حضرت سیدہ محمودہ بیگم صاحبہؓ (اُمّ ناصر)

(مطبوعہ ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘، الفضل انٹرنیشنل لندن 4 اور 11؍دسمبر 2023ء)
لجنہ اماءاللہ جرمنی کے رسالہ ’’خدیجہ‘‘برائے2013ء نمبر1 میں مکرمہ امۃالقیوم ناصرہ صاحبہ کے قلم سے حضرت سیدہ محمودہ بیگم صاحبہؓ (اُمّ ناصر) کی سیرت شامل اشاعت ہے۔
اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعودؑ کو فرمایا تھا: مَیں اپنی نعمتیں تجھ پر پوری کروں گا اور خواتین مبارکہ سے جن میں سے تُو بعض کو اس کے بعد پائے گا۔ تیری نسل بہت ہوگی اور میں تیری ذریت کوبہت بڑھاؤں گا۔ (تذکرہ صفحہ نمبر111ایڈیشن ہفتم)
اس الہام مبارک کی رُو سے خواتین مبارکہ کے مقدّس زمرہ میں شامل ہونے والوں میں حضرت سیدہ اُمّ ناصرؓ کا وجود بھی ہے جو ’’اُمی جان‘‘ کہلاتی تھیں۔ آپؓ حضرت ڈاکٹر خلیفہ رشیدالدین صاحبؓ اور حضرت مراد بیگم صاحبہؓ کی بیٹی تھیں۔ والد کی طرف سے آپؓ کا شجرہ نسب حضرت ابوبکر صدیقؓ سے ملتا ہے۔ آپؓ کے دادا خلیفہ حمیدالدین صاحب اپنے زمانہ کے بہت بڑے عالم، متقی اور شاہی مسجد کے امام تھے جنہوں نے انجمن حمایت اسلام اور اسلامیہ سکول کی بنیاد ڈالی۔ اُن کو قرآن کریم سے بےانتہا محبت تھی لہٰذا خود بھی حافظ قرآن تھے اور اپنے تمام بیٹوں اور ایک بیٹی کو قرآن کریم حفظ کروایا۔ اُن کے والد اور سسر بھی حفّاظِ قرآن تھے۔


حضرت سیّدہؓ حضرت مسیح موعودؑ کی زندگی میں ہی بیاہ کر لائی گئیں اور آپؑ کی پہلی بہو بنیں۔ 1902ء میں حضرت مصلح موعودؓ کے عقد زوجیت میں آئیں۔ آپؓ جب بیاہ کر قادیان آئیں تو سب سے پہلے دروازے پر حضورعلیہ السلام نے آگے بڑھ کر محبت سے آپؓ کی پیشانی پر بوسہ دیا۔ حضرت اماں جانؓ نے آپؓ کو پہلی رات اپنے ساتھ سلایا کہ یہ بچی ہے اُداس ہو جائے گی۔ آپؓ فرماتی ہیں کہ حضرت امّاں جانؓ نے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مجھے اتنا پیار دیا اور میرا خیال رکھا کہ آپؓ کی محبت کی وجہ سے مَیں اپنا میکہ بھول گئی ۔
والدین نے آپؓ کا نام رشیدہ رکھا تھا لیکن شادی کے بعد حضرت اماں جانؓ نے آپؓ کو ’محمودہ‘ کے نام سے نوازا اور یوں حضرت مصلح موعودؓ کے نام کے ساتھ ملا دیا۔
حضرت اقدسؑ کے متعدد الہامات آپؓ کے وجود سے پورے ہوئے۔ پیشگوئی تَریٰ نَسْلًا بَعِیْدًا بھی اس طرح پوری ہوئی کہ آپؓ کے ہاں پہلے بچے صاحبزادہ نصیر احمد کی ولادت حضورؑ کی زندگی میں ہوگئی تھی۔ ؎

میری ہر پیشگوئی خود بنادی
تَریٰ نَسْلًا بَعِیْدًا بھی دکھادی

اسی طرح پیشگوئی کے مطابق ’موعود نافلہ‘ یعنی حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ بھی آپؓ کے بطن مبارک سے پیدا ہوئے۔


حضرت اُمّ ناصرؓ فرماتی ہیں :کافی عرصہ تک میرے ہاں کوئی اولاد نہیں ہوئی تب میں نے رؤیا میں دیکھا کہ حضرت صاحبؑ تشریف لائے ہیں اور مجھے اشارہ سے قریب بلایا اور اپنی جھولی سے مختلف قسم کے بہترین اور نہایت عمدہ پھل میری جھولی میں ڈال دیے ہیں۔ مجھے اس وقت خیال ہوا کہ خدا مجھے بےحد اولاد دے گا ۔
حضرت مصلح موعودؓ 1912ء میں تعلیم کی غرض سے مصر گئے تو پہلے اپنی ایک خواب کی بِنا پر حج کے لیے بیت الحرام گئے۔ اسی سفر میں آپؓ نے ایک رؤیا دیکھی تو حضرت خلیفۃالمسیح الاولؓ کی خدمت میں تحریر فرمایا: آج رات میں نے خواب میں دیکھا کہ والدہ ناصر کچھ بیمار ہیں۔ نہ معلوم خواب کی کیا تعبیر ہے لیکن حضوردعافرمائیں۔عورتوں کو خاوندوں کی جدائی کا بھی ایک صدمہ ہوتاہے اور اس سے جسمانی بیماریوں کا بھی خطرہ ہوتا ہے دعا کی سخت ضرورت ہے۔
آپؓ بھی نہایت عقیدت و محبت سے حضورؓ کی ہر ضروریات کا نیز حضورؓ کی حفاظت کا بھی بہت خیال رکھتی تھیں۔ صورت حال یہ تھی کہ افراد جماعت آپؓ کے گھر کو اپنا گھر سمجھتے تھے جب کوئی چاہتا آجاتا۔ ایسی صورت میں حضورؓ کی حفاظت کا خیال رکھنا بہت مشکل تھا، لیکن آپؓ گھر میں آنے والی خواتین پہ اس زاویہ سے بھی بہت گہری نظر رکھتی تھیں۔
حضرت مصلح موعودؓ نے بعض حالات اور ضرورت کے پیشِ نظر اَور شادیاں کیں تو آپؓ نے نہایت صبر و استقلال اور محبت و اخلاص کا نمونہ دکھایا کبھی کوئی حرفِ شکایت اور دکھ کا اظہار نہ کیا بلکہ ہر دم دل و جان سے حضورِانورؓ کی خوشنودی اور آرام کا خیال رکھتیں۔ ایک بار جب آپؓ کی طبیعت ناساز تھی اور آپؓ نچلی منزل میں واقع سٹور میں راشن تُلوارہی تھیں تو ایک خادمہ نے پوچھا کہ حضوؓر کی اَور بھی ازواج ہیں کیا حضور آپ کا اسی طرح خیال رکھتے ہیں جیسے پہلے رکھتے تھے؟ آپؓ نے فوری طور پر جواب دینے کی بجائے خاموشی سے ایک لڑکی کو حضورؓ کی خدمت میں یہ پیغام دے کر بھجوا دیا کہ میری طبیعت خراب ہے۔ پیغام ملتے ہی حضورؓ فوراً آپؓ کے گھر آئے اور آپؓ کو تلاش کرتے نیچے سٹورتک پہنچ گئے اور فرمایا: ’’آپ کی طبیعت خراب ہے تو یہاں کیوں آئی ہیں، فوراً اوپر چلیں اور آرام کریں۔‘‘ خادمہ یہ دیکھ کر حیران رہ گئی تو آپؓ نے فرمایا:دیکھ لیا تم نے!

حضرت سیّدہ اُمّ ناصرؓ کو یہ فخر حاصل ہے کہ قیامِ لجنہ اماءاللہ 1922ء سے اپنی وفات 1958ء تک آپؓ اس کی صدر رہیں۔ آپؓ لجنہ اماءاللہ کی ابتدائی چودہ ممبرات میں سے تیسرے نمبر پر ہیں۔ گو دنیاوی لحاظ سے آپؓ نے کسی مدرسہ سے تعلیم حاصل نہ کی تھی لیکن حضرت مصلح موعودؓ کی صحبت طیبہ اور تعلیم کے زیر اثر آپؓ کا وجود دینی تعلیم اور سلسلہ سے اخلاص میں ایک قابل تقلید نمونہ تھا۔ آپؓ کو قرآن کریم اور دینی تعلیم پر عبور حاصل تھا چنانچہ سینکڑوں لڑکیوں کوآپؓ نے قرآن مجید پڑھایا۔ خلافت ثانیہ کی جوبلی کے موقع پر جب خواتین نے لوائے احمدیت کے لیے سوت کاتا تو آپؓ نے بھی اس میں حصہ لیا۔ حضرت مصلح موعودؓ نے 1953ء میں عورتوں کو اپنے ہاتھ کی کمائی سے زائد آمدنی پیدا کرنے کا ارشاد فرمایا تو آپؓ نے اپنے ہاتھ سے ایک دوائی بنا کر فروخت کی اور اس کی آمد اشاعتِ دین کی خاطر پیش کی۔ 1914ء میں عورتوں کو تبلیغ کے لیے زنانہ دعوۃ الی الخیرفنڈ کی تحریک ہوئی۔ پہلی فہرست جو شائع ہوئی اس میں دوسرے نمبر پر آپؓ کا نام ہے۔
ایک خاتون روایت کرتی ہیں کہ جب حضورؓ نے تحریک فرمائی کہ اپنے ہاتھ سے کام کرکے چندہ دیا جائےتو مَیں حضرت اُمّ ناصرؓ کے گھر میں بیٹھی تھی۔ حضورؓ نے فرمایا کہ مَیں اپنے ہاتھ سے سرمہ پیس کر فروخت کرکے چندہ دوں گا۔ مَیں نے کہا: حضور! میں بھی سرمہ پسوا دوں گی، ساتھ شامل ہوجاؤں گی۔ فرمایا: ’’نہیں، یہ بات نہیں۔ میں خود اپنے ہاتھ سے پیسوں گا اور تم خود کچھ کام کرو۔‘‘ دو تین دن بعد اُمّ ناصرؓ کے گھر پھر گئی اوراُن سے کہا کہ کیا کرو ں کام مجھے کوئی آتا نہیں،چندہ ضرور دینا ہے۔ آپؓ نے کہا: مجھے بھی یہ بڑی سوچ ہے کیا کام کیا جائے۔ میاں رفیق وہاں بیٹھے ہوئے تھے۔ بولے: اُمی جان میرے بوٹوں کو پالش نہیں کروائی؟ آپؓ ہنس پڑیں اور کہنے لگیں: مَیں تیرے بوٹ پالش کردیا کروں گی تم مجھے ایک آنہ دیا کرو، مَیں وہ چندہ میں دے دوں گی۔ مَیں نے کہا : مَیں تو ایک مہینہ کسی کے گھر کام کروں گی۔ آپؓ نے فرمایا: اَور کسی کے پاس کیوں جاتی ہو؟ میرے پاس آؤ۔ دونوں بہنیں بیٹھا کریں گی۔ حضور کے کپڑوں کی مرمت تم کردیا کرنا۔ پھر ہنستے ہوئے پوچھا: مہینہ کیا لوگی؟ خدا کی حکمت کہ جلسہ سیرت النبیﷺ آگیا تو مَیں نے عورتوں میں پان بیچنے کا اشارہ دیا۔ اُمّ ناصرؓ نے کہا: ہم دونوں بہنوں کا حصہ ہوگا، مَیں پان منگوادوں گی۔ چنانچہ پان اور کتھا تو آپؓ نے دیا اور دوسری چیزیں چھالیہ الائچی وغیرہ مَیں نے اپنی ڈالیں۔ خدا کے فضل سے میرے پان خوب بکے۔ آپؓ بھی میرے پاس آئیں اور پوچھا کہ میں کیا کام کرسکتی ہوں؟ مَیں نے کہا: آپ جائیں میں خود یہ کام کرلوں گی۔ جب گھر آکر نقدی کا حساب کیا تو اس میں سے چوبیس روپے نکلے۔


اخبار ’’الفضل‘‘ کے اجراء کے حوالے سے حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں: 1913ء کی بات ہے خداتعالیٰ نے میری بیوی کے دل میں اس طرح تحریک کی جس طرح حضرت خدیجہؓ کے دل میں رسولِ کریم ﷺ کی مدد کی تحریک کی تھی۔انہوں نے اس امر کو جانتے ہوئے کہ اخبار میں پیسہ لگانا ایسا ہی ہے جیسے کنویں میں پھینک دینا اور خصوصاً اس اخبار میں جس کا جاری کرنے والا محمود ہو، اپنے دو زیور مجھے دے دیے کہ مَیں ان کو فروخت کرکے اخبار جاری کردوں۔ لاہور میں پونے پانچ سو کے وہ دونوں کڑے فروخت ہوئے۔یہ ابتدائی سرمایہ الفضل کا تھا۔ الفضل اپنے ساتھ میری بےبسی کی حالت اور میری بیوی کی قربانی کو تازہ رکھے گا۔

ان کے دل میں موجزن احیائے دیں کا جوش تھا
دین کی خاطر نہ بچوں کا ، نہ اپنا ہوش تھا
ان کے ہی ایثار سے الفضل تھا جاری ہوا
ان پہ رکھ تُو فضل کا سایہ ہمیشہ اے خدا
(کلام محترمہ صاحبزادی امۃالقدوس صاحبہ)

حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ

حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ آپؓ کے اوصاف حمیدہ کا ذکر یوں فرماتے ہیں کہ سیدہ اُمِّ ناصر صاحبہ نہایت ملنسار، سب کے ساتھ بڑی محبت اور کشادہ پیشانی سے ملنے والی، حقیقتاً حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ کے گھر کی رونق تھیں اور حضرت اماں جانؓ کی وفات کے بعد جماعت کی مستورات کا گویا وہی مرکز تھیں۔ بہت بےشر طبیعت پائی تھی۔ اُن کے وجود سے کبھی کسی کوتکلیف نہیں پہنچی اور ان کا وجود ساری عمر اس نوع کی معصومیت کا مرکز بنا رہا۔ نیکی اور تقویٰ میں بھی مرحومہ کا مقام بہت بلند تھا۔ حضورؓ کی طرف سے جو جیب خرچ آپ کو ملتا وہ سب چندہ میں دے دیتی تھیں اور اوّلین موصیوں میں سے تھیں۔جب تک طاقت رہی باقاعدہ روزے رکھے بعد میں بہت التزام کے ساتھ فدیہ ادا کرتی رہیں۔ یہ انہی کی نیک تربیت کا اثر تھا اُن کی اولاد خداتعالیٰ کے فضل سے نمازوں اور دعائوں میں خاص شغف رکھتی ہے۔
مضمون نگار بیان کرتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ سے آپؓ کا بہت محبت کا تعلق تھا۔ عبادت پورے انہماک سے کرتیں۔ وقت پر نماز ادا کرتیں، ہر نماز کے بعد تسبیح و تحمید کرکے پھر کسی سے بات کرتیں۔ آپؓ مستجاب الدعوات تھیں۔ اکثر ایسا ہوتا کہ ادھر دعا کی ادھر قبول ہوجاتی۔ ایک بار شدّت کی گرمی تھی۔ آپؓ صحن میں عصر کی نماز پڑھ چکیں تو اچانک ہوا چلنی شروع ہوگئی۔ فرمانے لگیں: سبحان اللہ مَیں نے ابھی اللہ میاں سے دعا کی تھی کہ الٰہی! بڑی سخت گرمی ہے تُو ہوا بھیج دے سو اس نے فضل کر دیا۔ اس وقت اگر میں کوئی اَور دعا بھی کرتی تو وہ بھی قبول ہوجاتی۔اس طرح آپؓ اپنی دعا کی قبولیت پر خوش ہو کر پھر خدا کے شکر اور تسبیح و تحمید میں مصروف ہوگئیں۔
قادیان میں ایک دن صبح اٹھ کر فرمانے لگیں: آج اگر عالماں آجائے تو حضرت صاحب کی پگڑیاں دھلوالوں۔ پھر کہنے لگیں: خدایا اسے بھجوادے۔ ابھی ہم نے ناشتہ بھی نہ کیا تھا کہ دیکھا تو خالہ عالماں چلی آرہی تھیں۔
اسی طرح ایبٹ آباد میں ایک رات مَیں آپؓ کی ٹانگیں دبا رہی تھی۔ آپؓ کو بہت تکلیف تھی۔ آپؓ نے فرمایا: ‘عائشہ بہت اچھا دباتی ہے، وہ یہاں ہوتی تو مجھے دباتی۔’ خالہ عائشہ اہلیہ حضرت مولوی رحمت علی صاحب مبلغ مرحوم ربوہ میں رہتی تھیں۔ تھوڑی دیر ہی گزری تھی کہ اچانک خالہ عائشہ آگئیں۔ آپؓ نے حیرانی سے پوچھا کہ تم کہاں سے آگئی ہو؟ خالہ عائشہ نے بتایا کہ میں آج ہی ربوہ سے آئی ہوں، حضور کی یہاں آمد کا پتہ چلا تو سوچا کہ آپ کو مل آؤں ۔
آپؓ قرآن کریم کی تلاوت بھی باقاعدگی سے کرتیں۔ سفر میں بھی قرآن کریم ساتھ رکھتیں۔ چندہ باقاعدہ دیتیں۔ دین کی خدمت اور اسلام کی اشاعت کی آپؓ کے دل میں بڑی تڑپ اور جوش تھا۔ اکثر فرمایا کرتیں کہ میرا دل چاہتا ہے کہ میرے تمام بیٹے مبلغ بن کر مختلف ممالک میں نکل جائیں اور اسلام کی خدمت کریں۔ آپؓ غریب پرور اور یتیموں کی مددگار تھیں۔ بعض اوقات سوال سے قبل ہی کچھ نہ کچھ دے دیتیں۔ بہت صبر کرنے والی تھیں۔ مَیں قادیان میں آپؓ کے گھر گئی تو فرمایا کل میری اُنگلی سے طلائی انگوٹھی گِرگئی ہے۔میں سوچ رہی تھی کہ تم آؤ تو کہیں ڈھونڈو۔ میں نے تلاش کی لیکن کہیں نہ ملی۔ مَیں نے افسوس کیا لیکن آپؓ نے پریشانی کا اظہار کیا نہ کسی پر شبہ ظاہر کیا۔
حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ نے بتایا کہ حضرت مسیح موعودؑ حضرت اُمی جانؓ کا بہت خیال رکھتے تھے اور حضرت اُمی جانؓ کو بھی حضرت اقدسؑ سے بہت محبت تھی۔ حضرت مسیح موعودؑ کی یاد میں کبھی کبھی گڑ والے چاول پکوا کر سب کو کھِلاتی تھیں۔ پارٹیشن کے بعد قادیان سے لاہور آئیں تو اپنے ساتھ حضرت مسیح موعودؑ کے تبرکات خاص طور پر سنبھال کر لائیں۔ آپؓ کے پاس حضورؑ کا ایک چمچہ تھا جس سے حضورؑ دوائی پیا کرتے تھے۔ آپؓ فرماتیں کہ مجھے دیر سے اس بات کا خیال تھا کہ اگر میرا کوئی بیٹا ڈاکٹر بنا تو اسے دے دوں گی۔خدا نے آپؓ کی یہ خواہش پوری کردی اور آپؓ کے لڑکے صاحبزادہ مرزا منور احمد صاحب کو ڈاکٹر بنا دیا اور اس طرح حضرت صاحبؑ کا یہ تبرک آپؓ نے ان کو دے دیا۔ آپؓ کے پاس حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک قلم تھا۔ آپؓ اکثر اوقات فرماتی تھیں کہ قلم کے متعلق بھی مَیں سوچا کرتی تھی کہ اپنے کسی مبلغ بیٹے کو دوں گی۔ (غالباً وہ صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب کو دیا۔)

صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب

حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ نے مجھ سے بیان فرمایا کہ آپؓ اکثر حضرت مسیح موعودؑ کے سامنے بڑے ہی ادب و احترام کے ساتھ سر پر دوہرا دوپٹہ اوڑھے آتیں اورہمیشہ حضورؑ کی خدمت کرنے کی کوشش میں رہتیں۔ ایک شام حضورؑ وضو فرمانے لگے تو میں نے لوٹا ہاتھ میں لیا کہ وضو کراؤں، آپؓ آئیں اور نظریں جھکائے ہوئے بڑے ادب اور محبت سے لوٹا میرے ہاتھ سے لے کر حضورؑ کو وضو کرانے لگیں۔ان دنوں کچھ لوگ اِدھر اُدھر سے ذکر کررہے تھے کہ حضرت بھائی جان (یعنی حضرت مصلح موعودؓ) اَور شادی کریں گے۔ کچھ اس قسم کی خبر آپؓ تک پہنچی ہوئی تھی چنانچہ آپؓ افسردہ تھیں۔ جب آپؓ حضورؑ کے ہاتھوں پر پانی ڈال رہی تھیں کہ حضورؑ نے بڑے پیار سے آپؓ کو دلاسا دیا اور فرمایا میری زندگی میں تم کو کوئی تکلیف نہیں ہوگی۔ چنانچہ وہ بات پوری ہوئی۔ شادیاں تو مقدّر تھیں ہوکر رہیں مگر حضرت اقدسؑ کی زندگی میں نہیں ہوئیں۔ حضرت اقدسؑ نے یہ نہیں فرمایا کہ وہ شادی نہیں کریں گے بلکہ یہ فرمایا کہ میری زندگی میں تم کو کوئی تکلیف نہیں ہوگی۔ حضورؑ کو علم تھاکہ حضرت مصلح موعودؓ اَور شادیاں کریں گے اور آپؓ نے بھی محض اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطراَورشادیاں کیں۔ آپؓ دن رات دین کی خدمت میں اتنے مصروف رہتے تھے کہ اس صورت میں جماعت کی مستورات کی تربیت کے لیے یہ بہت ضروری تھا اور یہ کہ جب آپؓ کی بیویاں وفات پاگئیں تو ان کے بچوں کی نگرانی کے لیے بھی بعض اوقات آپؓ کوشادیاں کرنی پڑیں۔
حضورؓ کی باقی بیگمات کے ساتھ حضرت اُمّ ناصرؓ کا سلوک بہت اچھا تھا۔ حضرت سیدہ مہر آپا فرماتی ہیں: حضرت سیدہ اُمّ ناصرؓ بہت اعلیٰ اخلاق و کردار کی مالک تھیں۔ میرے ساتھ بہت اچھا سلوک کیا کرتی تھیں۔جب کبھی میری طبیعت خراب ہوتی تو حال دریافت کرنے آتیں تو ہمیشہ یہ نصیحت کرتیں لڑکی اپنی صحت کا خیال رکھا کرو۔ دیکھو ہم نے اپنی صحت کا خیال نہیں رکھا تو کیا حال ہوا ہے۔
حضرت مصلح موعودؓ کے لباس کا انتظام ہمیشہ آپؓ کے سپرد ہی رہا۔ اس اہم ذمہ داری کو آپؓ نے نہایت خوش اسلوبی سے نبھایا جبکہ بعض اوقات آپؓ کی طبیعت خراب بھی ہوتی تھی لیکن اس سلسلہ میں حضورؓ کو کبھی کسی وقت بھی مشکل کا سامنا نہیں ہوا، نہ کبھی حضورؓ کو آپؓ کو یاددہانی کروانی پڑی۔ پوری توجہ سے حضورؓ کے لباس کا خیال رکھتیں، دھوبی سے کپڑے دُھل کر آتے تو سب کو دیکھتیں اور بٹن وغیرہ درست کرتیں۔ حضورؓ کی پگڑیاں گھر پر ہی دھلواتی تھیں۔ یہ ڈیوٹی سالہا سال تک میری والدہ بھی دیتی رہیں۔ ربوہ میں ایک دفعہ ایک خاتون نے اصرار کرکے حضورؓ کی پگڑیاں دھوئیں جن کے کونے نکل آئے، حضورؓ نے ان کونہ پہنا۔ دوسرے دن اچانک خاکسار حاضر ہوئی تو آپؓ بہت خوش ہوئیں اور فرمایا کہ شکر ہے تم آگئی ہو۔ پھرآپؓ میرے ساتھ ان کو کھینچ کھینچ کر درست کرنے کی کوشش کرتی رہیں، مَیں نے پانی ڈال کر مائع نرم کی اور اِستری سے پگڑیوں کو کچھ درست کیا۔


حضورؓ عموماً رات بارہ بجے، کبھی ایک بجے دفتر سے آتے۔ آپؓ اس وقت تک جاگ رہی ہوتی تھیں۔ آپؓ ویسے بھی بہت کم سوتی تھیں، دوپہر کو لیٹی ہوتیں لیکن سوتے کبھی نہیں دیکھا۔ ملاقات کے لیے آنے والی بہنوں سے ہمیشہ خندہ پیشانی سے ملتیں۔ جہاں تک ہوسکتا ان کی خاطر تواضع کرتیں۔عاجزہ جب کبھی گئی بغیر کھانے کے آنے نہیں دیا۔ ایک دفعہ میری طبیعت بہت خراب تھی۔ آپؓ نے مجھے اپنی دوائی دی اور کہا کہ اس سے مجھے اللہ کے فضل سے آرام آیا تھا،تم بھی کھا کے دیکھو۔ اللہ کے فضل سے مجھے بھی اس سے افاقہ ہو گیا۔
حضرت مصلح موعودؓ کی سب بیگمات نے بلاشبہ جماعت کی انتھک خدمت کی۔ آپس میں بھی سب بہت محبت سے رہتیں اور حضرت اُمی جانؓ کا بہت احترام کرتیں۔ سب کے دروازے احمدی خواتین کے لیے کھلے رہتے۔ ہر وقت ملاقات کے لیے خواتین آتی رہتی تھیں۔ حضرت اُمی جانؓ کے گھر کے صحن اور دالان ہی سے حضرت مصلح موعودؓ کے ذاتی دفتر کو راستہ جاتا تھا۔ حضورؓ نمازوں اورکھانے کے لیے وہاں سے گزرتے تھے۔ پھر دوسری بیگمات اور باقی خاندان کے افراد بھی وہاں سے دفتر آتے جاتے۔ حضورؓ کا یہ دفتر گھر کی طرح بھی تھا اور اس کے نیچے حضورؓ کے دوسرے دفاتر تھے۔اُس دالان میں حضرت اُمی جانؓ کا کمرہ تھا جہاں آپؓ پلنگ پر آرام کررہی ہوتیں۔سب گزرنے والے سلام کرتے۔ کبھی بھی آپؓ کے ماتھے پر شکن نہ آئی۔ آپؓ کا اخلاق و حوصلہ بہت بلند اور شخصیت بہت بارعب تھی۔ آپؓ کے ہاں حضورؓ کی باری کے دن خواتین اپنے مسائل لے کر آتی تھیں۔ آپؓ آنے والی خواتین کو کبھی منع نہ کرتی تھیں کہ وقت بےوقت آگئی ہو لیکن حضورؓ کی حفاظت کے نکتہ نظر سے ضرور چوکس رہتیں۔
امّی جانؓ نہایت سلیقہ مند تھیں۔ اگر کسی جوڑے کا رنگ مدھم ہوجاتا تو آپؓ اس کو دوسرا رنگ دے دیتیں۔ حالانکہ آپؓ کے پاس کم جوڑے ہوتے لیکن دیکھنے میں لگتا کہ آپؓ کے پاس بہت کپڑے ہیں۔چائے کی پتی کو چینک سے نکال کر خشک کرکے رکھ لیا کرتیں۔ اس کو بھی کپڑوں کو رنگنے میں استعمال کرتیں نیز اس سے قالین بھی صاف کرواتیں۔ دوپٹوں کو مائع لگواکر چُن کر اوڑھتیں۔آپؓ خود دوپٹے بہت عمدہ چُنتی تھیں۔ مجھے بھی دوپٹہ چُننا آپؓ نے ہی سِکھایا۔
ماشاءاللہ سب سے بڑا کنبہ حضرت اُمّی جانؓ کا تھا۔ پھر بھی کھانا ٹھیک وقت پر تیار کروالیتیں۔ سب حضورؓ کے ساتھ مل کر کمرے میں دسترخوان بچھاکر یا پھر چھوٹی چونکی پر لگاکر کھانا کھاتے۔ حضورؓ کی خوراک بہت کم تھی۔ اُمی جانؓ کی کوشش ہوتی تھی کہ حضورؓ کے لیے ایسا کھانا پکائیں جو صحت کے لیے اچھا ہو اور مزیدار بھی ہو۔ حضورؓ کودالیں، سبزیاں، گوشت، چوزہ، بھُنے ہوئے چنے اور مکئی کے دانے پسند تھے۔ حضورؓ کا دانتوں کا بُرش آپؓ کے گھر بھی ہوتا۔ کھانے کے بعد حضورؓ دانت ضرور صاف کرتے۔ قادیان میں گرمیوں کے روزے تھے۔ حضورؓ سحری کے وقت تشریف لائے، پہلے چونکی پر دو نفل ادا کیے پھر سحری شروع کی۔ جلد اذان کی آواز آگئی۔ اذان کے دوران آپؓ کھاتے رہے، اذان ختم ہونے پر آپؓ نے کھانا چھوڑ دیا۔


امی جانؓ علی الصبح ہی تیار ہو جاتیں۔ لباس بہت پاک صاف اور نفیس ہوتا۔ سردیوں میں ریشمی اور گرم کپڑے کا لباس ہوتا۔ خوشبو کا استعمال بھی کرتی تھیں۔حضورؓ بہت عمدہ عطر خود بناتے تھے، خود بھی استعمال فرماتے اور اپنے اہل خانہ کو بھی دیتے تھے۔
آپؓ کھانا ضائع نہیں ہونے دیتی تھیں۔ باورچی کو راشن تول کر دیتیں۔ ایک دفعہ ایک نیا باورچی آیا تو آٹا منگواکر اُس کے پیڑے کرکے اس کو بھجوائے اور بتایا کہ ایک کلو آٹے میں اتنے پھُلکے بنتے ہیں۔ کھانے میں سبزی گوشت یا دال ہوتی۔ ناغہ کے دن خالی سبزی بنتی۔ اس وقت فریج نہیں تھا، اس لیے بچا ہوا سالن پرات میں پانی ڈال کر اس میں رکھتیں اور دوسرے وقت گرم کرکے کھانے کے لیے رکھ دیتیں۔ آم، لسوڑھے، ہری مرچیں اور ڈھیو کا اچار خود ہمارے ساتھ مل کر گھر میں تیار کرواتیں۔یہ اتنے ذائقہ دار ہوتے کہ سالن کی جگہ ان کا مصالحہ روٹی پر لگا کر کھانے کا بہت مزہ آتا۔ آم کے اچار میں کبھی کریلے بھی ڈالتیں۔
سردیوں میں جب نیا گُڑ بنتا توآپؓ بادام، کشمش، گِری، مونگ پھلی اور گھی وغیرہ ڈلواکر گُڑکے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے بنواکر رکھتیں۔ جلسہ سالانہ سے پہلے حضرت اُمِّ متین اور آپؓ گندم اُبال کر خشک کرکے بھنواتیں اور اُس میں گڑ میوہ جات ڈال کر لڈو بنواکر رکھے جاتے اور اِس طرح جلسہ پر آنے والے مہمانوں کی خاطر تواضع کی جاتی۔اس کے علاوہ بھی آپؓ مہمانوں کے لیے کچھ نہ کچھ تیار رکھتیں۔ جلسہ پر آپؓ کا گھر مہمانوں سے بھرا ہوتا۔
ایک دن ایک فوجی افسر کی بیگم نے آپؓ سے اپنے خاوند کی شکایت کی کہ وہ پہلے میرے ساتھ بہت اچھا سلوک کرتے تھے لیکن جب سے فلاں خاتون سے شادی کرلی ہے میری بالکل پروا نہیں کرتے۔ وہ خود بالکل سادہ دیہاتی لباس میں تھیں۔آپؓ اُس خاتون کو بھی جانتی تھیں جس سے اس کے خاوندنے شادی کی تھی کہ وہ بہت صاف اور عمدہ لباس میں رہنے والی ہے۔آپؓ نے فرمایا: دیکھو تمہارا شوہر اتنا بڑا فوجی افسر ہے تم بھی اسی طرح بن سنور کر رہا کرو اور بہت دعائیں کیا کرو۔ وہ خود ہی تمہاری طرف متوجہ ہوجائے گا۔ آپؓ نے اس کو بہت پیار سے اس طرح سمجھایا جس طرح ایک ماں سمجھاتی ہے اور اس کے خاوند کی کسی کمزوری کا ذکر نہ کیا۔
آپؓ کو کبھی کسی کی شکایت کرتے نہیں سنا، کبھی کسی کے معاملہ میں مداخلت نہیں کی، نہ ہی تجسّس کی کوئی عادت تھی۔
آپؓ نے اپنے بچوں کی اتنی اچھی تربیت کی کہ وہ ہمیں بھی اپنے بہن بھائیوں کی طرح سمجھتے تھے۔ حضورؓ کی حرم مرحومہ سارہ بیگم صاحبہ کے تینوں بچے بھی آپؓ کے پاس رہتے تھے۔ آپؓ اُن کا بھی اپنے بچوں کی طرح خیال فرماتیں۔ حضورؓ کے سب بچے اپنی سب ماؤں سے بہت عزت و احترام اور دلی محبت سے پیش آتے۔ محترم مرزا حنیف احمد صاحب نے ایک انٹرویو میں بیان کیا کہ ہم مختلف ماؤں سے جو بہن بھائی تھے، ہمارا آپس میں محبت، عزت اور پیار کا رشتہ تھا۔ ہمیں سگے سوتیلے کے فرق کا کوئی علم نہ تھا۔ پھر اُمّی جان کی بہت تعریف کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے ہمیں بہت پیار دیا تھا۔
آپؓ نے حضرت سیّدہ سارہ بیگم صاحبہؓ کی صاحبزادی امۃالنصیر صاحبہ کی شادی بڑی محبت سے کی۔ حضرت سیّدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ نے ایک بہت ہی پیاری نظم اُن کی شادی پر کہی جس کو پڑھ کر دل درد سے بھر جاتا ہے ؎

یہ راحتِ جاں نورِ نظر تیرے حوالے
یا ربّ میرے گلشن کا شجر تیرے حوالے

ایک دن ایک صاحبزادی کی والدہ اُن کو اندر کمرے میں ڈانٹ رہی تھیں۔ اس کے بعد وہ اُمی جانؓ کے پاس آئیں تو آپؓ نے فرمایا: بیٹی پرکیوں ناراض ہورہی تھی۔ اب وہ بڑی ہوگئی ہے پیار سے سمجھاؤ۔
آپؓ اپنے عزیزوں اور بہوؤں کے لیے دن رات دعائیں کرتیں۔ آپؓ کی زندگی میں چھ بہوئیں آچکی تھیں لیکن کبھی کسی پر کوئی بوجھ نہیں ڈالا، نہ کسی کے گھر جاکر رہتیں، ملنے ضرور جاتیں۔ صاحبزادہ ڈاکٹر مرزا منور احمد صاحب کی بیگم آپؓ کے گھر میں اوپر کی منزل میں رہتی تھیں۔ کھانے کے وقت آپؓ ان کو پیغام بھجواتیں اور وہ خوشی خوشی تیار ہوکر نیچے آجاتیں۔ سب اُن کے آنے پر کھانا شروع کرتے۔ اُمی جانؓ ان کو دیکھ دیکھ کر خوش ہورہی ہوتیں۔
آپؓ بہت شائستہ گفتگو کرتیں۔ اپنے رشتہ داروں میں کوئی اچھی بات لگتی تو اس کا ذکر باربارکرتیں۔ ایک دن ربوہ میں خاکسار حاضر ہوئی تو آپؓ نے فرمایا کہ ہم مری جارہے ہیں۔مَیں نے کہا کہ مجھے بھی شوق تھاکہ میں حضورؓ کے ہمراہ کوئی سفر کروں تو آپ مجھے ساتھ لے جائیں۔ آپؓ نے بہت خوشی کا اظہار فرمایا لیکن پھر کچھ پریشان ہوکر فرمایا کہ مَیں نے تو کسی اَور سے وعدہ کرلیا ہے لیکن مَیں کچھ دنوں تک بتاؤں گی کہ تمہیں لےکر جا سکتی ہوں کہ نہیں۔ پھر چند دن کے بعد آپؓ نے فرمایا: تم تیار ہوجاؤ۔ یہ آپؓ کا مجھ پر احسان تھا۔ اس سفر میں حضورؓ ربوہ سے جابہ تشریف لے گئے۔ پہاڑی راستہ تھا۔ سارا راستہ مجھے شدید متلی، چکر کی تکلیف رہی۔ جب جابہ پہنچ کر گھرمیں داخل ہوئی تو حضوؓر صحن میں بیٹھے تھے، مسکراتے ہوئے فرمایا: بچ کر آگئی ہو، اب کیا حال ہے؟ مَیں بہت حیران ہوئی اور یہ بھی اندازہ ہوا کہ حضورؓ سب کی خیریت کی خبررکھتے تھے کیونکہ مَیں دوسری گاڑی میں تھی۔ پھر وہاں سے کچھ دنوں کے بعدہم حضورؓ کے ساتھ مری چلے گئے۔
حضرت اُمی جانؓ کی صحت عرصہ سے خراب چلی آرہی تھی لیکن بیماری میں کبھی تکلیف یابےچینی کا اظہار نہ کرتیں۔ روزانہ حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ صاحبؓ آپؓ کی صحت کا پتہ لیتے۔ حضورؓکو آپؓ کی صحت کی بڑی فکر تھی چنانچہ اپنی موجودگی میں حضورؓ نے ایک انگریز ڈاکٹر کو بلوا کر آپؓ کا معائنہ کروایا۔ اس نے کچھ ادویات تجویز کیں۔ دوسرے دن حضرت ڈاکٹر صاحبؓ آئے تو آپؓ سے شکوہ کیا کہ مَیں جو آپؓ کا علاج کررہا ہوں کسی اَور کو دکھانے کی کیا ضرورت تھی۔ آپؓ پردے کے پیچھے خاموشی سے سنتی رہیں۔ پھر شام کو کبابوں کی ایک پلیٹ مجھے دیتے ہوئے فرمایا کہ ڈاکٹر صاحب کو دے آؤں۔

مرزا رفیق احمد صاحب

ڈاکٹر صاحبؓ کو میاں رفیق احمد صاحب نے ربوہ سے خط میں لکھا کہ ’’میری اُمی کا آپ خاص دھیان رکھیں۔‘‘ حضرت ڈاکٹر صاحب نے اُمی جانؓ کے سامنے میاں صاحب کی بڑی تعریف کی کہ بڑا سعادت مند بچہ ہے، آپ کی بہت فکر کرتا ہے۔ آپؓ یہ سن کربہت خوش ہوئیں۔
مری میں ٹھنڈ کی وجہ سے آپؓ کے گھٹنے کی درد میں اضافہ ہو گیا۔ روز رات کو مَیں اس پر دوائی لگاتی۔ آپؓ بار بار کہتیں: ہاتھ اچھی طرح دھولو، یہ دوائی زہریلی ہے۔
صبح مَیں سہارا دیتی تو پھر کمرہ میں ٹہلتی رہتیں اور باتیں کرتیں۔ ایک دن میں آپؓ کو سہارا دے کر باہر لےگئی لیکن سردی کی وجہ سے آپؓ دوبارہ باہر نہیں جاسکیں۔ مَیں بھی کمرے میں آپؓ کے ساتھ ہوتی تھی۔ کبھی آپؓ خود مختلف واقعات سناتیں، کبھی مجھے فرماتیں کوئی بات کرو۔ باتیں کرتے ہوئے مَیں آپؓ کی ٹانگیں دباتی جاتی۔ایک دن آپؓ نے فرمایا: جن کی مائیں میرے ساتھ محبت کرتی ہیں ان کی اولادیں بھی میرے ساتھ بہت محبت کا تعلق رکھتی ہیں۔ جو لوگ مجھ سے محبت کرتے ہیں مَیں ان کے لیے دعا کرتی ہوں کہ اے خدا! جو میرے ساتھ محبت کرتے ہیں تُو بھی ان کے ساتھ محبت کر۔
آپؓ نمازبڑے خشوع وخضو ع سے ادا کرتی تھیں۔ گھر میں ایک سٹور تھا جو سامان سے بھرا ہوتا صرف تھوڑی سی جگہ خالی ہوتی۔ایک دن مَیں آپؓ کو ڈھونڈتی ہوئی وہاں چلی گئی۔ آپؓ سخت گرمی میں انتہائی انہماک سے نماز ادا کررہی تھیں، بعد میں بتایا کہ مَیں علیحدگی میں دعا کرنا چاہتی تھی۔
ایک بار آپؓ کے ساتھ مَیں ایبٹ آباد گئی تو شدّت سے محسوس کیا کہ ان پاک وجودوں کی صحبت کی برکت سے تمام سفر میں نہ صرف آپؓ کی دعاؤں کو حاصل کیا بلکہ خود مجھے بھی غیرمعمولی دعائیں کرنے کے مواقع میسر آئے۔
1953ء میں میری شادی ہو گئی اور کچھ عرصہ بعد مَیں سیرالیون چلی گئی کیو نکہ میرے میاں وہا ں مبلغ تھے۔ روانگی سے پہلے آپؓ کو ملنے گئی تو آپؓ نے حضورؓ کا کُرتا بطور تبرک دیا اور اپنا ایک گوٹا لگا چُنا ہوا خوبصورت دوپٹہ بھی دیا۔ دیر تک نصائح فرماتی رہیں کہ وہاں جاکر سست نہ ہوجانا۔جماعت کا کام خوب محنت سے کرنا۔ پھر گلے لگا کرپیار سے رخصت کیا۔مَیں نے باہر کے دروازے کے پاس جاکر پیچھے مڑ کر دیکھا تو آپؓ کھڑکی سے محبت بھری نظروں سے دیکھ رہی تھیں۔ اب بھی وہ منظر یاد آتا ہے تو دل بھر آتا ہے اور بہت اداسی ہوتی ہے۔ یہ میری آپؓ کے ساتھ آخری ملاقات تھی۔
سیرالیون سے مَیں آپؓ کو خط لکھتی تو بہت پیار بھرے جواب دیتیں اور بہت عمدہ نصائح لکھتیں۔ ایک خط کے جواب میں لکھا کہ ’’تم دل لگا کر دین کی خدمت کرو، وہاں لجنہ اِماءاللہ قائم کرو اور ان کو اسلام و احمدیت کی تعلیم دو۔جب انسان کسی کام میں لگ جائے تو اُداس بھی نہیں ہوتا۔ آہستہ آہستہ ہر چیز موافق آجاتی ہے۔ نئی چیز سے انسان گھبرا جاتا ہے جب ماحول بدل جائے تو برداشت کرنا ہی ہوتا ہے، گھبراؤ نہیں اور دعاؤں سے کام لو۔ اِن شاءاللہ سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا۔ بچوں کا بھی خیال رکھو اور ان کو بھی اداس نہ ہونے دو۔ جب وہ ہر وقت اسلام کی باتیں سُنیں گے تو ان کابھی دل لگ جائے گا۔‘‘ یہ الفاظ آپؓ کے دل میں احمدی مستورات کی تربیت اور اسلام کے لیے موجود جذبات کا اظہار ہیں۔
آپؓ نے اپنے ایک عزیز کی درخواست پر ایک پیغام بھی ریکارڈ کروایا تھا جو کچھ یوں تھا:
’’خداتعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے اَلَیْسَ اللہ بِکَافٍِ عَبْدَہٗ کیا اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے لیے کافی نہیں۔ اس آیت کا مفہوم یہ ہے کہ انسان مشکلات و مصائب اور تکالیف میں گھبرا کر کسی سہارے کی تلاش میں سرگرداں ہوجاتا ہے۔خداتعالیٰ فرماتا ہے: تم کیوں انسانی سہاروں کو اطمینان نفس اور سکون قلب کے لیے ڈھونڈتے ہو جبکہ مَیں موجود ہوں میں تمہاری ہر قسم کی مدد کرسکتا ہوں اور مَیں تمہاری مشکلات کو دُور کرسکتا ہوں۔سیدنا حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:

مشکلیں کیا چیز ہیں مشکل کُشا کے سامنے

پس انسان گناہوں کا پتلا ہے اس کے مقابلہ میں خدا بڑا ہی غفار اور ستار ہے اُسے چاہیے اپنی کوتاہیوں اور غلطیوں اور گناہوں کا اعتراف کرتے ہوئے خدا کی چوکھٹ پر جھکے اور اس کی مدد چاہے۔ خدا اس کا سہارا ہوجائے گا اور اس کی ناؤ طوفانی تھپیڑوں سے بچتی ہوئی ساحلِ مراد پر جالگے گی۔ اللہ تعالیٰ آپ سب کے ساتھ ہو۔آمین‘‘
حضرت سیدہ اُمّ ناصرؓ 31؍جولائی 1958ء کو وفات پاکر بہشتی مقبرہ ربوہ میں مدفون ہوئیں۔ آپؓ کو اللہ تعالیٰ نے نو بیٹے اور تین بیٹیاں عطا فرمائیں جن میں سے ایک بیٹا اور ایک بیٹی کم سنی میں وفات پاگئے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں