حضرت مولوی عبدالغفور صاحبؓ شہید

ماہنامہ ’’خالد‘‘ ربوہ جولائی 2011ء میں مکرم بشارت احمد صاحب کے قلم سے تین شہدائے احمدیت کا تذکرہ حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کے ایک خطبہ جمعہ کے حوالے سے شائع ہوا ہے۔
ضلع ہزارہ کی تحصیل مانسہرہ کے حضرت مولوی عبدالغفور صاحب دس برس کی عمر میں قادیان پہنچے اور 1906ء میں حضرت مہدی معہود علیہ السلام کی بیعت سے مشرف ہوئے۔ آپؓ کو قادیان کی سے اس قدر محبت اور عقیدت ہو گئی کہ اپنے بڑے بھائی حضرت حکیم نظام جان صاحبؓ کو بھی آنے کی ترغیب دی جس پر حکیم صاحبؓ مستقل ہجرت کرکے قادیان ہی کے ہو گئے۔
حضرت مولوی صاحبؓ کا معمول تھا کہ روزانہ اذان سے پہلے اٹھتے اور اپنے ملازم کو ہمراہ لے کر دریا سے پار چکیوں پر چلے جاتے تھے ۔ نماز فجر وہیں ادا کرتے اوراسی عرصہ میں ان کا سات سالہ بچہ عبداللطیف چائے لے کر وہاں پہنچ جاتا۔ دونوں ناشتہ کرتے اور زمین کی دیکھ بھال کے بعد اپنے گاؤں لَوٹ آتے ۔
21؍ستمبر کی صبح آٹھ بجے آپ اپنے بچے عبداللطیف کو لے کر اپنے گھرسے پن چکیوں کی نگہداشت کے لئے نکلے ۔ چار فرلانگ تک گئے تھے کہ ایک کمین گاہ سے دنوں پر بندوق کافائر کیا گیا ۔ اور پھر دونوں کو کلہاڑی سے شہید کر دیا گیا ۔ ظالم قاتل بھاگ گئے اور بے گوروکفن لاش کی نگرانی آپ کاگھریلوکتا کرتارہا جو کبھی آپ کی نعش کی طرف جاتا اورکبھی ان کے بچے کی نعش کی طرف جاتا تھا۔
حضرت مولوی عبدالغفور صاحبؓ نے اپنے پیچھے ایک بیوہ، تین لڑکے اور تین لڑکیاں یادگارچھوڑیں۔
حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ نے اپنے خطبہ جمعہ میں شہید مرحوم کا ذکرخیر کرتے ہوئے فرمایا کہ ان سب کے خاندان گواہ ہوں گے کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر کتنے فضل نازل فرمائے ہیں۔ دنیا تو ان واقعات کو بھول سکتی ہے مگر خدا کبھی نہیں بھولتا اور اپنے بے شمارانوار کے ذریعے ان کی اولاد در اولاد پر ثابت کرتا چلا جاتا ہے کہ تم جو کچھ دنیا میں پا رہے ہو اور جو آخرت میں پاؤگے و ہ تمہارے بزرگ شہداء کی برکت ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں