خواتین مبارکہ کی چند باتیں

(مطبوعہ ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘، الفضل انٹرنیشنل لندن 25؍دسمبر 2023ء)

لجنہ اماءاللہ جرمنی کے رسالہ ’’خدیجہ‘‘برائے2013ء نمبر1 میں مکرمہ رضیہ بیگم صاحبہ نے خاندان حضرت مسیح موعودؑ کی چند خواتین کے حوالے سے اپنے مشاہدات اور اُن کی شفقتوں کو بیان کیا ہے۔
مضمون نگار رقمطراز ہیں کہ مَیں تب بہت چھوٹی تھی جب ہمارے خاندان میں احمدیت آئی تو پھر والد صاحب نے قادیان میں ایک گھر لے دیا اور ہم والدہ صاحبہ کے ساتھ اُدھر رہنے لگے۔ مجھے خاندانِ مسیح موعودؑ کی خواتین مبارکہ کو دیکھنے کا اس قدر شوق تھا کہ مَیں اسی کوشش میں رہتی کہ کوئی موقع پیدا ہو تو مَیں ان کے ہاں جاؤں۔ ایک مرتبہ مَیں دارالمسیح میں گئی۔ حضرت امّاں جانؓ کے چولہے پر کچھ پک رہا تھا۔ آپؓ قریب ہی کھڑی تھیں اور غالباً خود ہی کچھ پکارہی تھیں۔ آپؓ نے تنگ پاجامہ، لمبا کُرتہ اور بڑا سا دوپٹہ لیا ہوا تھا۔ آپؓ کے چہرہ پہ اس قدرنُور تھا کہ مَیں بیان نہیں کرسکتی۔ میں آپؓ کو دیکھتی جا رہی تھی اور دل چاہ رہا تھا کہ واپس ہی نہ جاؤں۔
حضرت اُمِّ طاہر صاحبہؓ کی ذات میں بھی میرے لیے بڑی جاذبیت تھی۔مَیں بہانے بہانے سے ان کے گھر جانے کی کوشش کرتی۔ ایک مرتبہ مَیں اپنی پڑوسن خالہ رحمت صاحبہ کے ساتھ جمعہ پڑھنے گئی۔ اُن دنوں جمعہ حضرت اُمِّ طاہرصاحبہؓ کے صحن میں ہی ہوتا تھا۔ جمعہ کے بعد خالہ صاحبہ مجھے ہمراہ لے کر حضرت اُمِّ طاہرؓ کے ساتھ ملاقات کرنے اوپر تشریف لے گئیں۔ آپؓ کے کمرے میں دو چارپائیاں بچھی ہوئی تھیں۔ ایک پر بستر تھا اور ایک خالی تھی۔ ہم بغیر بستر والی چارپائی پر بیٹھ گئے۔ کچھ دیر بعد حضرت سیدہ اُمِّ طاہر صاحبہؓ تشریف لائیں تو ہمیں ننگی چارپائی پر بیٹھا دیکھ کر فرمانے لگیں کہ اِدھر اِس چارپائی پر آجاؤ۔ اور خود بھی اُسی پر تشریف فرما ہوگئیں۔ ہم ٹانگیں لٹکا کر بیٹھ گئے۔ وہ فرمانے لگیں کہ ٹانگیں اوپر کرلو اور رضائی لے لو۔ ہمیں رضائی کے اندر اچھی طرح بٹھانے کے بعد خالہ رحمت صاحبہ سے ان کا حال احوال پوچھنے لگیں۔ خالہ صاحبہ نے میرے بارہ میں بتایا کہ یہ محلہ میں نئے آئے ہیں۔ آپؓ نے میرے سر پر نہایت شفقت سے ہاتھ پھیرا اور پیار کرتی رہیں۔ اس کے بعد بھی مَیں موقع پاکر آپؓ کے گھر پہنچ جاتی اور دل چاہتا کہ کسی طرح دیدار کی پیاس بجھاتی رہوں۔ آپ کی آخری بیماری کے دنوں میں مَیں آپؓ کے گھر چلی جاتی، چُھپ چُھپ کر اُوپر چڑھتی، آخری سیڑھی سے جھانک کر آپؓ کو دیکھتی، پھر ڈر کر جلدی سے بھاگتی ہوئی نیچے اُتر آتی۔ پھر جذبۂ شوق زور مارتا، پھر ڈرتی ڈرتی اُوپر جاتی اور سیڑھیوں سے جھانک کر واپس آجاتی۔ اگر اس وقت کوئی مجھے دیکھ لیتا تو سوچتا کہ معلوم نہیں کہ یہ ایسا کیوں کر رہی ہے۔ مگر ایک چھوٹی سی بچی کے دل کی حالت کی کسے خبر تھی جس کے دل میں بس یہی ایک لالچ تھا کہ آپؓ کے پاک چہرہ کی ایک جھلک دیکھ لوں۔ اس کے کچھ عرصہ بعد آپؓ کی وفات ہو گئی اور پھر مَیں آپؓ کو کبھی نہ دیکھ سکی۔آپؓ کی وفات پر مَیں نے سات مرتبہ قطار میں لگ کر آپؓ کے مبارک چہرے کا دیدار کیا۔
ربوہ میں ایک مرتبہ مَیں مکرمہ سلیمہ بیگم صاحبہ کے ساتھ حضرت نواب امۃالحفیظ بیگم صاحبہؓ کو ملنے گئی۔ آپؓ نے ہمیں اپنے بستر پر اپنے پاس ہی بٹھالیا۔ میں آپؓ کے ہاتھ دبانے لگی، آپؓ کے ہاتھ بہت نرم تھے۔ آپؓ ہم سے باتیں کرتی رہیں۔ دورانِ گفتگو آپؓ نے سمجھایا کہ عورت کے اپنے نام بھی کوئی جائیداد ہونی چاہیے۔
ایک دفعہ حضرت صاحبزادی سیّدہ ناصرہ بیگم صاحبہ سے ملنے مَیں اور مکرمہ سلیمہ بیگم صاحبہ گئیں۔ آپ بہت پیار سے ملیں، ہمیں بٹھایا اور کہنے لگیں کہ مَیں اپنے میاں کے لیے ہانڈی بھون رہی تھی، ان کا کھانا مَیں خود ہی پکاتی ہوں۔ چنانچہ ہمیں بٹھا کر آپ ہانڈی بھون کر واپس آگئیں۔ باتیں ہوئیں تو آپ ہمیں سمجھاتی رہیں کہ عورتیں جماعتی کام کے لیے عادتاً کہہ دیتی ہیں کہ یہ بہت ذمہ داری کا کام ہے ہم نہیں کرسکتے یا ہم نے عہدہ نہیں لینا تو فرمایا کہ جو عہدہ ملے اسے اللہ کا فضل سمجھنا چاہیے اور سلسلہ کی خدمت کرنی چاہیے۔
مَیں اور میری بیٹی ایک مرتبہ صاحبزادی امۃالحکیم بیگم صاحبہ سے ملنے گئیں۔ آپ بہت بےتکلّف، سادہ اور درویش صفت طبیعت کی مالک تھیں، بہت چاہت سے ملتیں۔ کمرہ بالکل سادہ طرز میں سجا ہوا تھا۔ آپ ہمیں اپنے بزرگ آباء کی باتیں سناتی رہیں۔ مَیں نے بھی اپنے ابّا کی قبولیت احمدیت کا واقعہ سنایا۔آپ دوسرے کی بات بھی بہت دلچسپی سے سنتی تھیں۔ جب ہم نے رخصت کی اجازت چاہی تو فرمایا: کچھ دیر اَور بیٹھو۔ اسی اثناء میں ایک عورت شہد بیچنے آگئی اور اپنے شہد کی بہت تعریف کرنے لگی۔ مَیں نے ایک بوتل خرید کر بی بی صاحبہ کو تحفۃً دی۔ ہماری واپسی پر ہمیں روک کر آپ اندر تشریف لے گئیں۔ چند منٹ بعد واپس آئیں تو ہاتھ میں دو بوتلیں شہد کی تھیں۔ ایک مجھے اور ایک میری بیٹی کو دیتے ہوئے فرمانے لگیں کہ اُس شہد کا تو پتہ نہیں مگر یہ شہد بالکل خالص ہے۔ واپسی پر آپ ضرور دروازے تک چھوڑنے آتیں۔
آپ مجھ سے بہت پیار کاسلوک فرماتی تھیں۔ ایک دفعہ جلسہ سالانہ جرمنی کے موقع پر آپ سٹیج پر بیٹھی ہوئی تھیں اور مَیں سامنے پہلی صف میں بیٹھی ہوئی تھی کہ آپ نے مجھے ایک سوٹ بھجوایا جو آج بھی مَیں نے سنبھال کر رکھا ہوا ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں