خلافت کی اطاعت اور بے مثال رعب

(مطبوعہ الفضل ڈائجسٹ، الفضل انٹرنیشنل 22 مئی 2020ء)

روزنامہ’’الفضل‘‘ربوہ 23؍مئی 2014ء میں مکرم ڈاکٹر طارق احمد مرزاصاحب (آسٹریلیا) بیان کرتے ہیں کہ غالباً 1988ء کی بات ہے۔ خاکسار ان دنوں گلاسگو میں مقیم تھا۔ جلسہ سالانہ لندن میں شمولیت کا پروگرام بنا تو ایک ہندو دوست مکرم نندا صاحب نے بھی ساتھ چلنے کی خواہش ظاہر کی۔ آپ جماعت کے کافی قریب اور اس کے پیغام سے متاثر تھے۔

ڈاکٹر طارق احمد مرزا صاحب

اسلام آباد (ٹلفورڈ) پہنچے، شام کو مکرم بشیر احمد آرچرڈ صاحب سے ملاقات ہوگئی جو پہلے انگریز واقفِ زندگی تھے۔ آپ گلاسگو کے ایک کٹر عیسائی خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ فوجی ملازمت کے تحت ہندوستان آئے۔ قادیان کا شہرہ سن کر بغرض تحقیق پہنچے تو حق قبول کیے بغیر نہ رہ سکے۔ اس صوفی منش عالم باعمل مخلص انگریز احمدی کو کئی کتابوں کے مصنف ہونے کے ساتھ ساتھ مربی سلسلہ کے طور پر جماعتی خدمات کی بھی توفیق ملی۔ بہرحال گلاسگو کے حوالے سے خاکسار نے نندا صاحب کا تعارف آپ سے کروایااور پھر نندا صاحب سے کہا کہ مکرم آرچرڈ صاحب بھی گلاسگو کے ہیں ۔ یہ سن کر آرچرڈ صاحب نے زور سے نفی میں سر ہلا کر فوراً تردید کی اور کہا کہ وہ گلاسگو سے نہیں ہیں ۔ نندا صاحب نے مجھے گھورا اور میرا چہرہ تذبذب خجالت اور حیرانی کے ملے جلے جذبات کا مرقع بن گیا۔

محترم بشیر احمد آرچرڈ صاحب

آرچرڈ صاحب مسکرائے اور پھر کہا کہ میرا تعلق اسلام آباد (ٹلفورڈ) سے ہے جہاں خلیفہ وقت نے مجھے مستقلاً رہنے کا حکم ارشاد فرمایا ہے۔ اب میرا حوالہ گلاسگو نہیں بلکہ اسلام آباد ہے۔ یہ سن کر میرے چہرے کا رنگ تو بحال ہوگیا مگر اب نندا صاحب کا چہرہ دیکھنے والا تھا جو ایک’’گورے‘‘ احمدی کو اپنے امام کی اطاعت میں اتنا ڈوبا دیکھ کر ورطۂ حیرت میں مبتلا اور انتہائی متاثر نظر آ رہا تھا کہ اس کو اس کے امام نے جس جگہ بٹھا دیا وہی اس کے لیے اس کا وطن قرار پایا۔
خاکسار کو ’’اول المہاجرین‘‘ حضرت الحاج حکیم مولوی نورالدینؓ خلیفۃ المسیح الاول کا وہ واقعہ یاد آ رہا ہے جب ایک بار (جبکہ بھیرہ میں آپؓ نے ایک بڑے شفا خانے کی تعمیر شروع کی ہوئی تھی) آپ قادیان میں حضرت امام الزماں مہدی دوراں حضرت مسیح موعود ؑسے ملنے آئے اور آپؑ نے خواہش ظاہر کی کہ اب آپؓ قادیان ہی میں رہائش اختیار کرلیں اور اپنی لائبریری اور اہل خانہ کو بھی قادیان منتقل کر لیں تو حضرت مولوی صاحبؓ نے جو یکہ بھیرہ واپسی کے لیے کرایہ پہ لیا تھا اسے فارغ کر دیا اور اپنے امام کے آستانہ کے ایسے ہورہے کہ آپؓ کے بقول پھر ’’میری واہمہ اور خواب میں بھی مجھے وطن کا خیال نہ آیا۔ پھر تو ہم قادیان کے ہو گئے۔‘‘
حضرت مسیح موعودؑ نے آ پ کے اس مثالی جذبہ اور عملی نمونہ کے بارہ میں فرمایا ’’وہ میری محبت میں …وطن مالوف اوردوستوں سے مفارقت اختیار کرتا ہے اور میرا کلام سننے کے لیے اس پر وطن کی جدائی آسان ہے اور میرے مقام کی محبت کے لیے اپنے اصلی وطن کی یاد بھلا دیتا ہے اور ہر ایک امر میں میری اس طرح پیروی کرتا ہے جیسے نبض کی حرکت تنفس کی حرکت کی پیروی کرتی ہے۔‘‘ (مرقات الیقین فی حیاتِ نورالدین)

آپؑ نے اس خواہش کا بھی اظہار فرمایا کہ کاش جماعت کا ہر فرد’’نورالدین‘‘ بن جائے، فرمایا ؎

چہ خوش بودے اگر ہر یک ز امت نور دیں بودے
ہمیں بودے اگر ہر دل پر از نور یقیں بودے

یہ خدا تعالیٰ کا فضل اور احسان ہے کہ اس نے حضرت مسیح الزماں کی اس دعا کو قبول کرتے ہوئے جماعت کو کئی ایسے مخلص فدائی عطا کیے اور کرتا رہے گا۔ چنانچہ خود حضرت مولوی نورالدین صاحبؓ نے ایک موقع پہ مکرم مولوی غلام رسول راجیکی صاحبؓ کی ایک تقریر سن کر فرمایا (جو آپ کی عظمت اور منکسرالمزاجی پہ دلیل ہے) کہ ’’ ہمارے مرزا نے تو کئی نورالدین پیدا کر دئیے ہیں!‘‘ (حیاتِ قدسی)
ذکر ہو رہا تھا ہمارے مہمان نندا صاحب کا۔ جلسہ پہ روانگی سے پہلے انہوں نے کہا تھا کہ وہ لوگوں کی آنکھوں میں جھانک کر پتہ لگا لیتے ہیں کہ اگلا کتنے پانی میں ہے اور جب وہ ہمارے خلیفہ صاحب سے ملیں گے تو ان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ان کے’’اندرونی من‘‘کی حقیقت جان جائیں گے۔ جب گروپ ملاقات کا وقت آیا اور حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کے ساتھ نندا صاحب کا تعارف کروایا گیا کہ ایک ہندو دوست ہمارے ساتھ جلسہ میں شرکت کرنے گلاسگو سے تشریف لائے ہیں تو حضورؒ نے فرمایا اچھا تو پھر آگے آکر ہاتھ ملا لیں اور اگر ذاتی ملاقات کرنی ہے تو پرائیویٹ سیکرٹری صاحب سے وقت بھی لے لیں ۔ نندا صاحب نے آگے جا کر حضورؒ سے شرفِ مصافحہ حاصل کیا اور حضورؒ کے کسی استفسار پر جواب بھی دیا۔

حضرت مرزا طاہر احمد صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ
حضرت مرزا طاہر احمد صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ

ملاقات کے بعد خاکسار نے لپک کر نندا صاحب سے پوچھا کیا آپ نے حضرت صاحب کی آنکھوں کے اندر جھانک کر دیکھا ؟ آپ کو تو انہوں نے اپنے قریب بلا لیا تھا۔ محجوب ہو کر بولے کہ آنکھوں کے اندر کیا جھانکنا تھا، ان کی شخصیت کا تو اتنا رعب تھا کہ آنکھ ملانا بھی مشکل ہو رہا تھا۔ کہنے لگے کہ جب لمبی ملاقات ہو گی تو پھر کوشش کر کے دیکھوں گا۔ خاکسار کے علم میں نہیں کہ بعد میں نندا صاحب کی ایسی کوئی’’ کوشش‘‘ کامیاب بھی ہوئی یا نہیں !۔

50% LikesVS
50% Dislikes

خلافت کی اطاعت اور بے مثال رعب” ایک تبصرہ

  1. جزاکم اللہ تعالی۔ واقعات کا بیان زیادہ عام فہم اور موثر ہوتا ہے۔ صرف فلسفیانہ اندازمیں بات سمجھنے والے لوگ کم ہوتے ہیں ۔ اس اعتبار سے بھی آپ کا کالم مفید ہوتا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں