حضرت سیّدہ صغریٰ بیگم صاحبہؓ حرم حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ

(مطبوعہ ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘، الفضل انٹرنیشنل لندن 16؍اکتوبر 2023ء)

لجنہ اماءاللہ جرمنی کے رسالہ ’’خدیجہ‘‘برائے2013ء نمبر1 میں مکرمہ آصفہ عطاءالحلیم صاحبہ کے قلم سے حضرت سیدہ صغریٰ بیگم صاحبہؓ حرم حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ کی سیرت پر ایک مضمون شامل اشاعت ہے۔

حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ
جمّوں میں قیام کے دوران

حضرت سیّدہ صغریٰ بیگم صاحبہؓ احتراماً ’’اماں جی‘‘ کے لقب سے پہچانی جاتی تھیں۔ آپؓ ایک صاف باطن، متقی، باخدا اور متوکّل بزرگ حضرت صوفی احمد جان صاحبؓ کی صاحبزادی تھیں جن کا خاندان دہلی سے تعلق رکھتا تھا جو بعد میں لدھیانہ پنجاب میں آکر آباد ہو گیا تھا۔ آپؓ کو یہ فخر بھی حاصل ہے کہ خود حضرت مسیح موعودؑ نے اپنے محب ِخاص کی زوجیت کے لیے آپؓ کا انتخاب فرمایا اور حضرت اماں جانؓ کے ہمراہ بنفسِ نفیس مارچ 1889ء میں بارات میں شرکت فرمائی۔ پھر شادی کے بعد حضرت حکیم مولوی نورالدین صاحبؓ کو ایک خط میں تحریر فرمایا:’’مَیں نے اس محلّہ میں خاص صاحبِ اسرار اور واقف لوگوں سے اس لڑکی کی بہت تعریف سنی ہے کہ بالطبع صالحہ عفیفہ اور جامع فضائل محمودہ ہے۔ اس کی تربیت و تعلیم کی طرف بھی توجہ رکھیں اور آپ پڑھایا کریں اس کی استعدادیں بہت عمدہ معلوم ہوتی ہیں اور اللہ جل شانہٗ کا نہایت فضل ا ور احسان ہے کہ یہ جوڑ بہم پہنچایا ورنہ اس قحط الرجال میں ایسا اتفاق محالات کی طرح ہے۔‘‘


خدا تعالیٰ نے حضرت سیّدہؓ کو یہ اعزاز بھی عطا فرمایا کہ خواتین میں سے سب سے پہلے حضرت مسیح موعودؑ کے دستِ مبارک پربیعت کرنے کی سعادت آپؓ کو ملی اور آپؓ ہی کا آبائی گھر دارالبیعت قرار پایا۔ یہ اعزاز بھی آپؓ کو عطا ہوا کہ سیدنا حضرت مصلح موعودؓ جیسی ہستی کو آپؓ کا داماد بنادیا۔ ان برکات اور نوازشاتِ الٰہیہ کی عملی شکرگزاری آپؓ نے اس طرح کی کہ ایک پاک اور متقیانہ اور ہمدردیٔ خلائق سے بھرپور زندگی گزاری۔ مہمان نوازی، یتیم اور نادار بچوں کی پرورش صبر و حلم، سیرچشمی اور قناعت سخاوت، فراخدلی، صلہ رحمی، شکرگزاری، سادگی اور توکّل آپؓ کی سیرت کے ممتاز اور نمایاں پہلو تھے۔ ان اوصاف ِحمیدہ میں سے مہمان نوازی آپؓ کے اخلاق کا سب سے نمایاں جوہر تھا۔ بلامبالغہ ہزاروں ہزار انسان ہیں جن کی خدمت اور مہمان نوازی کا شرف آپؓ کو حاصل ہوتا رہا۔ حضرت مولانا نورالدین صاحبؓ کی زندگی میں اور اس کے بعد بھی قادیان میں ساری زندگی عموماً آپؓ کا وسیع مگر سادہ مکان ایک مستقل مہمان خانہ بنا رہتا تھا۔ خصوصاًجلسہ سالانہ کے ایام میں سینکڑوں خواتین اور بچے آپؓ کے ہاں بطور مہمان قیام کرتے تھے۔ سارے کا سارا گھر خالی کرکے مہمانوں کے حوالہ کردیا جاتا تھا۔ آپؓ ایک چھوٹی سی چارپائی اپنے لیے اپنے کچے باورچی خانہ میں ڈلوالیتیں اور بعض دفعہ وہ بھی کسی مہمان ہی کے کام آتی تھی۔ آپؓ سب کی مہمان نوازی اور آرام کا خیال ایسے انہماک، جوش اور خلوص کے ساتھ کرتیں کہ اس کی مثال کہیں کم ہی نظر آسکتی ہے۔ خصوصاًغرباء، ضعیف العمر، بیمار اور بچے آپؓ کی توجہ کا خاص مر کز بنے رہتے تھے۔ ان ایام میں بمشکل دو تین گھنٹے کچھ آرام کر لیتی تھیں۔ ایام جلسہ میں عموماًآپؓ اپنا بستر پہلے ہی کسی ضرورت مند کے حوالے کردیتی تھیں۔ لیکن آپؓ کے آرام اور سخت سردی کے خیال سے دوبارہ سہ بارہ جو بستر آپؓ کے لیے مہیا کیا جاتا وہ بھی اکثر و بیشتر کسی ضرورت مند کو دے دیتی تھیں۔ ہر مہمان سے نہایت خندہ پیشانی سے پیش آتیں۔ اکثر اپنے ہاتھ سے مہمانوں کے لیے چائے وغیرہ تیار کرتیں۔

حضرت اُمّ مظفرؓ (حرم حضرت صاحبزادہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ) فرماتی ہیں: حضرت اماں جیؓ بہت زندہ دل اور مہمان نواز تھیں۔ جب بھی میں ان کے گھر جاتی تو وہ انتہائی محبت اور شفقت سے پیش آتیں اور چونکہ ان کی اور میری ہر دو کی مادری زبان فارسی تھی اس لیے ہم دونوں نہایت بے تکلّفی کے ساتھ فارسی میں گفتگو کرکے اپنا دل بہلاتے تھے نیز چونکہ ہم دونوں کے خا ندان خصوصاًکابل والی نمکین چائے کے بھی عادی تھے اس لیے جب بھی مَیں جاتی اور موسم مناسب ہوتا تو حضرت اماں جیؓ میرے لیے لازماً اصرار کے ساتھ نمکین چائے تیار کرواتیں اور مجھے بھی پلاتیں اور خود بھی پیتیں اور بعض اوقات جب میں کسی مجبوری کی وجہ سے جلد واپس آجاتی تو وہ بعد میں چائے تیار کروا کے ہمارے گھر پر بھجوادیتیں۔اسی طرح بعض اوقات گرمی کے موسم میں لیمونیڈ وغیرہ کی بوتلیں بھی بعد میں گھر بھجوادیا کرتی تھیں۔ اُن کا انداز گفتگو بڑا دلچسپ اور بے تکلّفانہ ہوتا تھا۔ اماں جانؓ (حضرت سیدہ نصرت جہاں بیگم صاحبہؓ) کے پاس آپؓ کا بہت آنا جانا تھا۔ جب بھی وہ حضرت اماں جانؓ کے پاس آتیں یا حضرت اماں جانؓ اُن کے گھر جاتیں تو گویا عجیب محبت و شفقت کے جذبات سے مجلسیں گرما جایا کرتی تھیں۔ حضرت اماں جانؓ کی مہمان نوازی اور شفقت اور غرباء پروری تو مشہور ہی ہے حضرت اماں جیؓ بھی اُن کے قدم پر بہت مہمان نواز شفیق اور غریب پرور تھیں۔
مہمان نوازی سے شغف تھا مگر تکلّف اور نمود کا عنصر نام کو نہ تھا۔ ہر امیر و غریب سے یکساں برتائو ہوتا تھا۔ ایک دفعہ جلسہ کے ایام میں ربوہ میں حضرت چودھری محمد ظفر اللہ خان صاحبؓ آپؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ حضرت امّاں جیؓ حسب معمول اپنے باورچی خانہ میں مہمانوں کی خدمت کے لیے موجود تھیں۔ حضرت چودھری صاحبؓ کی تشریف آوری کا سن کر دروازے پر تشریف لے گئیں۔ ملحقہ ڈیوڑھی میں اُن کے لیے چارپائی بچھوا دی۔ حضرت چودھری صاحبؓ بے تکلّفی سے اس پر بیٹھ گئے۔ باتیں ہوتی رہیں۔ حضرت اماں جیؓ نے فرمایا: کھانا کھاکر جائیں۔ اور عام سادہ برتنوں میں ایک ٹرے کے اندر کھانا بھجوادیا۔ حضرت چودھری صاحبؓ نے بشاشت اور شکرگزاری کے ساتھ وہ کھانا کھایا۔ کوئی اہتمام نہیں، کوئی تکلّف نہیں۔ عجیب پُروقار انداز تھا مہمان نوازی کا۔ اور کیا ہی مبارک تھے اُن کے عقیدت مند مہمان۔

حضرت چودھری سر محمد ظفراللہ خان صاحبؓ

نادار اور یتیم بچوں کی پرورش آپؓ کی زندگی کا محبوب ترین مشغلہ تھا۔ ایسی دلجوئی اور دلداری کے انداز میں اُن کی پرورش فرماتیں کہ انہیں اپنی کم مائیگی اور بےکسی کا احساس نہ ہونے دیتیں۔ اُن کو اپنے سامنے اپنے بچوں کے ساتھ بٹھا کر کھلاتیں پلاتیں اور بشاشت اور خوداعتمادی کا احساس اُن کے اندر بیدار کرتیں۔ محض اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت میں ایسے افراد کی کمی نہیں جنہوں نے آپؓ کی پُر شفقت تربیت و تعلیم کے نتیجہ میں دینی اور دنیوی لحاظ سے کامیاب اور خوشگوار زندگی گزاری ہے۔ بہت سی مستحق امداد عورتیں مستقل طور پر آپؓ کے ہاں رہتی تھیں اور ویسے آپؓ کے ہاں آنے جانے والی مستحق عورتوں کا تو کوئی شمار ہی نہ تھا۔ آپؓ کی امداد کا رنگ بھی عجیب و دلکش ہوتا تھا۔ ایک ضعیف العمر عورت کو متعدد بار بطور مدد کے کچھ رقم دی کہ خربوزے خرید کر اس سے کچھ نفع کمالے۔ وہ خربوزوں کی ٹوکری خرید کر آپؓ ہی کے ہاں لے آتی کہ ان کو فروخت کرنے کے لیے جاناہے۔گرمیوں کے دن تھے۔تھکی ماندی وہ آتی تھی۔ اُس کو دیکھ کر فرمایا کرتی تھیں کہ اب اس گرمی میں ان کو بیچنے کے لیے یہ کہاں جائے گی۔ چنانچہ خود ہی خرید لیتیں اور خربوزے ارد گرد کے لوگوں میں تقسیم کروادیتیں۔
حضرت مولانا نورالدین صاحبؓ فرمایا کرتے تھے کہ میرا نام آسمان پر ’’عبدالباسط‘‘ ہے اور باسط اسے کہتے ہیں جو فراخی سے دینے والا ہو۔ آپؓ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے رزق کے بارہ میں بے فکر کردیا گیا تھا اور یہ یقین دہانی فرمادی گئی تھی کہ وہ آپؓ کی ضرورتوں کے پیدا ہونے سے پہلے اُن کو پورا ہونے کے سامان پیدا فرما دیا کرے گا۔ اور بعینہٖ اسی طرح ہوتا رہا۔ اس کی ایک جھلک ہمیں حضرت اماں جیؓ کی زندگی میں بھی نظر آتی ہے۔ وہ کبھی اس بارہ میں فکرمند ہوتی نظر نہیں آئیں نہ انہیں روپیہ جمع کرتے دیکھا گیا۔ جو رقم بھی آتی خواہ وہ ہزاروں میں کیوں نہ ہو جلد سے جلد اُسے صرف کر دیتیں اور یہ صرف ہمیشہ غریبوں، مہمانوں اور دوستوں پر ہی ہوتا، اپنے آرام وآسائش پر نہ ہوتا۔ جب بھی اُنہیں کوئی تحفہ نذرانہ، نقدی یا ملبوسات کی شکل میں ملتا وہ اسے یتیموں اور غریبوں میں تقسیم کر دیتیں اور جب یہ عرض کیا جاتا کہ یہ تو آپؓ کے علاج اور آرام کے لیے تھا، تو جواب ملتا کہ تم اپنی خوشی پوری کرنے کے لیے مجھے دیتے ہو مَیں اپنی خوشی پوری کر لیتی ہوں۔ آخری ایّام میں جب آپؓ سے پوچھا گیا کہ آپؓ کی کوئی خواہش ہو تو بتادیں۔ جوا ب دیا :’’کوئی خواہش نہیں۔بس اب تو اپنے اللہ سے ملنا ہے۔‘‘ایک اَور موقع پر جواب دیا: ’’کوئی خواہش نہیں۔ بس یہ جو یتیم بچی میرے پاس رہتی ہے اس کو پڑھادینا۔‘‘
حضرت اماں جیؓ نے ساری زندگی بڑے صبر و شکر اور وقار سے گزاری اگر کسی نے ذرا سی نیکی بھی آپؓ سے کی تو آپؓ نے اُسے ہمیشہ یا د رکھا۔ جب بھی موقع ہوتا اپنے بچوں کو بتاتیں کہ انہوں نے تم سے اتنی اتنی نیکیاں کی ہیں اور ہمیشہ شکرگزاری کے ساتھ اُن سے نیک سلوک کرنے کی تلقین فرماتیں۔ حضرت مصلح موعودؓ کی نوازشات کا ذکر تو انتہائی شکرگزاری کے ساتھ اکثر وبیشتر آپؓ کے لبوں پر ہوتا۔
حضرت اماں جیؓ کی درویشانہ اور انتہائی سادہ زندگی پر نظر ڈالتے ہیں تو بلاشبہ اُن کی ذات اُن ’’تہی داستانِ عشرت‘‘ میں سے نظر آتی ہے جن کے بارہ میں مالک عرش عظیم نے اپنے پیارے بندے کو آسمان سے پکار کر کہا تھا

؎ می خواہد نگارِ من تہید ستانِ عشرت را

یعنی میرا محبوب بھی اس کو پسند کرتا ہے جو خالی ہاتھ ہوتا ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں