زم زم کا مقدّس چشمہ

(مطبوعہ ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘، الفضل انٹرنیشنل لندن 2؍اکتوبر 2023ء)

روزنامہ ’’الفضل‘‘ربوہ 9؍نومبر2013ء میں آب زم زم کے حوالے سے مختصر معلومات شائع کی گئی ہیں جو ’’عجائبات عالم‘‘ سے ماخوذ ہیں۔
چند ارباب دانش کے نزدیک زم زم کے لغوی معانی ہیں ’’ٹھہرجا ٹھہرجا۔‘‘ جبکہ بعض ماہرین لسّانیات کے مطابق یہ عربی لفظ زمزمہ سے نکلا ہے جس کا مطلب ہے ’’چھوٹے چھوٹے گھونٹ میں پانی پینا یا چُلّو سے پانی پینا۔‘‘
آنحضورﷺ نے فرمایا کہ اگر حضرت ہاجرہؑ زم زم کو اسی حالت میں چھوڑ دیتیں (یعنی چاروں طرف مٹی ڈال کر اسے گھیر نہ لیتیں) تو زم زم بہتا ہوا ایک بہت بڑا چشمہ ہوتا۔
اسی مقام پر بعدازاں حضرت ابراہیمؑ اور حضرت اسماعیلؑ نے خانہ کعبہ کی تعمیر فرمائی۔ اس کے بعد اہل فارس بھی ادھر آتے رہے۔ ایران کا بادشاہ ساسان بن بابق(جو ساسانی خاندان کا بانی تھا) 226قبل مسیح میں اس چشمے کی زیارت کو آیا تھا۔ ایرانیوں کے اس کنویں سے برکت حاصل کرنے کے لیے آنے کا تذکرہ قدیم پارسی شاعری میں بھی ملتا ہے۔
جب بنوجرہم مکّہ سے جانے لگے تو انہوں نے چشمے کو بند کردیا۔ سینکڑوں سال بعد آنحضورﷺ کے دادا حضرت عبدالمطّلب کو خواب میں کنواں کھودنے کا حکم ہوا تو انہوں نے اپنے بیٹے حارث کی مدد سے کنواں کھودا اور وہاں سے پانی برآمد ہوا۔ اس وقت سے وقتاً فوقتاً پانی کم یا خشک ہونے کی وجہ سے کنویں کی گہرائی میں اضافہ ہوتا رہا۔
کنویں کے اوپر موجودہ عمارت 1661ء میں عثمانی ترکوں کے عہد میں تعمیر کی گئی۔ یہ کنواں خانہ کعبہ سے جنوب مشرق کی طرف 33گز کے فاصلے پر حجر اسود کی دیوار کے بالمقابل واقع ہے اور 140فٹ گہرا ہے۔ اس میں سے پانی ٹیوب ویل کے ذریعے نکالا جاتا ہے۔
آب زم زم کی مقدار کا حتمی اندازہ نہیں لگایا جاسکتا۔ 1391ہجری میں سعودی وزارت زراعت کے ماہرین نے اندازہ لگایا کہ اس چشمے سے ایک منٹ میں 164 سے 217 گیلن پانی پھوٹتا ہے۔ بعدازاں بین الاقوامی کمپنیوں نے یہ اندازہ لگایا کہ ایک گھنٹے میں ساٹھ میٹر تک پانی نکلتا ہے۔ بعدازاں ایک اَور رپورٹ کے مطابق ایک سیکنڈ میں گیارہ اور اٹھارہ لیٹر کے درمیان پانی نکلتا ہے۔
اس بات پر سب ماہرین کا اتفاق ہے کہ چشمے کا پانی تین پتھروں کے درمیان سے پھوٹتا ہے۔ یہ پتھر کعبہ، صفا اور مروہ کی طرف سے آرہے ہیں اور زم زم کے چشمے پر باہم ملتے ہیں۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں