جماعت احمدیہ قادیان اور لاہوری جماعت میں فرق

(مطبوعہ الفضل ڈائجسٹ، الفضل انٹرنیشنل 18 ستمبر 2020ء)

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے 2؍جون 1991ء کو ریڈیو راپار سرینام سے ’’جماعت احمدیہ قادیان اور لاہوری جماعت میں کیا فرق ہے؟‘‘ کے موضوع پر Live خطاب فرمایا جس کے لیے نصف گھنٹے کا وقت مقرر تھا مگر خطاب کے دوران انتظامیہ نے دس منٹ کا وقت بڑھا دیا۔ اس خطاب کا ایک حصہ روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 23؍مئی 2014ء میں شامل اشاعت ہے۔

حضرت مرزا طاہر احمد صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ

حضورؒ نے فرمایا کہ بانی سلسلہ احمدیہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانیؑ لاہوری اور قادیانی دونوں گروہوں کے نزدیک وہ امام مہدی اور مسیح موعود ہیں جن کی پیشگوئی حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ نے فرمائی تھی۔ یعنی وہ مسیح جس کے متعلق پیشگوئی فرمائی گئی تھی کہ آخری زمانہ میں وہ ظاہر ہوگا، نا زل ہوگا اور اللہ کے فضل کے ساتھ تمام دنیا میں اسلام کے حق میں جہاد شروع کرے گا۔ اور حضرت مرزا صاحب کے وصال کے بعد دونوں گروہوں کے درمیان کوئی اختلاف ظاہر نہیں ہوا۔ بلکہ دونوں متفقہ طور پر اس بات پر راضی ہوئے کہ جماعت کو ایک امام کی ضرورت ہے جو خلیفۃ المسیح کہلائے گا۔ اور اس لحاظ سے سب سے پہلے خلیفہ جس کے ہاتھ پر ساری جماعت اکٹھی ہوئی اور بیعت کر کے ان کی اطاعت کو قبول کیا، وہ حضرت حکیم نورالدین صاحب خلیفۃ المسیح الاوّل تھے۔ چنانچہ چھ سال تک دونوں گروہ متفقاً آپؓ کی بیعت میں داخل ہوئے اور آپؓ کی اطاعت آپؓ کے آخری سانس تک بجا لاتے رہے۔

جب آپؓ کا وصال ہوا تو اس وقت یہ اختلاف پیدا ہوا۔ اس وقت اختلاف کی شکل یہ تھی کہ ایک انجمن تھی جو حضرت مسیح موعودؑ نے بنائی تھی اور اس انجمن کو اپنا جانشین بھی قرار دیا تھا۔ دوسری طرف آپؓ نے یہ بھی پیشگوئی فرمائی کہ میرے جانے کے بعد قدرت ثانیہ آئے گی۔ اور وہ وہ قدرت ہے کہ جب تک میں یہاں تم میں ہوں اس وقت تک وہ قدرت ظاہر نہیں ہوگی۔ لیکن وہ ایک عظیم قدرت ہے جو خدا کی طرف سے میرے وصال کے بعد ظاہر ہوگی اور پھر ہمیشہ تمہارے ساتھ رہے گی۔ پس جماعت احمدیہ قادیان کے نزدیک خلافت ہی وہ قدرت ثانیہ ہے جس کی پیشگوئی فرمائی گئی تھی اور جو انجمن کے اوپر فائق تھی اور انجمن کو اس کے تابع کر دیا گیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ تمام احمدی پہلے خلیفہ کے ہاتھ پر بیعت کرکے اس بات کو ثابت کرگئے کہ قدرت ثانیہ خلافت ہی تھی۔ اور قدرت ثانیہ کے مقابل پر انجمن کی حیثیت تابع فرمان کی حیثیت تھی۔
جب حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کا وصال ہوا تو اختلاف بس اتنا ہی تھا کہ انجمن کے چیدہ چیدہ ممبران حضرت مولوی محمد علی صاحب اور ان کے ساتھی خواجہ کمال الدین وغیرہ یہ اصرار کر رہے تھے کہ ہمارا حق ہے کہ ہم حضرت مسیح موعودؑ کے وارث بنیں اور ہمیں قیادت کے اختیار ہوں، ہماری رہنمائی میں ساری جماعت اپنے قدم آگے بڑھائے۔
دوسراحصہ جس کو اب قادیانی کہا جاتا ہے ان کا اصرار تھا کہ جو بات طے کرنے والی تھی وہ تو حضرت مسیح موعودؑ کے وصال کے وقت طے کرنے والی تھی۔ جب آپ رخصت ہوئے اس وقت آپ نے قدرت ثانیہ کا وعدہ فرمایا تھا۔ وہ قدرت ثانیہ کہاں گئی؟ اگر وہ ظاہر نہیں ہوئی تو کیا آپ کا وعدہ غلط نکلا؟ وہ یقیناً ظاہر ہوئی اور خلافت کی صورت میں ظاہر ہوئی، اور انجمن کے سب ممبروں نے حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کے ہاتھ پر بیعت کر کے اس بات کو ثابت کر دیا کہ خدا کے نزدیک رہنمائی کا حق ایک امام کو حاصل ہوگا جسے جماعت منتخب کرے گی اور وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہدایت یافتہ ہوگا۔
اس پہلو سے جماعت احمدیہ قادیان یہ بات بھی باربار اپنے بھائیوں کو سمجھانے کی کوشش کرتی ہے کہ حضرت اقدس محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہٖ وسلم ہی کا نمونہ ہے جو قیامت تک کے لیے تقلید کے لائق ہے۔ آپؐ نے اور آپؐ کے صحابہ نے جو نمونہ پیچھے چھوڑا وہی اس لائق ہے کہ ہم اس کی پیروی کریں۔ آپﷺ کے وصال کے بعد کوئی انجمن قائم نہیں کی گئی۔بلکہ خلافت راشدہ کے ذریعہ روحانی قیادت مسلمانوں کو نصیب ہوئی اور اسی کا وعدہ قرآن کریم میں آیت استخلاف میں دیا گیا تھا۔ پس ہم اپنے بھائیوں کو یہ سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ طریق جو حضور اقدس حضرت محمد رسول اللہ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہٖ وسلم نے پیچھے چھوڑا جس پر خلفائے راشدین چلے، جس پر تمام صحابہ نے قدم مارے، وہی درست طریق ہے اور روحانی جماعتوں میں قیادت ایک امام کی شکل میں چلا کرتی ہے۔ انجمنوں کے بس کی بات نہیں کہ وہ روحانی قیادت کر سکیں۔
مگر بہرحال وہ انجمن کے سرکردہ ممبران جو ایک بہت بڑامقام جماعت میں رکھتے تھے، انہوں نے اس بات پر اصرار کیا کہ پہلی دفعہ جو بات ہو گئی، ہو گئی۔ ایک خلیفہ کافی ہے۔ اب ہم دوبارہ کسی خلیفہ کی بیعت نہیں کریں گے۔ ہم ہی ہیں جو صاحب اختیار ہیں۔ لیکن جماعت کی اکثریت نے اس خیال کو ردّ کر دیا اور اگرچہ یہ شروع میں دعویٰ کیا گیا کہ اکثریت انجمن کے ساتھ ہے لیکن حالات نے بتا دیا کہ یہ بات درست نہیں تھی، ورنہ انجمن کو قادیان چھوڑنا نہ پڑتا۔ پس بہت جلد انجمن کے وہ سرکردہ ممبران قادیان کو چھوڑ کر لاہور چلے گئے اور وہیں سے اپنی قیادت کا نظام جاری کیا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ لوگ جو قادیان کے مرکز سے چمٹے رہے ان کو قادیانی کہا جاتا ہے اور جو لوگ لاہور آگئے ان کو لاہوری کہا جاتا ہے۔
اس اختلاف کے علاوہ کچھ اَور باتیں بھی بیان کی جاتی ہیں جن کو سمجھانا میرا فرض ہے۔یہ کہا جاتا ہے کہ عقیدوں کے اختلاف بھی تھے، خاتم النبیین کے مسئلہ پر بھی اختلاف تھا۔ میں یہ اصرارکے ساتھ گزارش کرتا ہوں کہ اختلاف کی تاریخ کو آپ اٹھاکر دیکھ لیجیے جس وقت جماعت قادیان اور جماعت لاہور کا اختلاف ہوا ہے، اس وقت کہیں ختم نبوت کا کوئی سوال نہیں اٹھایا گیا، عقائد کی اَور کو ئی بحث نہیں اٹھائی گئی،یہ سب بعد کی باتیں ہیں۔ بنیادی فرق صرف یہی تھا کہ کیا خلافت کا نظام جماعت میں جاری رہے گا جیسا کہ حضرت خلیفۃ المسیح الاول کی صورت میں جاری ہو چکا تھا یا اسے تبدیل کیا جائے۔پس جماعت احمدیہ قادیان نے کچھ تبدیل نہیں کیا۔ اسی عقیدہ پر قائم رہی جس کی رو سے خلیفۂ اول کا انتخاب ہوا۔ مرکز کو بھی نہیں چھوڑا۔ پس ہم یہ ایمان رکھتے ہیں کہ روحانی سلسلے اسی طرح چلائے جاتے ہیں جیسے انبیاء کے بعد روحانی سلسلے چلتے ہیں اور وہی سلسلے ہیں جو ہمیشہ دنیا میں کامیاب ہوتے ہیں۔ وہی سنت ہے جس میں اللہ تعالیٰ برکت عطا فرماتا ہے۔ انجمنوں کے ذریعہ روحانی جماعتوں کے نظام نہیں چلا کرتے، بلکہ اس سے اختلافات پیدا ہوتے چلے جاتے ہیں اور ترقی کی بجائے جماعتیں تنزل کرنا شروع کر دیتی ہیں۔
اس کے بعد حضور نے ختم نبوت کے متعلق جماعتی موقف بیان کیا اور پھر فرمایا کہ اب ایک اور بات میں آپ کو سمجھاتا چلوں کہ جماعت لاہور کے بعض ممبران جن سے میری گفتگو ہوتی ہے وہ کہتے ہیں کہ در حقیقت یہ بات ہمیں سمجھ نہیں آتی کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہٖ وسلم کے بعد ایک اور نبی آجائے۔ میں ان سے کہتا ہوں امام مہدی اور مسیح موعود کا آنا مقدّر ہے یا نہیں؟ جو امام مہدی آئے گا اس کا منصب خود آنحضور صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہٖ وسلم کی پیشگوئیوں کے مطابق اور مسیح موعود کا منصب آپؐ کے ارشادات کے مطابق کیا ہے؟ اگر وہ امّتی نبی کا منصب ہے تو اسے ماننا پڑے گا۔
دوسرے میں ان کو ادب کے سا تھ یہ توجہ دلاتا ہوں کہ ذرا ٹھنڈے دل سے غور کریں کہ پہلے مجددین کو کیوں امام مہدی نہیں کہا گیا؟ آپ کہتے ہیں مرزا صاحب بھی ایک مجدد ہیں، اس سے بڑھ کر کچھ نہیں۔ تو پہلے مجددوں کو آپ مسیح موعود کیوں نہیں مانتے؟ پہلے مجدد وں کو امام مہدی کیوں نہیں مانتے؟ کوئی فرق ہے تو آپ فرق کرتے ہیں۔ اس لیے تقویٰ سے کا م لیں۔ جو آپ کا عقیدہ ہے دنیا کے خوف سے بے پروا ہوکر سچائی سے بیان کریں۔ آپ سب جانتے ہیں اور یہ ایمان رکھتے ہیں کہ گزشتہ سارے مجددین میں سے ایک بھی نہ امام مہدی تھا، نہ مسیح موعودؑ تھا۔ پس جس کو مسیح موعودؑ مان بیٹھے اس کے متعلق وہ لقب کیسے چھین سکتے ہیں جو حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہٖ وسلم نے آپ کو عطا فرمایا ہے۔
ایک اور بات یہ کہ حضرت مسیح موعود ؑکا جو بھی منصب آپ سمجھیں، کم سے کم لاہوری احمدی، قادیانی احمدیوں سے اس بات پر تو سو فیصد متفق ہیں کہ مسیح موعودؑ سچے تھے، جھوٹے انسان نہیں تھے۔اگر نعوذ باللہ لاہوری ان کو جھوٹا سمجھتے تو مجدد بھی نہ مانتے۔ سچا تو مانتے ہیں اور یہ بھی مانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ آپ پر وحی نازل فرماتا تھا۔ آ پ سے ہم کلام ہوتا تھا۔ آپ کو سچی رؤیا دکھاتا تھا۔ آپ کو سچے کشوف دکھاتا تھا۔ آپ کو وہ باتیں بتاتا تھا جو غیب کی باتیں ہیں اور وہ باتیں ہماری آنکھوں کے سامنے پوری ہوتی رہیں۔ پس اس بات پر ہم دونوں گروہوں کا سوفیصد اتفاق ہے کہ آپؑ سچے تھے۔ اب سوال یہ ہے کہ ایک سچا اگریہ اعلان کرے کہ خدا نے مجھے ایک بات بتائی ہے جو پوری ہوگئی اور اس طرح پوری ہوگئی، تو سچا ماننے والے کو کیا حق ہے کہ اس سے اختلاف کرے۔
دیکھیں میں پہلے بھی یہ دلیل دے چکا ہوں کہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہٖ وسلم نے جب مسیح موعود کو نبی اللہ کہہ دیا اور مسلم میں یہ حدیث موجود ہے تو جو شخص بھی مسیح موعود کو وہ مسیح موعود سمجھتا ہے جس کی پیشگوئی تھی اس کو یہ حق نہیں ہے کہ نبی اللّٰہ کا انکار کر دے۔
اسی طرح آپؑ نے خدا سے خبر پاکر ایک مبشر اولاد کی پیشگوئی فرمائی اور یہ اعلان کیا کہ اللہ نے اپنے وعدے کے مطابق وہ نیک اولاد مجھے عطا کردی ہے۔ ایک نظم میں فرماتے ہیں ؎

خدایا تیرے فضلوں کو کروں یاد
بشارت تُو نے دی اور پھر یہ اولاد
کہا ہرگز نہیں ہوں گے یہ برباد
بڑھیں گے جیسے باغوں میں ہوں شمشاد

پھر ان کے تقویٰ کے متعلق آپ نے کلام کیا اور دعائیں کیں کہ اے خدا! مجھے اس حالت میں واپس نہ بلانا کہ میری اولاد تقویٰ پر قائم نہ ہو۔فرمایا ؎

یہ ہو مَیں دیکھ لوں تقویٰ سبھی کا
جب آوے وقت میری واپسی کا

آپ حضرت مسیح موعودؑ کو سچا مانتے ہیں تو یہ مانیں کہ حضرت مسیح موعودؑ نے جو کچھ فرمایا سچ فرمایا ا ورآپ کی اولاد جیسا کہ خدانے فرمایا تھا برباد نہیں ہوئی۔ لیکن عجیب بات ہے کہ آپ یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ حضرت مسیح موعودؑ کی تمام تراولاد بغیر استثناء کے کلیۃً برباد ہوگئی۔ یعنی سچائی سے ہٹ گئے اور ایک نیا مسلک بنا لیا۔ اَور بربادی کیا ہوتی ہے۔ دنیا کی بربادی تو ایک معمولی بات ہے، اصل بربادی تو دین اور روحانیت کی بربادی ہے۔ بعض غیر مبائعین کہتے ہیں نوح ؑکی اولاد بھی تو برباد ہو گئی تھی۔ ہم کہتے ہیں نوح ؑکی جس اولاد کی بربادی کی تم بات کرتے ہواس کے متعلق خدا نے یہ نہیں فرمایا تھا کہ یہ بچے گی۔ میں جس اولاد کی بات کر رہا ہوں اس کے متعلق آپؑ یہ فرما رہے ہیں کہ ؎

کہا ہرگز نہیں ہوں گے یہ برباد
بڑھیں گے جیسے باغوں میں ہوں شمشاد
بشارت کیا ہے اک دل کی غذا دی
فَسُبْحَانَ الَّذِیْ اَخْزَی الْاَعَادِیْ

یہ بشارت اور خوشخبری ہے۔ حضرت مسیح موعودؑ کو خدا نے یہ خوشخبری دی تھی کہ اولاد برباد نہیں ہو گی۔ پھر اس اولاد، ا ولاد در اولاد، اولاد در اولاد جو سینکڑوں ہزار تک پہنچ گئی، اس میں سے ایک بھی آدمی آپ کے نزدیک ہدایت پر قائم نہیں رہا۔ غور تو کریں، استغفار سے کام لیں اور اگر خود ان مسا ئل کی سمجھ نہیں آتی تو دعا سے کام لیں۔
یہ زمانہ اختلافا ت کا نہیں رہا۔ دنیا کی حالت بد سے بدتر ہوتی چلی جارہی ہے۔ مسلمان کہلانے والے بھی کس گندے حال کو پہنچ چکے ہیں کہ جھوٹ، رشوت، بدکاری، ظلم و ستم، بچوں پر ظلم، بیواؤں پر ظلم، یتیموں کا مال کھانا، عدالتوں میں جھوٹی گواہیاں دینا روزمرہ کا دستور بن گیا ہے۔ غیر قومیں مسلمانوں پر ظلم کر رہی ہیں اور مسلمانوں کو دنیا کے سامنے جاہل، بیوقوف، اکھڑ اور ایسے لوگوں کے طور پر پیش کرتی ہے جن کا مسلک ہی یہ ہے کہ کوئی بات نہ مانے تو تلوار اٹھاؤ اور قتل کر دو۔ کوئی بات نہ مانے تو ان کے جہاز اڑا دو خواہ اس میں کتنے معصوم مارے جائیں۔ یہ نقشے دنیا میں مسلمانوں کے بنائے جا رہے ہیں۔ پس یہ وقت اختلافات کا وقت تو نہیں ہے۔ یہ وقت اکٹھے ہونے کا وقت ہے اسلام کی خاطر، خدا کی خاطر، دنیا کی بھلائی کی خاطر، دنیا کو ہلاکت سے نجات دینے کی خاطر۔
میں آپ کو کلام اللہ کے پیغام کے ساتھ یہ دعوت دیتا ہوں کہ

تَعَالَوْا اِلٰی کَلِمَۃٍ … (آل عمران: 65)

اے ہمارے بھائیو! اس ایک کلمہ کی طرف لوٹ آؤجو ہم دونوں کے درمیان مشترک ہے۔ آپ بھی مسیح موعود ؑکو سچا مانتے ہیں۔ ہم بھی مسیح موعود ؑکو سچا مانتے ہیں۔ ہم دونوں اس بات پر اتفاق کرجائیں کہ آپؑ وہ امام تھے جس کے آنے کی خبر حضرت محمدرسول اللہ ﷺ نے عطا فرمائی تھی۔ پس آپؑ کو جس جس نام سے محمد ؐرسول اللہ نے یاد فرمایا، ہم اس نام سے انکار کرنے کا حق نہیں رکھتے۔ہمیں لازم ہے کہ ہم اس حیثیت سے آپؑ کو امام قبول کریں۔
حقیقت یہ ہے کہ غیر احمدی مسلمان بھی جن کو آپ سنّی یا شیعہ مسلمان کے طور پر جانتے ہیں وہ بھی درحقیقت مسیح موعود کو نبی اللّٰہہی مانتے ہیں۔ وہ بھی درحقیقت امام مہدی کو وہی مقام دیتے ہیں جو میں دے رہا ہوں یا میں سمجھ رہا ہوں۔ جو آپ کو سمجھ میں آجانا چاہیے کہ خدا کا بنایا ہوا امام ہی دراصل نبی ہوتا ہے۔ اگر وہ شریعت نہ لے کے آئے، اگر وہ پہلے کی شریعت پر ہو بلکہ اس سے بڑھ کرجو محمدؐ رسول اللہ کی شریعت کا بھی غلام ہو اور آپؐ کے ہر ہر لفظ کا، آپؐ کی سنت کا، آپؐ کی حدیث کا غلام ہو۔ ایسا تابع فرمان، ایسا امّتی نبی حضرت محمدؐ رسول اللہ خاتم النبییّن کی امّت میں آسکتا ہے اور یہ آیت خاتم النبییّن کے منافی نہیں، بلکہ قرآن کریم کی ایک دوسری آیت کے عین مطابق ہے، جس میں اللہ تعالیٰ نے یہ وعدہ فرمایا کہ

وَمَنْ یُّطِعِ اللہ وَالرَّسُوْل … (النساء:70-71)

کہ دیکھو محمدؐ رسول اللہ کا مقام کتنا بڑا ہے کہ آج خدا یہ اعلان کرتا ہے کہ جو اللہ اور اس رسول کی اطاعت کرے گا اب سارے انعام اسی کو ملیں گے اور جو محمدؐ رسول اللہ کا سچا غلام ہو گا وہ اپنی غلامی کے مرتبے کے مطابق کیا کیا انعام پا سکتا ہے؟ یہ آیت ان انعامات کو گنواتی ہے۔ پہلا انعام ہے

مِنَ النّبِییّن۔

پھر فرمایا

والصدیْقیْن۔

وہ نبیوں میں سے ہو گا۔ وہ صدیقوں میں سے ہو گا۔ وہ شہیدوں میں سے ہو گا۔ وہ صالحین میں سے ہو گا۔

وَحَسُنَ اُوْلٰئِکَ رَفِیْقًا۔

پس قرآن تو فرماتا ہے کہ امّتی نبی تابع فرمان نبی کے آنے کی گنجائش ہے اور صدیق اور صالح اور شہید بھی امّتی ہی ہوں گے، امّت سے باہر کوئی انعام باقی نہیں رہا۔ پس میں اسی کی طرف آپ کو بلاتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ آپ کو توفیق عطا فرمائے کہ میرے پیغام کو، جو سچے جذبے سے ہے، قبول فرمائیں۔

50% LikesVS
50% Dislikes

جماعت احمدیہ قادیان اور لاہوری جماعت میں فرق” ایک تبصرہ

اپنا تبصرہ بھیجیں