی کی طرف سے ہوسکتی ہے جو نہ مشرقی ہے اور نہ مغربی بلکہ سب جہتوں سے پاک ہے۔ اُس ذات کی طرف قدم بڑھانے سے ہم درحقیقت ایک دوسرے کی طرف قدم بڑھاتے ہیں اور جو اُس کی طرف سے آئے وہی ہم کو جمع کرسکتا ہے کیونکہ وہ جو آسمان کی طرف سے آتا ہے وہ مشرقی یا مغربی نہیں کہلاسکتا بلکہ جو اُس سے تعلق رکھتے ہیں وہ بھی مشرقی اور مغربی کی قید سے آزاد ہوجاتے ہیں… ’’ بہنو اور بھائیو ! آئو ہم اپنی نظر کو اونچا کریں اور دیکھیں کہ ہم اس دنیا کے ساتھ، جو سورج کے گر د زمین کی گردش کی وجہ سے مشرق و مغرب میں منقسم ہے، تعلق نہیں رکھتے بلکہ ہماری جگہ بہت وسیع ہے ہم اس خدا سے تعلق رکھتے ہیںجو تمام عالم کا پیدا کرنے والا ہے ۔ پس ہمارا مقام سورج سے بھی اونچا ہے اور مشرق و مغر ب ہمارے غلام ہیں۔ ہم سمجھ دار ہو کر ان باتوں سے کیوں متاثر ہوں جو نسبتی اور وہمی ہیں۔ مشرق ومغرب کا سوال لوگوں کے امن کو برباد کر رہا ہے۔… آئو ہم اپنے آپ کو ان وہموں سے اونچا ثابت کریں اور اُس مرکز خلق کی طرف توجہ کریں جو سب کو جمع کرنے والا ہے۔‘‘
(الفضل ۷ ؍اکتوبر ۱۹۲۴ء)


مذاہب کانفرنس لندن میں خطاب

۲۳؍ ستمبر۱۹۲۴ء کادن سرزمین انگلستان کا وہ سنہری دن ہے جب امپیریل انسٹی ٹیوٹ لندن میں منعقدہ کانفرنس میں حضرت خلیفۃالمسیح الثانی ؓ کے رقم فرمودہ مضمون کا انگریزی ترجمہ حضرت چودھری محمد ظفراللہ خان صاحب نے پڑھ کر سُنایا اجلاس سر تھیو ڈور ماریسن (Sir Theodore Morison ) کی صدارت میں ہوا۔ اگرچہ حضور کے مقالہ کا وقت پانچ بجے شام مقرر کیا گیا تھا اور سامعین اس سے قبل اڑھائی گھنٹے تک اسلام کے بارہ میں مندرجہ ذیل اصحاب کے خطاب سنتے رہے تھے۔

خواجہ کمال الدین صاحب

۱۔ مکرم خواجہ کمال الدین صاحب (نمائندہ فرقہ اہلِ سنت)۔ ۲۔ شیخ خادم دُ جیلی صاحب (نمائندہ اہل تشیع)۔
لیکن حضور کا وقت شروع ہونے پر نہ صرف یہ کہ موجود سامعین اپنی جگہ سے نہ ہلے بلکہ بہت سے نئے لوگ ہال میں آگئے اور ہال کھچاکھچ بھر گیا۔ حضور مع خدام سٹیج پر تشریف فرما تھے۔ صاحب صدر کی طرف سے دعوتِ خطاب پر حضور نے کھڑے ہو کر اعلان فرمایا کہ حضور کا مضمون حضور کے مرید چودھری محمد ظفراللہ خان صاحب بارایٹ لاء پڑھ کر سنائیں گے اور ازراہ شفقت حضور نے محترم چودھری صاحب کے کان میں فرمایا:’’گھبرانا نہیں ۔ میں دُعا کروں گا۔‘‘
حضرت چودھری صاحبؓ نے نہایت عمدہ لہجہ میں اور بہت روانی کے ساتھ مضمون پڑھا جس سے حاضرین پر وجد کی سی کیفیت طاری ہوگئی۔ مضمون میں مختلف پہلوئوں سے اسلامی تعلیمات، غلامی، سود، تعددازدواج وغیرہ امور پر نہایت مؤثر رنگ میں روشنی ڈالی گئی تھی۔ تمام مردوں اور خواتین نے نہایت محویت کے عالم میں مضمون سنا اور مضمون ختم ہونے پر ہرایک نے لمبے وقت تک دادو تحسین کا اظہار کیا حتیٰ کہ صاحب صدر کو اپنی صدارتی تقریر شروع کرنے میں دیر لگ گئی۔ مسٹر تھیو ڈور ماریسن صدر اجلاس نے شاندار الفاظ میں حضور کو مضمون کی نہایت اعلیٰ کامیابی پر مبارک باد دی اور اقرار کیا کہ حضور کا مضمون بہترین مضمون تھا۔ (الفضل ۲۳؍ اکتوبر ۱۹۲۴ء )
حضرت مولانا دردؔ صاحب نے جو تار اس کانفرنس کے بارہ میں قادیان بھیجا اُس میں لکھا:
’’ پریذیڈ نٹ سر تھیو ڈور ماریسن نے اپنی تقریر کے خاتمہ پر حضرت صاحب کو اس عظیم الشان کامیابی پر مبارک باد دی اور کہا کہ کیا آپ کا لند ن میں تشریف لانا مفید اور نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوا؟ ۔ … مضمون ختم ہونے پر لوگ ہمارے سلسلہ کی کتابوں کے اردگر جمع ہوگئے اور بہتوں نے احمدیت کے متعلق کتابیں خرید یں۔
خداتعالیٰ کا شکر ہے کہ اس سفر کے نتیجہ میں اتنے لوگوں کو احمدیت کا پیغام پہنچ گیا ۔ ایک معزز آدمی بیان کرتے ہیں کہ آپ کے آنے سے پہلے کوئی نہیں جانتا تھا کہ احمدیت کیا ہے لیکن آج ہر مرد اور ہر عورت کی زبان پراحمدیت کا تذکرہ ہے ۔ ایک صاحب نے کہا تین سال ہوئے مجھے رؤیا میں دکھایا گیا تھاکہ حضرت مسیح تیرہ حواریوں کے ساتھ یہاں تشریف لائے ہیں اور اب میں دیکھتا ہوں کہ یہ رؤیا پورا ہو گیا ہے۔
(الفضل ۳۰ ؍ستمبر۱۹۲۴ء)
اخبار مانچسٹر گارڈین نے اس بارہ میں لکھا:
’’ اس کانفرنس میں ایک ہلچل مچانے والا واقعہ جو اس وقت ظاہر ہوا وہ آج سہ پہر کو اسلام کے ایک نئے فرقہ کا ذکر تھا…اس سلسلہ کا یہ دعویٰ ہے خداتعالیٰ نے اپنے صریح الہام کے ماتحت اس سلسلہ کی بنیاد اس لیے رکھی کہ وہ نوع انسان کو اسلام کے ذریعہ خداتعالیٰ تک پہنچائے۔ ہندوستان کے ایک باشندے نے جو سفید دستار باندھے ہوئے ہے اور جس کا چہرہ نورانی اور خوشکن ہے اور سیاہ داڑھی رکھتا ہے … مندرجہ بالا تحدی اپنے مضمون میں پیش کی جس کا عنوان ہے ’’ اسلام میں احمدیہ تحریک‘‘ … آپ کے ایک اور شاگرد نے جو سرخ رومی ٹوپی پہنے ہوئے تھا آپ کا پرچہ نہایت خوبی سے پڑھا … آپ نے اپنے مضمون کو جس میں زیادہ تر اسلام کی حمایت اور تائید تھی ایک پُرجوش اپیل کے ساتھ ختم کیا جس میں ا نہوں نے حاضرین کو اُس نئے مسیح کو قبول کرنے کے لیے دعوت دی۔ یہ بیان کر دینا بھی ضروری ہے کہ اس پرچہ کے بعد جس قدر تحسین و خوشنودی کا تالیوں کے ذریعہ اظہارکیا گیا اس سے پہلے کسی پرچہ پر ایسا نہیں کیا گیا۔‘‘
( الفضل ۱۸ نومبر ۱۹۲۴ء)


انگلستان کی روحانی فتح کی بنیاد

حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ نے اپنے اس سفر کو انگلستان کی روحانی فتح کی بنیاد قرار دیا۔ حضور تحریر فرماتے ہیں :
’’ خداتعالیٰ کے فضل سے انگلستان کی روحانی فتح شروع ہوچکی ہے۔ … جو کچھ مَیں کہتا ہوں وہ ایک روحانی امر ہے۔ جس کو صرف وہی دیکھ سکتے ہیں جن کی روحانی آنکھیں ہوں۔ آپ لوگوں کو معلوم ہے کہ اس بادشاہ نے، جس کے قبضہ میں تمام عالم کی باگ ہے، مجھے رؤیا میں بتایا ہے کہ میں انگلستان گیا ہوں اور ایک فاتح جرنیل کی طرح اُس میں داخل ہوا ہوں اور اُس وقت میرا نام’’ ولیم فاتح‘‘ رکھاگیا … مَیں اس خواب کی بنا پر یقین رکھتا تھا کہ انگلستان کی روحانی فتح صرف میرے انگلستان جانے سے وابستہ ہے۔ اور اب میرے نزدیک انگلستان کی فتح کی بنیاد رکھ دی گئی ہے آسماں پر اُس کی فتح کی بنیاد رکھ دی گئی ہے۔ اور اپنے وقت پر اس کا اعلان زمین پر بھی ہوجائے گا۔… انگلستان فتح ہوچکا۔ خدا کا وعدہ پورا ہوگیا۔ اُس کی فتح کی شرط آسمان پر یہ تقدیر تھی کہ مَیں انگلستان آئوں ۔ سومَیں خدا کے فضل سے انگلستان پہنچ گیا ہوں ۔ اب اس کارروائی کی ابتداء ان شاء اللہ شروع ہوجائے گی اور اپنے وقت پردوسرے لوگ بھی ان شاء اللہ دیکھ لیں گے۔‘‘
(الفضل ۴ ؍اکتوبر۱۹۲۴ء)

حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد المصلح الموعود
حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد المصلح الموعود

یونیورسل چرچ پورٹ سمتھ میں پیغام آسمانی

حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓکو یونیورسل چرچ پورٹ سمتھ میں تقاریر کی دعوت موصول ہوئی۔ ایک ’’ مسیح کی آمد ثانی‘‘ اور دوسری ’’ پیغام آسمانی‘‘ کے موضوع پر۔ حضور کے ارشاد کے ماتحت اول الذکر موضوع پر ۱۴؍ستمبر ۱۹۲۴ء کو صبح کے وقت حضرت مولوی محمد الدین صاحب نے ڈیڑھ گھنٹہ تک مدلل تقریر کی۔ شام کو حضور کی تقریر دوسرے موضوع پر اُسی گرجا گھر میں ہوئی جو سامعین سے پُر تھا۔ گرجا کے پادری ایبٹ صاحب نے اپنی شام کی سروس ختم کرنے کے بعدحضور کا تعارف سامعین سے ان الفاظ میں کرایا:
’’ آج شام جو تقریر آپ سنیں گے وہ اُس شخص کی تقریر ہے جو خداتعالیٰ سے تعلق رکھتا ہے اور ۸ لاکھ آدمیوں کا امام ہے اور ’’ ہولی ماسٹر ‘‘ کا بیٹا اور جانشین ہے۔ وہ ’’ ہولی ماسٹر ‘‘ جو خدا کا رسول تھا۔‘‘
(الفضل۱۶؍اکتوبر ۱۹۲۴ء)
حضور نے اپنی معرکۃ الآراء تقریر میں (جوانگریزی میں تھی) پُرجوش الفاظ میں فرمایا:
’’ اے لوگو! اس بات سے مت ڈرو کہ لوگ تم پر ہنسیں گے یا تم کو پاگل کہیں گے۔ کبھی کسی نے سچائی کو ابتدا میں قبول نہیں کیا کہ لوگوں نے اُسے پاگل نہیں سمجھا۔ کیا موسیٰ کو ماننے والے اور مسیح پر ایمان لانے والے پاگل نہیں سمجھے گئے۔ مگر کیا آخر وہی پاگل دنیا کے رہنما نہیں بنے۔ مَیں اُس خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ جس کے ہاتھ میں میری جان ہے جس پر جھوٹ بولنے والے کے متعلق تمام آسمانی کتابیں متفق ہیں کہ وہ ہلاک کیا جاتا ہے کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے دکھایا ہے کہ مَیں انگلستان کے ساحل سمندر پر کھڑا ہوں اور میرے ہاتھ میں انگلستان کی روحانی فتح ہوئی ہے۔ پس آج نہیں تو کل انگلستان مسیح موعود کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اسلام کی طرف لوٹے گا مگر مبارک وہ ہے جو اس کام میں سب سے پہلے قدم اُٹھاتا ہے۔‘‘
(الفضل ۱۸ ؍اکتوبر۱۹۲۴ء )

اشاعت ِ اسلام سے متعلق قیمتی نصائح

اُسی روز نومبائعین کو حضور نے اپنے خطاب میں نہایت قیمتی نصائح سے مستفیض فرمایا اور تبلیغ احمدیت کی طرف توجہ دلائی۔ حضور نے فرمایا:
’’ ہم نے کتابیں تیار کی ہیں اُن کو پڑھو اور اُن کے موافق عمل کرو اور اُن کی اشاعت کرو۔ ہم نے اپنا فرض ایک حد تک ادا کردیا ہے۔ اب تمہارا فرض ہے پہلے خود علم حاصل کرو،عمل کرو اور پھراُسے دوسروں تک پہنچائو۔ ہر ممبر سلسلہ کا فرض ہے کہ وہ مشنری ہو۔تمام دنیا ہمارے خلاف ہے اور ہمارا فرض ہے کہ اُن کو حقیقت سے واقف کریں لیکن یہ کام صرف تنخواہ دار مبلغین کے ذریعے کامیابی سے نہیں ہوسکتا … اگر تنخواہ دار مشنریوں کے ذریعے ہی کام کرنا ہوتوپھر ہزاروں سال تک انتظار کرنا ہوگا … یہ ہر ممبر کا فرض ہے … مشنریوں کا فرض صرف تعلیم ہے۔اشاعت ممبروں کا فرض ہے۔‘‘

کرنل ڈگلس سے ملاقات

۲۱؍ستمبر۱۹۲۴ء کو کرنل ڈگلس حضور سے شرف ملاقات حاصل کرنے کے لیے آئے۔ وہ باربار اپنے ساتھیوں سے کہتے کہ یہ میرے ایک بہت دیرینہ دوست کے صاحبزادہ ہیں۔
کرنل ڈگلس نے حضور سے اردو میں بھی یہ کہا کہ ’’ یقین جانیے ۔ آپ کا شریف النفس باپ میر اہردلعزیز دوست تھا۔‘‘
اسی شام کو حضور نے انگریز نو مسلم دوستوں کو چائے کی دعوت دی اور اُن کے سوالوں کے جواب دیے۔


معززین کی دعوت

۲۸؍ستمبر ۱۹۲۴ء کو سہ پہر کے وقت حضور نے مذاہب کانفرنس میں شریک مقررین، منتظمین اور لندن کے بعض معززین کو چائے کی دعوت دی جس میں 71معززین شریک ہوئے جن میں سے بعض کے نام یہ ہیں:
بشپ جین ، کرنل ڈگلس ، ایچ برونر (اسسٹنٹ ایڈیٹر ٹائمز)، کرنل بیز مین (پولیٹکل سیکرٹری وزیر ہند)، عبداللہ یوسف علی (آئی۔سی۔ ایس)، سر تھامس آرنلڈ (مصنف دی پریچنگ آف اسلام)، مسٹر سین (انڈیا آفس) لارڈ ہیڈلے، روح افغانی (نبیرہ عبدالبہاء)، مسٹر لیون، لیڈی برام فیلڈ،مسٹر ایچ ڈی وائس ، مسٹر لوفٹس ہیر (سیکرٹری کانفرنس) ،مسز شارپلز، لیڈی سین اور مس سین۔
شرکاء سے انفرادی ملاقات کے بعد حضور نے انگریزی میں مختصر خطاب فرمایا جس میں مہمانوں کا شکریہ ادا کرنے کے بعد فرمایا کہ مذہب کے بغیر اخلاق درست نہیں ہو سکتے اوراخلاق کی درستی کے بغیر عالمگیر صلح نہیں ہوسکتی۔ نیز آئندہ کانفرنس سے متعلق مشورہ دیا کہ ایک عنوان مقرر کرکے سب مذاہب کو دعوت دینی چاہیے کہ اپنی مذہبی کتاب کی رُو سے اس پر روشنی ڈالیں۔
آخر میں ا س مذاہب عالم کانفرنس کے چیئر مین سر راس نے حضور کا شکریہ ادا کیا کہ حضور اور حضور کے نمائندوں کی اس کانفرنس میں شرکت اس کانفرس کی کامیابی کی دلیل ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں