سیّدنا حضرت مصلح موعودؓ

(مطبوعہ ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘، الفضل انٹرنیشنل لندن 19؍فروری و 26؍فروری 2024ء)

سیّدنا حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے بارے میں مکرمہ سیّدہ منورہ سلطانہ صاحبہ کا ایک مضمون لجنہ اماءاللہ جرمنی کے رسالہ ’’خدیجہ‘‘ برائے2013ء نمبر1 کی زینت ہے۔
حضرت شاہ نعمت اللہ ولیؒ نے اپنے الہامی قصیدہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی آمد اور آپؑ کے زمانہ سے متعلق بہت سی پیشگوئیاں فرمائیں۔ ان میں ایک یہ بھی تھی کہ ؎

دور اوچوں شود تمام بکام
پسرش یادگار مے بینم

( روحانی خزائن جلد 4، صفحہ 358۔ نشان آسمانی)
یعنی جب مسیح کا زمانہ کامیابی سے گزر جائے گا تو اس کے نمونہ پر اس کا لڑکا یادگار رہ جائے گا۔ جواس کے نمونہ پر ہوگا اور اس کے رنگ میں رنگین ہوجائے گا۔
قدیم مذہبی تاریخ سے بھی پتہ چلتا ہے کہ مصلح موعود کی آمد کی پیشگوئی سب سے پہلے بنی اسرائیل پر منکشف ہوئی جس میں بتایا گیا کہ موعود مسیح کے بعد اس کا فرزند اور بعدہٗ اس کا پوتا اس کی روحانی بادشاہت کے وارث ہوں گے۔ چنانچہ لکھا ہے:

It is also said that he shall die and his Kingdom will descend to his Son and Grandson.

(طالمود باب پنجم 37مطبوعہ لندن 1878ء ازجوزف بارکلے ایل ایل ڈی…)
آنحضرت ﷺ نے بھی مسیح موعودؑ کے متعلق فرمایا فَتَزَوَّجُ وَیُوۡلَدُلَہٗ۔ (مشکٰوۃ مجتبائی باب نزول عیسیٰ بن مریمؑ ) یعنی وہ شادی کرے گا اور اُس کےاولاد ہوگی۔
حضرت مسیح موعودؑ کا زمانہ فیج اعوج کے نام سے موسوم ہے۔ اسلام کو نہ صرف مسلمان ہی چھوڑ بیٹھے تھے بلکہ مخالفین مختلف جہات سے اسلام اور آنحضرت ﷺ پر حملے کررہے تھے۔ حضرت مسیح موعودؑ نے اسلام کو باقی کُل ادیان پر افضل اور زندہ مذہب ثابت کرنے کے لیے قلمی اور لسانی جدوجہد فرمائی، مناظرے کیے اور انعامی چیلنج دیے۔ چنانچہ 1882ء میں آریہ سماج کے لیڈروں مثلاً منشی اندر من مرادآبادی اور ماسٹر مرلی دھر وغیرہ نے حضرت مسیح موعودؑ سے اسلام کی صداقت کے متعلق مناظرہ کیا اور کوئی نشان طلب کیا تو آپؑ نے اللہ تعالیٰ کے حضورعجزونیاز کے ساتھ دعائیں کرنے کے لیے جنوری 1886ء میں ہوشیارپورکا سفر اختیار کیا جہاں تنہائی میں چلّہ کشی کی۔ اس کے نتیجے میں خدا تعالیٰ نے آپؑ کوایک موعودبیٹے کی خوش خبری دی۔ چنانچہ20؍فروری1886ء کو آپؑ نے ایک اشتہار شائع فرمایا جس میں بیان فرمودہ پچاس سے زیادہ وہ بشارات اتنی مہتم بالشان ہیں جو کہ حضرت مصلح موعودؓ کی ذات گرامی میں پوری ہوئیں۔


واقعہ یہ ہے کہ حضرت مسیح موعودؑ کی شادی 45سال سے متجاوز عمر میں ہوئی، کسی بھی شخص سے متعلق کون کہہ سکتا ہے کہ اس کے ہاں ضرور اولاد ہوگی اورہوگی تو زندہ رہے گی اور اگر زندہ رہی تو اُس میں یہ یہ خوبیاں ہوں گی۔ لیکن مصلح موعودؓ کی پیشگوئی میں پُرشوکت الفاظ اور کمال تحدّی کے ساتھ جو بہت سے وعدے کیے گئے، اُن کے عین مطابق وہ پسر موعود اپنے پدر بزرگوار کا حسن واحسان میں نظیر تھا۔ یہ فرزند ارجمند جلد جلد بڑھا اور علوم ظاہری وباطنی سے پُر کیا گیا۔ حضرت مصلح موعودؓ خود فرماتے ہیں: ’’ایسا انسان جس کی صحت ایک دن بھی اچھی نہیں ہوئی۔اس انسان کو خدا نے زندہ رکھا اور اس لیے زندہ رکھا کہ اس کے ذریعہ اپنی پیشگوئیوں کو پورا کرے۔ … اسلام کی صداقت کا ثبوت لوگوں کے سامنے مہیا کرے۔ پھر مَیں وہ شخص تھا جسے علوم ظاہری میں سے کوئی علم حاصل نہ تھا مگر خدا نے اپنے فضل سے فرشتوں کو میری تعلیم کے لیے بھجوایا اور مجھے قرآن کے اُن مطالب سے آگاہ فرمایا جو کسی انسان کے واہمہ اور گمان میں بھی نہیں آسکتے۔‘‘
(مصباح فروری1997ء صفحہ9)
حضرت مسیح موعودؑ نے ’پیشگوئی مصلح موعود‘ کو بطور نشان اپنے مخالفین کے سامنے پیش فرمایا اور کثرت سے اس کی اشاعت فرمائی۔ چنانچہ الٰہی بشارتوں کے مطابق حضرت مصلح موعودؓ ۱۲؍ جنوری ۱۸۸۹ء کو قادیان میں پیدا ہوئے۔

حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ فرماتی ہیں کہ مَیں نے حضرت اُمّ المومنینؓ کو یہ خواب بیان فرماتے سنا ہے کہ جب تمہارے بڑے بھائی پیدا ہونے کو تھے تو ایام حمل میں مَیں نے خواب دیکھا کہ میری شادی مرزا نظام الدین سے ہورہی ہے۔ اس خواب کا میرے دل پر مرزا نظام دین کے اشد مخالف ہونے کی وجہ سے بہت بُرا اثر پڑا کہ دشمن سے شادی مَیں نے کیوں دیکھی؟ مَیں تین روز تک مغموم رہی اور اکثر روتی رہتی۔ تمہارے ابا یعنی حضرت مسیح موعودؑ سے مَیں نے ذکر نہیں کیا۔ مگر جب آپؑ نے بہت اصرار کیا کہ بات کیا ہے؟ کیا تکلیف پہنچی ہے؟ مجھے بتانا چاہیے۔ تو مَیں نے ڈرتے ڈرتے یہ خواب بیان کیا۔ خواب سن کر تو آپؑ بےحد خوش ہوگئے اور فرمایا اتنا مبارک خواب اور اتنے دن تم نے مجھ سے چھپایا۔ تمہارے ہاں لڑکا اسی حمل سے پیدا ہوگا، نظام الدین کے نام پر غور کرو۔ تم نے اتنے دن تکلیف اٹھائی اور یہ بشارت نہیں سنائی۔
آپؓ مزید فرماتی ہیں: حضرت اماں جانؓ کی زبانی دائی کا نام ہرودائی تھا۔ اذان بھی کان میں حضورؑ خود دیتے تھے۔ بسم اللہ وغیرہ کی کوئی تقریب مَیں نے نہیں سنی نہ دیکھی۔ آمین بےشک ہم سب کی ہوئی اور بہت دھوم سے ہوئی۔
بچپن سے ہی حضرت مصلح موعودؓ کی دلچسپیوں کا دائرہ بہت وسیع تھا۔ طبیعت میں تجسّس کا مادہ بہت تھا اور نئی چیز دیکھنے پر اس کاذاتی تجربہ حاصل کرنے کا شوق مچلنے لگتا۔ موسم اور طبیعت کو فٹ بال سے زیادہ مناسبت ہو تو آپؓ فٹ بال کھیلا کرتے۔ جب برسات میں قادیان حدّنظر تک پھیلے ہوئے پانی کے درمیان ایک جزیرہ دکھائی دینے لگتا تو تیراکی اور کشتی رانی کا شوق غالب آجاتا۔ شکار کے دنوں میں یہ شوق بھی پورا فرماتے۔ تاہم حضرت اماں جانؓ اور حضرت مسیح موعودؑ جہاں ضروری سمجھتے مناسب نصیحت فرمادیتے۔ ایک مرتبہ آپؓ ایک طوطا شکار کرکے لائے تو حضورؑ نے حلال و حرام یا مکروہ کی ظاہری اصطلاحوں میں پڑنے کی بجائے فرمایا: ’’میاں! اللہ تعالیٰ نے سب جانور کھانے کے لیے ہی پیدا نہیں کیے۔ بعض ان میں سے خوبصورتی کے لیے بھی پیدا کیے گئے ہیں۔‘‘
آپؓ گھر میں گیندبلّا وغیرہ بھی کھیلتے اور گھر کے باہر آپؓ کے مشاغل غلیل سے نشانہ بازی،کشتی چلانا، تیرنا وغیرہ تھے۔ بڑے ہوئے تو گھوڑسواری کو بہت پسند کرتے تھے۔


حضرت مسیح موعودؑ کے نزدیک تربیت کا سب سے مقدّم ذریعہ دعا تھا۔ حضرت مولوی عبدالکریم صاحبؓ فرماتے ہیں: آپؑ نے حضرت صاحبزادہ مرزا محمود صاحب پرکبھی سختی نہیں کی مگرجہاں تک امورِ دینیہ کا تعلق ہے یا ایسی غلطیوں کا سوال ہے جن کے نتیجہ میں اخلاق پر بُرا اثر پڑنے کا خطرہ ہو سکتا تھا وہاں آپؑ نے موقع ومحل کے مطابق کبھی نرمی سے اور کبھی سختی سے توجہ ضرور دلائی۔ آپؓ کا اپنا بیان ہے کہ ایک دفعہ ایک کتا ہمارے دروازے پر آیا۔ مَیں نے اس کتے کو اشارہ کیا اورکہا ‘ٹیپو ! ٹیپو!۔’ حضرت صاحبؑ بڑے غصے سے باہر نکلے اور فرمایا: ’’تمہیں شرم نہیں آتی کہ انگریز نے تو دشمنی کی وجہ سے اپنے کتوں کا نام ایک صادق مسلمان کے نام پر ٹیپو رکھ دیا ہے اور تم اُن کی نقل کرکے کتے کو ٹیپو کہتے ہو۔ خبردار! آئندہ ایسی حرکت نہ کرنا ۔‘‘ میری عمر شاید آٹھ نو سال کی تھی۔ تب سے میرے دل میں سلطان ٹیپو کی محبت قائم ہوگئی۔
نہایت شفیق اورمہربان ہونے کے باوجود حضرت اقدسؑ کبھی یہ پسند نہ فرماتے تھے کہ بچہ دینی فرائض کی سرانجام دہی میں غفلت برتے۔ حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ حضرت صاحبؑ کچھ بیمار تھے اس لیے جمعہ کے لیے مسجد میں نہ جاسکے۔ مَیں اس وقت بالغ نہیں تھا کہ بلوغت والے احکام مجھ پر جاری ہوں۔ تاہم مَیں جمعہ پڑھنے کے لیے مسجد کو آرہا تھا کہ ایک شخص مجھے ملا، مَیں نے اُن سے پوچھا : آپ واپس آرہے ہیں، کیا نماز ہوگئی؟ انہوں نے کہا: آدمی بہت ہیں، مسجد میں جگہ نہیں تھی۔ مَیں بھی یہ جواب سن کر واپس آگیا اور گھر میں آکر نماز پڑھ لی۔حضرت صاحبؑ نے یہ دیکھ کر پوچھا: ’’مسجد میں نماز پڑھنے کیوں نہیں گئے؟‘‘ آپؑ کے پوچھنے میں ایک سختی تھی اور چہرے سے غصہ ظاہر ہوتا تھا۔ مَیں نے کہا کہ مَیں گیا تو تھا لیکن جگہ نہ ہونے کی وجہ سے واپس آگیا۔ آپؑ یہ سن کر خاموش ہوگئے لیکن جس وقت جمعہ پڑھ کر مولوی عبدالکریم صاحبؓ آپؑ کا حال پوچھنے کے لیے آئے تو سب سے پہلی بات جو آپؑ نے اُن سے دریافت کی، وہ یہ تھی کہ آج لوگ مسجد میں زیادہ تھے؟ اس وقت میرے دل میں سخت گھبراہٹ پیدا ہوئی کیونکہ مَیں خود تو گیا ہی نہیں تھا۔ معلوم نہیں بتانے والے کو غلطی لگی ہے یا مجھے اس کی بات سمجھنے میں غلط فہمی ہوئی ہے۔ مجھے فکر یہ ہوئی کہ اگر غلط فہمی مجھے ہوئی ہے یا بتانے والے کو ہوئی ہے، دونوں صورتوں میں الزام مجھ پر آئے گا کہ میں نے جُھوٹ بولا۔ مولوی صاحبؓ نے جواب دیا: ’’ہاں حضور! آج واقعہ میں بہت لوگ تھے۔‘‘ مَیں اب بھی نہیں جانتا کہ اصلیت کیا تھی۔ خدانے میری بریت کے لیے یہ سامان کر دیا ۔
حضرت اُمّ المومنینؓ کی تربیت کا بھی حضرت مصلح موعودؓ کے کردار کی تشکیل پر گہرا اثر تھا۔ حضرت مسیح موعودؑ کی وفات کے بعد جب خاندان کی مالی مشکلات میں اضافہ ہوگیا تو اس صبرآزما دَور میں ایک روز آپؓ اپنے لخت جگر کا ہاتھ تھام کر بیت الدُّعا میں لے گئیں اور حضرت مسیح موعودؑ کے الہاموں والی کاپی نکال کر آپؓ کے سامنے رکھ دی اور کہا کہ مَیں سمجھتی ہوں یہی تمہارا سب سے بڑا ورثہ ہے۔
حضورؓ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ مَیں نے لاہور میں بعض لڑکوں کو نکٹائی لگاتے دیکھا تو مَیں نے بھی شوق سے ایک نکٹائی خریدلی اور پہننی شروع کردی۔ میرے ایک مرحوم دوست نے دیکھا تو مجھے ایک طرف لے گئے اور کہنے لگے کہ ’آج آپ نے نکٹائی پہنی ہے تو ہم کل کنچنیوں کا تماشہ دیکھنے لگ جائیں گے کیونکہ جو قدم آپ اٹھائیں گے، ہم بھی آپ کے پیچھے چلیں گے۔‘ یہ کہہ کر انہوں نے مجھ سے نکٹائی مانگی اور مَیں نے اُتار کر اُن کو دے دی۔ پس اُن کی یہ نصیحت مجھے کبھی نہیں بھول سکتی اور مَیں سمجھتا ہوں کہ ایک مخلص متّبع کو ایسا ہی ہونا چاہیے۔ اگر ہمارے خاندان کا کوئی نوجوان اپنی ذمہ داری کو نہیں سمجھتا تو صاحبزادہ صاحب، صاحبزادہ صاحب کہہ کر اس کا دماغ بگاڑنا نہیں چاہیے، بلکہ اس سے کہناچاہیے کہ آپ ہوتے تو صاحبزادہ ہی تھے مگر اب غلام زادہ سے بھی بدتر معلوم ہورہے ہیں اس لیے آپ کو چاہیے کہ اپنی اصلاح کریں ۔
حضورؓ فرماتے ہیں:مَیں نے حضرت صاحبؑ کو والد ہونے کی وجہ سے نہیں مانا تھا بلکہ جب میں گیارہ سال کے قریب تھا تو میں نے مصّمم ارادہ کیا تھا کہ اگر میری تحقیقات میں وہ نعوذ بااللہ جھوٹے نکلے تو میں گھر سے نکل جاؤں گا۔ مگر مَیں نے ان کی صداقت کو سمجھا اور میرا ایمان بڑھتا گیا حتیٰ کہ جب آپؑ فوت ہوئے تو میرا یقین اَور بھی بڑھ گیا۔

حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد المصلح الموعود
حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد المصلح الموعود

حضرت مصلح موعودؓ بہت متناسب الاعضاء میانہ قد تھے۔ جسم ہلکا پھلکا اور چھریرا تھا جو آخری عمر میں بھرا بھرا لگنے لگا تھا تاہم موٹاپا اور بھداپن کبھی بھی نہ آیا۔ آنکھیں غلافی پُرکشش جو عادتاً نیم وا رہتی تھیں۔ نظراُٹھاکر کم ہی دیکھتے مگر جس چیز کو بھی دیکھتے اسے پاتال تک دیکھ لیتے اور حقیقت کو بخوبی سمجھ لیتے۔ مسنون خوبصورت داڑھی جو نہ بہت لمبی تھی اور نہ ہی بہت چھوٹی ۔ چہرے پر بہت پیاری مسکراہٹ ہر وقت سجی رہتی۔ قہقہہ لگا کر بھی ہنستے تھے مگر بہت کم۔ ہر حرکت و ادا سنجیدگی وثقاہت لیے ہوئے ہوتی لیکن خشک مزاج صوفیوں کی طرح نہیں تھے بلکہ نہایت لطیف حس مزاح رکھتے تھے۔ آپؓ کی تقاریر بعض دفعہ گھنٹوں لمبی ہوتیں مگر سننے والا اُکتاہٹ اور بےدلی میں مبتلانہ ہوتا کیونکہ آپؓ گفتگو اور تقریر کے دوران وقفہ وقفہ سے موقع ومحل کے مطابق کوئی لطیفہ یا دلچسپ واقعہ سنا کر محفل کو زعفران زار بنا دیتے لیکن کبھی کوئی غیرمہذّب بات نہ کرتے۔


ناظرہ قرآن پڑھنے کے بعد حضرت مصلح موعودؓ کو باقاعدہ اسکول میں داخل ہوکر مروّجہ دینی تعلیم پانے کا موقع ملا اور گھر پر بھی بعض اساتذہ سے تعلیم حاصل کی چنانچہ حضرت پیر منظور محمد صاحبؓ کچھ عرصہ آپؓ کو اُردو پڑھاتے رہے اور بعدازاں حضرت مولوی شیرعلی صاحبؓ نے آپؓ کو کچھ عرصہ انگریزی پڑھائی۔ حضورؓ فرماتے ہیں کہ میری تعلیم کے سلسلہ میں مجھ پر سب سے زیادہ احسان حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ کا ہے۔آپؓ چونکہ طبیب بھی تھے اور اس بات کو جانتے تھے کہ میری صحت اس قابل نہیں کہ مَیں کتاب کی طرف زیادہ دیر تک دیکھ سکوں اس لیے آپؓ کا طریق تھا کہ آپؓ مجھے اپنے پاس بٹھالیتے اور فرماتے: میاں! میں پڑھتا جاتا ہوں تم سنتے جاؤ۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ بچپن میں میری آنکھوں میں سخت کُکرے پڑگئے تھے اور متواتر تین چار سال تک میری آنکھیں دُکھتی رہیں اور ایسی شدید تکلیف کُکروں کی وجہ سے پیدا ہوگئی کہ ڈاکٹروں نے کہا اس کی بینائی ضائع ہوجائے گی۔ اس پر حضرت مسیح موعودؑ نے میری صحت کے لیے خاص طور پر دعائیں کرنی شروع کردیں اور ساتھ ہی آپؑ نے روزے رکھنے شروع کردیے مجھے اس وقت یاد نہیں کہ آپؑ نے کتنے روزے رکھے۔بہرحال تین یا سات روزے آپؑ نے رکھے۔ جب آخری روزے کی افطاری کرنے لگے اور روزہ کھولنے کے لیے منہ میں کوئی چیز ڈالی تو یکدم مَیں نے آنکھیں کھول دیں اور مَیں نے آواز دی کہ مجھے نظر آنے لگ گیا ہے۔ آپؑ نے میرے استادوں سے کہہ دیا تھا کہ پڑھائی اس کی مرضی پر ہوگی یہ جتنا پڑھنا چاہے پڑھے اور اگر نہ پڑھے تو اس پر زور نہ دیا جائے کیونکہ اس کی صحت اس قابل نہیں کہ یہ پڑھائی کا بوجھ برداشت کرسکے۔آپؑ بارہا مجھے صرف یہی فرماتے کہ تم قرآن کا ترجمہ اور بخاری حضرت مولوی صاحبؓ سے پڑھ لو اس کے علاوہ آپؑ نے یہ بھی فرمایا تھا کہ کچھ طب بھی پڑھ لو کیونکہ یہ ہمارا خاندانی فن ہے۔

حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ

حضورؓ مزید فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ ہمارے ناناجان حضرت میر ناصر نوابؓ نے میرا اُردو کا امتحان لیا۔ مَیں اب بھی بہت بدخط ہوں مگر اس زمانہ میں تو میرا اتنا بدخط تھا کہ پڑھا ہی نہیں جاتا تھا کہ مَیں نے کیا لکھا ہے۔ انہوں نے بڑی کوشش کی کہ پتہ لگائیں کہ مَیں نے کیا لکھا ہے مگر انہیں کچھ پتہ نہ چلا۔ اس پر وہ جوش میں آگئے اور فوراً حضرت مسیح موعودؑ کے پاس پہنچے۔ ہم تو پہلے ہی اُن کی طبیعت سے ڈرا کرتے تھے۔ حضرت مسیح موعودؑ کے پاس شکایت لے کر پہنچے تو اَور بھی ڈر پیدا ہوا کہ اب نامعلوم کیا ہو۔ خیر حضرت صاحبؑ سے کہنے لگے کہ محمود کی تعلیم کی طرف آپ کو ذرا بھی توجہ نہیں ہے مَیں نے اس کا اردو کا امتحان لیا تھا۔ آپ ذرا پرچہ تو دیکھیں اس کا اتنا بُرا خط ہے کہ کوئی بھی یہ خط نہیں پڑھ سکتا۔ پھر اسی جوش کی حالت میں کہنے لگے آپ بالکل پروا نہیں کرتے اور لڑکے کی عمر برباد ہورہی ہے۔ حضرت مسیح موعودؑنے جب میر صاحبؓ کو اس طرح جوش کی حالت میں دیکھا تو فرمایا: ’’بلاؤ حضرت مولوی صاحب کو۔‘‘ جب آپؑ کو کوئی مشکل پیش آتی تو ہمیشہ حضرت خلیفہ اوّلؓ کو بُلالیا کرتے تھے۔ حضرت خلیفہ اوّلؓ کو مجھ سے بڑی محبت تھی۔ آپؓ تشریف لائے اور حسب معمول سر نیچا ڈال کر ایک طرف کھڑے ہوگئے۔ حضرت مسیح موعودؑنے فرمایا: مولوی صاحب! مَیں نے آپ کو اس غرض کے لیے بُلایا ہے کہ میر صاحب کہتے ہیں کہ محمود کا لکھا ہوا پڑھا نہیں جاتا۔ میرا جی چاہتا ہے کہ اس کا امتحان لیا جائے۔ یہ کہتے ہوئے آپؑ نے قلم اُٹھائی اور دو تین سطرمیں ایک عبارت لکھ کر مجھے دی اور فرمایا: اس کو نقل کرو۔ بس یہ امتحان تھا جو آپؑ نے لیا۔ مَیں نے بڑی احتیاط سے اور سوچ سمجھ کر اس کو نقل کردیا۔ نقل کرنے میں تو اَور بھی آسانی ہوتی ہے اور پھر مَیں نے آہستہ آہستہ نقل کیا، الف اور با وغیرہ احتیاط سے ڈالے۔ جب حضرت مسیح موعودؑ نے اس کو دیکھا تو فرمانے لگے: مجھے تو میرصاحب کی بات سے بڑا فکر پیدا ہوگیا تھا مگر اس کا خط تو میرے خط کے ساتھ ملتا جلتا ہے۔ حضرت خلیفہ اوّلؓ پہلے ہی میری تائید میں اُدھار کھائے بیٹھے تھے۔ فرمانے لگے: حضور! میر صاحب کو تو یونہی جوش آگیا ورنہ اس کا خط تو بڑا اچھا ہے۔
خداتعالیٰ کا خاص فضل تھا کہ اگرچہ حضورؓ نے باقاعدہ تعلیم حاصل نہ کی تھی لیکن اتنے باشعور تھے اور مطالعہ اتنا وسیع تھا کہ بیش قیمت تقاریر اور نادر کتب کا ایک بڑا خزانہ جماعت کی راہنمائی کے لیے چھوڑا۔ قرآن کریم کے علم ومعارف، فقہ اور حدیث پرپوری دسترس حاصل تھی۔ گھنٹوں کسی بھی موضوع پر تقریر کرسکتے تھے۔ بہت اچھے شاعر بھی تھے۔


حضرت سید سرور شاہ صاحبؓ بیان فرماتے ہیں: حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ مجھ سے پڑھا کرتے تھے تو ایک دن مَیں نے کہا کہ میاں! آپ کے والد صاحب کو تو کثرت سے الہام ہوتے ہیں، کیا آپ کو بھی الہام ہوتا اور خوابیں وغیرہ آتی ہیں؟ تو آپؓ نے فرمایا کہ مولوی صاحب! خوابیں تو بہت آتی ہیں اور مَیں ایک خواب تو تقریباً روز ہی دیکھتا ہوں اور جونہی مَیں تکیہ پر سر رکھتا ہوں اس وقت سے لے کر صبح اُٹھنے تک یہ نظارہ دیکھتا ہوں کہ ایک فوج ہے جس کی مَیں کمان کر رہا ہوںاور بعض اوقات ایسا دیکھتا ہوں کہ سمندروں سے گزر کر آگے جاکر ہم حریف کا مقابلہ کررہے ہیں اور کئی بار ایسا ہوا ہے کہ اگر مَیں نے پار گزرنے کے لیے کوئی چیز نہیں پائی تو سرکنڈے وغیرہ سے کشتی بناکر اور اس کے ذریعہ پار ہوکر حملہ آور ہوگیا ہوں۔
حضرت شاہ صاحبؓ فرماتے ہیں کہ مَیں نے جس وقت یہ خواب آپ سے سنا اسی وقت سے میرے دل میں یہ بات گڑی ہوئی ہے کہ یہ شخص کسی وقت یقیناً جماعت کی قیادت کرے گا اور مَیں نے اسی وجہ سے کلاس میں بیٹھ کر آپ کو پڑھانا چھوڑ دیا تھا۔ آپ کو اپنی کرسی پر بٹھاتا اور خود آپ کی جگہ بیٹھ کر آپ کو پڑھاتا تھا اور مَیں نے خواب سُن کر آپؓ سے یہ بھی عرض کردیا تھا کہ میاں! آپ بڑے ہوکر مجھے بُھلا نہ دیں اور مجھ پر بھی نظرِ شفقت رکھیں۔

حضرت مولوی شیر علی صاحبؓ

حضرت مولوی شیرعلی صاحبؓ بیان فرماتے ہیں: مَیں نے بچپن سے ہی حضور میں سوائے اوصاف حمیدہ اور خصائل محمودہ کے کچھ نہیں دیکھا۔ ابتدا میں ہی آپ میں نیکی کے انوار اور تقویٰ کے آثارپائے جاتے تھےجو آپ کی عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ اَور زیادہ نمایاں ہوتے گئے تھے۔
اللہ تعالیٰ پر ایمان کے حوالے سے حضرت مصلح موعودؓ بیان فرماتے ہیں کہ مَیں گیارہ سال کا تھا کہ حضرت مسیح موعودؑ کے لیے کوئی شخص کپڑے کا ایک جُبّہ لایا تھا جو مَیں نے آپ سے لے لیا تھا ،کسی اَور خیال سے نہیں بلکہ اس لیے کہ اس کا رنگ اور اس کے نقش مجھے پسند تھے۔ مَیں اسے پہن نہیں سکتا تھا کیونکہ اس کے دامن میرے پاؤں سے نیچے لٹکتے رہتے تھے۔ ۱۹۰۰ء کے لگ بھگ جب مَیں گیارہ سال کا ہوا تو میرے دل میں یہ خیال پیدا ہوا کہ مَیں خدا تعالیٰ پر کیوں ایمان لاتا ہوں؟ رات دیر تک اس مسئلہ پر سوچتا رہا آخر دس گیارہ بجے میرے دل نے فیصلہ کیا کہ ہاں ایک خدا ہے۔ وہ گھڑی کیسی خوشی کی گھڑی تھی جس طرح ایک بچہ کو اُس کی ماں مل جائے اسی طرح مجھے خوشی تھی کہ میرا پیدا کرنے والا مجھے مل گیا۔ سماعی ایمان ،علمی ایمان سے تبدیل ہوگیا۔ میں اپنے جامہ میں پھُولا نہیں سماتا تھا۔ مَیں اُس وقت سے ایک عرصہ تک اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا رہا کہ خدایا! مجھے تیری ذات کے متعلق کبھی شک پیدا نہ ہو۔ ہاں اب مجھے زائد تجربہ ہے اب دعا میں اس قدر زیادتی کرتاہوں کہ خدایا! مجھے تیری ذات کے متعلق حق الیقین پیدا ہو۔
آپؓ کا آنحضور ﷺسے تعلق روایتی اور جذباتی ہی نہیں تھا بلکہ آپؓ معرفت و وجدان کی دولت سے مالامال تھے۔ خود فرماتے ہیں: ’مَیں کسی خوبی کا اپنے لیے دعویدار نہیں ہوں۔ مَیں فقط خداتعالیٰ کی قدرت کا ایک نشان ہوں اور محمد رسول اللہ ﷺ کی شان کو دنیا میں قائم کرنے کے لیے خداتعالیٰ نے مجھے ہتھیار بنایا ہے۔ اس سے زیادہ نہ مجھے کوئی دعویٰ ہے نہ مجھے کسی دعویٰ میں خوشی ہے۔ میری ساری خوشی اسی سے ہے کہ میر ی خاک محمد رسول اللہ ﷺ کی کھیتی میں کھاد کے طور پر کام آجائے اور اللہ تعالیٰ مجھ پر راضی ہو جائے اور میرا خاتمہ رسول کریم ؐ کے دین کے قیام کی کوشش پر ہو۔‘


حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ فرماتے ہیں: مجھے کبھی نہیں یاد کہ آپؓ نے آنحضرتﷺ کا نام لیا اور آپؓ کی آواز میں لرزش اور آپؓ کی آنکھوں میں آنسو نہ آگئے ہوں۔ آپؓ کے درج ذیل اشعار آپؓ کی اس محبت پر روشنی ڈالتے ہیں :

مجھے اس بات پر ہے فخر محمودؔ
مرا معشوق ، محبوبِ خدا ہے
ہو اس کے نام پر قربان سب کچھ
کہ وہ شاہنشہِ ہر دو سرا ہے
اسی سے میرا دل پاتا ہے تسکیں
وہی آرام میری روح کا ہے
خدا کو اس سے مل کر ہم نے پایا
وہی اک راہِ دیں کا رہنما ہے

عشق ومحبت کی یہ بے مثال کیفیت الفاظ و بیان کی حدود سے کہیں زیادہ وسیع اور گہری ہے۔ ۱۹۲۷ء میں ایک ہندو اخبار ’’ورتمان‘‘ نے آنحضرت ﷺ کے متعلق ایک نہایت دلآزار مضمون شائع کیا اور اسی زمانے میں ایک نہایت گندی کتاب ’رنگیلا رسول‘ کے نام سے بھی شائع ہوئی تو آپؓ نے ایک مضمون بعنوان ’’رسول کریمﷺکی محبت کا دعویٰ کرنے والے کیا اب بھی بیدار نہ ہوں گے؟‘‘ تحریر فرمایا جسے بصورت پمفلٹ و پوسٹر ملک بھر میں شائع کیا گیا۔
اسی طرح آپؓ کی تجویز پر ملک بھر میں منظّم طریق پر سیرت النبیؐ کے جلسوں کا انعقاد شروع ہوا۔ اس کا پس منظر حضورؓ یوں بیان فرماتے ہیں: ’’لوگوں کو آپؐ پرحملہ کرنے کی جرأت اس لیے ہوتی ہے کہ وہ آپؐ کی زندگی کے صحیح حالات سے ناواقف ہیں یا اس لیے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ دوسرے لوگ ناواقف ہیں اور اس کا ایک ہی علاج ہے جو یہ ہے کہ رسول کریمﷺ کی سوانح پر اس کثرت سے اور اس قدر زور کے ساتھ لیکچر دیے جائیں کہ ہندوستان کا بچہ بچہ آپ ﷺ کے حالات زندگی اورآپ ﷺکی پاکیزگی سے آگاہ ہوجائے اور کسی کو آپؐ کے متعلق زبان درازی کرنے کی جرأت نہ رہے۔‘‘ چنانچہ آپؓ کی تجویز پر کثرت سے مضامین لکھے گئے اور جلسے منعقد ہوئے جن میں غیرمسلم شرفاء نے بھی آنحضورﷺ کی سیرت مقدّسہ پر روشنی ڈالی۔
حضورؓ کے قرآن کریم سے عشق کے بارے میں حضرت سیدہ چھوٹی آپاؒ بیان فرماتی ہیں: جس طرح آپؓ نے قرآن کریم کی تفسیریں لکھ کر اس کی اشاعت کی وہ تاریخ کا ایک روشن باب ہے۔ تلاوت کا کوئی وقت مقرر نہ تھا۔ جب بھی وقت ملا تلاوت کرلی۔ یہ نہیں کہ دن میں صرف ایک یا دو بار۔ عموماً یہ ہوتا تھا کہ ناشتہ سے فارغ ہوکر ملاقاتوں کی اطلاع ہوئی۔ آپؓ انتظار میں ٹہل رہے ہیں اور قرآن مجید ہاتھ میں ہے۔ لوگ ملنے آگئے قرآن مجید رکھ دیا۔ مل کر چلے گئے تو پڑھنا شروع کردیا۔ تین تین چار چار دنوں میں عموماًختم کرلیتے۔
آپؓ کی قرآن سے گہری محبت اور اشاعتِ علم ِقرآن کی تڑپ ہی تھی کہ قاتلانہ حملے کے بعد احباب جماعت کے نام ایک خصوصی پیغام میں فرمایا کہ ’’مَیں نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ اے خدا! ابھی دنیا تک تیرا قرآن صحیح طور پر نہیں پہنچا اور قرآن کے بغیر نہ اسلام ہے نہ مسلمان کی زندگی۔ تُو مجھے پھر سے توفیق بخش کہ مَیں قرآن کے بقیہ حصے کی تفسیر کرجائوں اور دنیا پھر ایک لمبے عرصے کے لیے قرآن شریف سے واقف ہوجائے اور اس پر عامل ہوجائے اور اس کی عاشق ہوجائے۔‘‘ چنانچہ آ پؓ کا عظیم کارنامہ تفسیر صغیراور تفسیر کبیر کی صورت میں ہمارے پاس موجودہے۔
حضرت مسیح موعودؑ کے ذکر پر آپؓ کی آنکھیں اکثر بھیگ جاتی تھیں۔ حضرت اماں جانؓ سے بھی بہت پیار تھا۔ایک مرتبہ آپؓ بیمار ہوئیں تو حضورؓ نے حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ سے کہا کہ اماں جانؓ کے لیے بہت دعا کرومگر ایک دعا مَیں کرتا ہوں تم بھی کیا کروکہ ہماری اماں جان کو خدا تعالیٰ لمبی عمر دے لیکن اب ہم پانچوں میں سے کسی کا غم آپؓ نہ دیکھیں۔
حضرت مسیح موعودؑ پسند فرماتے تھے کہ نوجوانی کی عمر کو پہنچتے ہی بچہ کی شادی کردی جائے۔چنانچہ حضرت صاحبزادہ صاحبؓ کی عمر ابھی تیرہ برس کی تھی کہ آپؑ نے 1902ء میں اپنے ایک مخلص مرید حضرت ڈاکٹر خلیفہ رشید الدینؓ کو تحریک فرمائی کہ وہ اپنی بڑی لڑکی رشیدہ بیگم (جن کا نا م حضرت امّاں جانؓ نے محمودہ بیگم رکھ دیا تھا اور جو بعدازاں اُمّ ناصرؓ کے نام سے مشہور ہوئیں) کا رشتہ حضرت صاحبزادہ صاحب کے ساتھ کرنے کے بارہ میں غور کریں۔ اس سلسلہ میں آپؑ نے حضرت ڈاکٹر صاحبؓ کولکھا: چند ہفتہ تک استخارہ کریں کہ ہر ایک کام جو استخارہ اور خدا کی مرضی سے کیا جاتا ہے وہ مبارک ہوتا ہے۔ دوسرا میرا ارادہ یہ ہے کہ اس نکاح میں انبیاء کی سنت کی طرح سب کام ہو۔ بدعت اور بےہودہ مصارف اور لغو رسوم اس نکاح میں نہ ہوں۔ بلکہ ایسے سیدھے طریق پر ہو جو خدا کے پاک نبیوں نے پسند فرمایا ہے، نکاح ہوجاوے تو مُوجبِ برکات ہو۔
اُن دنوں ڈاکٹر صاحبؓ رڑکی ضلع سہارن پور (یوپی) میں متعین تھے۔چنانچہ صاحبزادہ مرزا محمود احمد صاحبؓ، حضرت مولوی نورالدین صاحبؓ، حضرت میر ناصر نواب صاحبؓ، حضرت میر محمد اسماعیل صاحبؓ اور چند اَور بزرگ ۲؍اکتوبر ۱۹۰۲ء کی شام کو رڑکی پہنچے۔ حضرت مولوی نورالدین صاحبؓ نے ایک ہزار روپیہ حق مہر پر نکاح پڑھا اور 5؍اکتوبر کو بعد نماز عصر یہ قافلہ رڑکی سے بخیریت قادیان پہنچا۔
رخصتانہ کی تقریب ۱۹۰۳ء میں آگرہ میں منعقد ہوئی۔ ۱۱؍اکتوبر۱۹۰۳ء کو بارات واپس قادیان پہنچی۔ اگلے دن اس خوشی میں حضورؑ کے گھر سے بتاشے تقسیم کیے گئے۔
حضرت مصلح موعودؓ اپنی اہلی زندگی میں بے تکلّفی کے علاوہ بیگمات کے آرام و راحت اور ان کے جذبات و احساسات کا بہت خیال فرماتے۔ حضرت مہر آپا بیان فرماتی ہیں کہ ایک دفعہ ایسی صورت پیش آئی کہ گھر کے ملازم بوجہ بیماری رخصت پر تھے۔ گھر کے کاموں کی مسلسل مصروفیت کے ساتھ ساتھ کھانا پکانے کا کام بھی پہلی دفعہ مجھے خود کرنا پڑا۔ حضورؓ نے کھانے کی خوب تعریف فرمائی بلکہ حوصلہ افزائی اور قدردانی کے طور پر حضرت امّاں جانؓ کو بھی کھانا بھجوایا اور یہ صراحت فرمائی کہ یہ بشریٰ نے تیار کیا ہے۔ اس کے علاوہ آپؓ نے اس امر پر مسرت انگیز حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہ تم نے اتنی جلدی اتنا سارا کام کیسے کرلیا۔ اور یہ نصیحت بھی فرمائی کہ اپنے اوپر اتنا بوجھ نہ ڈال لینا کہ تمہاری صحت پر اثر پڑے۔
حضرت چھوٹی آپا نے بیان فرمایا کہ عموماً شادیاں ہوتی ہیں دلہا دلہن ملتے ہیں تو سوائے عشق ومحبت کی باتوں کے اَور کچھ نہیں ہوتا، مجھے یاد ہے کہ میری شادی کی پہلی رات بےشک عشق ومحبت کی باتیں بھی ہوئیں مگر زیادہ تر عشق الٰہی کی باتیں تھیں۔ آپؓ کی باتوں کا لُبِ لباب یہ تھا اور مجھ سے ایک طرح عہد لیا جا رہا تھا کہ میں ذکر الٰہی اور دعائوں کی عادت ڈالوں، دین کی خدمت کروں، آپؓ کی عظیم ذمہ داریوں میں آپؓ کا ہاتھ بٹاؤں، باربار آپؓ نے اس کا اظہار فرمایا کہ ’’مَیں نے تم سے شادی اسی غرض سے کی ہے۔‘‘ اور مَیں خود بھی اپنے والدین کے گھر سے یہی جذبہ لے کر آئی تھی۔
حضرت چھوٹی آپا مزید فرماتی ہیں کہ بچوں کے لیے انتہائی شفیق باپ تھے۔ تربیت کی خاطر لڑکوں پر وقتاً فوقتاً سختی بھی کی لیکن ان کی عزت نفس کا خیال رکھا۔ ایک بار مجھے ان کی زور سے ڈانٹنے کی آواز آئی۔ مَیں اندر کمرہ میں تھی۔ ایک دم اس خیال سے باہر نکلی کہ دیکھوں کیا بات ہے۔ حضورؓ کسی بچہ کو پڑھائی ٹھیک نہ کرنے پر ناراض ہورہے تھے۔ مَیں اسی وقت واپس چلی گئی۔ تھوڑی دیر بعد اندر کمرہ میں آئے تو کہنے لگے ’’مَیں جب اپنے بچہ کو ڈانٹ رہا تھا تو تمہیں وہاں نہیں آنا چاہیے تھا اس سے وہ شرمندہ ہوگا کہ مجھے تمہارے سامنے ڈانٹ پڑی۔‘‘ بیٹیوں سے بہت زیادہ محبت کا اظہار کرتے تھے لیکن جہاں دین کا معاملہ آجائے آنکھوں میں خون اُتر آتا تھا۔ نماز کی سستی بالکل برداشت نہ تھی۔ اگر ڈانٹا ہے تو نماز وقت پر نہ پڑھنے پر۔ بچوں کے دلوں میں شروع دن سے یہی ڈالا کہ سب دین کے لیے وقف ہیں۔ ان کو دینی تعلیم بھی دلوائی۔ جب 1918ء میں شدید انفلوئنزا کا حملہ ہوکر بیمار ہوئے اور اپنی وصیت شائع کروائی تواس میں بھی فرمایا کہ ’’بچوں کو دینی اور دنیاوی تعلیم ایسے رنگ میں دلائی جائے کہ وہ آزاد پیشہ ہوکر خدمت دین کرسکیں۔ جہاں تک ہوسکے لڑکوں کو حفظ قرآن کرایا جائے ۔‘‘


بچیوں کی تربیت کے حوالے سے حضرت صاحبزادی ناصرہ بیگم صاحبہ فرماتی ہیں کہ میری شادی سے چند روز قبل حضرت اباجانؓ صحن میں ٹہل رہے تھے اور مجھے سمجھاتے جارہے تھے کہ دیکھو تمہاری عادت ہے تم کھانے میں بہت نخرے کرتی ہو اور اکثر چیزیں تم نہیں کھاتیں۔ ماں باپ کے گھر میں تو ایسی باتوں کا گزارہ ہوجاتا ہے وہ اپنی اولاد کے ناز نخرے اُٹھالیتے ہیں مگرسسرال میں جاکر ایسا نہیں کرنا۔ جو ملے خاموشی سے کھالینا وغیرہ۔ اس کا یہ اثر ہوا کہ مَیں قریباً چھ سال چچاجان کے ساتھ رہی کبھی ایک لفظ کھانے کے متعلق منہ سے نہیں نکلا میری پسند ناپسند اس عرصے میں ختم رہی۔ حضورؓ نے کبھی لڑکیوں سے سسرال کے متعلق بات نہ پوچھی۔ اگر کبھی کوئی بات دوسروں کے ذریعے سے پہنچی بھی تو سُنی اَن سُنی کرگئے۔
حضرت مولوی شیرعلی صاحبؓ فرماتے ہیں کہ حضرت مسیح موعودؑ کی وفات کے بعد حضرت مصلح موعودؓ نے پہلی تقریر سالانہ جلسہ کے موقع پر کی۔ اس وقت آپؓ کی آواز اور آپؓ کی ادا اور آپؓ کا لہجہ اور طرز ِتقریر حضرت مسیح موعودؑ کی آوازاور طرزِ تقریر سے ایسے شدید طور پر مشابہ تھے کہ سننے والوں کے دل میں حضرت مسیح موعودؑ کی یاد تازہ ہوگئی اور سامعین میں سے بہت ایسے تھے جن کی آنکھوں سے آنسوجاری ہوگئے۔
14؍مارچ 1914ء بروز ہفتہ بعد نماز عصر انتخاب خلافت کے لیے احمدی مسجد نور میں جمع ہوئے،منکرین خلافت بھی موجود تھے۔ حضرت نواب محمد علی خان صاحبؓ نے حضرت خلیفہ اولؓ کی وصیت پڑھ کر سنائی جس میں جماعت کو ایک ہاتھ پر جمع ہونے کی نصیحت تھی۔ا س پر ہر طرف سے میاں صاحب، میاں صاحب کی آوازیں آنے لگیں۔ آپؓ کی تائید میں مولوی محمد احسن صاحب امروہی نے خلافت کی اہمیت اور ضرورت پر تقریر کی۔اس کے بعد مولوی محمد علی صاحب اور سید میر حامد شاہ صاحب کھڑے ہوگئے۔ مولوی یعقوب علی عرفانی صاحبؓ نے کہا کہ ’’یہ وقت ان جھگڑوں کا نہیں۔ ہمارے آقا! حضور ہماری بیعت قبول فرمائیں۔‘‘چنانچہ حضورؓ نے بیعت لی۔ پھر لمبی دعا ہوئی اور آپؓ نے ایک دردانگیز تقریرکرتے ہوئے فرمایا: ’’مَیں ایک کمزور اور بہت کمزور انسان ہوں مگر مَیں خدا سے امید رکھتا ہوں کہ جب اس نے مجھے اس خلعت سے نوازا ہے تو وہ مجھے اس بوجھ کو اٹھانے کی طاقت دے گا۔ اگر اطاعت اور فرمانبرداری سے کام لوگے اور اس عہد کو مضبوط کروگے تو یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہماری دستگیری کرے گا۔‘‘
۱۹۴۴ء میں آسمانی پیشگوئیوں کے مطابق آپؓ نے جب منجانب اللّٰہ اَنَاالْمَسِیْحُ الْمَوْعُودُ مَثِیْلُہٗ وَخَلِیْفَتُہٗ کی آسمانی آواز سنی تو اس کو علی الاعلان مشتہر کیا۔ آپؓ فرماتے ہیں: ’’مَیں اس واحد قہارخدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں جس کی جھوٹی قسم کھانا لعنتیوں کا کام ہے اور جس پرافتراء کرنے والا اس کے عذاب سے کبھی بچ نہیں سکتا کہ خدا نے مجھے اسی شہر لاہور میں ۱۳۔ٹمپل روڈ پر شیخ بشیر احمد صاحب کے مکان میں یہ خبر دی ہے کہ مَیں ہی مصلح موعود کی پیشگوئی کا مصداق ہوں اور مَیں ہی وہ مصلح موعود ہوں جس کے ذریعہ اسلام دنیا کے کناروں تک پہنچے گا اور توحید دنیا میں قائم ہوگی۔‘‘
(تقریر جلسہ لاہور، الفضل15؍مارچ 1944ء)
حضرت مصلح موعودؓ کے 52سالہ دورِ خلافت میں ’’پیشگوئی مصلح موعود‘‘ میں بیان فرمودہ تمام وعدے بڑی شان کے ساتھ پورے ہوئے۔ چند کارہائے نمایاں یہ ہیں:
٭…منارۃ المسیح کی تعمیر اخراجات کی وجہ سے رکی ہوئی تھی۔ ۲۷؍دسمبر ۱۹۱۴ء کو حضورؓ نے اپنے خطبہ جمعہ میں اس کے لیے تحریک کی اور جمعہ کے بعد منارہ کی نامکمل عمارت پر اپنے دست مبارک سے اینٹ رکھی۔حضورؓ کی توجہ اور مخلصین کی قربانیوں سے دسمبر۱۹۱۶ء میں منارہ مکمل ہوگیا۔

مسجد اقصیٰ قادیان

٭…سفر یورپ کے دوران حضورؓ نے احمدی خواتین کی علمی ترقی کے لیے سکیم بنائی اور واپس آکر ۱۷؍مارچ ۱۹۲۵ء کو مدرسۃالخواتین کی بنیاد رکھی۔ اس سے قبل حضورؓ لجنہ اماءاللہ کا قیام ۱۹۲۲ء میں فرماچکے تھے۔
٭…۱۵؍اپریل ۱۹۲۸ء کو حضورؓ نے جامعہ احمدیہ قائم کرنے کا فیصلہ فرمایا اور۲۰؍مئی کو اس کا افتتاح فرمادیا۔
٭…حضورؓ نے ۱۸؍جون۱۹۱۳ء کو اخبار الفضل کا اجرا فرمایا جس کے لیے ابتدائی سرمایہ مہیا فرمانے والوں میں حضرت سیّدہ اُمّ ناصر صاحبہؓ نے اپنے دو زیور پیش کیے۔حضورؓ فرماتے ہیں: ‘خدا تعالیٰ نے میری بیوی کے دل میں اس طرح تحریک کی جس طرح خدیجہؓ کے دل میں رسول کریم ﷺ کی مدد کی تحریک کی تھی … اس حسن سلوک نے نہ صرف مجھے ہاتھ دیے جن سے میں دین کی خدمت کے قابل ہوا اور میرے لیے زندگی کا ایک نیا ورق الٹ دیا بلکہ ساری جماعت کی زندگی کے لیے بھی بہت بڑا سبب پیدا کردیا۔’
اسی طرح حضرت اماں جانؓ نے اپنی ایک زمین عنایت فرمائی جو ایک ہزار روپے میں فروخت ہوئی۔ نیز حضرت نواب محمد علی خان صاحبؓ نے نقد رقم کے علاوہ زمین بھی دی جو تیرہ سو روپے میں فروخت ہوئی۔

حضرت نواب محمد علی خان صاحبؓ

قیام پاکستان کے بعد ۱۵؍ستمبر۱۹۴۷ء کو لاہور سے اخبار الفضل کا پہلا پرچہ شائع ہوا۔
٭… مسلمانوں کو ہندو بنانے کے لیے چلائی جانے والی تحریک شدھی میں حضرت مصلح موعودؓ کا قائدانہ کردار بےمثال تھا۔ حضورؓ کی تحریک پر احباب جماعت نے اپنے اموال، اپنی جانیں اور اپنی اولاد کو پیش کردیا۔ اگرچہ اس سے قبل جماعت احمدیہ اور حضورؓ کا اسم گرامی ملک کے اہم حلقوں میں معروف ہوچکا تھا لیکن تحریک شدھی ہی ملک گیر شہرت کا وہ پہلا زینہ ثابت ہوئی جسے طے کرتے ہوئے تمام ہندوستان میں عوامی سطح پر بھی آپؓ کا شہرہ بام عروج پر جا پہنچا۔
٭…ذیلی تنظیموں کا قیام حضورؓ کی بصیرت افروز نگاہ کا مرہون منّت ہے۔ ۲۵؍دسمبر۱۹۳۹ء کو حضورؓ نے پہلی بار لوائے احمدیت اور خدام و لجنہ کے پرچم بھی لہرائے۔

جلسہ سالانہ ربوہ کا ایک منظر

٭…نئے مرکز احمدیت ربوہ کا قیام اولوالعزم خلیفہ حضرت مصلح موعودؓ کا ایک عظیم المرتبت کارنامہ اور ہجرت کے نتیجے میں تبلیغ میں رکاوٹ پیدا نہ ہونے سے متعلق آپؓ کی دعا کی قبولیت کے نتیجے میں ملنے والی بشارتوں کا ثمر تھا۔
۱۰؍مارچ۱۹۵۴ء کو عبدالحمید نامی ایک شخص نے حضورؓ پر قا تلانہ حملہ کیا مگر خدا تعالیٰ نے اپنے فضل، اپنی قدرت اور صفتِ احیاء کا غیرمعمولی نظارہ دکھایا اور اس بندۂ درگاہ عالی کو خارق عادت رنگ میں بچالیا۔
عظیم الشان پیشگوئی مصلح موعود میں دی گئی ہر الٰہی بشارت کو دنیا سے منوانے کے بعد آخرکار ۷ اور ۸؍نومبر ۱۹۶۵ء کی درمیانی شب حضرت مصلح موعودؓ نے وفات پائی۔نماز جنازہ حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے پڑھائی اور بہشتی مقبرہ ربوہ میں حضرت اماں جانؓ کے پہلو میں جسداطہرکی تدفین ہوئی۔

اک وقت آئے گا کہ کہیں گے تمام لوگ
ملت کے اس فدائی پہ رحمت خدا کرے

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں