حضرت شیخ محمد شفیع سیٹھی صاحبؓ

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 23؍اکتوبر 2008ء میں مکرم غلام مصباح بلوچ صاحب کا ایک مضمون شامل اشاعت ہے جس میں حضرت شیخ محمد شفیع صاحبؓ کی سیرۃ و سوانح بیان کی گئی ہے۔
حضرت شیخ محمد شفیع سیٹھی صاحبؓ ولد میاں حیات بخش صاحب آف جہلم شہر قریباً 1863ء میں پیدا ہوئے اور 1893ء میں بیعت کی سعادت پائی۔ آپؓ کا نام کبار 313 صحابہ کی فہرست میں 183نمبر پر ’’میاں محمد صاحب۔جہلم‘‘ درج ہے۔ آپ بیان کرتے ہیں حضرت مولوی برہان الدین صاحب جہلمیؓ مجھے اسی نام سے پکارتے تھے سو انہوں نے یہی نام لکھوادیا۔
حضرت سیٹھی صاحبؓ فرماتے ہیں کہ بچپن سے ہی مہدی کی آمد کی روایات سن کر دعا کرتا تھا کہ یا اللہ مجھے بھی اُس سے ملادے۔ پھر بڑے ہوکر آپ نے دکان کرلی۔ اُس زمانہ میں جہلم سے حضرت مولوی برہان الدین صاحبؓ قادیان جایا کرتے تھے۔ اُن سے آپکا بہت تعارف تھا کیونکہ پہلے دونوں اہل حدیث تھے۔ 1891ء میں حضرت مسیح موعودؑ کے دعویٰ کا جہلم میں بہت شہرہ ہوا۔ ایک دن آپ اپنے محلہ کی مسجد میں نماز پڑھنے گئے تو جماعت ہو چکی تھی۔ حافظ غلام محی الدین بھیرویؓ، جو کہ حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کے شیر بھائی تھے، کی اقتداء میں آپ نے نماز ادا کی۔ وہ بیعت کر چکے تھے۔
آپ بیان فرماتے ہیں کہ جب نماز ادا کرکے میں گھر آرہا تھا تو راستہ میں مجھے قادیان جانے کا خیال آیا اور اپنے ایک رشتہ دار کو کہا کہ میرے ساتھ قادیان چلو نصف کرایہ دیتا ہوں، اُس نے کہا مجھے فرصت نہیں۔ معاً مجھے احمدیوں کی حضورؑ سے محبت اور مخالفین کی بدزبانی یاد آئی۔ میرا بڑا بھائی شیخ قمرالدین قادیان سے ہو آیا تھا مگر بیعت سے محروم رہا تھا لیکن قادیان کی مہمان نوازی کی صفت ضرور کرتا رہا۔ چنانچہ میں نے دکان کی چابیاں گھر والوں کو دیدیں اور کہا کہ بھائی کو کہنا کہ دکان لگائیں اور خود ریل میں سوار ہوکر روانہ ہوا۔ یہ سب واقعہ اُسی ایک روز کا ہے۔
دوسرے روز (غالباً جمعرات کو) ایک بجے قادیان پہنچا۔ مسجد مبارک میں مولوی نورالدین صاحبؓ نے مجھ سے حال دریافت کیا۔ نماز ظہر کے بعد حضرت مسیح موعودؑ سے تعارف ہوا۔ میں نے جب دیکھا تو ان کے نورانی چہرہ کو دو منٹ تک بھی نظر بھر کر نہ دیکھ سکا، یہ ہستی جھوٹ بولنے والی نہیں ہے۔ میں نے گول کمرہ میں جمعہ سے پہلے اکیلے حضرت مسیح موعودؑ کے ہاتھ پر بیعت کرلی۔
ادھر میری روانگی کے بعد میرے بھائی اور عزیزوں نے پروپیگنڈا کیا کہ جب محمد شفیع قادیان سے آئے گا تو قادیان کا نام نہ لے گا۔ جب میں دو تین روز بعد واپس پہنچا اور دکان پر گیا تو میرے بھائی نے پوچھا کہ کہاں گیا تھا؟ میں نے صاف قادیان کا کہا تو وہ خاموش ہوگیا۔ پھر میں قادیان گاہ بگاہ جاتا رہا۔ ناواقفیت کے باعث تھوڑا ٹھہرتا۔ حضرت صاحب سے اجازت طلب کی تو فرمایا اَور ٹھہرو۔ ایک روز حضور سے ملاقات کے لیے گیا تو حضورؑ چھت پر تشریف لے گئے وہاں کیا دیکھا کہ دونوں طرف کاغذ، قلم دوات ہے، آتے جاتے کچھ نوٹ کرتے ہیں۔ اسی طرح قادیان آنے جانے کا سلسلہ لگا رہا۔ قصبہ کے مشرقی جانب ڈھاب تھی وہاں ہم وضو کرتے تھے۔ ایک دن حضورؑ نے سیر کو جاتے قصبہ کے مشرقی جانب ایک مسجد دکھائی اور فرمایا کہ یہ مسلمان نمبرداروں کی مہربانی سے دھرم سال بنی ہے جس میں وضو کرنے کی جگہ بنی ہے، نالی پختہ ہے، کنواں موجود، غسل خانے موجود، وہاں دو سکھ بیٹھے تھے۔ حضور باہر جاتے تو مسجد نور کی بڑے بڑ کی جڑوں پر تشریف فرما ہوتے اور دیگر ساتھی زمین پر بیٹھ جاتے، فرمایا کرتے کہ یہ جنگل منگل بن جائے گا، یہ قصبہ بیاس دریا تک جائے گا اور بڑے بڑے پیٹ والے جوہری جو بازار کی زینت ہوتے ہیں بڑے بڑے بازاروں میں بیٹھا کریں گے۔
جس روز 313 صحابہؓ شمار میں آئے تو خاکسار وہیں تھا۔ جب مدرسہ احمدیہ والی جگہ میں پہلا یا دوسرا جلسہ ہوا تو حضرت صاحبزادہ مرزا محمود احمد صاحبؓ نے تقریر فرمائی تو خلیفۃ المسیح الاولؓ نے فرمایا کہ جو معارف قرآن تقریر میں میاں صاحب نے فرمائے مجھے بھی یاد نہیں تھے۔ یہ بچہ کچھ ہوکر رہے گا اور دنیا کو کچھ دکھائے گا۔
جب حضرت مسیح موعودؑ 1903ء میں بمقدمہ کرم دین جہلم تشریف لائے، اس روز جمعہ تھا۔ ہماری جماعت نے وسیع پیمانہ پر انتظام کیا ہوا تھا۔ مکانات، کوٹھیاں لی ہوئی تھیں۔ روٹی کھانے والے احمدیوں کی تعداد ساڑھے چار صد تھی۔ کچہریوں میں دیکھنے والے ہزاروں تھے۔ تمام راشن کا انتظام میرے سپرد تھا۔ جگہ کی قلت کے باعث لوگ درختوں پر چڑھ کر حضور کو دیکھتے رہے۔ ہفتہ والے روز کچہری میں پیشی تھی۔ حضور اتوار کے روز شہر اور بازار سے پیدل ہوتے ہوئے سٹیشن پر تشریف لائے۔ بہت سے لوگوں نے بیعت کی۔
جہلم میں بہت مخالفت رہی۔ میں نے اپنے مخالف بھائی سے کہا کہ میرے سامنے حضرت صاحب کی ہجو نہ کیا کرو میں ان کے متعلق تجھے کچھ نہ کہا کروں گا مگر وہ باز نہ آیا، ناچار میں اس سے الگ ہوگیا۔ اُس نے مجھے بڑی مالی ضرب لگائی، میرے بچو ں کی منگنیاں رکوا دیں مگر میں نے معاملہ خدا کے سپرد کیا۔ مخالفت بڑھتی گئی مگر اللہ نے ہر میدان میں کامیاب ثابت کیا اور خدا نے احمدیوں کے ہاں رشتہ کی تجویزوں کو کامیاب کیا، پھر مخالف رشتے دیتے تھے مگر نہ لیے۔ میں 1917ء میں اپنی دکان جہلم سے منتقل کرکے حافظ آباد چلا گیا اور 1919ء تک وہاں رہا۔
حضرت شیخ محمد شفیع سیٹھی صاحبؓ نے 22؍ اکتوبر 1941ء کو بعمر 78سال وفات پائی اور جہلم کے قبرستان میں تدفین ہوئی۔ بوجہ موصی ہونے کے یادگاری کتبہ بہشتی مقبرہ قادیان میں لگایا گیا۔ آپ کی اولاد میں پانچ بیٹے اور تین بیٹیاں تھیں۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں