حضرت بُو زینب صاحبہؓ بیگم حضرت مرزا شریف احمد صاحبؓ

(مطبوعہ ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘، الفضل انٹرنیشنل لندن 23؍اکتوبر 2023ء)

لجنہ اماءاللہ جرمنی کے رسالہ ’’خدیجہ‘‘برائے2013ء نمبر1 میں مکرمہ سعدیہ وسیم صاحبہ کے قلم سے حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کی دادی محترمہ حضرت بُو زینب صاحبہؓ کی سیرت شامل اشاعت ہے جو حضرت مسیح موعودؑ کی سب سے چھوٹی بہو یعنی حضرت مرزا شریف احمد صاحبؓ کی اہلیہ محترمہ تھیں۔ حضرت نواب محمدعلی خان صاحبؓ کی صاحبزادی تھیں جو حضورعلیہ السلام کے داماد بھی تھے۔


بُو کا لفظ مالیرکوٹلہ میں بی بی کی جگہ احترام کے طور پر بولا جاتا تھا۔ بُوزینب صاحبہؓ کی والدہ بُو مہرالنساء صاحبہ حضرت نواب صاحبؓ کی پہلی بیوی اور خالہ زاد بھی تھیں۔

حضرت مرزا شریف احمد صاحبؓ

حضرت بُو زینب صاحبہ 19؍مئی 1893ء کو ریاست مالیرکوٹلہ میں پیدا ہوئیں۔ بچپن بھی یہیں گزرا۔ مطالعہ کی بہت شوقین تھیں۔ سلسلہ کی کتب اور اخبارات باقاعدگی سے پڑھتیں۔ قرآن شریف باقاعدگی سے مع ترجمہ پڑھتیں۔ ا بھی بہت چھوٹی تھیں جب آپؓ کی والدہ کا انتقال ہوگیا۔

حضرت نواب محمد علی خان صاحبؓ

حضرت نواب صاحبؓ کی اہلیہ اوّل (محترمہ مہرالنساء بیگم صاحبہ) کے بطن سے دو لڑکیاں اور تین لڑکے پیدا ہوئے۔ ایک بیٹی کا نام امۃالسلام تھا جو چند ماہ کی عمر میں وفات پاگئی۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مشورہ اور تحریک پر حضرت نواب صاحبؓ نے اپنی مرحومہ اہلیہ کی چھوٹی بہن محترمہ بُو امۃالحمید بیگم صاحبہ سے بچوں کی خاطر دوسری شادی کرلی جنہوں نے بڑی محبت سے اپنی بڑی بہن کے بچوں کی پرورش کی۔ حضرت بُوزینب صاحبہؓ کو بھی اپنی خالہ (دوسری والدہ) سے بےحد محبت تھی جب بھی کوئی قادیان جاتا تو اسے تاکید کرتیں کہ میری خالہ کی قبر پر جاکر ضرور دعا کرنا۔
حضرت نواب صاحبؓ کی اہلیہ ثانی محترمہ بُو امۃالحمید بیگم صاحبہ کے بطن سے کوئی اولاد نہ ہوئی۔ وہ 1906ء میں وفات پاگئیں تو ان کا جنازہ حضرت مسیح موعودؑ نے پڑھایا۔ اللہ تعالیٰ کی تقدیر کے ماتحت 17؍فروری 1908ء کو حضرت مسیح موعودؑ کی بڑی صاحبزادی حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ کا نکاح حضرت نواب محمدعلی خان صاحبؓ سے ہوگیا۔
اپنی دوسری بیگم محترمہ امۃالحمید بیگم کی وفات کے بعد حضرت نواب صاحبؓ اپنی اکلوتی بیٹی بُو زینب بیگم صاحبہؓ کی شادی کے متعلق بہت فکرمند تھے۔ خود حضورؑ کو بھی اس سلسلہ میں بہت خیال تھا اور اکثر فکر کے سا تھ اس کا گھر میں ذکر فرمایا کرتے تھے۔ ایک روز حضرت اقدسؑ کو بھی اس طرف خاص توجہ پیدا ہوگئی۔ حضورؑ نے حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحبؓ کے متعلق حضرت نواب صاحبؓ کو پیغام دیا جسے اُ نہوں نے بسروچشم قبول کرلیا۔ حضرت نواب صاحبؓ کے غیرازجماعت بھائی اور دوسرے عزیز بہت ناراض ہوئے مگر حضرت نواب صاحبؓ نے اس کی قطعاً پروا نہ کی اور فرمایا: اگر شریف احمد ٹھیکرا لے کر گلیوں میں بھیک مانگ رہا ہوتا اور دوسری جانب ایک بادشاہ رشتہ کا خواستگار ہوتا تب بھی مَیں شریف احمد ہی کو بیٹی د یتا ۔
حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحبؓ کے نکاح کی تقریب 15؍نومبر 1904ء (بمطا بق 27؍رمضان المبارک 1324ھ) کو عمل میں آئی۔ حضرت حکیم مولوی نورالدین صاحبؓ نے ایک ہزار روپیہ مہر پر نکاح پڑھا۔ شادی 9؍مئی1909ء کو اور ولیمہ 10؍مئی کو ہوا۔
حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ کا بیان ہے کہ بُوزینب بیگم صاحبہ کا رخصتانہ نہایت سادگی سے عمل میں آیا۔ حضرت اماں جانؓ نے سامان، کپڑا، زیور و غیرہ ہمارے ہاں بھجوادیا تھا اور چونکہ نواب صاحب کا منشاء تھا کہ حضرت فاطمہؓ کی طرح رخصتانہ ہو- سو دلہن تیار ہوگئی تو نواب صاحب نے پاس بٹھاکر نصائح کیں اور پھر مجھے کہا کہ حضرت اماں جانؓ کی طرف چھوڑ آؤں۔ سیّدہ اُمِّ ناصرصاحبہ والے صحن میں جو سیّدہ اُمِّ وسیم صاحبہ کی طرف سے سیڑھیاں اُترتی ہیں۔ وہاں حضرت امّاں جانؓ نے استقبال کیا اور د لہن کو دارالبرکا ت میں لے گئیں۔
حضرت بُوزینب صاحبہؓ بہت ملنسار، خوش خلق اور بہت مہمان نواز تھیں۔ ایک پیاری سی مسکراہٹ کے ساتھ سب کو خوش آمدید کہتیں، خا طر تواضع کرتیں۔ اگر کوئی اپنے ہاتھ سے پکاکر ان کے لیے کچھ لے جاتا تو بہت خوش ہوتیں، تعریف کرتیں اور دوسروں کو تعریف کرکے کھلاتیں۔ ہر ایک کا دکھ سکھ سنتیں کبھی کسی سے شکوہ نہ کرتیں۔ کبھی کوئی با ت کہہ بھی دیتا تو خاموش رہتیں۔ اپنے بہن بھائیوں سے بھی آپ کو بےحد محبت تھی اور کبھی کسی کو یہ محسوس نہ ہوتا کہ یہ سوتیلے بہن بھائی ہیں۔ ہر ایک کی خوشی میں دل سے خوش ہوتیں اور ہر ایک کی یکساں فکر بھی کرتیں، چونکہ وہ خود بہت محبت کرنے والی اور خیال رکھنے والی خاتون تھیں اس لیے انہوں نے اپنے خاص انداز میں محبت بانٹی بھی اور پائی بھی۔
آپؓ کی چھوٹی بہن آصفہ بیگم صاحبہ کہتی ہیں وہ فرشتہ تھیں۔ آپؓ صدقہ بہت دیتیں بلکہ اپنے بچوں کو بھی کہتیں کہ فلاں غریب ہے اسے کچھ دے دو۔ غریبوں کا عام طور پر اور اپنے ملازمین کا خاص طور پر بےحد خیال رکھتیں۔ گو خاموش طبع تھیں۔ایک عورت کسی گاؤں سے کبھی کبھی آپؓ کے لیے انڈے لے کر آتی، لاتی تو وہ تحفہ تھی لیکن آپؓ اپنی بیٹی سے کہتیں: اس کو کچھ پیسے دے دو، بےچاری ا تنی دُور سے آتی ہے، غریب ہے۔ ربوہ آکر بھی یہی حال رہا، آپؓ سے ملنے ڈھیروں خواتین روزانہ آتی تھیں لیکن پیشانی پر کوئی بل نہ آیا بلکہ ہر ایک سے خواہ غریب ہو یا امیر خندہ پیشانی سے ملتیں۔ بلکہ بےزبان مخلوق کا بھی خیال رکھتیں، بلاناغہ کوّوں اور چڑیوں کے لیے دانہ اور روٹی کے ٹکڑے ڈالتیں۔ خودنمائی بالکل بھی نہ تھی۔ نہایت نفاست پسند خاتون تھیں، پاکی ناپاکی کا بہت زیادہ خیال ہوتا تھا۔
حضرت بُوزینب صاحبہؓ کو اپنے ہاتھ سے کام کرنے کی عادت تھی اور شوقیہ چند چیزیں خود اپنے ہا تھ سے پکاتیں، سب عزیز کہتے ہیں کہ ان کے ہاتھ کا چھولیا (ہرے چنے) جیسا لاکھ کوشش پر بھی کبھی کوئی بنا ہی نہیں سکا۔ بیماری کی حالت میں بھی پورے گھر پر ان کی کڑی نگاہ ہوتی۔ بڑے لوگ تو پھٹی پرانی ٹوٹی پھوٹی چیزیں پھینک دیا کرتے ہیں لیکن ان کا یہ حال تھا کہ وہ اس سے ایک اَور کارآمد چیز بنا لیتیں۔ انہیں سلمہ ستارے کا کام، گوٹا ٹانکنا سب آتا تھا۔ آپؓ بہت منتظم خاتون تھیں۔
کم آمدنی کے دنوں میں گھر کو احسن طریق پر چلاتیں۔ لین دین بھی رکھتیں، گھر کی، بچوں کی، ملازمین کی ضروریات پوری کرتیں، ہجرت کے بعد خراب حالات میں بھی ان کے گھر میں ہمیشہ ایک رکھ رکھاؤ نظر آتا اور کبھی ان کے منہ سے حالات کی تنگی کا رونا نہیں سنا گیا، ہمیشہ اپنا بھرم قائم رکھا۔ وہ جو الہام ہے ’’وہ با د شا ہ آیا‘‘ جہاں ان کے میاں حضرت مرزا شریف احمد صاحبؓ د نیاداری سے بےنیا ز ایک بادشاہ ٹھہرے وہاں ان کی بیگم ان کے گھر کی ملکہ تھیں۔
آپؓ ایک کھلے ظرف والی متقی پرہیزگار خاتون تھیں۔ آپؓ کا دل خوفِ خدا سے پُر رہتا اور یہ کوشش رہتی کہ آپؓ کے ہاتھ یا زبان یا کسی عمل سے کسی کو کوئی تکلیف نہ پہنچے۔ بہت دعاگو اور عبادت گزار تھیں بچپن ہی سے آ پؓ کو تہجد پڑھنے کا خاص شوق تھا۔ راتوں کو اُ ٹھ کر بہت لمبی تہجد کی نمازپڑھا کرتیں۔ اپنی نمازوں کی حفاظت کا ہر دم خیال رہتا یہاں تک کہ آخری بیماری میں جب ہسپتال داخل تھیں اور نیم بےہوشی کی سی کیفیت تھی تب بھی آپؓ سکون میں ہوتیں تو ڈاکٹر دیکھتے کہ ہاتھ اپنے سر تک لے جاتی ہیں۔ انہوں نے حیرت سے ان کی بیٹی سے پوچھا کہ یہ کیا کرتی ہیں؟ اِنہوں نے بتایا کہ جب ذرا ہوش آتی ہے تو نماز شروع کردیتی ہیں۔ اس پر ڈا کٹر بہت حیران ہوئے کہ اس حالت میں بھی نماز کا خیا ل ہے۔ اکثر خواتین آپؓ کو دعا کا کہنے کے لیے آتی تھیں۔ آپؓ پردہ کی بھی بڑی سختی سے پا بندی کرتیں۔

حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کی حرم محترم صاحبزادی امۃالسبوح صاحبہ بیان کرتی ہیں کہ حضرت بُوزینب صاحبہؓ بےحد محبت کرنے والی، دعاگو اور صابرو شاکر خاتون تھیں۔ کبھی بھی ان کے منہ سے کسی کا کوئی گلہ شکوہ نہیں سنا۔ جب مَیں مُلک سے باہر جا نے لگی تو ان سے ملنے گئی اور دعا کے لیے کہا تو فرمایا : تم میرے مسرور کی بیوی ہو، کیا تمہارے لیے دعا نہیں کروں گی۔ آپؓ عسر اور یسر میں خوش رہتیں۔ کبھی کسی سے کوئی گلہ شکوہ نہ کیا کرتیں۔ بھلے کوئی ان سے ملتا یا نہیں وہ خاموشی سے محبت کیے جا تیں۔ غیبت، چغلی سے تو انہیں بہت چڑ تھی، نہ خود کرتیں نہ سنتیں۔ لڑائی سے سخت گھبراتیں۔ بڑے سے بڑے صدمے اور کڑی سے کڑی بات پر بھی کوئی واویلا نہ کرتیں۔ ہر بات پر خدا کی رضا پر راضی ہو جاتیں۔
آپؓ کی بیٹی محترمہ امۃالباری صاحبہ بیان کرتی ہیں کہ مَیں نے کبھی بھی کسی بےحد قریبی کی وفات پر بھی انہیں روتے نہیں د یکھا۔ بس سر جھکاکر خاموش کھڑی ہوجاتیں۔ ایک چُپ سی لگ جاتی تھی۔ ان کی جوان بیٹی امۃالودود صاحبہ B.Aکا امتحان دے کر فارغ ہوئی تھیں کہ دماغ کی رگ پھٹنے سے وفات  پاگئیں۔ اس غم کی شدّت کا اندازہ تو ہر کوئی کرسکتا ہے لیکن آپؓ نے اُ ف تک نہ کی، کوئی واویلا نہ کیا، ایک چُپ سی آپؓ کو لگ گئی۔
خا ندان مسیح موعوؑد سے محبت ووفا کا تعلق تھا۔ سب عزیز رشتہ داروں سے محبت اور پیار کا سلوک کرتی تھیں خصوصاً حضرت اماں جانؓ سے بہت محبت تھی۔ ان کے گھر آتی جاتیں اور بےحد احترام کرتی تھیں۔ خاندان کے سب بچوں سے بےحد محبت کرتیں اور ان کو اپنے گھر بلاکرخوب خاطر کرتیں۔(خاندان حضرت مسیح موعودؑ کی تیسری چوتھی نسل کے بچے بھی آپؓ سے ملنے جاتے)۔ ان کی مہمان نوازی کرتیں۔ غرضیکہ ان کا بچوں سے پیار اور شفقت کا سلوک تھا کہ سب بچے اکثر آپؓ کو سلام کرنے اور اپنے امتحانوں میں کامیابی وغیرہ کی دعائیں کروانے آپؓ کے پاس جاتے رہتے۔
آپؓ کا خلافتِ احمدیہ پر بڑا پختہ ایمان تھا۔ آپؓ نے چارخلافتوں کے دَور دیکھے۔ حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ اور حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ تو آپؓ سے عمر اور رشتہ میں چھوٹے تھے لیکن آپؓ نے ہمیشہ انہیں اپنا روحانی آقا مانا اور ان کے ساتھ تادمِ آخراخلاص ووفا اور اطاعت کے رشتہ سے بندھی رہیں۔ آپؓ بہت صائب الرائے تھیں۔ حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ کو آپؓ کی رائے پر بہت بھروسہ تھا۔
مئی 1984ء میں آپ شدید بیمار ہوگئیں۔ لاہور لے جایا گیا جہاں ڈاکٹروں نے انتڑیوں کا کینسر تشخیص کیا۔ آپریشن کے باوجود آپؓ کی طبیعت نہ سنبھلی اور دو ماہ کی لمبی تکلیف ا ٹھاکر 24؍اگست 1984ء کو آپؓ کی وفات ہو گئی۔ آپؓ موصیہ تھیں اور آپؓ نے اپنی زندگی میں ہی اپنی جائیداد پروصیت ادا کردی تھی۔ تدفین بہشتی مقبرہ ربوہ میں ہوئی۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو تین بیٹوں اور تین بیٹیوں سے نوازا۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں