حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کا دورۂ سیرالیون

(مطبوعہ ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘، الفضل انٹرنیشنل لندن 26؍ جون 2023ء)

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 18؍ستمبر 2013ء میں مکرم مبارک احمد طاہر صاحب کا ایک مضمون شامل اشاعت ہے جس میں حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کے دورۂ سیرالیون کے حوالے سے چند چشم دید واقعات پیش کیے گئے ہیں۔

Sierra-Leone

مغربی افریقہ کا ایک چھوٹا سا ملک سیرالیون ہے جس کی آبادی اندازاً ساٹھ لاکھ ہے۔ اس کے بارہ اضلاع ہیں۔ ضلع Kambia کے ایک قصبے روکوپُر (Rokupr) میں جماعت احمدیہ کے نظام کا مرکز ہے اور یہاں احمدیہ مسجد اور مرکز تبلیغ، احمدیہ پرائمری سکول، احمدیہ سیکنڈری سکول اور احمدیہ ہسپتال واقع ہیں۔ سیرالیون کے پہلے مستقل مبلغ سلسلہ حضرت الحاج نذیر احمد علی صاحب نے جولائی1938ء میں فری ٹاؤن سے یہاں کا بذریعہ لانچ سفر کیااور چند سعادت مند روحیں احمدیت میں شامل ہوئیں۔خاکسار نے 1975ء میں وقف عارضی کیا اور دس سال بعد زندگی وقف کردی۔ چنانچہ 1990ء تک خاکسار کواحمدیہ سیکنڈری سکول کے پرنسپل اور مبلغ سلسلہ روکوپُر کے طور پر خدمت کی توفیق ملی۔اس دوران جنوری 1988ء میں حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ روکوپُر میں تشریف لائے۔ جس کی صورت اس طرح ہوئی کہ جب حضورؒ سیرالیون کے Lungi ایئرپورٹ پر پہنچے اور آتے ہی پریس کانفرنس فرمائی تو اس موقع پر بی بی سی کے نمائندے مسٹر خلیل کمارا نے عرض کیا کہ 1970ء میں جب حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ سیرالیون تشریف لائے تھے تو اُس وقت بھی حضورؒ Bo اور Kenema کے علاقے میں تشریف لے گئے تھے اور اب آپؒ کا دورہ بھی انہیں علاقوں کی طرف ہے۔ حضورؒ روکوپُر تشریف لاکر ہمیں بھی برکت بخشیں۔ اس پر حضورؒ نے اُس وقت کے امیر مکرم مولانا خلیل احمد مبشر صاحب سے دریافت فرمایا کہ کیا مَیں روکوپُر نہیں جارہا؟ جواباً عرض کیا گیا کہ روکوپُر جانے والی سڑک بہت خراب ہے اور سفر بہت مشکل ہے۔ حضورؒ نے فرمایا کہ سندھ کی خراب سڑکوں پر مَیں نے بےشمار سفر کیے ہیں اور اگر یہی وجہ ہے تو روکوپُر بھی اس دورے میں شامل کرلیا جائے۔ نیز فرمایا کہ یہ ابتدائی جماعت ہے اور ان لوگوں کو سخت ابتلاؤں سے گزرنا پڑا تھا اس لیے اگر مَیں روکوپُر نہیں جاتا تو میرا سیرالیون کا دورہ نامکمل رہے گا۔ چنانچہ فری ٹاؤن کا ایک پروگرام منسوخ کرکے روکوپُر کو بھی دورے میں شامل کرلیا گیا اور حضورؒ کی زیرہدایت وہاں مجلس سوال و جواب کا بھی انتظام کیا گیا۔

روکوپُر شہر شروع ہوتے ہی احمدیہ سیکنڈری سکول ہے۔ حضورؒ اسی جگہ گاڑی سے اُتر گئے اور استقبال کے لیے آنے والوں میں شامل ہوکر اپنی قیامگاہ تک پیدل تشریف لائے۔ حضورؒ کا قیام مختصر تھا اور اس کا انتظام مکرم ڈاکٹر نصیرالدین صاحب کے ہاں تھا۔ اُن کی اہلیہ نے بڑی محنت سے دوپہر کا کھانا تیار کیا تھا۔ حضورؒ نے کھانا پسند فرمایا اور کھانے کے بعد کچن میں جاکر کھانے کی تعریف فرمائی اور فرمایا کہ اتنی محنت سے پکایا ہے بہت تھک گئی ہوں گی۔ دلجوئی کے اس ایک فقرے سے محترمہ کی ساری تھکن کافور ہوگئی۔
اس کے بعد حضورؒ مسجد احمد میں تشریف لے گئے۔ اس مسجد کا نام حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ نے رکھا تھا۔ نمازیں پڑھانے کے بعد حضورؒ نے پروگرام پوچھا تو عرض کیا گیا کہ یہ مسجد اور مرکز جس پلاٹ پر تعمیر کیے گئے ہیں یہ سابق صدر جماعت احمدیہ روکوپُر ’’پاالحاجی یحییٰ کمارا‘‘ صاحب نے دیا تھا۔ اُن کی قبر مسجد کے قریب ہی ہے اور اُن کے خاندان والوں کی درخواست ہے کہ حضورؒ اُن کے مزار پر جاکر مرحوم کے لیے دعا کریں۔ حضورؒ نے یہ درخواست قبول فرمائی اور قبر پر جاکر لمبی دعا کروائی۔ حضورؒ آب دیدہ ہوگئے اور بعد میں ایک مجلس میں فرمایا کہ مجھے پرانے واقفین زندگی، مبلغین اور ان کی قربانیاں یاد آگئیں جنہیں سوچ کر مَیں آب دیدہ ہوگیا۔

اس کے بعد کلب ہاؤس کے ایک بڑے ہال میں مجلس سوال و جواب منعقد ہوئی۔ جس کے بعد حضورؒ واپس فری ٹاؤن تشریف لے گئے۔
یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ حضورؒ کے دورے کے چند ماہ بعد احمدیہ صد سالہ تقریبات کا آغاز ہوا تو ہماری درخواست پر پیراماؤنٹ چیف نے قبائلی عمائدین کا اجلاس بلایا اور اُن کے سامنے ہماری تجویز رکھی کہ روکوپُر شہر کی ایک سڑک کو یہاں آنے والے پہلے احمدی مبلغ کے نام کردیا جائے۔ سب نے بخوشی اس تجویز سے اتفاق کیا اور اس طرح ایک معروف سڑک کو ’’الحاج نذیرعلی سٹریٹ‘‘ کا نام دے دیا گیا۔ ایک خصوصی تقریب میں پیراماؤنٹ چیف نے خود تشریف لاکر اس کا اعلان کیا اور فیتہ کاٹا۔ یہ سڑک شہر کی مرکزی سڑک سے احمدیہ مسجد کی طرف جاتی ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں