خطبہ جمعہ سیدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 26؍جون 2009ء

عبادتوں کے اسلوب بھی ہمیں حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہی سکھائے
ہر احمد ی کی ذمہ داری ہے کہ حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کے علم کلام کی جگالی بھی کرتا رہے۔ جو پڑھ سکتے ہیں وہ پڑھیں۔ جو سن سکتے ہیں وہ سنیں اور اس کے مطابق پھر اپنی زندگیاں گزارنے کی کوشش کرتے رہیں
یہ معیار ہے جو حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے مقرر فرمایا ہے کہ عبادتوں سے اللہ تعالیٰ سے تعلق بڑھے اور عبادتوں کے اثرات معاشرے کے تعلقات میں بھی نظر آئیں
کسی کا علم، کسی کاصائب الرائے ہونا، کسی کی انتظامی صلاحیت میں اعلیٰ مقام حاصل کرنا، نہ اس کو بحیثیت احمدی کوئی فائدہ دے سکتا ہے۔ نہ جماعت کو ایسے شخص کے علم، عقل اور دوسری صلاحیتوں سے کوئی دیرپا فائدہ پہنچ سکتا ہے۔ اگر خداتعالیٰ کا خوف اور خالص ہو کر اس کی عبادت کی طرف توجہ پیدا نہ ہو تو یہ سب چیزیں فضول ہیں۔
حضرت صاحبزادی امتہ القیوم صاحبہ بنت حضرت مصلح موعودؓ کی وفات پر ان کے شمائل اور خوبیوں کا تذکرہ
(حضر ت صاحبزادی امتہ القیوم صاحبہ، میجر افضال احمد صاحب، احمد جمال صاحب ابن محمد محسن صاحب، خالد رشید صاحب ابن مکرم رشید احمد صاحب اور مکرم ظفر اقبال صاحب ابن مکرم لعل دین صاحب مرحومین کا ذکر خیر اور نماز جنازہ غائب)
خطبہ جمعہ سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
فرمودہ مورخہ 26؍جون 2009ء بمطابق26؍احسان 1388 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح، لند ن (برطانیہ)

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں – چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

گزشتہ خطبہ میں مَیں نے خطبہ کے آخر میں قرآن کریم کی آیات کی روشنی میں یہ ذکر کیا تھا کہ اللہ تعالیٰ انہی لوگوں کے گھروں کو بلندی عطا فرماتا ہے جو آنحضرت ﷺ کے نُور سے حصہ پاتے ہیں اور اس نُور سے حصہ پاتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی تعلیم کے مطابق اللہ تعالیٰ کے ذکر کو بلند کرتے ہیں۔ اپنی عبادتوں اور اعمال صالحہ کی طرف توجہ کرتے ہیں۔ اس ضمن میں حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنی جماعت کو جو نصائح فرمائی ہیں آج مَیں ان کا کچھ ذکر کروں گا۔
اللہ تعالیٰ نے انسان کی پیدائش کا مقصد ہی عبادت فرمایا ہے۔ لیکن عبادت کس طرح ہو؟ اور کس طرح کی ہو؟ اس زمانہ کے امام نے جو اللہ تعالیٰ کے رسول ﷺ کے نور سے سب سے زیادہ حصہ پانے والے ہیں اور
جو اللہ تعالیٰ کے احکامات کا سب سے زیادہ فہم و ادراک رکھنے والا تھا۔ اس بارے میں ہماری راہنمائی اُس قرآنی تعلیم کی روشنی میں فرمائی ہے جس کا ادراک آپؑ کو عطا فرمایا گیا۔ اس کی روشنی میں بھی مَیں آج بیان کروں گا۔
ہم جو احمدی کہلاتے ہیں ہم پر خداتعالیٰ کا آج یہ بہت بڑا احسان ہے کہ زمانہ کے امام کو قبول کرکے ہمیں ہر وقت اور ہر معاملہ میں راہنمائی ملتی ہے اور حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کے بعد خلافت کے جاری نظام او ر مرکزیت کی وجہ سے توجہ دلائی جاتی رہتی ہے اور خلافت اور جماعت کے ایک خاص رشتے اور تعلق کی وجہ سے جو کہ عہد بیعت کی وجہ سے مضبوط سے مضبوط تر ہوتا رہتا ہے، بغیر کسی انقباض کے اصلاح کی طرف توجہ دلانے پر توجہ ہو جاتی ہے۔ جبکہ دوسرے مسلمان جو ہیں اس نعمت سے محروم ہیں۔
گزشتہ دنوں مجلس خدام الاحمدیہ UK کی عاملہ اور ان کے قائدین کے ساتھ ایک میری میٹنگ تھی کسی بات پرمَیں نے انہیں کہہ دیا کہ تم لوگ میری باتوں پر عمل نہیں کرتے۔ اس کے بعد صدر صاحب خدام الاحمدیہ میرے پاس آئے۔ جذبات سے بڑے مغلوب تھے۔ تحریری طورپر بھی معذرت کی کہ آئندہ ہم ہر بات پر مکمل عمل کرنے کی کوشش کریں گے اور اسی طرح عاملہ کے اراکین جو تھے انہوں نے بھی معذرت کے علیحدہ علیحد خط لکھے۔ تو یہ تعلق ہے خلیفہ اور جماعت کا۔ اس کو دیکھ کر دل اللہ تعالیٰ کی حمد اور شکر سے بھر جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس مادی دور میں، اس مادی ملک میں، وہ لوگ رکھے ہیں جو دنیاوی تعلیم سے آراستہ ہیں اور دنیاوی کاموں میں مصروف ہیں لیکن دین کے لئے اور خلافت سے تعلق کے لئے مکمل اخلاص و وفا دکھانے والے ہیں۔ اور یہ سب اس لئے ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے خداتعالیٰ سے تعلق کے طریق ہمیں سکھائے۔ ہماری عبادتیں بھی خالص اللہ تعالیٰ کے لئے ہوتی ہیں اور ہونی چاہئیں جو ہمیں ہماری ذمہ داریوں کی طرف بھی توجہ دلاتی ہیں اور حقوق العبادکی ادائیگی کی طرف بھی توجہ دلاتی ہیں۔ لیکن دوسرے مسلمان اس سے محروم ہیں۔
گزشتہ دنوں ایک غیر از جماعت دوست ملنے کے لئے آئے۔ بڑے پڑھے لکھے طبقہ کے ہیں اور میڈیا میں بھی معروف مقام رکھتے ہیں۔ کہنے لگے کہ کیا وجہ ہے کہ پاکستان میں خاص طور پر مساجد آج کل اس طرح آباد ہیں جو گزشتہ 62سال میں دیکھنے میں نہیں آئیں۔ حج پر جانے والے ہمیں اتنی تعداد میں نظر آتے ہیں جو پہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آتے۔ پھر اور کئی نیکیاں انہوں نے گنوائیں۔ پھر کہنے لگے کہ کیا وجہ ہے کہ اس کے باوجود وہ اثرات اور وہ نتائج نظر نہیں آتے جو ہونے چاہئیں۔ پھر خود ہی انہوں نے کہا کہ مسجد کے باہرکے معاملات اصل میں صاف نہیں ہیں اور یہ اس لئے کہ دل صاف نہیں ہیں۔ مسجد سے باہر نکلتے ہی معاملات میں ایک قسم کی کدورت پیدا ہونی شروع ہو جاتی ہے۔ مَیں نے انہیں کہا کہ ایک بات تو یہ ہے جو ہمیں یاد رکھنی چاہئے کہ ہماری عبادتیں، ہماری نمازیں، ہماری دوسری نیکیاں تبھی فائدہ مند ہو سکتی ہیں جب ہمارے اپنے خود کے جائزے بھی ہوں۔ اس بات پر خوش ہوجانا کہ ہم عبادت کر رہے ہیں یاہم اپنے آپ پر اسلامی رنگ کا اظہار کر رہے ہیں، ہمارے حلیے سے ہماری حالتوں سے اسلامی رنگ کا اظہار ہوتا ہے تو یہ تو کوئی نیکی نہیں ہے۔
حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ایک فقرہ مجھے یاد آیا مَیں نے انہیں بتایا کہ’’یہ لوگوں کا کام بے شک ہے کہ تمہارے اعمال کودیکھیں۔ لیکن تمہارا کام ہے کہ ہمیشہ اپنے دل کا مطالعہ کرو‘‘۔
پس اگر لوگ یہ کہتے ہیں کہ بڑا نمازی ہے، بڑا روزہ دار ہے، بڑا حاجی ہے توان چیزوں سے نیکیاں پیدا نہیں ہو جاتیں۔ نیکی کی اصل روح تب پیدا ہوتی ہے جب یہ احساس ہو کہ کیا یہ سب کام مَیں نے خدا کی خاطر کئے ہیں ؟ اور اس کے لئے اپنے دل کے جائزہ کی ضرورت ہے اور جب یہ جائزے ہوں گے تو ان نیکیوں کے جو حقیقی اثرات ہیں وہ ظاہر ہو رہے ہوں گے۔
دوسری بات مَیں نے انہیں یہ کہی کہ آپ لوگ نہیں مانیں گے لیکن حقیقت یہی ہے کہ اس زمانہ کے امام کومانے بغیر آپ ان نیکیوں کی جوگنوا رہے ہیں سمت صحیح نہیں رکھ سکتے۔ صحیح رخ نہیں رکھ سکتے۔ شیطان کا اثر ہر نیکی کو بھی بدنتائج پر منتج کر دیتا ہے۔ مَیں نے انہیں بتایا کہ معاملات صاف نہ ہونے یا دل صاف نہ ہونے یافتنہ و فساد کی وجہ یہ ہے کہ حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کو مانے بغیر اور آپؑ کے بعد خلافت کو مانے بغیر قبلے درست نہیں ہو سکتے۔ حقیقت یہی ہے کہ عبادتوں کے اسلوب بھی ہمیں حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہی سکھائے۔ قرآن وہی ہے، شریعت وہی ہے لیکن اس کا حقیقی فہم و ادراک اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کے غلام صادق کو عطا فرمایا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا حقیقی خوف اور خشیت اور آنحضرت ﷺ سے عشق و محبت ہمارے دلوں میں حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے پیدا فرمائی ہے اور اسے اجاگر کیا ہے۔ پس ہم جس انتہا تک اس کی قدر کریں گے اور اس کے نتیجہ میں اپنے دلوں کو ٹٹولتے رہیں گے ہماری عبادتیں ہمیں فائدہ دیتی رہیں گی۔ پس یہ ہر احمد ی کی ذمہ داری ہے کہ حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کے علم کلام کی جگالی بھی کرتا رہے۔ جو پڑھ سکتے ہیں وہ پڑھیں۔ جو سن سکتے ہیں وہ سنیں اور اس کے مطابق پھر اپنی زندگیاں گزارنے کی کوشش کرتے رہیں۔
حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے بیسیوں جگہ اس بات کی راہنمائی فرمائی ہے کہ عبادت کی حقیقت کیا ہے؟ اور قرآن کریم میں ابتداء میں ہی سورۃ فاتحہ میں یہ دعا سکھائی گئی ہے کہ

اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ (الفاتحہ:5)۔

اس کا حقیقی مطلب کیا ہے؟ ہم روزانہ نماز میں پڑھتے ہیں اور اس کو پڑھ کرگزر جاتے ہیں۔ لیکن اگر حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی نظر سے دیکھیں تو حقیقت ظاہر ہوتی ہے۔
آپؑ ایک جگہ فرماتے ہیں کہ، ’’اللہ تعالیٰ کے الفاظ اِیَّا کَ نَعْبُد میں ایک اور اشارہ ہے اور وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ اس(آیت) میں اپنے بندوں کو اس بات کی ترغیب دیتا ہے کہ وہ اس کی اطاعت میں انتہائی ہمت اور کوشش خرچ کریں اور اطاعت گزاروں کی طرح ہر وقت لبیک لبیک کہتے ہوئے(اس کے حضور) کھڑے رہیں۔ گویا کہ یہ بندے یہ کہہ رہے ہیں کہ اے ہمارے ربّ !ہم مجاہدات کرنے، تیرے احکام کے بجا لانے اور تیری خوشنودی چاہنے میں کوئی کوتاہی نہیں کر رہے لیکن تجھ سے ہی مدد چاہتے ہیں اور عُجب اور ریا میں مبتلا ہونے سے تیری پناہ مانگتے ہیں ‘‘۔ (ہمارا کوئی عمل ایسا نہ ہو جو صرف دکھانے کے لئے ہو)۔ ’’اور ہم تجھ سے ایسی توفیق طلب کرتے ہیں جو ہدایت اور تیری خوشنودی کی طرف لے جانے والی ہو اور ہم تیری اطاعت اور تیری عبادت پر ثابت قدم ہیں۔ پس تو ہمیں اپنے اطاعت گزار بندوں میں لکھ لے‘‘۔
فرمایا:’’اور یہاں ایک اوراشارہ بھی ہے اور وہ یہ کہ بندہ کہتا ہے کہ اے میرے ربّ! ہم نے تجھے معبودیت کے ساتھ مخصوص کر رکھا ہے اور تیرے سوا جو کچھ بھی ہے اس پر تجھے ترجیح دی ہے۔ پس ہم تیری ذات کے سوا اور کسی چیز کی عبادت نہیں کرتے اور ہم تجھے واحد اور یگانہ ماننے والوں میں سے ہیں ……‘‘۔
فرمایا:’’……یہ دعا تمام بھائیوں کے لئے ہے نہ صرف دعا کرنے والے کی اپنی ذات کے لئے۔ اور اس میں (اللہ نے) مسلمانوں کو باہمی مصالحت، اتحاد اور دوستی کی ترغیب دی ہے اور یہ کہ دعا کرنے والا اپنے آپ کو، اپنے بھائی کی خیر خواہی کے لئے اسی طرح مشقت میں ڈالے جیسا کہ وہ اپنی ذات کی خیر خواہی کے لئے اپنے آپ کو مشقت میں ڈالتا ہے اور اس کی(یعنی اپنے بھائی کی) ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے ایسا ہی اہتمام کرے اور بے چین ہو جیسے اپنے لئے بے چین اور مضطرب ہوتا ہے اور وہ اپنے اور اپنے بھائی کے درمیان کوئی فرق نہ کرے اور پورے دل سے اس کا خیر خواہ بن جائے۔ گویا اللہ تعالیٰ تاکیدی حکم دیتا ہے اور فرماتا ہے کہ اے میرے بندو! بھائیوں اور محبّوں کے(ایک دوسرے کو) تحائف دینے کی طرح دعا کا تحفہ دیا کرو (اور انہیں شامل کرنے کے لئے)اپنی د عاؤں کا دائرہ وسیع کرو اور اپنی نیتوں میں وسعت پیدا کرو۔ اپنے نیک ارادوں میں (اپنے بھائیوں کے لئے بھی) گنجائش پیدا کرو اور باہم محبت کرنے میں بھائیوں، باپوں اور بیٹوں کی طرح بن جاؤ‘‘۔
(اردو ترجمہ از کتاب کرامات الصادقین۔ روحانی خزائن جلد 7صفحہ 122-121۔ بحوالہ تفسیر حضرت مسیح موعودعلیہ السلامجلد اول صفحہ 193-192)
حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی ایک عربی کتاب کرامات الصادقین ہے یہ اس میں سے کچھ حصے کا ترجمہ ہے۔ پس یہ ہے عبادات کے نیک نتائج اور اثرات پیدا کرنے کا طریق۔ نیتوں میں وسعتوں کی ضرورت ہے۔ اگر صرف اپنے ذاتی مفادات پیش نظر ہوں گے تو عبادتیں وہ معیار حاصل نہیں کر سکتیں۔ ان کے نیک نتائج برآمد نہیں ہوسکتے۔ اگر عبادتوں کے بعد ایک دوسرے کے لئے محبت کے سوتے نہیں پھوٹتے تو عبادتیں محل نظر ہیں۔ اگر دوسرے مسلمانوں کی مساجد میں چلے جائیں تو اکثر جگہ سے آج کل حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام اور آپؑ کی جماعت کے خلاف مغلّظات ہی سننے میں آتی ہیں۔ جب مسجدوں میں اس طرح دریدہ دہنی ہو رہی ہو تو ان مقتدیوں پر ان عبادات کا کیا اثر پڑنا ہے جو ان بیہودہ گوئیاں کرنے والوں کے پیچھے نمازیں پڑھتے ہیں۔ اور پھر باہر آکر ایسے لوگوں نے کیا معاملات صاف کرنے ہیں۔ اور جہاں تک احمدیوں کا تعلق ہے ہمیں حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے کیا تعلیم دی ہے؟ ایسی باتیں سننے کے بعد فرمایا ’’صبر بڑا جوہر ہے۔ جماعت کو چاہئے کہ صبر سے کام لے‘‘۔
بعض دفعہ ایسی باتیں سن کے، جلسے سن کے یا گالیاں سن کے بعض جگہ لوگ بے صبری دکھاتے ہیں۔ گزشتہ دنوں ہندوستان میں بھی واقعات ہوئے ہیں۔ وہاں بھی لوگوں نے بڑے بے صبری کے خط لکھے یا کوئی اِکّا دُکّا احمدی (بے صبری) دکھا بھی دیتا ہے۔ تو فرمایا کہ:’’جماعت کو چاہئے کہ صبر سے کام لے اور مخالفین کی سختی پر سختی نہ کرے اور گالیوں کے عوض میں گالی نہ دے۔ اللہ تعالیٰ اس کی تائید کرتا ہے جو صبر سے کام لے۔ مَیں اس کو پسند نہیں کرتا کہ ہماری جماعت کے لوگ کسی پر حملہ کریں یا اخلاق کے برخلاف کوئی کام کریں ‘‘۔ فرمایا ’’خداتعالیٰ کے الہامات کی تفہیم بھی یہی ہے کہ بردباری کریں ‘‘۔
(ملفوظات جلد چہارم صفحہ 517)
پھر آپؑ نے فرمایا کہ:’’ہمارا مذہب یہی ہے کہ ہم بدی کرنے والے سے نیکی کرتے ہیں‘‘۔ فرمایا ’’ہم ان سے سلوک کرتے ہیں اور ان کی سختیوں پر صبر کرتے ہیں۔ تم ان کی بدسلوکیوں کو خد اپر چھوڑ دو‘‘۔
(ملفوظات جلد پنجم صفحہ 130)
جب خدا پر چھوڑو گے تو خداتعالیٰ کی طرف توجہ پیدا ہو گی۔ اور عبادت کرو گے پھر خداتعالیٰ انشاء اللہ مدد کو آئے گا۔
پھر آپ نے ہمیں دشمن کے لئے بھی دعا کرنے اور سینہ صاف رکھنے کا حکم فرمایا۔ یہ چیزیں ہیں جو عبادتوں کے معیار قائم کرتے ہوئے اس کے اثرات اور نیک نتائج پیدا کرتی ہیں اور معاشرے کی ان خطوط کی طرف راہنمائی کرتی ہیں جو اسلامی تعلیم کے مطابق ہے۔ پس یہ چیز ہے جو ہر احمدی کو اپنے اندر پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ ورنہ صرف حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کو قبول کرنا آپؑ کو مسیح موعود مان لینا تو کوئی فائدہ نہیں دے گا۔ بلندیوں کا حصول اس تعلیم پر عمل کرنے کی کوشش کی وجہ سے ہو گا جو حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہمیں دی ہے۔ اس میں توکوئی شک نہیں اور ہر وہ شخص جو اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہے وہ اس بات پہ یقین رکھتا ہے اور نماز کو ایک بنیادی رکن سمجھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے بھی اس کی بار بار تاکید فرمائی ہے اور آنحضرت ﷺ نے بھی۔ بلکہ ایک دفعہ ایک قوم مسلمان ہوئی اور اپنی کاروباری مصروفیات کی وجہ سے کام کاعذر کرتے ہوئے یہ درخواست کی کہ ہمیں نماز معاف کر دی جائے تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ یاد رکھو کہ جس مذہب میں خداتعالیٰ کی عبادت نہیں وہ مذہب ہی نہیں۔
تو یہ نماز کی اہمیت ہے۔ ایک عام مسلمان بھی جانتاہے۔ چاہے وہ نماز پڑھتا ہے یا نہیں پڑھتا۔ لیکن مسلمانوں کو اور ہر وہ شخص جو اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہے اسے ہر وقت یہ یاد رکھنا چاہئے کہ نماز پڑھنی کس طرح ہے؟ جیسا کہ مَیں نے ایک غیر از جماعت دوست کی بات کا حوالہ دیا تھاکہ نمازیں بھی پڑھتے ہیں اس کے باوجود ہمیں نہیں پتہ کہ معاملات کیوں صاف نہیں ہیں؟ ایک بہت بڑا طبقہ ان میں بھی ایسا ہے جو باوجود عبادت کو ایک اہم دینی فریضہ سمجھنے کے بہت سے جو ہیں وہ صرف دکھاوے کے لئے ادا کررہے ہوتے ہیں۔ اس لئے بدقسمتی سے جواس کے اثرات ہیں وہ اس پر نہیں پڑتے کیونکہ حقیقی رنگ میں عبادت ادا نہیں کی جاتی۔ بعض ایسے ہیں جو کوشش کرتے ہیں کہ توجہ سے نماز ادا کریں لیکن وہ بھی نمازوں کی روح اور اس کی گہرائی کو نہیں سمجھتے۔ کیونکہ جس روحانی چشمہ کو اس زمانہ میں خداتعالیٰ نے یہ فہم و ادراک عطا کرنے کے لئے جاری فرمایا تھا، اس کے فیض سے ان کے نام نہاد علماء نے انتہائی خوفزدہ کرکے دور رکھا ہوا ہے۔ اور آج ہم احمدی خوش قسمت ہیں کہ اس زمانہ کے اس روحانی چشمہ سے فیض اٹھا رہے ہیں جس کا منبع آپ کے آقا و مطاع حضرت محمد مصطفی ﷺ ہیں اور اب دنیا کی روحانی حالت کی تبدیلی اور اللہ تعالیٰ کی آخری شریعت کے قیام کے لئے اللہ تعالیٰ نے آپ علیہ السلام کو ہی چنا ہے۔
حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے عبادتوں کے معیار حاصل کرنے کے لئے کس طرح راہنمائی فرمائی ہے؟ اور ہم سے کیا چاہتے ہیں؟ وہ چند باتیں میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں۔
آپ ایک جگہ فرماتے ہیں۔ ’’بعض لوگ مسجدوں میں بھی جاتے ہیں نمازیں بھی پڑھتے ہیں اور دوسرے ارکان اسلام بھی بجا لاتے ہیں۔ مگر خداتعالیٰ کی مدد اور نصرت ان کے شامل حال نہیں ہوتی اور ان کے اخلاق اور عادات میں کوئی نمایاں تبدیلی دکھائی نہیں دیتی جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کی عبادتیں بھی رسمی عبادتیں ہیں۔ کیونکہ احکام الٰہی کا بجا لانا تو ایک بیج کی طرح ہوتا ہے جس کا اثر روح اور وجود دونوں پر پڑتا ہے۔ ایک شخص جو کھیت کی آبپاشی کرتا ہے اور بڑی محنت سے اس میں بیج بوتا ہے۔ اگر ایک دو ماہ تک اس میں انگوری نہ نکلے (یعنی اس کی سبزی نہ نکلے) تو ماننا پڑتا ہے کہ بیج خراب ہے۔ یہی حال عبادت کا ہے۔ اگر ایک شخص خدا کو وحدہٗ لاشریک سمجھتا ہے، نمازیں پڑھتا ہے، روزے رکھتا ہے، اور بظاہر احکام الٰہی کو حتی الوسع بجا لاتا ہے لیکن خداتعالیٰ کی طرف سے کوئی خاص مدد اس کے شامل حال نہیں ہوتی تو ماننا پڑتا ہے کہ جو بیج وہ بو رہا ہے وہی خراب ہے‘‘۔
(ملفوظات جلد پنجم صفحہ 387-386)
پس یہ معیار ہے جو حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے مقرر فرمایا ہے کہ عبادتوں سے اللہ تعالیٰ سے تعلق بڑھے اور عبادتوں کے اثرات معاشرے کے تعلقات میں بھی نظر آئیں۔
بعض لوگ صرف ذاتی مقاصد کے لئے دعائیں کرکے کہتے ہیں کہ بہت دعائیں کیں، قبول نہیں ہوئیں۔ انہوں نے صرف اپنی ذاتی دعاؤں کی قبولیت ہی کو اللہ تعالیٰ سے تعلق کا معیار بنایا ہوتا ہے۔ جبکہ اللہ تعالیٰ نے اگر یہ فرمایا ہے کہ جب دعائیں کرو مَیں تمہاری دعائیں قبول کروں گا۔ تو یہ بھی فرمایا کہ مَیں جان مال، اولاد کے نقصان سے تمہیں آزماؤں گا۔ پس ہماری عبادتیں اللہ تعالیٰ کا قرب پانے اور دلی اطمینان کے لئے ہونی چاہئیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے میری عبادت کرو، میرا ذکر کرو، مَیں تمہیں اطمینان بخشوں گا اور اگر اس میں بہتری کی طرف قدم اٹھ رہے ہیں۔ اگرہم اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے معاشرے میں امن و سلامتی کے لئے کوشاں ہیں تو یہ بھی عبادتوں کے نیک اثرات ہیں۔ چاہے ہماری ذاتی دعائیں قبول ہوتی ہیں یا نہیں ہوتیں لیکن ایک تعلق خداتعالیٰ سے بڑھ رہا ہوتا ہے اور یہی چیز پیدا کرنے کے لئے حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام مبعوث ہوئے تھے کہ اللہ تعالیٰ سے محبت اور مخلوق کی ہمدردی دلوں میں پیدا ہو اور یہی عبادتوں کا مقصد ہے۔ پس اس کے حصول کے لئے ہر احمدی کو کوشش کرنی چاہئے اور اپنی عبادتوں کے معیار بلند کرنے چاہئیں۔
حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کے نزدیک نمازوں کی کیا حالت ہونی چاہئے اس کی طرف راہنمائی کرتے ہوئے ایک جگہ آپؑ فرماتے ہیں کہ:
’’نماز سے وہ نمازمراد نہیں جو عام لوگ رسم کے طور پرپڑھتے ہیں بلکہ وہ نماز مراد ہے جس سے انسان کا دل گداز ہو جاتا ہے اور آستانہ احدیت پر گر کر ایسا محو ہو جاتا ہے کہ پگھلنے لگتا ہے‘‘۔ پھر آپؑ فرماتے ہیں کہ ’’یاد رکھو یہ نماز ایسی چیز ہے کہ اس سے دنیا بھی سنور جاتی ہے اور دین بھی‘‘۔
(ملفوظات جلد پنجم صفحہ 403-402)
پس ان بے شمار نصائح کے خزانے میں سے یہ چند باتیں ہیں جو حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہمیں فرمائی ہیں تاکہ ہم اپنے دین اور دنیا کو سنوارنے والے بن سکیں۔ آج جب ہم دنیا کے سامنے حضرت
مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کا دعویٰ پیش کرتے ہیں اور معاشرے کے سامنے یہ اعلان کرتے ہیں کہ ہم سے پوچھو کہ کیوں مساجد نمازیوں سے بھرے ہونے کے باوجود معاشرے میں ہر طرف بدامنی اور فساد ہے تو اس کے ساتھ ہی ہماری نظر اپنے گریبان پر بھی پڑنی چاہئے۔ ہمیں اپنے اندر بھی جھانکنا چاہئے۔ ہمیں اپنی فکر بھی ہونی چاہئے کہ کہیں ہم اس مقصد کو بھول نہ جائیں جو خداتعالیٰ نے ہماری پیدائش کا بیان فرمایا ہے اور جس کے حصول کے لئے ہم نے اس زمانہ کے امام کے ہاتھ پر بیعت کی ہے اور یہ عہد کیا ہے کہ ہم اس کو نبھائیں گے۔
پس جہاں مَیں عمومی طور پر جماعت کو اس طرف توجہ دلاتا ہوں وہاں خاص طورپر جو کارکنان، عہدیداران اور واقفین زندگی ہیں ان کو سب سے زیادہ اس کے حصول کی طرف توجہ دینی چاہئے۔ اگر کارکنان عہدیداران اور واقفین زندگی اس طرف ایک فکر سے توجہ کریں گے تو جہاں ہماری مسجدوں کی آبادی بڑھ رہی ہو گی وہاں جماعت کی عمومی روحانی حالت میں بھی ترقی ہو گی۔ معاشرہ میں، احمدی معاشرہ میں، خاص طور پر امن، پیار اور حقوق کی ادائیگی کا ایک خاص رنگ پیدا ہو رہا ہو گا۔ عہدیداران کے نمونوں سے افراد جماعت بھی اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایک سے دوسرے کو جاگ لگتی ہے اور اگر کسی کے نمونے سے دوسرے میں پاک تبدیلی پیدا ہو جائے تو اللہ تعالیٰ اس شخص کو بھی اتنا ہی ثواب دیتا ہے جتنا اس شخص کو مل رہا ہے جس نے اپنے اندر پاک تبدیلی پید اکی ہے۔ پس اس طرف خاص طور پر توجہ دیں۔ کسی کا علم، کسی کاصائب الرائے ہونا، کسی کی انتظامی صلاحیت میں اعلیٰ مقام حاصل کرنا، نہ اس کو بحیثیت احمدی کوئی فائدہ دے سکتا ہے، نہ جماعت کو ایسے شخص کے علم، عقل اور دوسری صلاحیتوں سے کوئی دیرپا فائدہ پہنچ سکتا ہے۔ اگر خداتعالیٰ کا خوف اور خالص ہو کر اس کی عبادت کی طرف توجہ پیدا نہ ہو تو یہ سب چیزیں فضول ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس مقام کو حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے جن کی توقعات ہم سے حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمائی ہیں۔
اب مَیں ایک ذکر خیربھی کرنا چاہتا ہوں جو کہ حضرت صاحبزادی امتہ القیوم بیگم صاحبہ کا ہے۔ جن کی دو تین دن پہلے وفات ہوئی ہے

اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّااِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔

آپ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیٹیوں میں سے دوسرے نمبر کی بیٹی تھیں اور صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب کی اہلیہ تھیں۔ آپ حضرت سیدہ امۃ الحئی صاحبہ جو حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کی بیٹی تھیں، کے بطن سے 19ستمبر 1916ء کو پیدا ہوئیں اور قادیان میں ہی اماں جان کے کمرے میں جو بیت الفکر اور مسجد مبارک کے قریب تھا آپ کی پیدائش ہوئی۔ آپ نے مولوی فاضل کی تعلیم حاصل کی۔ پھر ایف اے پاس کیا اور ان کی لجنہ کی جو خدما ت ہیں دو مختلف وقتوں میں چار سا ل تک لجنہ واشنگٹن کی صدر رہیں۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو لجنہ امریکہ کی مشاورتی کمیٹی کا خاص نمائندہ مقرر فرمایا تھا اور تاحیات آپ اس پہ قائم رہیں۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے آخر تک آپ کا ذہن بالکل صاف رہا۔ تقریباً 92سال کی عمر تھی۔ لیکن ذہنی طور پربالکل ایکٹو (active) تھیں۔ حضرت مصلح موعودؓ کے پرانے واقعات اور باتیں سنایا کرتی تھیں۔ بہت غریب پرور تھیں، غریبوں کی چھپ کر بھی مدد کرتیں اور اعلانیہ بھی۔ کئی بیواؤں اور یتیموں کی مستقل مدد کرتی رہتی تھیں۔ اور پھر جماعت سے باہر بھی اور ملکی اور بین الاقوامی چیریٹیز (Charities) جو ہیں ان میں بھی صدقات دیا کرتی تھیں۔ نمازوں میں بڑا خشوع و خضوع ہوتا تھایعنی جو ظاہری نمازیں ہیں۔ نوافل تو چھپ کے انسان پڑھتا ہے لیکن دوسری نمازیں نظر آجاتی ہیں، کئی دفعہ مجھے بھی دیکھنے کا موقع ملا، بڑے جذب اور خشوع سے نمازیں پڑھ رہی ہوتی تھیں۔ ان کا اللہ تعالیٰ سے خاص تعلق تھا۔

فِیْ صَلَاتِھِمْ خٰشِعُوْنَ(المومنون:3)

کی مثال تھیں۔ اور پھر لغویات سے بھی بچنے کی کوشش کرتی تھیں۔ اور

عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْنَ(المومنون:4)

پر بھی عمل کرتی تھیں۔
ان میں عاجزی انکساری بہت تھی۔ باوجود اس کے کہ مرزا مظفر احمد صاحب پاکستان میں بڑے اچھے عہدوں پر رہے۔ ورلڈ بینک میں بھی رہے لیکن آپ کے ہاں جانے والے، ملنے والے ان کو جس طرح وہ خود ملتے تھے، مرزا مظفر احمد صاحب بھی اور آپ بھی بڑی عاجزی سے ان کو ملا کرتے تھے۔ کئی عورتوں نے مجھ سے اس کا ذکر بھی کیا ہے اور افسوس کے جو خط آرہے ہیں ان میں بھی کئیوں نے اس کا اظہار کیا ہے کہ بہت عاجزی اور انکساری سے ملا کرتی تھیں اور دین کی بھی بڑی غیرت رکھتی تھیں۔ ان کوجماعت اور خلافت کی بڑی غیرت تھی۔ پردہ کی بھی بڑی پابند تھیں۔ پردہ میں تو بعض دفعہ اس حد تک چلی جاتی تھیں کہ اگر کسی کو جوچھوٹا عزیز ہے جس سے پردہ نہیں بھی ہے اگر اسے پہچان نہیں رہیں اور وہ گھر میں آگیا تو جب تک پہچان نہ ہو جائے اس سے بھی پردہ کر لیتی تھیں۔ ان کی اپنی اولاد تو کوئی نہیں تھی۔ اپنی بہن صاحبزادی امۃ الجمیل بیگم صاحبہ جو چوہدری فتح محمد صاحب سیال کی بہو تھیں ان کے بیٹے کو انہوں نے گود لیا تھا۔ اسے بڑا پیاردیا اور ہمیشہ اس کی تربیت کی بھی کوشش کرتی رہیں۔ خداتعالیٰ سے تعلق رکھنے کی ہمیشہ تلقین کرتی رہیں۔ اس نے مجھے لکھا کہ بچپن سے ہی ہمیں آنحضرت ﷺ کے حوالے سے اور حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کے حوالے سے چھوٹی چھوٹی کہانیاں سناتی تھیں اور اس طرح اس کے بچوں کو بھی سناتی رہیں۔ ایک بات جو ان کے بارہ میں مجھے عزیزم ظاہر احمد نے لکھی ہے۔ یہ ان کے بھانجے اور لے پالک بیٹے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ قرآن کریم کوبڑے غور سے پڑھا کرتی تھیں اور قرآن کریم پر صفحوں کے صفحے نوٹس لکھے ہوئے ہیں۔
خلافت سے بھی ان کا ایک خاص محبت کا تعلق تھا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ کا دور تو مَیں نے دیکھا ہے۔ بڑے بھائی بھی تھے لیکن ان کے ساتھ تعلق اورخلافت سے جو ایک خاص تعلق ہوتا ہے وہ بہت زیادہ تھا۔ پھر حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ چھوٹے بھائی تھے لیکن خلافت کے بعد انتہائی ادب اور احترام کا تعلق ہوا۔ کسی ایک لکھنے والے نے مجھے لکھا کہ جب اسلام آباد میں پہلا جلسہ ہوا اوریہ جلسہ میں بیٹھی ہوئی تھیں۔ تو اس میں وہیں جلسہ کے بعد حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کا پیغام ملا ان کے ساتھ ڈیوٹی پر جو خاتون تھیں ان کو کہ ان کولے کر فوراً آؤ۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒبلا رہے ہیں۔ تو کہتی ہیں انہوں نے سن لیا اور ان کے تیار ہونے سے پہلے ہی اٹھ کے چل پڑیں اور بڑی تیزی سے اتنا چلیں کہ جو ڈیوٹی والی خاتون تھیں ان کو ساتھ دوڑنا پڑ رہا تھا اور یہ کہتی جاتی تھیں کہ جلدی کرو حضور کا پیغام آیا ہے مجھے بلا رہے ہیں۔ تو یہ بھی اپنے باپ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی ایک تربیت تھی، اور اپنے نانا کی وہ مثال بھی سامنے تھی جس طرح وہ بغیر کچھ لئے حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کے بلاوے پر فوراً دوڑپڑے تھے۔
پھر ان کا میرے سے بھی ایک تعلق تھا۔ میری خالہ تھیں۔ یہ تعلق بھانجے سے زیادہ اس وقت شروع ہوا جب حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے پاکستان میں، ربوہ میں مجھے ناظر اعلیٰ اور امیر مقامی مقرر کیا۔ تو پہلی مرتبہ جب یہ امریکہ سے آئی ہیں تو مَیں ان کے تعلق کودیکھ کرحیران رہ گیا اور شرمندہ بھی ہوتا تھا۔ ایک جماعتی عہدیدار کااحترام اور عزت ایسی تھی جو ہر قسم کے رشتوں سے بالکل مختلف تھی۔ ان کا رویّہ بالکل مختلف تھا اور ان کی سیرت کا یہ پہلو اس وقت مجھ پرکھلاکہ یہ کس طرح عہدیداران کا احترام کرتی ہیں۔ خلافت کے بعد تو پھر یہ تعلق اور بھی بڑھا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ اور حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کے زمانہ میں ان کے ساتھ بھی مَیں نے ان کا تعلق دیکھا ہے اورجب اپنے ساتھ دیکھتا ہوں اور جب مَیں غورکرتاہوں تومجھے کوئی فرق نظر نہیں آتا۔ وہی عزت وہی احترام۔ معمولی سا بھی فرق کہیں نظر نہیں آیا۔ اتنا ادب اور احترام کہ بعض دفعہ شرمندگی ہوتی تھی۔ امریکہ گیا ہوں تو جماعتی پروگرام کی وجہ سے بعض مجبوریاں تھیں اس لئے مسجد کے ساتھ مشن ہاؤس میں ٹھہرنا پڑا۔ جانے سے پہلے انہوں نے اس بات پر زور دیا تھاکہ ان کے ہاں ٹھہروں۔ لیکن بہرحال مجبوری تھی اس کی وجہ سے معذرت کر نی پڑی۔ پھر جب ان کے گھر ان کو ملنے گیا تو ان کی خوشی کی کوئی انتہا نہیں تھی اور آپ کے اس تعلق کی وجہ سے ہی آپ کے اس لے پالک بیٹے اور بھانجے اور بہو کا اور بچوں کا خلافت سے بھی ایک خاص تعلق ہے۔ حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی کتب کا بھی بڑا وسیع مطالعہ تھا۔ کسی نے مجھے بتایا کہ سات مرتبہ انہوں نے ہر کتاب پڑھی تھی لیکن ظاہر احمد نے مجھے بتایا کہ انہوں نے مجھے کہا کہ مَیں نَومرتبہ یہ کتابیں پڑھ چکی ہوں۔
گزشتہ ایک ماہ سے بیمار تھیں۔ بیماری کے ان دنوں میں بھی ایک دو دفعہ فون پر بات ہوئی ہے تو ظاہر نے بتایا کہ ایک دفعہ فون پربات کرنے سے پہلے وہ کوشش کر رہے تھے کہ کچھ کھانا کھا لیں لیکن کھا نہیں رہی تھیں۔ فون پر بات کرنے کے بعد اس نے میراحوالہ دیااور کہا کہ اب تو آپ کی ان سے بات ہو گئی ہے تو کھانا کھا لیں۔ خیر کہتا ہے مَیں دوسرے کاموں میں مصروف ہو گیا۔ تھوڑی دیر بعد دیکھا تو کھانا جو پلیٹ میں رکھا ہوا تھا ختم تھا اور صرف اس لئے کہ اس نے حوالہ یہ دیا تھا کہ آپ کی بات ہو گئی ہے۔ لیکن میرا یہ خیال ہے کہ اس نے کہا ہو گا کہ انہوں نے کہا ہے۔ ذرا اونچا سنتی تھیں اس لئے فون پہ صحیح سمجھ نہیں آئی ہو گی۔ ظاہر کی بات سے انہوں نے یہی سمجھا کہ انہوں نے کہاہے کہ کھانا کھا لیں۔ کیونکہ فوراً اطاعت گزاری تھی اس لئے طبیعت نہ چاہنے کے باوجود بھی آخری بیماری میں بھی فوری طور پر کھانا کھا لیا۔ تو اس قدرباریکیوں کی حد تک ان میں اطاعت تھی۔
بیماری کے دنوں میں انہوں نے اپنے اس بھانجے اور اس کے بچوں اور بہو کو بلایا اور اس نے لکھا ہے کہ تین گھنٹے تک مختلف قسم کی نصیحتیں کرتی رہیں اور پھر یہ کہ ہمارا شکریہ ادا کیا کہ تم لوگ میری بہت خدمت کر رہے ہو۔ حالانکہ ان بچوں کی جو خدمت کی ہوگی وہ اس خدمت کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں جوانہوں نے ان بچوں کی کی تھی۔ بہرحال یہ ان کی بڑائی اور شکر گزاری کا احساس تھا۔ بڑی باریکی کی حد تک انہوں نے اس کا خیال رکھا۔ اللہ تعالیٰ اس بچے کو بھی اور اس کے بچوں کو بھی، اس کی بیوی کو بھی حضرت صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب کی اور صاحبزادی امۃ القیوم کی جو نیکیاں ہیں ان کی تربیت کے زیر اثر جاری ر کھنے کی توفیق دے اور ان کی دعاؤں سے ہمیشہ یہ لوگ حصہ لیتے رہیں اور عاجزی اور انکساری جو ان میں تھی وہ ان بچوں میں بھی ہمیشہ قائم رہے۔
کچھ واقعات ہیں، جو انہوں نے ایک دفعہ خود لکھے ہیں۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کو آپ سے بڑا تعلق تھا۔ (ویسے تو) ہر بچے سے ہی تھالیکن ہر ایک کے ساتھ اپنا اپنا اظہار تھا۔ یہ کہتی ہیں کہ جب میری شادی ہوئی تو حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب کو لکھا کہ مَیں نے اپنی اس بچی کو 14سال تک ہتھیلی کے چھالے کی طرح رکھا ہے۔ اگر کوئی اس کی طرف دیکھتا تھا تو میری نظر فوراً اٹھتی تھی کہ اس آنکھ میں پیار کے سوا کچھ اور تو نہیں۔ اب مَیں اسے تمہارے سپرد کرتا ہوں۔ یاد رکھنا اگر اسے کوئی تکلیف ہوئی تو مَیں اس زندگی میں ہی نہیں بلکہ بعد میں بھی برداشت نہیں کر سکوں گا۔ (مطلب یہ نہیں تھا کہ لڑائی کروں گا۔ مطلب یہ تھا کہ مجھے دلی صدمہ پہنچے گا)۔
(سیرت و سوانح حضرت سیدہ امۃ الحی بیگم صاحبہ صفحہ 111-110لجنہ اماء اللّٰہ لاہور)
تو یہ نمونے ہیں جو ہمارے ہر گھر میں جہاں اس قسم کے جھگڑے ہوتے ہیں ان کو بھی دیکھنے چاہئیں کہ جب کسی کی بچی کو لے کے آتے ہیں تو شادی کرنے والے کو بھی اور سسرال کو بھی، لڑکے کو بھی اور لڑکی کے سسرال کو بھی ان کے جذبات و احساسات کا خیال رکھنا چاہئے کہ وہ بھی کسی کی بچیاں ہیں اور لاڈلی بچیاں ہیں۔
اسی طرح کہتی ہیں مَیں جب ملتان گئی ہوں۔ روزانہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کا تاریا خط آیا کرتا تھا۔
(سیرت و سوانح حضرت سیدہ امۃ الحی بیگم صاحبہ صفحہ 111لجنہ اماء اللّٰہ لاہور)
انہوں نے اپنی ایک خواب کے واقعہ کا ذکر کیاہے کہ ایک دفعہ کوئی شخص مجھ سے کہتا ہے (یعنی صاحبزادی امۃ القیوم صاحبہ اپنی خواب کا ذکر کر رہی ہیں۔ کوئی شخص مجھ سے کہتا ہے) کہ مَیں تمہاری ماں کو لینے آیا ہوں۔ مَیں رو رو کر اس کی منتیں کرتی ہوں کہ نہیں لے جانا۔ وہ کہتا ہے کہ اچھا اگر یہ نہیں تو تمہارے ابّا کو لے جاتا ہوں۔ تو مَیں نے گھبرا کر کہا نہیں بالکل نہیں۔ وہ کہتا ہے کہ تمہاری ایک بات مانی جا سکتی ہے۔ ماں کو لے جانے دو یا باپ کو۔ اس نے جب مجھ کو بہت مجبور کیا کہ دونوں میں سے ایک کو رکھ سکتی ہے۔ دونوں کو رکھنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تو مَیں ماں کو دینے پر راضی ہو گئی اور پھر کہتی ہیں اس خواب کا اثر تھا کہ پھر اپنی امی سے بہت چمٹنے لگ گئیں۔ یہ دس سال کی تھیں جب ان کی والدہ فوت ہو گئی تھیں۔ حضرت اماں جان کو یہ پتہ نہیں تھا۔ وہ پہلے ان کوکہا کرتی تھیں کہ تم ماں سے چمٹی رہتی ہو۔ باپ سے بھی چمٹا کرو۔ تو ایک دن اماں جان نے ان کو زور سے کہا۔ اماں جان نے خود ہی بیان فرمایا کہ مَیں نے جب کہا تو تم ڈر گئیں اور تم نے اس کا جواب دیا۔ چمٹوں گی چمٹوں گی اور ساری عمر چمٹی رہوں گی۔ یہ واقعہ بیان کرکے حضرت اماں جان کی آنکھوں میں آنسو آجاتے تھے۔
(سیرت و سوانح حضرت سیدہ امۃ الحی بیگم صاحبہ صفحہ 112 لجنہ اماء اللّٰہ لاہور)
حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا دہلی کا جو سفر تھااورجہاں ’’سیرروحانی‘‘ کا بعد میں تقاریرکا سلسلہ آپ نے شروع فرمایا تھا۔ وہاں جو نظارہ آپ نے دیکھا تھا اور جو آپ نے اس وقت اونچی آوازمیں کہا ’’مَیں نے پا لیا، مَیں نے پالیا‘‘۔ تو حضرت مصلح موعودؓ لکھتے ہیں اس وقت میرے پیچھے میری بیٹی امۃالقیوم بیگم چلی آرہی تھی۔ اس نے کہا ابّا جان آپ نے کیا پالیا۔ تو مَیں نے کہا مَیں نے بہت کچھ پا لیا۔ مگرمَیں اس وقت تم کو نہیں بتا سکتا۔ مَیں اگر اللہ تعالیٰ نے چاہا توجلسہ سالانہ پر بتا دوں گا کہ مَیں نے کیا پایا۔ اس وقت تم بھی سن لینا۔
(ملخص از تاریخ احمدیت جلد 7 صفحہ 635تا638)
حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک تو’’آمین’‘پر بچوں کی نظم لکھی اور ایک ان کی شادی پر بھی لکھی تھی۔ اس کے دو شعر ہیں جو مَیں آپ کو سناتا ہوں۔ ؎

کہ الفت نہ اس کی کم ہو
رشتہ نہ اس کا ٹوٹے
چھٹ جائے خواہ کوئی
دامن نہ اس کا چھوٹے

(کلام محمود مع فرہنگ صفحہ نمبر 224 نظم نمبر 99 شعبہ اشاعت لجنہ اماء اللّٰہ کراچی)
حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ اللہ تعالیٰ سے تعلق کی طرف ایک توجہ دلائی تھی، اور اس تعلق کو انہوں نے شادی کے بعد بھی قائم رکھا۔ جیسا کہ مَیں نے بتایا کہ بڑی دعاگو اور نیکیوں کو جاری رکھنے والی خاتون تھیں۔ بلکہ مجھے امریکہ سے مسعود خورشید صاحب نے لکھا کہ ان کی اہلیہ نے 25 سال پہلے ایک خواب دیکھی تھی۔ ان کو آواز آئی۔ کوئی کہہ رہا ہے۔ بی بی امۃ القیوم ولی اللہ ہیں۔ تو اللہ تعالیٰ سے تعلق اور ان کی نیکیاں تویقینا ایسی تھیں جو اللہ والوں کے لئے نیکیاں ہوتی ہیں اوریہ صرف اس لئے تھا کہ اپنے عظیم باپ کی نصیحت پر ہمیشہ انہوں نے عمل کیا۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے۔
ابھی میں نماز جمعہ کے بعد ان کی نماز جنازہ غائب بھی پڑھاؤں گا اور اس کے ساتھ ایک دو اور جنازے بھی ہیں۔
ایک میجر افضال احمد صاحب ابن مکرم اقبال احمد صاحب مرحوم کا ہے جو 19جون کو جنوبی وزیرستان میں جو عسکریت پسند یا جوطالبان ہیں ان کے خلاف جو حکومت کا آپریشن ہے اس میں شہادت پا گئے۔ 32 سال ان کی عمر تھی۔

اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّااِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔

ان کے کرنل صاحب نے بتایا کہ آپریشن میں شامل تھے اور پاؤں میں ان کے گولی لگی لیکن ان کو روکا گیا کہ آپ اس زخم کو پہلے بھر لیں۔ لیکن اس کے باوجود انہوں نے کہا کہ نہیں اور بے جگری سے لڑتے ہوئے شہید ہو گئے۔
آپ کے پڑدادا حضرت چوہدری عبدالعزیز صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ صحابی تھے۔ پڑنانا حضرت ڈاکٹر غلام دستگیر صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کے صحابی تھے۔ راولپنڈی جماعت کے مخلص رکن تھے۔ آپ موصی بھی تھے۔ ان کے پسماندگان میں ایک اہلیہ اور ایک بیٹی اور ایک بیٹا ہیں۔ بیٹی دانیہ افضال کی عمر 4سال ہے اور بیٹا محمد آصف ایک سال کا ہے۔ ربوہ میں فوجی اعزاز کے ساتھ ان کی تدفین ہوئی ہے اور۔ وہاں فوج کے افسران بھی آئے اور ایک دستہ بھی آیا جنہوں نے وہاں ان کی تدفین کی۔
یہ کہتے ہیں کہ احمدی ملک کے دشمن ہیں۔ جہاں بھی قربانیاں دی جاتی ہیں ان قربانیوں میں احمدی پیش پیش ہوتے ہیں اور وزیراعظم اور صدر صاحب کی طرف سے بھی پھولوں کی چادر ان کی قبر پر چڑھائی گئی۔ تو اگر یہ ملک دشمن ہیں تو پھر پہلے اپنے وزیراعظم اور صدر کو پکڑو اور پھر فوج کو پکڑو جو وہاں آئے اور انہوں نے پورے اعزاز سے ان کی تدفین کی۔
پھر ایک اور جنازہ ہے عزیزم احمد جمال کا جو محمد محسن صاحب مرحوم کے بیٹے تھے۔ یہ 19؍مئی کو ربوہ کے پاس نہر پہ پکنک پہ گئے۔ وہاں ڈاکوؤں نے انہیں لوٹا اور ان پر فائر کیا، سر میں دو گولیاں لگیں وہیں شہید ہو گئے۔ مرحوم کی عمر19سال تھی اور وقف نو کی تحریک میں شامل تھا۔ ا ور موصی تھا۔ اورخدام الاحمدیہ کا بڑاسرگرم رکن تھا۔ اللہ تعالیٰ اس کے بھی درجات بلند فرمائے۔
اسی طرح کل کی ایک اطلاع ہے جس کی تفصیلات تو نہیں ہیں لیکن بہرحا ل دو شہداء ہیں جو کوئٹہ میں شہید ہوئے۔ خالد رشید صاحب ابن مکرم رشید احمد صاحب اور ظفر اقبال صاحب ابن مکرم لعل دین صاحب۔
ظفر اقبال صاحب ان کے پاس ملازم تھے۔ یہ شام کو اس ملازم کو چھوڑنے گھر گئے ہیں تو کار سے نکلتے ہی ان پر فائر کر دیا گیا اوریہ دونوں موقع پر شہید ہو گئے۔ ان کے بھائی جو گھر کے دروازے کے باہر نکلے۔ ان پر بھی فائر کیا لیکن بہرحال وہ تو نہیں لگا۔ اس کے بعد یہ چلے گئے۔ غالب امکان یہی ہے کہ یا تویہ احمدیت کی وجہ سے ٹارگٹ شوٹنگ ہے یا آج کل جو وہاں پنجابی اور بلوچی کاجھگڑا چل رہا ہے اس کی وجہ سے بھی ہو سکتاہے۔ احمدیت کی وجہ سے بھی تھریٹس (Threats) تھیں۔ بہرحال کل یہ بھی دو شہید ہوئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان سب کے درجات بلند فرمائے مغفرت کا سلوک فرمائے۔ مَیں ان سب کے جنازے بھی پڑھاؤں گا۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں