دیارِ حبیب ﷺ میں

(مطبوعہ رسالہ انصارالدین ستمبرواکتوبر 2023ء)

بشیر احمد رفیق خان صاحب

مجھے اللہ تعالیٰ نے دو مرتبہ اپنی بیوی سلیمہ کے ساتھ دیار حبیب جانے، عمرہ کرنے اورمدینہ میں روضۂ اقدس پرحاضر ہونے کی توفیق عطا فرمائی ہے۔ ہم دونوں مرتبہ دسمبر میں اس سفر پر گئے۔ لندن سے جہازپر سوار ہوئے تو دل کی عجیب کیفیت تھی۔ زندگی بھر جس زبردست خواہش کو دل میں پالتا رہا وہ اب خدا نے پوری کرنے کے سامان پیدا کردیے تھے۔ صبح سویرے جدہ کے بین الاقوامی ایئرپورٹ پراترے۔ سرزمینِ حجاز کی مقدس اورمطہر زمین پر قدم رکھا تودل کی کیفیت غیر ہوگئی۔ یہ وہ سرزمین تھی جہاں آقائے دوجہاں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پیدا ہوئے، پروان چڑھے اورنبوت کی خلعت آپؐ کواللہ تعالیٰ نے پہنائی۔ آپؐ نے نبوت کے 23سالوں میں دنیابھر میں ایک عظیم تغیر، زلزلہ اور انقلاب برپا کردیے۔ اس انقلاب نے نہ صرف نجد و حجاز بلکہ ساری دنیا کی ہی کایا پلٹ دی۔ آپ کی تعلیمات نے تاریک و تار دنیا کو بقعۂ نور بنا دیا اور انسانیت کی عظمت کو دنیا میں قائم کردیا۔
یہی وہ سرزمین ہے جہاں اللہ تعالیٰ کا پہلا گھر بنااور جسے خود خدا تعالیٰ نے بیت العتیق یعنی بہت پرانا گھر قراردیا ہے اور جس کی زیارت کو متموّل مسلمانوں پر فرض کردیا ہے ،جسے ہم حج کے نام سے جانتے ہیں۔

جدّہ ایئرپورٹ سے ہم دوستوں کی معیت میں روانہ ہوئے۔ شام کاوقت تھا۔ سارا جدّہ روشنیوں سے جگمگا رہا تھا۔ جدّہ ایک خوبصورت، ماڈرن اور پُرفضا شہر ہے۔ فلک بوس عمارات، کشادہ سڑکیں اور ساحل سمندر کے ساتھ ساتھ دنیا بھر میں سے لمبی Marine Driveجدّہ کی خوبصورتی کو چار چاند لگاتے ہیں۔ شہر میں متعدد جگہ بڑے خوبصورت شاپنگ مالز بھی ہیں۔
اگلے دن باہمی مشورہ سے طے کیا کہ ہم عمرہ کے لیے عصر کے بعد جدّہ سے روانہ ہوں تا عمرہ نسبتاً ٹھنڈے وقت میں کرلیا جائے۔ عصرکی نماز پڑھ کر ہم نے غسل کیے اور احرام باندھ لیے۔ مکہ معظمہ جدہ سے 45کلومیٹر کے فاصلہ پر ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ یہ فاصلہ اونٹوں پراور پیدل طے کیا جاتا تھا اور مسافروں کو مکہ پہنچنے تک کم از کم دو دن درکار ہوتے تھے لیکن اب کشادہ ایئرکنڈیشنڈ خوبصورت موٹرکاروں کی بدولت یہ فاصلہ 45منٹ میں طے ہوجاتاہے۔ قافلہ روانہ ہوا تو ہم نے اونچی آوازوں سے تلبیہ یعنی اللّٰھُمّ لَبَّیْک بآواز بلند پڑھنا شروع کر دیا۔
جلد ہی ہمارا قافلہ حرم شریف سے چند قدم کے فاصلہ پر واقع Kaki Hotel کے سامنے رک گیا۔ ہمارے قیام کا اسی ہوٹل میں انتظام تھا۔ اس ہوٹل میں چھ منزلہ لفٹ کی بھی سہولت موجود ہے۔ ہوٹل ایئرکنڈیشنڈ ہے اور ہر لحاظ سے آرام دہ ہے۔ سامان ہوٹل میں رکھا، دوبارہ غسل کیے اور احرام باندھ کرجانبِ حرم روانہ ہوئے۔ شام ہو چلی تھی اورحرم روشنیوں سے جگمگا رہا تھا۔ رات میں دن کا سا سماں بندھا ہوا تھا اور یوں لگتا تھا جیسے ہم روشنیوں کے ایک وسیع سمندر کی طرف بڑھ رہے ہوں۔ دل شوق سے دھڑک رہے تھے اورزبان پر درود و سلام کا ورد تھا۔ حدیث میں آتا ہے کہ خانہ کعبہ پر نظر پڑتے ہی جو دعا کی جائے وہ اللہ تعالیٰ قبول فرماتا ہے۔ میں بھی دل میں دعاؤں کا ایک ذخیرہ لیے حاضر ہو رہا تھا، سمجھ میں نہ آتا تھا کیا مانگوں اورکیا نہ مانگوں۔ مَیں تو ہر د م محتاج، بےبس اور تہی دامن ہوں جسے قدم قدم پر مولیٰ کی مدد کی ضرورت ہے۔ سوچوں میں غلطاں جب خانہ کعبہ پر پہلی نظر پڑی تو بدن پرایک کپکپی سی طاری ہوگئی۔ دل ابل پڑا اور آنکھیں پانی برسانے لگیں۔ ایک عجیب سرور کی سی کیفیت طاری ہو گئی۔ اس وقت مجھے حضرت مولانا نورالدین صاحبؓ خلیفۃ المسیح اوّل کا ایک واقعہ یاد آگیا کہ جب ان کی خانہ کعبہ پر پہلی نظر پڑی تو انہوں نے اپنے مولیٰ کریم سے دعا کی کہ یااللہ! میں توہر دم تیری مدد کا محتاج ہوں اور میرا دل دعاؤں کا ایک خزانہ لیے ہوئے ہے۔ اس لیے میں یہ دعا کرتا ہوں کہ میں جب بھی تجھ سے کوئی دعاکروں تواسے قبول فرما کہ مَیں فقیر ہوں اورتو غنی ہے۔
چنانچہ میں نے یہی دعا کی اور مجھے یقین ہے کہ میری یہ دعا قبول ہوگی۔ حرم شریف کے پانچ دروازے ہیں، جس دروازے سے چاہیں داخل ہوسکتے ہیں۔ ہماراہوٹل باب عبدالعزیز کی سمت میں تھا اس لیے ہم اسی دروازے سے اندر داخل ہوئے۔ دعائیں پڑھتے ہوئے اورآنسو بہاتے ہوئے ہم خانہ کعبہ کے قریب جاپہنچے۔ قدموں کے نیچے نہایت آرام دہ ، خوبصورت اور ٹھنڈا سنگ مرمر کافرش تھا جوگرمی کی شدّت میں بھی ٹھنڈا رہتا ہے۔ ایک زمانہ تھاکہ خانہ کعبہ کے ارد گرد کنکریوں کافرش ہوتا تھا جو گرمی میں انگارے بن جاتے تھے اور اکثرطواف کرنے والوں کے پاؤں زخمی ہو جایا کرتے تھے۔
خانہ کعبہ کے گرد طواف کا منظر بہت رقّت آمیز تھا۔ ہر آنکھ پُرنم تھی۔ درود و سلام کی آوازیں مسحور کن موسیقی کی طرح کانوں میں رس گھول رہی تھیں۔ ہم مطاف میں داخل ہوگئے اور حجرِ اسود والے کونے پر پہنچے۔ حجرِاسود کے بالمقابل ایک سبز رنگ کی لکیر ڈالی گئی ہے جہاں سے طواف کا آغاز ہوتا ہے۔ دن ہویا رات ہو، چوبیس گھنٹے چار پانچ سو افراد کا ہجوم مستقلاً طواف میں رہتا ہے۔ شام اوررات کو یہ ہجوم بڑھ جاتا ہے۔


ہم بھی حجرِ اسود کے سامنے کھڑے ہوگئے اور ہاتھ کے اشارے سے حجرِ اسود کو بوسہ دیا۔ ہجوم کی وجہ سے حجرِ اسود کو بوسہ دینا ممکن نہ تھا۔ اختتامِ طواف پر برادرم ملک بشیرالدین صاحب نے کہا کہ آئیں میں آپ کو حجرِ اسود کا بوسہ کراتاہوں۔ ملک صاحب ایک مضبوط جسم کے انسان ہیں۔ وہ میرا ہاتھ پکڑ کر حجرِ اسود کے پاس لے گئے اور میرا سر حجرِ اسود کے خول کے اندر کردیا اور خود دونوں ہاتھوں سے میرے سر کے اوپر حلقہ بنائے رکھا۔ میں نے جی بھر کر بوسہ لیا اورخداکا شکر اداکیا اور اس بات پردل خوشی سے پھولے نہ سماتا تھا کہ آج دنیا میں اَور کوئی چیز ایسی موجود نہیں جسے حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے لب مبارک نے چھوا ہو، لیکن یہ بات یقینی ہے کہ حجرِ اسود کو آپؐ نے بار ہا چوما تھا اور اس پر اپنے لب رکھنا گویا محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے لب مبارک کو چومنے کے مترادف تھا۔ اس خیال نے میرے دل میں ایک خاص سرور پیدا کیا۔
طواف میں خانہ کعبہ کے گرد سات چکر لگانے ہوتے ہیں۔ اس دوران میں عربی اور اپنی زبان میں دعائیں مانگی جاتی ہیں۔ ملک بشیرالدین صاحب یہاں بھی ہمارے لیے ایک نعمت ثابت ہوئے۔ اُنہیں عربی زبان میں ہرچکر کی دعا زبانی یاد تھی اس لیے وہ اونچی آواز میں دعا پڑھتے جاتے تھے اور ہم ان کے ساتھ دہراتے چلے جاتے تھے۔ طواف کے وقت قبولیتِ دعا کا ایک خاص اثر طبیعت پر پڑتا ہے۔ ہم نے اسلام اور احمدیت کے غلبہ کے لیے، اپنے والدین، دوست احباب اور اُمّت مسلمہ کے لیے خاص دعائیں کیں۔ دورانِ طواف میں بعض رقّت آمیز مناظر دیکھنے میں آئے۔ایک افریقن خاتون جو چلنے پھرنے سے معذور تھیں زمین پر رینگ رینگ کر طواف کررہی تھیں۔ یہ منظر بہت غمناک تھا۔
سات چکر لگانے سے طواف مکمل ہو جاتا ہے۔ جس کے بعد مقام ابراہیم کے نزدیک دو رکعت نفل پڑھنا، سنتِ نبوی میں شامل ہے۔ ہم نے بھی دو رکعت نفل پڑھے اور پھر سنت نبویؐ کے مطابق پیٹ بھر کر زمزم کا پانی پیا۔
زمزم کے پانی سے خوب سیر ہوجانے کے بعد تازہ دم ہوکر سعی کے لیے صفا اورمروہ کی پہاڑیوں کی طرف چل پڑے۔ حجرِ اسود کے بالمقابل کچھ فاصلے پر باب الصفا ہے جہاں سے داخل ہوکر صفا اور مروہ پہاڑیوں کے درمیان سات چکر لگانے ضروری ہیں۔ پہلا چکر صفا سے شروع ہوکرمروہ پرختم ہوتا ہے۔
ایک زمانہ تھا کہ صفا اور مروہ کے درمیان سعی کرتے وقت حاجیوں کے پاؤں زخمی ہو جایا کرتے تھے کیونکہ راستہ کنکریوں سے گرم ہو جایا کرتا تھا۔ لیکن اب ایک تو اس پر چھت ڈال کر راستہ کو ایئرکنڈیشنڈ کردیا گیا ہے، دوسرے فرش ٹھنڈے سنگ مرمر سے بنادیا گیا ہے۔
سعی کے دوران بھی خوب دعائیں کرنے کے مواقع ملے۔ ہم نے اشکبار آنکھوں کے ساتھ جو بھی خدا سے مانگنا تھا، مانگ لیا۔ میرے دوسرے ساتھیوں کی حالت بھی شدید رقّت سے غیر تھی۔ سعی کے اختتام پر ہم نے سنتِ نبویؐ کے مطابق بال کاٹے اور یوں عمرہ خداتعالیٰ کے فضل سے اختتام پذیر ہوا۔اگلے چند دن جب تک ہم مکہ میں مقیم رہے اور ہمیں مزید عمروں کی بھی توفیق ملی۔
اس عمرہ کے دوران میں اللہ تعالیٰ کا ایک خاص فضل ہم پر یہ ہوا کہ دمام سے برادرم شاہد احمد بنگالی صاحب بھی عمرہ کے لیے آئے ہوئے تھے۔ اُن دنوں وہ دمام میں ہی ایک فیکٹری کے مینیجرتھے۔ مخلص احمدی ہیں، کئی بارعمرہ اور حج کرچکے ہیں۔ عربی زبان بھی خوب بولتے ہیں۔ ان کا وجود ہمارے لیے فرشتۂ رحمت سے کم نہ تھا۔ وہ بھی ہمارے ہی ہوٹل میں مقیم تھے اور چونکہ کئی بار حج و عمرہ کی سعادت پاچکے تھے اس لیے ہمارے لیے نہ صرف بہترین گائیڈ ثابت ہوئے بلکہ ہماری خدمت اور مہمان نوازی میں بھی انہوں نے کوئی کسر باقی نہ چھوڑی۔ ان کی بیگم صاحبہ بھی ہماری خواتین کے ساتھ خوب گھل مل گئیں اور یوں ہم نے ان کی قیادت میں مکہ معظمہ کے تمام تاریخی مقامات کی نہ صرف سیرکی بلکہ ان کی کمنٹری سے بھی محظوظ ہوتے رہے۔
غار حرا وہ مقدس مقام ہے جہاں اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کی آخری شریعت کاحضرت محمد مصطفیٰﷺ پر نزول ہوا۔ یہ مکہ سے قریباً پانچ میل کے فاصلے پر ہے۔ سلیمہ اور میرے لیے اس عمر میں غار حرا کی چڑھائی چڑھنا ممکن نہ تھا۔ کاش ہم نے جوانی میں عمرہ کیا ہوتا تو اس مقدّس مقام پر بھی ضرور جاتے۔ لیکن ڈاکٹر عبد الوحید صاحب اور ان کے بچوں نے شاہد صاحب کے ساتھ نماز فجر کے بعد غار حرا پر جانے کا پروگرام بنایا۔ شاہد صاحب پہلے بھی کئی بار غار میں عبادت کی سعادت حاصل کرچکے تھے۔ پانی کی بوتلیں یہ اپنے ساتھ لے گئے۔
مکہ معظمہ میں جو مشہور زیارات ہیں ان میں مولد النبی ﷺ شامل ہے۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں آنحضرتﷺ پیدا ہوئے۔ اب اس جگہ ایک مدرسہ قائم ہے۔ مکہ سے چند میل باہر غار ثور ہے جہاں آنحضورﷺ نے ہجرت کے دوران میں تین راتیں گزاری تھیں۔ اس تک پہنچنے کاراستہ انتہائی دشوار گذار ہے۔ ہم نے اس کے دامن میں کھڑے ہوکر دعائیں کیں۔ میدان عرفات بھی گئے۔
مکہ میں چند دن قیام کے بعد ہم ٹیکسیوں میں مدینہ النبی ﷺ روانہ ہوگئے۔ علی الصبح مکہ سے روانہ ہوکر ظہر کی نماز کے وقت مدینہ منورہ جا پہنچے۔ سارا راستہ یوں لگتا تھا گویا ہم پتھروں کے کھیتوں میں سے گذر رہے ہیں۔ سڑک نہایت کشادہ اور ٹیکسیاں آرام دہ و ایئرکنڈیشنڈ ہیں۔ مدینہ پہنچے تو برادرم عبدالرزاق صاحب کو اپنا منتظر پایا۔ انہو ں نے مسجد نبوی کے بالکل قریب ہمارے لیے ایک ہوٹل میں کمرے بک کروائے ہوئے تھے۔ ہم سیدھے وہاں پہنچے۔عبد الرزاق صاحب پچھلے اٹھارہ سال سے مدینہ میں ہیں جہاں ان کا وسیع کاروبار ہے۔ اخلاص اور محبت کے پیکر ہیں۔ جاتے ہی کہنے لگے کہ آپ کی صرف رہائش ہوٹل میں ہوگی کھانا مَیں لایا کروں گا۔ میرے انتہائی اصرار کے باوجود بھی وہ اس بات پر رضامند نہ ہوئے کہ ہم کھانا ہوٹل سے کھایا کریں۔ فجزاہ اللہ احسن الجزاء
عبد الرزاق صاحب نے فرمایا آپ غسل کرلیں اور تھوڑی دیر آرام کریں، میں ایک دو گھنٹہ میں آجاؤں گا اور آپ سب کو مسجد نبوی لے جاؤں گا۔ ہم جلد ہی تیار ہوکر بےقراری کے ساتھ عبد الرزاق صاحب کاانتظار کرنے لگے۔ دل روضۂ مبارک پر حاضری کے لیے بے قرار تھا۔ عمربھر کی تمناؤں، دعاؤں اورآرزوؤں کی تکمیل کا وقت اب قریب تر تھا۔ مدینہ منورّہ مکہ معظمہ کی نسبت کہیں زیادہ شاداب اور زرخیر ہے۔ موسم بھی مکہ کی نسبت زیادہ خوشگوار ہے اور رات کو چادر یا کمبل کی ضرورت پڑ جاتی ہے۔
عبد الرزاق صاحب تشریف لائے اور ہمارا قافلہ مسجد نبوی پہنچا۔ نماز عصر ہوچکی تھی۔ چونکہ ہماری تعداد کافی تھی اس لیے میں نے نمازعصر پڑھائی جس میں اَور لوگ بھی شامل ہوگئے۔ فالحمدللہ۔ مسجد نبوی کی حال ہی میں توسیع ہوئی ہے اور اس کی ظاہری شان و شوکت دیدہ زیب ہے۔


مسجد نبوی کو دیکھنے کے بعد ہم سب احباب و مستورات روضۂ اطہر پر حاضری دینے کے لیے چل پڑے۔ اس وقت کی کیفیت کااظہار الفاظ میں بیان کرنا ناممکن ہے۔ قریب پہنچے تو لوگوں کا اژدہام تھا۔ روضۂ مبارک کے سامنے پہنچ کر ہم نے لمبی دعائیں کیں۔ وقت کا احساس جاتا رہا اور غالباً ہم قریباً ایک گھنٹہ کھڑے ہوکر اپنے آقا و مولیٰ کے حضور نذرانۂ عقیدت پیش کرتے رہے۔
مدینہ منورہ قیام کے دوران میں پانچوں نمازیں اور تہجد مسجد نبوی میں پڑھنے کی توفیق ملتی رہی۔ فالحمدللہ۔ روضۂ اطہر پر متعدد بار حاضری دی، دعائیں کیں اور درود و سلام پیش کیے۔ اگلے چند دن ہم نے دیگرزیارات میں گذارے جن میں میدان احد، مسجد قبا، مسجد قبلتین اور خندق کے مقام کی مساجد شامل ہیں۔
یہاں ایک ایمان افروز واقعہ بھی درج کردینا مناسب سمجھتا ہوں جو میرے بچوں کے لیے ازدیادِ ایمان کاباعث ہونا چاہیے۔ نیز اس سے انہیں یہ سبق ملنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نہ صرف دعاؤں کو سنتا ہے بلکہ انہیں قبول بھی کرتا ہے اور اس طرح اپنے بندوں سے تعلق قائم کرکے اپنی ہستی کازندہ ثبوت مہیا کرتا ہے۔


عمرہ پر روانہ ہونے سے قبل مجھے ایک تکلیف دہ بیماری کا سامنا تھا۔ 1978ء کے آخر میں مجھے شدید depressionاور acute anxietyکا دورہ پڑا پھر آہستہ آہستہ ان attacksکیfrequencyبڑھنی شروع ہوئی۔ جب گھبراہٹ اور شدید depressionکاحملہ ہوتا تھا تو مجھے یوں محسوس ہوتا تھا کہ گویا میرا دل ڈوب رہا ہے۔ کسی پل چین حاصل نہ ہوتا تھا۔ گھبراہٹ میں اِدھر اُدھر ٹہلنا شروع کردیا کرتا تھا۔ لیکن یہ خوفناک گھبراہٹ مجھے بار بار لاچار کردیتی تھی۔ جب یہ بیماری بہت بڑھ گئی تو میں نے ڈاکٹر سے مشورہ کیا تو انہوں نے Anti Deprecent ادویات دیں لیکن ان سے سوائے اس کے کچھ غنودگی طاری ہو جاتی تھی اورکوئی فائدہ نہ ہوتا تھا۔ ہومیوپیتھی اور یونانی ادویات بھی استعمال کیں لیکن ’’مرض بڑھتا گیا جوں جو ں دوا کی‘‘ والی کیفیت ہو گئی تھی۔ اس بیماری نے مجھے اس قدر خوفزدہ کردیا کہ میں اکیلے باہر جانے یا سفر پرجانے سے گھبراتا تھا۔ بند کمروں سے شدید گھٹن محسوس کرتا تھا۔ حملہ شام کو ہوتا اور تمام رات جاگ کر یا باہر سڑک پر نکل کر ٹہلنے میں گذرتی تھی۔ میری بیوی بھی میری اس بیماری کی وجہ سے سارا وقت میری نگہداشت میں گذارتی تھی۔
جس سال مَیں عمرہ پر جارہاتھا میں نے دل میں یہ عہد کیا کہ خانہ کعبہ پر پہلی نظر پڑتے ہی اور بعد میں طواف وسعی کے دوران میری دعاؤں کا مرکز اس بیماری سے نجات حاصل کرنا ہوگی۔ جب ہم مکہ معظمہ پہنچے تومیں نے اپنی بیوی سے بھی درخواست کی کہ میرے لیے خاص دعا کرنا کہ میں اب اس بیماری سے بہت تنگ آچکا ہوں اور لاچار ہوں۔ میں نے خود بھی بڑے تضرّع اور رقت کے ساتھ طواف وسعی کے دوران اور پھر مسجد نبوی میں اور روضۂ اطہر پر حاضری کے دوران میں اس مرض سے نجات کے لیے خصوصی دعائیں کیں۔ عمرہ سے فراغت کے بعد ہم پاکستان چلے گئے اوروہاں سے چند روز کے بعد قادیان بھی حاضری دی۔ وہاں بیت الدعا میں ایک رات پھر مجھے بڑے درد کے ساتھ دعاؤں کی توفیق ملی۔

مسجد اقصیٰ قادیان

میں اللہ تعالیٰ کا شکر کیسے ادا کروں کہ میرے پاس اس کے لیے الفاظ نہیں ہیں کہ اگلے دن میں نے قادیان میں خواب دیکھا کہ ایک شخص نے مجھے کہا کہ تمہاری دعاؤں کو اللہ تعالیٰ نے شرف قبولیت عطا فرمایا ہے۔ اب تمہیں کبھی گھبراہٹ کاحملہ نہ ہوگا۔ میں نے سلیمہ سے اس خواب کا ذکر کیا اور اللہ کا شکر ادا کیا۔ میں خدا کی قسم کھاکر کہتا ہوں کہ اس دن کے بعد سے مجھے کبھی گھبراہٹ یا ڈپریشن کی کوئی تکلیف نہیں ہوئی۔
سلیمہ اس بات کی گواہ ہے کہ میرے دل کے بائی پاس اپریشن سے پہلی رات کو ہسپتال میں مجھے نرس نے ایک گولی کھانے کے لیے دی۔ میں نے اس سے پوچھا یہ گولی کس لیے ہے؟ اس نے بتایا کہ اپریشن کی رات سب کو بڑی گھبراہٹ ہوتی ہے اور یہ گولی گھبراہٹ دور کرتی ہے ،اس سے تمہیں نیند بھی آجائے گی۔ میں نے اسے کہا مجھے ہرگز کوئی گھبراہٹ نہیں ہے اور میں نے وہ گولی نہیں کھائی اور آرام کی نیند سوگیا۔ اپریشن سے کچھ دیر قبل جب مجھے سٹریچر پرلٹایا ہوا تھااورمیں نرس سے باتیں کررہا تھا تو اس نرس نے مجھ سے کہا کہ لوگ تو ایسے وقت میں بہت گھبراہٹ کاشکار ہوتے ہیں لیکن تمہیں تو کوئی گھبراہٹ نہیں ہے۔ اس وقت برادرم کرنل نذیر احمد صاحب بھی میرے پاس آئے، میراہاتھ پکڑ کر سہلایا اور تسلی دی۔ مجھے تو اب یاد نہیں کیونکہ مجھ پر بیہوشی کا کچھ دَور شروع ہوچکا تھا لیکن بعد میں برادرم نذیر احمد نے مجھے بتایا کہ تم نے اس وقت حضرت مصلح موعودؓ کا یہ شعر پڑھا تھا:

ہو فضل تیرا یا ربّ یا کوئی ابتلا ہو
راضی ہیں ہم اسی میں جس میں تری رضا ہو

میں اپنے بچوں کو بھی یہ نصیحت کرتا ہوں کہ کبھی بھی دعاؤں سے غفلت نہ برتنا۔ دعا میں بڑی قوت ہے۔ دعا دلوں کی سکینت اوراطمینان کاباعث ہے۔ اس کے ذریعہ بڑی سے بڑی مشکل بھی حل ہو جاتی ہے۔ رات ہو یا دن ہو، دعا کرنے میں بڑی برکت ہے۔ ضروری نہیں کہ اونچی آواز میں یا زبان ہلاکر ہی دعاکی جائے بلکہ دل کو اس طرح بنانا چاہیے کہ وہ ہر وقت ہی دعا میں لگا رہے جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ ’’دست درکار و دل بایار‘‘۔ یعنی انسان اپنے کام کا ج میں لگا رہے لیکن دل کو اپنے یا ر یعنی اپنے اللہ کی یاد سے معمور رکھے۔ حضرت چودھری سرمحمد ظفراللہ خان صاحبؓ نے ایک دفعہ مجھے فرمایا کہ جب پہلا Astronaut خلا میں گیا تو مَیں سارادن اُس کی بسلامت واپسی کے لیے دعاؤں میں لگا رہا۔ یعنی اگرچہ زبان سے توہروقت دعائیں نہیں کررہا تھا لیکن دل ہمہ وقت اس کی بخیریت واپسی کے لیے دعاؤں سے معمور تھا۔ اللہ کرے کہ ہمارے دل و دماغ بھی ہمیشہ دعاؤں سے مالامال رہیں۔آمین

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں