خطبہ جمعہ سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 18؍جنوری 2008ء

قرآن کریم کا کوئی بھی حکم لے لیں اس میں حکمت ہے۔ ان احکامات کی بڑی لمبی تفصیل ہے۔ اگر مومن ان احکامات کو سامنے رکھے اور ان کی حکمت پر غور کرے تو جہاں ہر ایک کی اپنی عقل اور دانائی میں اضافہ ہوتاہے وہاں معاشرے میں بھی علم و حکمت پھیلنے سے محبت اور پیار کو رواج ملتا ہے۔ زیادہ دماغ روشن ہوتے ہیں۔ پس ایک مومن کی یہی کوشش ہونی چاہئے کہ قرآن کریم سے حکمت کے یہ موتی تلاش کرے
دنیا کے ہر فساد کو دُور کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ سے تعلق جوڑنا ضروری ہے۔ اور اللہ تعالیٰ سے تعلق جوڑنے کے لئے عبادات کی ضرورت ہے اور عبادتوں کے معیار اس وقت حاصل ہوتے ہیں جب اپنی نمازوں کی حفاظت کروگے اور جب نمازوں کی حفاظت کروگے تو پھریہ تمہیں ہر قسم کی برائیوں سے روکے گی اور تمہاری یہ نمازیں تمہاری حفاظت کریں گی اورپھر اس مقصد کو حاصل کرنے والے بنوگے جس کے لئے انسان پیدا کیاگیاہے۔
(حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا
یُعَلِّمُھُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃ
میں حکمت کے مختلف معانی کے لحاظ سے بصیرت افروزبیان)
خطبہ جمعہ سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
فرمودہ مورخہ 18؍جنوری 2008ء بمطابق18؍صلح 1387 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح، لند ن (برطانیہ)

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں – چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
رَبَّنَا وَابْعَثْ فِیْھِمْ رَسُوْلًا مِّنْھُمْ یَتْلُوْا عَلَیْھِمْ اٰیٰتِکَ وَیُعَلِّمُھُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ وَیُزَکِّیْھِمْ۔ اِنَّکَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ(البقرۃ:130)

یہ آیت جو مَیں نے تلاوت کی ہے اس میں بھی وہی مضمون ہے جو گزشتہ چند خطبوں سے چل رہاہے۔ اس میں جو آج مَیں بیان کروں گا تیسری بات جو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی دعامیں مانگی تھی وہ حکمت کی تھی۔ یعنی وہ رسول جس پرتو کتاب اتارے، جو تیری تعلیم کو دنیا میں پھیلانے والاہوگا، وہ اس کی حکمت بھی سکھائے۔
حکمت کے مختلف معانی ہیں، گزشتہ ایک خطبہ میں مَیں بیان کرچکاہوں یعنی حکمت کے ایک معنی انصاف اور عدل کے ہیں۔ حکمت کے ایک معنی علم کے ہیں، حکمت کے ایک معنی عقل اور دانائی کے ہیں اور حکمت کے معنی کسی چیز کو صحیح جگہ استعمال کرنے اور مناسب حال کا م لینے کے ہیں۔ اس حکمت کے لفظ کو اس عظیم رسول ااور آپ کی لائی ہوئی کتاب کو جس کی تعلیم تاقیامت رہنے والی ہے آج اس حوالے سے بیان کروں گا۔
جیساکہ مَیں نے بتایا کہ حکمت کے معنی انصاف اور عدل کے ہیں، تو اس میں یہ دعا کی گئی تھی کہ آنے والا رسول حکمت بھی سکھائے گا۔ اس لحاظ سے اس کے یہ معنی ہوں گے کہ جو رسول آنے والا ہو، وہ عدل قائم کرے گا، عدل سکھانے والا ہوگا۔ اور جب اللہ تعالیٰ نے فرمایا

وَیُعَلِّمُھُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ

اور وہ تمہیں کتاب اور حکمت سکھاتاہے تو یہ اس بات کا اعلان ہے کہ اس دعا کی قبولیت کے نتیجہ میں و ہ رسول مبعوث ہوچکا ہے۔ کتاب بھی اس پر نازل ہو چکی ہے اور یہ ایسی کتاب ہے جو پُر حکمت تعلیم سے بھری پڑی ہے۔ یہ رسول تمہیں اس کتا ب کی حکمت بھی سکھاتا ہے اور تا قیامت سکھاتا چلا جائے گا۔ یعنی اس تعلیم نے عدل سکھایا ہے اور
تا قیامت یہی کتاب عدل کی تعلیم پر مہر ہے۔ اور یہ عظیم نبی جو مبعوث ہوا، نہ ہی اس کی تعلیم عدل سے خالی ہے اور نہ اس کا عمل۔ بلکہ اس عظیم نبی ﷺ کا اُسوہ حسنہ بھی وہ عظیم مثالیں قائم کررہا ہے جن تک کوئی پہنچ ہی نہیں سکتا۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے راستے بتا دئیے کہ اپنی اپنی انتہائی استعدادوں کے ساتھ اس اُسوہ پر چلنے کی کوشش کرو کیونکہ اس کے بغیر تم وہ معیار حاصل نہیں کر سکتے جو اس عظیم رسول کی اُمّت میں رہنے والے کو حاصل کرنے چاہئیں۔
آنحضرتﷺ کی حکمت کے مختلف پہلوؤں کے حوالے سے جو نصائح اورعمل ہیں میں گزشتہ ایک خطبہ میں ان کا ذکر کرچکاہوں۔ آج حکمت کے معنی عدل کے حوالے سے آپؐ کے اسوہ حسنہ کے ایک دو واقعات پیش کرتاہوں۔ پھر آگے قرآنی تعلیم بیان کروں گا۔
روایات میں آتاہے کہ غزوہ حنین کے بعد جب اموال غنیمت تقسیم کئے جا رہے تھے توبعض عرب سرداروں کو دوسروں پرترجیح دیتے ہوئے آنحضرتﷺ نے زیادہ مال تقسیم کیا۔ اس پر کسی نے اعتراض کیا کہ عدل سے کام نہیں لیاگیا۔ اس پر آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کارسول اگر عدل سے کام نہیں لے گا تو اور کون لے گا۔ یہ زائد مال جو دیا گیا تھا دراصل آنحضرتﷺ نے تالیف قلب کے لئے ان سرداروں کو عطا فرمایا تھا تاکہ یہ سردارانِ عرب اسلام کے قریب ہوں۔ چنانچہ وہ اور ان کے قبائل اسلام کے قریب ہوئے بلکہ قبول کیا۔ اور یہ جو حصہ زائد دیا گیاتھا یہ کسی پر زیادتی کرکے نہیں دیا گیا تھا بلکہ اللہ تعالیٰ نے خُمس، مال غنیمت کا پانچواں حصہ، جو اللہ اور رسول کے لئے مختص کیا ہوا ہے۔ جس میں سے مختلف قسم کے لوگوں کو دینے کا رسولﷺ کو اختیار دیا گیاہے۔
آپؐ نے ایک دفعہ فرمایا کہ بعض لوگوں کو جو مَیں زائد دیتا ہوں وہ ان کی ایمانی کمزوری کی وجہ سے دیتا ہوں اور ان کے حرص کی وجہ سے دیتا ہوں۔ جو ایمان میں مضبوط ہیں انہیں مَیں بعض حالات میں کم دیتا ہوں اور فرمایا کہ یہ جو ایمان والے ہیں مجھے زیادہ عزیز ہیں، مجھے زیادہ پیارے ہیں۔ پس یہ جو کسی کوزیادہ دینا تھا ایک تویہ بھی اللہ تعالیٰ کے حکم کے عین مطابق تھا جیساکہ مَیں نے بتا یا ہے۔ دوسرے حکمت کے تحت تھا یعنی ایسا پُرحکمت عدل قائم کرنے کا اُسوہ تھا جس نے ایمانوں میں بہتری پیدا کرنے کا کردار ادا کیا۔
پھر دیکھیں عدل کی عظیم مثال قائم کرنے کا وہ واقعہ جس میں ایک بوڑھے کو اپنی ذات سے پہنچی ہوئی تکلیف کا بدلہ لینے کے لئے آنحضرتﷺ نے اجازت دی۔
روایت میں آتاہے کہ جب سورۃ النصر کا نزول ہوا تو اس کے بعد آنحضرت ﷺ نے ایک خطبہ دیا۔ کیونکہ سورۃ نصر سے صحابہؓ سمجھ گئے تھے کہ آنحضرت ﷺ کی وفات کا وقت قریب ہے۔ اس موقع پر آنحضرت ﷺ نے جب خطبہ دیا، صحابہ ؓ بڑے روئے اور اس خطبہ کے بعد آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ تم سب کو مَیں اللہ تعالیٰ کی قسم دے کر کہتا ہوں کہ اگر کسی نے مجھ سے کوئی حق یا بدلہ لینا ہے توقیامت سے پہلے یہیں اس دنیا میں لے لے۔
اس پر ایک بوڑھے صحابی عکاشہ ؓ کھڑے ہوئے اور کہا کہ میرے ماں باپ آپؐ پر قربان، آپؐنے باربار اللہ تعالیٰ کی قسم دے کر یہ فرمایاہے کہ جس نے بدلہ لیناہے وہ لے لے۔ تومَیں ایک عرض کرنا چاہتاہوں کہ فلاں غزوہ کے موقع پر میری اونٹنی آپﷺ کی اونٹنی کے قریب ہوگئی تھی تو مَیں اترنے لگا تھا۔ مَیں پاؤں چومنے کے لئے یا کسی اوروجہ سے قریب ہواتھا۔ بہرحال اس وقت آپؐ کی چھڑی مجھے لگی تھی، سوٹی مجھے لگی تھی۔ مجھے نہیں معلوم کہ ارادۃ ً مجھے مارنے کے لئے یا اونٹ کو مارنے کے لئے تھی، لیکن بہرحال مجھے سوٹی لگی تھی۔ اس پر آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ اللہ کے جلال کی قسم !اللہ کا رسول تجھے جان بوجھ کر نہیں مارسکتا۔ پھر حضورانے حضرت بلالؓ کو کہاکہ وہی سوٹی لے کر آؤ۔ وہ حضرت فاطمہ ؓکے گھر سے سوٹی لے کر آئے۔ تو آپؐ نے عکاشہؓ کو سوٹی دی اور فرمایا کہ لو بدلہ لے لو۔ اس پر حضرت ابوبکرؓ کھڑے ہوئے۔ حضرت عمرؓ کھڑے ہوئے۔ حضرت علیؓ کھڑے ہوئے کہ ہمارے سے بدلہ لے لو اور آنحضرت ﷺ کو کچھ نہ کہو۔ عکاشہ ؓنے کہا کہ نہیں مَیں نے تو بدلہ آنحضرتﷺ سے ہی لیناہے۔ پھر حضرت حسن ؓ اور حضرت حسینؓ کھڑے ہوئے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نبی ﷺ کے نواسے ہیں ہمارے سے بدلہ لے لو۔ تو عکاشہؓ نے کہا کہ نہیں بدلہ تومَیں نے آنحضرتﷺ سے لیناہے۔ خود آنحضرتﷺ بھی سب کو بٹھاتے رہے کہ تم لوگ بیٹھ جاؤ مَیں خود ہی اپنا بدلہ دوں گا۔ اس پر عکاشہ ؓنے کہا کہ جب چھڑی مجھے لگی تھی تو اس وقت میرے بدن پر کوئی لباس نہیں تھا۔ آنحضرتﷺ نے اپنے جسم مبارک سے کپڑا اٹھایا اور کہا لو مارلو۔ صحابہ ؓ نے جب یہ نظارہ دیکھاتو بے اختیار سب رونے لگ گئے۔ کس طرح برداشت کر سکتے تھے کہ آنحضرتﷺ کو کچھ ہو۔ سب کے سانس رُکے ہوئے تھے لیکن کچھ کر نہیں سکتے تھے۔ لیکن دوسرے ہی لمحے انہوں نے جو نظارہ دیکھا وہ تو ایک عاشق و معشوق کی محبت کا نظارہ تھا۔ عکاشہ ؓ آگے بڑھے اورآپؐ کے جسم مبارک کو چومنے لگے اورکہتے جاتے تھے میرے ماں باپ آپ پر قربان۔ آپ سے بدلہ لینا کون گوارا کر سکتاہے۔ ہمیں تو آپؐ نے عدل کے نئے نئے اسلوب سکھائے ہیں۔ ہم تو سوچ بھی نہیں سکتے کہ آپؐ کبھی ظلم کر سکتے ہیں یا زیادتی کرسکتے ہیں۔ یہ تو پیار کرنے کا ایک موقع تھا جسے مَیں ضائع نہیں کرنا چاہتا تھا۔
لیکن دیکھیں کہ عدل کے اس شہزادے کا کیا خوبصورت جواب تھا۔ آپؐ نے فرمایا کہ یا تو بدلہ لینا ہوگا یا معاف کرنا ہوگا۔ عکاشہ ؓ نے کہا یارسول اللہ !مَیں نے اس امید پر آپؐ کو معاف کیا کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن مجھے معاف کرے گا۔ اس پر آنحضرتﷺ نے اس سارے مجمع کو جو لوگ سامنے بیٹھے ہوئے تھے مخاطب ہوکرفرمایا کہ جو آدمی جنت میں میرے ساتھی کو دیکھنا چاہتاہے وہ اس بوڑھے عکاشہ ؓ کو دیکھ لے۔ اور پھر وہی صحابہ ؓجو عکاشہ ؓ کے لئے سخت غم و غصّہ کی حالت میں بیٹھے تھے اُٹھ اُٹھ کر انہیں چومنے لگے اور ان کی قسمت پر رشک کرنے لگے۔ تو یہ تھا اس عظیم رسول کاعدل کہ ایک ادنیٰ چاکر کے سامنے بھی اپنے آپ کو بدلہ کے لئے پیش کر دیا اور فرمایاکہ اگر بدلہ نہیں لینا تو پھر معاف کرنا ہوگا۔ یہاں اس مجمع میں اعلان کرنا ہوگاکہ معاف کیا۔
تویہ نمونے آپؐ نے عدل کے قائم کئے۔ بہت سارے نمونے اور مثالیں اَور بھی ہیں۔ اور پھر اپنے صحابہؓ کوبھی اس کی تلقین فرماتے رہے کیونکہ قرآن کریم میں عدل پہ بڑا زور دیا گیاہے۔
اب مَیں قرآن کریم کی تعلیم کے حوالے سے ایک دوآیات اس بارہ میں پیش کرتاہوں جن میں عدل قائم کرنے کی تعلیم ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتاہے

اِنَّ اللہَ یَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْاِحْسَانِ وَاِیْتَایِٔ ذِی الْقُرْبٰی وَیَنْھٰی عَنِ الْفَحْشَآءوَالْمُنْـکَرِ وَالْبَغْیِ۔ یَعِظُکُمْ لَعَلَّکُمْ تَذَکَّرُوْنَ (النحل:91)۔

یقینا اللہ تعالیٰ عدل کا، احسا ن کا اور اقرباء پر کئے جانے والی عطا کی طرح عطا کا حکم دیتا ہے اور بے حیائی اور ناپسندیدہ باتوں اور بغاوت سے منع کرتاہے۔ وہ تمہیں نصیحت کرتاہے تاکہ تم عبرت حاصل کرو۔
یہ ایک ایسی پُرحکمت تعلیم ہے کہ اگر اس پر عمل کیاجائے تو معاشرتی مسائل بھی حل ہو جائیں گے اورقومی اور بین الاقوامی مسائل بھی حل ہو جائیں گے۔ ایسا عدل جو حکمت کے تحت کیا جائے وہ وہی عدل ہے جس میں نیکی کے معیار بڑھیں۔ عدل کے بعد محبت اور پیار پیدا ہو اور معاشرہ برائیوں سے بچنے کی کوشش کرے اورجب برائیوں سے بچیں گے تو پھر عدل کے مزید نئے معیار قائم ہوں گے۔ حقو ق کی ادائیگی کی طرف توجہ ہوگی۔ عدل صرف بدلہ لے کرہی قائم نہیں ہوتابلکہ بعض حالا ت میں احسان کرنے سے ہوتاہے۔ پھر مزید پیار اور محبت کے جذبات سے ہوتاہے اور پھر اللہ تعالیٰ کے خوف کی وجہ سے برائیوں کوچھوڑنے اور نیکیوں پر قائم ہونے کی وجہ سے ہوتاہے۔ ورنہ صرف عارضی بدلہ لے لینا، کسی کو سزا دے دینا، یہ دنیا وی عدل توہیں لیکن اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے جو اصول ہیں، جوتعلیم ہے، اس کے مطابق صرف یہ عدل نہیں ہے۔ کیونکہ ان سے بعض اوقات اصلاح نہیں ہوتی بلکہ دشمنیاں بڑھتی ہیں، ناراضگیاں پیدا ہوتی ہیں، رنجشیں پیدا ہوتی ہیں، کینے اور بغض بڑھتے ہیں۔ پس عدل وہ ہے جس کا فیصلہ موقع ومحل کی مناسبت ہو۔
حضر ت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:
‘’اللہ(تعالیٰ) کا یہ حکم ہے کہ نیکی کے مقابل پر نیکی کرو اوراگر عدل سے بڑھ کر احسان کا موقع اور محل ہو تو وہاں احسان کرو۔ اور اگر احسان سے بڑھ کر قریبوں کی طرح طبعی جوش سے نیکی کرنے کا محل ہو تووہاں طبعی ہمدردی سے نیکی کرو۔ اوراس سے خداتعالیٰ منع فرماتاہے کہ تم حدود اعتدال سے آگے گزر جاؤ۔ یا احسان کے بارہ میں منکرانہ حالت تم سے صادر ہو جس سے عقل انکار کرے۔ یعنی یہ کہ تم بے محل احسان کرو یا برمحل احسان کرنے سے دریغ کرو۔ یا یہ کہ تم محل پر

اِیْتَآءذِی الْقُرْبٰی

کے خُلق میں کچھ کمی اختیار کرو‘‘۔ یعنی غلط وقت پر احسان کرنا بھی غلط ہے۔ اور اگر موقع اورمحل ہو اور پھر احسان کا موقع ہو اس وقت احسان نہ کرنا بھی غلط ہے اور پھر یہ کہ جس طرح قریبوں سے سلوک کرتاہے، جس طرح ماں بچے سے سلوک کرتی ہے اس طرح کے اخلاق دکھاؤ اوراگراخلاق میں کوئی کمی ہوتی ہے تویہ غلط طریقہ ہے۔
آپ فرماتے ہیں : ’’تم محل پر

اِیْتَآءذِی الْقُرْبٰی

کے خلق میں کچھ کمی اختیار کرو یاحد سے زیاد ہ رحم کی بارش کرو۔ اس آیت کریمہ میں ایصال خیر کے تین درجوں کا بیا ن ہے۔ اوّ ل یہ درجہ کہ نیکی کے مقابلے پر نیکی کی جائے۔ یہ تو کم درجہ ہے اورادنیٰ درجہ کا بھلا مانس انسان بھی یہ خُلق حاصل کرسکتاہے کہ اپنے نیکی کرنے والوں کے ساتھ نیکی کرتا رہے۔
دوسرا درجہ اس سے مشکل ہے اور وہ یہ کہ ابتداء ً آپ ہی نیکی کرنا اور بغیر کسی کے حق کے احسان کے طورپراس کو فائدہ پہنچانا۔ اور یہ خُلق اوسط درجہ کا ہے۔ اکثر لوگ غریبوں پراحسان کرتے ہیں اور احسان میں ایک یہ مخفی عیب ہے کہ احسان کرنے والاخیال کرتاہے کہ مَیں نے احسان کیا اورکم سے کم وہ اپنے احسا ن کے عوض میں شکریہ یا دعا چاہتاہے۔ اور اگر کوئی ممنونِ منّت اس کا مخالف ہوجائے تو اس کا نام احسان فراموش رکھتاہے‘‘۔ جس کسی پہ احسان کیاجاتاہے اور وہ مخالف ہوجائے توا س کو احسان فراموش کہتے ہیں۔ ’’بعض وقت اپنے احسان کی وجہ سے اس پر فوق الطاقت بوجھ ڈال دیتا ہے‘‘۔ یا پھر یہ ہے کہ اگر کوئی احسان کیاہے تواس کی طاقت سے زیادہ اس پر بوجھ ڈال دیتے ہیں۔ یہ بھی انصاف کے خلاف ہے، عدل کے خلاف ہے۔ ’’اور اپنا احسان اس کویاد دلاتا ہے۔ جیسا کہ احسان کرنے والوں کو خدا تعالیٰ نے متنبہ کرنے کے لئے فرمایا ہے

لَا تُبْطِلُوْا صَدَقٰتِکُمْ بِالْمَنِّ وَالْا َذٰی (البقرہ۔ 265)

یعنی اے احسان کرنے والو!اپنے صدقات کو جن کی صدق پر بنا چاہئے احسان یاد دلانے اور دکھ دینے کے ساتھ برباد مت کرو۔ یعنی صدقہ کا لفظ صدق سے مُشتق ہے۔ پس اگر دل میں صدق اور اخلاص نہ رہے تو وہ صدقہ صدقہ نہیں رہتا بلکہ ایک ریاکاری کی حرکت ہوتی ہے۔ غرض احسان کرنے والے میں یہ ایک خامی ہوتی ہے کہ کبھی غصّہ میں آکر اپنا احسا ن بھی یاد دلا دیتاہے۔ اسی وجہ سے خدا ئے تعالیٰ نے احسان کرنے والوں کو ڈرایا۔
تیسرا درجہ ایصال خیر کا خدائے تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے کہ بالکل احسان کا خیال نہ ہو اور نہ شکرگزاری پر نظر ہوبلکہ ایک ایسی ہمدردی کے جوش سے نیکی صادر ہو جیساکہ ایک نہایت قریبی مثلاً والدہ محض ہمدردی کے جوش سے اپنے بیٹے سے نیکی کرتی ہے۔ یہ وہ آخر ی درجہ ایصال خیر کا ہے جس سے آگے ترقی کرنا ممکن نہیں۔ لیکن خدائے تعالیٰ نے ان تمام ایصال خیر کی قسموں کو محل اور موقعہ سے وابستہ کر دیا ہے اور آیت موصوفہ میں صاف فر مادیا ہے کہ اگر یہ نیکیاں اپنے اپنے محل پر مستعمل نہیں ہوں گی تو پھریہ بدیاں ہو جائیں گی۔ بجائے عدل فَحْشَآء بن جائے گا’‘۔ یہ عدل نہیں رہے گا بلکہ برائیاں بن جائیں گی۔ ‘’یعنی حد سے اتنا تجاوز کرنا کہ ناپاک صورت ہو جائے‘‘۔ اورفرمایا کہ’’اورایسا ہی بجائے احسان کے منکر کی صورت نکل آئے گی یعنی وہ صورت جس سے عقل اور کانشنس انکار کرتاہے۔ اور بجائے

اِیْتَآء ذِی الْقُرْبٰی

کے بَغِی بن جائے گا۔ یعنی وہ بے محل ہمدردی کا جوش ایک بُر ی صورت پیدا کرے گا۔ اصل میں بَغِی اس بارش کو کہتے ہیں جو حد سے زیادہ برس جائے اورکھیتوں کو تباہ کر دے اور یاحقِ واجب سے افزونی کرنا بھی بَغِی ہے‘‘۔ کمی یا زیادتی جو بھی ہوگی۔ ’’غرض ان تینوں میں سے جو محل پر صادر نہیں ہوگا وہی خراب سیرت ہو جائے گی۔ اسی لئے ان تینوں کے ساتھ موقع اورمحل کی شرط لگا دی ہے۔ اس جگہ یاد رہے کہ مجرّد عدل یا احسان یا ہمدردیٔ ذی القربیٰ کوخُلق نہیں کہہ سکتے بلکہ انسان میں یہ سب طبعی حالتیں اور طبعی قوتیں ہیں کہ جو بچوں میں بھی وجود عقل سے پہلے پائی جاتی ہیں۔ مگرخُلق کے لئے عقل شرط ہے اورنیز یہ شرط ہے کہ ہرایک طبعی قوت محل اور موقعہ پر استعمال ہو’‘۔
(اسلامی اصول کی فلاسفی، روحانی خزائن جلد 10صفحہ 354-353 مطبوعہ لندن)
یہ ساری چیزیں اور طاقتیں جو اللہ تعالیٰ نے دی ہیں۔ عدل کروگے، انصاف کروگے، احسان کرو گے، یہ سب چیزیں اگر عقل کے بغیر استعمال ہورہی ہیں، موقع و محل کے حساب سے استعمال نہیں ہو رہیں تو یہ کوئی اچھے اخلاق نہیں ہیں۔
تو یہ قرآن کریم کی پُر حکمت تعلیم ہے جو معاشرے میں قیام عدل کے لئے مزید راستے دکھاتی ہے۔ اگر ایک عادی چور کو جس کے معاملے میں سختی کا حکم ہے اگرچھوڑ دیں گے تویہ عدل نہیں ہے۔ لیکن ایک بھوکے کے لئے جو اپنی بھوک مٹانے کے لئے روٹی چراتا ہے سزاکی بجائے روٹی کاانتظام ضروری ہے، یہ عدل ہے تاکہ اس کا اورا س کے بیوی بچوں کا پیٹ بھرے اور یہ احسان کرنے سے پھرعدل قائم ہوگا۔ لیکن اگر یہی روٹی چرانے والا ایک عادی چور بن جاتاہے تو پھر اس کو سزا دینا عدل ہے۔ تو ہر موقع کے لحاظ سے جو عمل ہوگا وہ اصل میں عدل ہے۔
قرآن کریم کی تعلیم کا خلاصہ توحید کا قیام اور حقوق العباد کی ادائیگی ہے اور اس کے لئے جو انسانی سوچ ہے اس میں عدل کا عنصر پیدا کرنا ضرور ی ہے۔ اس بات کو ذہن میں بٹھانے کے لئے اللہ تعالیٰ ایک جگہ فرماتاہے

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْا قَوَّامِیْنَ لِلہِ شُھَدَٓاء بِالْقِسْطِ۔ وَلَا یَجْرِمَنَّکُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰٓی اَلَّا تَعْدِلُوْا۔ اِعْدِلُوْا۔ ھُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰی۔ وَاتَّقُوا اللہَ۔ اِنَّ اللہَ خَبِیْرٌ بِمَا تَعْمَلُوْن (سورۃ المائدۃ آیت 9)

کہ اے وے لوگو جو ایمان لائے ہو۔ اللہ تعالیٰ کی خاطر مضبوطی سے نگرانی کرتے ہوئے انصاف کی تائید میں گواہ بن جاؤ اور کسی قوم کی دشمنی تم کو ہرگز کسی با ت پر آمادہ نہ کرے کہ تم انصاف نہ کرو۔ انصاف کرو یہ تقویٰ کے سب سے زیادہ قریب ہے اور اللہ سے ڈرو۔ یقینا اللہ اس سے ہمیشہ باخبر رہتاہے جو تم کرتے ہو۔
تو یہ ہے عدل اور انصاف کی خوبصورت اورپُرحکمت تعلیم۔ پہلی با ت یہ بتائی کہ اگر ایمان کا دعویٰ ہے، مومن کہلاتے ہو تو مومن تو ہمیشہ انصاف کی تائید میں کھڑا ہوتاہے۔ اس کا کام تو اللہ تعالیٰ کے احکاما ت کی روشنی میں عدل کا قیام ہے۔ اگر یہ سوچ رکھنے والے ہو تو مومن ہو کیونکہ اس کے بغیر ایمان ناقص ہے۔ پھر فرمایا کہ جب یہ سوچ بن جائے گی تو پھر عدل و انصاف تمہارے اندر سے پھوٹے گا اورجب دل کی آواز اللہ تعالیٰ کی رضا بن جائے، ا س کی تعلیم پر عمل کرنے والی بن جائے تو پھر کسی قسم کی دشمنی انصاف کے تقاضے پورے کرنے سے ایک مومن کو کبھی نہیں روکے گی۔ پس مومن کاکام ہے کہ تقویٰ پر قدم مارتے ہوئے ہمیشہ انصاف کے تقاضے پورے کرے۔ اللہ تعالیٰ اسی ضمن میں فرماتاہے کہ اگر تم تقویٰ سے کام نہیں لوگے تو یادرکھو کہ اللہ تعالیٰ سے کوئی با ت بھی چھپی ہوئی نہیں ہے۔ ایسا شخص جو اس عظیم تعلیم کوپاکربھی اس پر عمل نہیں کرتا، حقیقی مومن نہیں کہلاسکتا۔ پس یہ عدل قائم کرنے کی ایسی خوبصورت تعلیم ہے جو صرف قرآن کریم کا ہی خاصّہ ہے۔
حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:’’خدا تعالیٰ نے عدل کے بارہ میں جو بغیر سچائی پر پورا قدم مارنے کے حاصل نہیں ہو سکتی فرمایاہے

لَا یَجْرِمَنَّکُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰٓی اَلَّا تَعْدِلُوْا۔ اِعْدِلُوْا۔ ھُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰی (المائدہ :9)

یعنی دشمن قوموں کی دشمنی تمہیں انصاف سے مانع نہ ہو، انصاف پر قائم رہو، تقویٰ اسی میں ہے‘‘۔
فرماتے ہیں کہ:’’اب آپ کو معلوم ہے جوقومیں ناحق ستاویں اور دکھ دیویں اور خونریزیاں کریں اور تعاقب کریں اور بچوں اور عورتوں کو قتل کریں جیساکہ مکّہ والے کافروں نے کیاتھا اور پھرلڑائیوں سے باز نہ آویں، ایسے لوگوں کے ساتھ معاملات میں انصاف کے ساتھ برتاؤ کرنا کس قدر مشکل ہوتاہے۔ مگر قرآنی تعلیم نے ایسے جانی دشمنوں کے حقوق کوبھی ضائع نہیں کیا اور انصاف اور راستی کے لئے وصیت کی۔ …… مَیں سچ سچ کہتاہوں کہ دشمن سے مدارات سے پیش آناآسان ہے مگر دشمن کے حقوق کی حفاظت کرنا اورمقدمات میں عدل و انصاف کوہاتھ سے نہ دینا یہ بہت مشکل اور فقط جوانمردوں کا کام ہے۔ ‘‘
(نورالقرآن نمبر2۔ روحانی خزائن جلد 9صفحہ409مطبوعہ لندن)
اسلام یہ جوانمردی اپنے سب ماننے والوں میں پیداکرنا چاہتاہے۔ اللہ تعالیٰ ٰدوسری جگہ فرماتاہے کہ تمہارا حسن سلوک اورعدل و احسان دشمنوں کوبھی دوست بنا سکتاہے۔
پھر حکمت کے ایک معنی یہ ہیں کہ علم کو کامل کرنا۔ یعنی آنے والا رسول علم کو بھی اپنے پر اُتری ہوئی تعلیم کی وجہ سے کامل کرے گا۔ قرآن کریم کا دعویٰ ہے کہ آنحضرت ﷺ سے فرمایا

اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ (المائدہ:4)

۔ یعنی تمہارا دین مکمل کردیا اور تم پر اپنی نعمتیں اور احسان پورے کردئے۔ اس بارہ میں گزشتہ خطبہ میں بتا چکاہوں۔ پس اس عظیم رسول پر اس پُرحکمت تعلیم کو اللہ تعالیٰ نے کامل کر دیا ہے۔
یہاں صرف علم کے کامل اور مکمل ہونے کی اس زمانے سے متعلق جو پیشگوئیاں ہیں ان کا مَیں اس وقت ذکر کروں گا، جوپوری ہوئیں۔ اس کامل علم رکھنے والے خدا نے جوباتیں اس عظیم رسولﷺ کو بتائیں اور اس کتاب میں جن کا ذکر ہوا جن میں سے بعض ایسی ہیں کہ چودہ سوسال تو دُور کی بات ہے، ماضی قریب کا انسان بھی اس بارہ میں سوچ نہیں سکتاتھا۔
بہت ساری پیشگوئیاں ہیں۔ مَیں یہاں ایک بیان کررہاہوں مثلاً سورۃ رحمن میں اللہ تعالیٰ فرماتاہے کہ

مَرَجَ الْبَحْرَیْنِ یَلْتَقِیٰنِ(الرحمن:20)

کہ وہ دونوں سمندروں کو ملا دے گا جو بڑھ بڑھ کر ایک دوسرے سے ملیں گے۔

بَیْنَھُمَا بَرْزَخٌ لَّایَبْغِیٰنِ۔ فَبِاَیِّ اٰلَآء رَبِّکُمَا تُکَذِّبَان۔ یَخْرُجُ مِنْھُمَا اللُّؤْلُؤْ وَالْمَرْجَان (الرحمٰن:23-21)

کہ (سر دست) اُن (دونوں سمندروں)کے درمیان ایک روک ہے جس سے وہ تجاوز نہیں کرسکتے۔ پس(اے جنّ و انس) تم دونوں اپنے رب کی کس کس نعمت کا انکار کروگے۔ دونوں میں سے موتی اور مرجان نکلتے ہیں۔
اب اس میں دو سمندروں کوملانے کا ذکر ہے اور نشانی یہ بتائی کہ ان میں سے موتی اور مونگے یا مرجان نکلتے ہیں۔ ایک تو نہر سویز کے ذریعہ سے دونوں سمندروں کو ملایا۔ RedSea اور میڈیٹرینین سی (MediterianSea)کو۔ اسی طرح پانامہ نہر نے دو سمندروں کو ملا یا۔ اور اس طرح بڑے سمندر آپس میں مل گئے۔ اب یہ علم آنحضرتﷺ کو خدا نے اس وقت دیا جب کسی کو اس بات کا علم نہیں تھا۔ علم تو علیحدہ با ت ہے اس وقت کے زمانے کے عربوں کی تو سوچ بھی یہاں تک نہیں پہنچ سکتی تھی کہ کس جگہ پر سمندر ہوں گے اور کس طرح ملائے جائیں گے اورپھر 1300سا ل کے انتظار کے بعد اللہ تعالیٰ نے یہ عظیم نظارہ دکھایا اور اس پیشگوئی کو کس شان سے پورا فرمایا۔ پس یہ ہیں اُس عالم الغیب خدا کے علم کی باتیں جنہیں اس نے قرآن کریم کے ذریعہ آنحضرت ﷺ پر ظاہر فرمایا۔
پھر کائنات کے بارہ میں علم دیا کہ کس طرح ہماری کائنات وجود میں آئی۔ فرماتاہے

اَوَلَمْ یَرَالَّذِیْنَ کَفَرُوْآ اَنَّ السَّمٰوٰتِ وَالْا َرْضَ کَانَتَا رَتَقًا فَفَتَقْنٰھُمَا وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَآء کُلَّ شَیْءحَیٍّ۔ اَفَلَایُؤْمِنُوْنَ(الانبیاء:31)

کیا انہوں نے دیکھا نہیں جنہوں نے کفر کیا کہ آسمان و زمین دونوں مضبوطی سے بندتھے۔ پھر ہم نے ان کو پھاڑ کر الگ کر دیا۔ اور ہم نے پانی سے ہر زندہ چیز پیدا کی تو کیا وہ ایمان نہیں لائیں گے؟
حضر ت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:’’قرآن کریم سے معلوم ہوتاہے اور حال کی تحقیقاتیں بھی اس کی مُصدِّق ہیں کہ عا لم کبیر بھی اپنے کمال خلقت کے وقت ایک گٹھڑی کی طرح تھا‘‘۔ بند تھا۔ ’’جیساکہ اللہ جل شانہ فرماتاہے‘‘۔ اس آیت مَیں جو مَیں نے پڑھی۔ یعنی کہ’’کیا کافروں نے آسمان اور زمین کو نہیں دیکھا کہ گٹھڑی کی طرح آپس میں بندھے ہوئے تھے اور ہم نے ان کو کھول دیا‘‘۔
(آئینہ کمالات اسلام۔ روحانی خزائن جلد 5صفحہ 192-191حاشیہ)
پس یہ علم 1400سال سے قرآ ن کریم میں محفوظ ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانہ میں ظاہر ہوا۔ سائنسدانوں نے بِگ بینگ (Big Bang) کا نظریہ دیا یعنی ایک زبردست دھماکہ اور اس کے بعد یہ سب کائنات وجود میں آئی، سیارے وجود میں آئے۔ یہ بڑا تفصیلی مضمون ہے۔ بہر حال مقصد یہ ہے کہ قرآن کریم نے جس با ت کی خبر 1400سال پہلے دی تھی اسے آج کاسائنسدان ثابت کر رہاہے۔ پھر پانی سے انسان کی زندگی ہے۔ بہت ساری پیشگوئیاں ہیں۔
پھر قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتاہے کہ

وَالسَّمَآءبَنَیْنٰھَا بِاَیْدٍ وَّاِنَّا لَمُوْسِعُوْنَ(الذاریت:48)

اور ہم نے آسمان کو ایک خاص قدرت سے بنایاہے اور یقینا ہم وسعت دینے والے ہیں۔ اب اس آیت کے بھی مختلف ترجمے ہمارے اپنے تراجم قرآن کریم میں ملتے ہیں کیونکہ جس جس طرح انسان کو علم تھااس کے مطابق ترجمہ ہوتارہا۔ اورپھر سائنس کی ترقی کے ساتھ اس کے مزید معنی کھلے۔ حضر ت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے اس کے معنی کئے ہیں کہ ہم نے آسمان کو خاص قدرت سے بنایا اوریقیناً ہم اسے وسعت دینے والے ہیں۔ یہ وسعت کا تصور بھی ایک سائنس دان Edwin Hubbleتھے اس کے تجربات نے دیا۔ اس نے یہ تجربات کئے تھے۔ اس نے پہلی دفعہ کائنات کے پھیلنے کی بات کی تھی۔ اور اب جو نئی تحقیق آرہی ہے، چند مہینے پہلے ایک رسالے میں تھا اس میں یہ کہتے ہیں کہ اب جو چیز دیکھنے میں آرہی ہے کہ یہ وسعت پذیری کی رفتار جو ان کے علم میں پہلے تھی اس سے کئی گنا بڑھ گئی ہے۔ یا بڑھی ہوئی تھی تو ان کو پتہ ہی نہیں لگا۔ ان نئے آلات کی وجہ سے شاید اب معلوم ہواہے۔ لیکن بہرحال وسعت پذیری ثابت ہے اور اب تو بہت واضح ہو کے نظر آرہی ہے۔
بہرحال جو قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا کہ آسمانوں کوبھی ہم نے خاص قدرت سے ہی بنایا ہے۔ یہ بھی اس آیت کا ترجمہ ہے کہ خاص قدرت سے بنایا اورکئی صفات شامل ہیں۔ یعنی آسمان کی وسعت اور اجرام کے سفر پر اللہ تعالیٰ کی مختلف صفات کام کر رہی ہیں جن میں کچھ کا تو انسان ادراک حاصل کر لیتاہے لیکن مکمل احاطہ نہیں کر سکتا۔ جب بھی اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی عقل سے کوئی نئی دریافت کرتے ہیں تو پھر مزید پریشان ہو جاتے ہیں۔ بہت سارے سائنسدان بھی مزید تلاش کررہے ہیں۔ بلکہ بعض تو ابھی بھی ایسے ہیں۔ ایک طبقہ ایسا بھی ہے اس با ت کو بھی ماننے کو تیار نہیں ہے کہ بِگ بَینگ ہوا تھا۔ بہرحال اللہ تعالیٰ فرماتاہے کہ اس طرح ہی ہوا، ہمیں تو ایمان بالغیب پہ بھی ایمان ہے، قرآ ن کریم نے ثابت کیاہے اور سائنس دان اس کو ثابت کر رہے ہیں کہ زمین و آسمان کس طرح وجود میں آئے اور پھر اس کی وسعت بھی ہو رہی ہے، ایک طرف چل رہے ہیں۔ توبہرحال کائنات کی اس وسعت پذیری کا جو تصور تھا، سو سال پہلے کے انسان کو نہیں تھا۔
پس یہ ہے اس کتاب کی خوبصورتی کہ ہر نئی دریافت جو آج کا تعلیم یافتہ انسان کرتاہے خدا تعالیٰ کی اس آخری کتا ب میں پہلے سے اس کا تصور موجودہے بلکہ وضاحت موجود ہے۔ اب یہ انسان کی بنائی ہوئی کتابیں اس کا مقابلہ کیاکرسکتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا یہ چیلنج ہے کہ نہ تو تم اس جیسی کتا ب لاسکتے ہو، نہ اس جیسی ایک آیت بنا سکتے ہو۔ پس یہ وہ آخر ی کتاب ہے جو اس عظیم رسول اپر اُتری جس کا زمانہ قیامت تک ہے۔ اور اگر مسلمان سائنسدان ہوں بلکہ احمدی مسلمان تو دریافت کے بعد کسی چیز کو اس پر منطبق نہیں کریں گے بلکہ اپنی تحقیق کی بنیاد ہر ایک احمدی سائنسدان قرآن کریم کے دئے ہوئے علم پر رکھے گا اور رکھتا ہے۔ اور جیساکہ مَیں نے پہلے بھی بتایا تھا، ڈاکٹر عبدالسلام صاحب بھی اپنی تحقیق کی اسی پر بنیاد رکھا کرتے تھے۔ بہرحال کہنے کا یہ مطلب ہے کہ قرآن کریم نے ایسے ایسے علم و حکمت کے موتی اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہیں جو رہتی دنیا تک نئے نئے انکشافات تحقیق کرنے والے انسان پر کرتے رہیں گے۔ پس یہ ایسا عظیم اور پُر حکمت کلام ہے جس کا کوئی دوسری شرعی کتاب مقابلہ نہیں کر سکتی۔
پھر اسی کتا ب میں شرعی احکامات کی حکمت ہے۔ شرعی احکامات کی حکمت کا ایک یہ مطلب بھی ہے مثلاً نماز پڑھنے کا حکم ہے تو بیان فرمایاہے کہ تم نماز سے کیا کیافائدے اٹھاتے ہو۔ فرماتاہے

اُتْلُ مَآ اُوْحِیَ اِلَیْکَ مِنَ الْکِتٰبِ وَاَقِمِ الصَّلٰوۃَ۔ اِنَّ الصَّلٰوۃَ تَنْھٰی عَنِ الْفَحْشَآءِ وَالْمُنْکَرِ۔ وَلَذِکْرُاللہِ اَکْبَرُ۔ وَاللہُ یَعْلَمُ مَاتَصْنَعُوْنَ (العنکبوت:46)

تُو کتاب میں جو تیری طرف وحی کیا جاتاہے پڑھ کر سنا اور نماز کو قائم کر۔ یقینا نماز بے حیائی اور ناپسندیدہ با ت سے روکتی ہے اور اللہ کا ذکر یقینا سب (ذکروں) سے بڑا ہے۔ اور اللہ جانتاہے جو تم کرتے ہو۔
یہ حکم صرف آنحضرتﷺ کے لئے نہیں تھا بلکہ اُمّت کے لئے تھا، آنحضرتﷺ کے خاص طورپر ماننے والوں کے لئے تھا۔ آپ تو پہلے ہی اس مقام تک پہنچے ہوئے تھے۔ آپ کو وہ مقام ملا ہوا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے خود آپ سے یہ اعلان کروایاکہ یہ اعلان کردو کہ میری نمازیں، میری قربانیاں اور میری زندگی اور میری موت سب خداتعالیٰ کے لئے ہے۔ آپؐ تو وہ مقام حاصل کرچکے تھے۔ یہ حکم تو اس با ت سے بہت پیچھے ہے۔ پس یہ تعلیم تھی جو اللہ تعالیٰ نے مومنین کو دی تاکہ اللہ تعالیٰ سے مومنوں کا تعلق جوڑنے کے لئے انہیں راستے بتائے جائیں۔ آنحضرتﷺ کو فرمایاکہ یہ پُرحکمت تعلیم مومنوں کو دو کہ دنیا کے ہر فساد کو دُور کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ سے تعلق جوڑنا ضروری ہے۔ اور اللہ تعالیٰ سے تعلق جوڑنے کے لئے عبادات کی ضرورت ہے اور عبادتوں کے معیار اس وقت حاصل ہوتے ہیں جب اپنی نمازوں کی حفاظت کروگے اور جب نمازوں کی حفاظت کروگے تو پھریہ تمہیں ہر قسم کی برائیوں سے روکے گی اورتمہاری یہ نمازیں تمہاری حفاظت کریں گی اورپھر اس مقصد کو حاصل کرنے والے بنوگے جس کے لئے انسان پیدا کیا گیا ہے۔
حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں :’’نماز بھی گناہوں سے بچنے کا ایک آلہ ہے۔ نماز کی یہ صفت ہے کہ انسان کوگناہ اور بدکاری سے ہٹا دیتی ہے۔ سو تم ویسی نمازکی تلاش کرو’‘۔ اس فقرے پر غور کریں ’’اور اپنی نماز کو ایسی بنانے کی کوشش کرو۔ نماز نعمتوں کی جان ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کے فیض اسی نماز کے ذریعہ سے آتے ہیں۔ سو اس کو سنوار کر ادا کرو تاکہ تم اللہ تعالیٰ کی نعمت کے وارث بنو‘‘۔
(ملفوظات جلد پنجم صفحہ 126مطبوعہ لندن)
پس یہ جو فرمایا کہ’’تم ایسی نمازتلاش کرو’‘، اس کا یہی مطلب ہے کہ جب تک نیکیاں اچھی طرح دل میں راسخ نہیں ہو جاتیں اس وقت تک یہ خیال کرتے رہو کہ نماز کی ادائیگی میں کہیں کمی ہے۔ جب تک اللہ کی رضا اصل مقصود نہیں بن جاتی اُس وقت تک یہ سمجھتے رہو کہ ہماری نمازوں میں کمی ہے۔ دعائیں اور نمازیں صرف اسی وقت نہ ہوں جب اپنی ضرورتوں کے لئے بے چین ہو رہے ہو اور جب اس سوچ کے ساتھ ہم عبادتیں کررہے ہوں گے تبھی اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کے وارث بھی بن رہے ہوں گے۔ ورنہ تو اس حکم میں کوئی حکمت نظر نہیں آتی۔
پھر قرآ ن کریم میں ایک پُرحکمت حکم یہ ہے کہ جھوٹ نہ بولو۔ اللہ تعالیٰ فرماتاہے

فَاجْتَنِبُواالرِّجْسَ مِنَ الْاَوْثَانِ وَاجْتَنِبُوا قَوْلَ الزُّوْرِ(الحج: 31)

پس بتوں کی پلیدی سے احتراز کرواور جھوٹ کہنے سے بچو۔
حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں :
’’بت پرستی کے ساتھ اس جھوٹ کو ملایاہے جیسا احمق انسان اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر پتھر کی طرف سر جھکاتاہے ویسے ہی صدق اور راستی کو چھوڑ کر اپنے مطلب کے لئے جھوٹ کو بُت بناتاہے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کوبُت پرستی کے ساتھ ملایا اور اسی سے نسبت دی جیسے ایک بُت پرست بُت سے نجا ت چاہتاہے۔ جھوٹ بولنے والا بھی اپنی طرف سے بُت بناتاہے اور سمجھتاہے کہ اس بُت کے ذریعہ سے نجات ہو جاوے گی۔ کیسی خرابی آکر پڑی ہے۔ اگر کہا جاوے کہ کیوں بُت پرست ہوتے ہو، اس نجاست کو چھوڑ دو تو کہتے ہیں کیونکرچھوڑ دیں۔ اس کے بغیر گزارہ نہیں ہو سکتا۔ اس سے بڑھ کر اور کیا بدقسمتی ہوگی کہ جھوٹ پر اپنا مدا ر سمجھتے ہیں۔ مگر مَیں تمہیں یقین دلاتاہوں کہ آخر سچ ہی کامیاب ہوتاہے۔ بھلائی اور فتح اسی کی ہے۔ …… یقینایادرکھو جھوٹ جیسی کوئی منحوس چیزنہیں۔ عام طورپردنیا دار کہتے ہیں کہ سچ بولنے والے گرفتار ہو جاتے ہیں مگر مَیں کیونکر اس کو باور کرو ں۔ مجھ پرسات مقدمات ہوئے ہیں اور خدا تعالیٰ کے فضل سے کسی ایک میں ایک لفظ بھی مجھے جھوٹ لکھنے کی ضرورت نہیں پڑی۔ کوئی بتائے کہ کسی ایک میں بھی خداتعالیٰ نے مجھے شکست دی ہو۔ اللہ تعالیٰ تو آپ سچائی کا حامی اورمددگار ہے۔ یہ ہو سکتاہے کہ وہ راستباز کو سزا دے؟اگر ایساہو تو دنیا میں کو ئی سچ بولنے کی جرأت نہ کرے۔ اور خداتعالیٰ پر سے ہی اعتقاد اٹھ جاوے۔ راستباز تو زندہ ہی مرجاویں۔ اصل بات یہ ہے کہ سچ بولنے سے جو سزا پاتے ہیں ‘‘۔ یہ غور سے سننے والی چیز ہے۔ ’’اصل بات یہ ہے کہ سچ بولنے سے جو سزا پاتے ہیں وہ سچ کی وجہ سے نہیں ہوتی’‘۔ سزا اس وجہ سے نہیں کہ سچ بولاہے ’’وہ سزا ان کی بعض اور مخفی درمخفی بدکاریوں کی ہوتی ہے’‘۔ بہت ساری چھپی ہوئی برائیاں اور بدیاں جو ہیں ان کی وجہ سے سزا ہوتی ہے’’اور کسی اور جھوٹ کی سزا ہوتی ہے۔ خداتعالیٰ کے پاس تو ان کی بدیوں اورشرارتوں کا ایک سلسلہ ہوتاہے۔ ان کی بہت سی خطائیں ہوتی ہیں اور کسی نہ کسی میں وہ سزا پا لیتے ہیں۔ ‘‘
(الحکم جلد 10نمبر17 مورخہ 17؍مئی 1906ء صفحہ4)
پس استغفار ایسی چیزوں سے بچنے کے لئے بہت ضروری ہے۔
پھر حکمت کے معنی عقل اور دانائی کے بھی ہیں۔ اس کتاب نے جو عظیم رسول اپر اتری بڑے پُر حکمت احکامات اتارے ہیں۔ ہرحکم کی دلیل اتاری ہے جو ہر موقع و محل کے لحاظ سے ہے۔ جیساکہ مَیں پہلے بھی مثال دے آیاہوں قرآن کریم کہتاہے کہ اگر کو ئی مجرم ہے تو اس کو سزا دو۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پر غصے میں آکر، مغلوب الغضب ہو کر سزا نہ دو۔ اگر معاف کرنے سے اصلاح ہوسکتی ہے تو معاف کرنے میں حکمت ہے۔ لیکن اگر عادی چو ر کو معاف کر دیا جائے تو معاشرے میں فساد پیدا کرنے کا موجب ہوں گے۔ اسی طرح اگر قاتل کو معاف کروگے تو اور قتل پھیلائے گا۔ وہاں پھرسزا ضروری ہو جاتی ہے۔ غرض کہ قرآن کریم کا کوئی بھی حکم لے لیں اس میں حکمت ہے۔ ان احکامات کی بڑی لمبی تفصیل ہے۔ اگر مومن ان احکامات کو سامنے رکھے اور ان کی حکمت پر غور کرے تو جہاں ہر ایک کی اپنی عقل اور دانائی میں اضافہ ہوتاہے وہاں معاشرے میں بھی علم و حکمت پھیلنے سے محبت اور پیار کو رواج ملتاہے۔ زیادہ دماغ روشن ہوتے ہیں۔ پس ایک مومن کی یہی کوشش ہونی چاہئے کہ قرآن کریم سے یہ حکمت کے موتی تلاش کرے اور اللہ تعالیٰ کا بھی یہی حکم ہے جیسے کہ فرماتاہے

وَاذْکُرْنَ مَا یُتْلٰی فِیْ بُیُوْتِکُنَّ مِنْ اٰیٰتِ اللّٰہِ وَالْحِکْمَۃِ۔ اِنَّ اللہَ کَانَ لَطِیْفًا خَبِیْرًا(الاحزاب:35)

اور یاد رکھو اللہ کی آیات اور حکمت کو جن کی تمہارے گھروں میں تلاوت کی جاتی ہے۔ یقینا اللہ تعالیٰ بہت باریک بین اور باخبر ہے۔
ان باتوں کو، قرآن کریم کے جو احکامات ہیں ان کویاد کرنے کا حکم ہے۔ یہ آیات اورحکمت کی باتیں قرآن کریم میں جتنی بھی ہیں جن کی ہم اپنے گھرو ں میں تلاوت کرتے ہیں۔ قرآن کریم کاڑھے جاتے ہیں بڑے اہتمام سے رکھے بھی جاتے ہیں۔ تو تلاوت کی جائے تو تلاوت کا ثواب تو ہے لیکن اس کتاب کا حقیقی مقصد تب پورا ہوتاہے۔ ان آیا ت کی تلاوت کرنے کا فائدہ تب ہوگاجب ان احکاما ت پرعمل بھی ہوگااور اسی طرح اسوہ رسولﷺ بھی ہمارے سامنے ہوگا اور یہ آیات اور حکمت کے موتی اپنی زندگیوں کا حصہ بنانے کی ہم کوشش کریں گے۔ ’’اللہ باریک بین اور باخبر ہے’‘، یہ جو آخر میں فرمایا اور یہ کہہ کر ہمیں اس طرف توجہ دلائی کہ اللہ تعالیٰ جو ہمارے ظاہر وباطن سے باخبر ہے اسے کبھی دھوکہ نہیں دیا جا سکتا۔ وہ ہر چھوٹی سے چھوٹی نیکی کی بھی خبر رکھتاہے اور ہر بُرائی کی بھی۔ پس اس عظیم رسول کی اس عظیم تعلیم کو جب تک اپنے پر لاگو کر کے ہم اپنی زندگیاں اس کے مطابق ہم ڈھالنے کی کوشش نہیں کریں گے حقیقی مومن کہلانے والے نہیں بن سکتے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس پُرحکمت تعلیم کو سمجھنے اور عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں