دماغ اور ذہنی قوّت – جدید تحقیق کی روشنی میں

دماغ اور ذہنی قوّت – جدید تحقیق کی روشنی میں
(ناصر محمود پاشا)

امریکہ میں نیشنل انسٹیٹیوٹ اور نیویارک یونیورسٹی سکول آف میڈیسن کے طبی ماہرین نے کہا ہے کہ ذہنی طور پر پسماندہ بچوں کے دماغ کا حجم دوسرے بچوں کے مقابلے میں نہ صرف چھوٹا ہوتا ہے بلکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ بڑھنے بھی نہیں پاتا۔ ماہرین نے تین سو چھوٹے بچوں کے دماغ پر تحقیق کی اور اُن کے دماغ کا دس برس کے دوران جائزہ لیا گیا جس کے نتیجے میں ماہرین کو علم ہوا کہ بچوں میں توجہ اور ارتکاز کی کمی اور ذہنی پسماندگی میں شدت کا تعلق بچوں کے دماغ کے حجم اور اُن کی عمر کے ساتھ ہے۔ ماہرین کے مطابق بچوں میں توجہ کی کمی اور ذہنی عوارض کے علاج کے لئے دی جانے والی دوائیں دماغ کو سکیڑنے کا باعث نہیں بنتیں بلکہ ایسے بچوں کے دماغ اور سر کا سائز بھی صحت مند بچوں کی نسبت پہلے سے چھوٹا ہوتا ہے۔
گزشتہ ہفتے کی ایک خبر میں ایک اہم امریکی موجد نے پیشگوئی کی ہے کہ آئندہ بائیس سال تک مشینیں بھی انسانی سطح کے برابر کی مصنوعی ذہانت حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائیں گی۔ امریکی موجد رے کروز وِل کا کہنا ہے کہ لوگوں کی ذہانت کو مزید بہتر بنانے کے لئے اُن کے دماغ میں چھوٹے روبوٹس کی تنصیب بھی اُس وقت تک ممکن ہوجائے گی۔ انہوں نے اپنے تحقیقی کام کی بنیاد کی وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ وہ ہارڈویئر اور سوفٹ ویئر دونوں کی مدد سے 2029ء تک اُس درجے کی انسانی ذہانت مشینوں میں پیدا کرنے میں کامیابی حاصل کرلیں گے جن میں انسانی جذبات بھی شامل ہوں گے۔ انہوں نے بی بی سی نیوز کو بتایا کہ ذہین نینوبوٹس انسانی دماغ کی باریک شریانوں کی مدد سے دماغ میں داخل ہوکر دماغ کے قدرتی نیورونز کے ساتھ مل کر کام شروع کردیں گے۔ یہ نینوبوٹس انسانی جسم کو مزید چست بنانے کے ساتھ مختلف چیزوں کو یاد رکھنے میں معاون ثابت ہوں گے۔
ایک دوسری ویب رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ انسانی دماغ کی حقیقی بلندی چالیس سال کی عمر کے بعد دیکھی جاسکتی ہے۔ لیکن جس طرح جسمانی ورزش سے جسم کو بہتر بنایا جاسکتا ہے، اُسی طرح دماغی ورزشیں بھی دماغ کو بہتر بنانے کے لئے ضروری ہیں۔ انسانی دماغ لاشعوری طور پر سانس لینے، درجہ حرارت برقرار رکھنے اور غذا ہضم کرنے میں معاونت کرتا ہی ہے لیکن ان عوامل کا ہم واضح ادراک نہیں رکھتے۔ تاہم دماغ کے ہزاروں شعوری فرائض میں سوچنا، سیکھنا اور یاد رکھنا شامل ہیں۔ اگر دماغی ورزشوں کو باقاعدگی سے سرانجام دیا جائے تو دماغ کے سوچنے، سیکھنے اور یاد رکھنے کی صلاحیت کو لمبی جسمانی عمر تک برقرار رکھا جاسکتا ہے چنانچہ بیشتر ایسے افراد جنہوں نے مختلف شعبہ ہائے زندگی میں نمایاں کارنامے سرانجام دیئے ہیں، وہ اُس وقت اپنی عمر کے آخری حصے سے ہی تعلق رکھتے تھے۔ لیکن اگر دماغ کا استعمال ہی کم کردیا جائے تو پھر دماغ کسی بھی عمر میں ایک زنگ آلود مشین میں تبدیل ہوسکتا ہے۔ البرٹ کالج نیویارک میں نیورولوجی کے ایک پروفیسر کہتے ہیں کہ ذہن کی کارکردگی بہتر بنانے کے لئے مختلف معمّے حل کرنے اور شطرنج وغیرہ کھیلنا بہت فائدہ مند ثابت ہوسکتا ہے۔ اسی طرح مطالعہ کرنے اور تاش کھیلنے سے بھی دماغی مشق ہوتی ہے۔
چھوٹے بچوں پر تحقیق کے دوران معلوم ہوا کہ جن بچوں کو ابتدائی عمر میں ذہنی مشقیں کروائی جاتی ہیں وہ نہ صرف مشکل اسباق باآسانی ذہن نشین کرلیتے ہیں بلکہ اُنہیں تاعمر بھلا نہیں پاتے۔ لیکن اگر لڑکپن تک ذہن کو متحرک رکھنے والے کام نہ کئے جائیں تو ذہنی صلاحیتوں کا زوال شروع ہوجاتا ہے۔ ابرڈین یونیورسٹی سکاٹ لینڈ کے ماہر نفسیات پروفیسر لارنس کا کہنا ہے کہ جو کچھ انسانی دل کے لئے فائدہ مند ہے وہی چیزیں آپ کے دماغ کے لئے بھی مفید ہوتی ہیں۔ اسی طرح دل کو بیمار کرنے والے عوامل سے دماغ بھی متأثر ہوسکتا ہے۔ حالیہ تحقیق کے مطابق انسانی صحت کے ساتھ دماغ کو بھی چست رکھنے والی غذاؤں میں مچھلی، ہلدی، مختلف سبزیاں اور مخصوص مقدار میں کیفین بھی شامل ہے۔ انسانی دماغ کے حوالے سے جو نئی تحقیق ہورہی ہے اُس کے نتیجے میں توقع ہے کہ حادثات کے باعث دماغ کو نقصان پہنچنے کی صورت میں اب مصنوعی دماغ بھی لگایا جاسکے گا۔ اور دماغی چوٹ سے متأثر مریض بھی صحت مند زندگی گزارسکیں گے۔
بعض جدید تجربات کے نتیجے میں سائنسدانوں نے حرام مغز کے اعصاب کو تَباہ کرکے اس میں موجود تمام ڈیٹا کو کمپیوٹر اور انسانی دماغ تک کیبل کی طرح لے جانے کا دعویٰ بھی کیا ہے اور یہ واضح ہے کہ اس دریافت سے انسان کے اعصابی نظام کو کمپیوٹر کے ساتھ منسلک کرنے میں بھی مدد ملے گی۔ اس وقت سائنسدان اپنے تجربات کا دائرہ دماغ سے آنکھوں اور کان کے نظام تک بڑھانے کے لئے مزید تجربات کرنے میں مصروف ہیں۔
٭ روزنامہ ’’سائنس‘‘ میں شائع ہونے والی ایک تحقیق میں کہا گیا ہے کہ ادھیڑ عمر یا بڑھاپے میں رسالے پڑھنے یا دستکاریوں جیسی ذہنی سرگرمیوں سے حافظے کی کمزوری سے بچنے کی کوشش کی جاسکتی ہے یعنی حافظے کی کمزوری کا عمل سست پڑسکتا ہے۔اس جائزے میں 70 سے 89 برس تک کی عمروں کے 197 افراد کو شامل کیاگیا تھا جو حافظے کی کمزوری اور سوچ بچار کی معمولی خرابی میں مبتلا تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ اس جائزے میں 1124 ایسے افراد بھی شامل کیے گئے تھے جنہیں یاداشت کا کوئی مسئلہ درپیش نہیں تھا۔ دونوں گروپوں نے گذشتہ سال کے دوران اور عمر کے اس دور میں جب وہ 50 سے 65 برس کے تھے ،اپنی روزمرہ کی سرگرمیوں کے بارے میں سوالات کے جواب دیے۔ جن سے معلوم ہوا کہ نسبتاً بڑی عمر کے دوران مطالعہ کرنے، مختلف کھیلوں اور کمپیوٹر کی سرگرمیوں میں حصہ لینے کے ساتھ ساتھ مختلف دستکاریوں مثلاً مٹی کی چیزیں بنانے یا سلائی کڑھائی میں مشغول ہونے سے حافظے کی کمزوری میں مبتلا ہونے کا خطرہ ان لوگوں کی نسبت 30 فیصد تک کم ہوگیا جنہوں نے ان سرگرمیوں میں حصہ نہیں لیا تھا۔ نتائج کے مطابق جن عمررسیدہ لوگوں نے روزانہ سات گھنٹے سے کم ٹیلیویژن دیکھا تھا ، ان میں ایسے افراد کی نسبت حافظے کی کمزوری کا امکان 50 فیصد کم تھا جنہوں نے روزانہ سات گھنٹے سے زیادہ ٹیلیویژن دیکھا تھا۔ اسی طرح جن افراد نے ادھیڑ عمری میں سماجی سرگرمیوں اور مطالعے میں اپنا وقت صرف کیا تھا، ان میں ان افراد کی نسبت حافظے کی کمزوری میں مبتلا ہونے کا امکان قریباً 40 فیصد کم تھا جنہوں نے ان سرگرمیوں میں حصہ نہیں لیا تھا۔
یہ رپورٹ راچسٹر میں قائم میو کلینک کے ایک نیوروسائیکاٹرسٹ اور امریکن اکیڈمی آف نیورالوجی نے مرتب کی ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں