مالی قربانی سے مالی فراخی پیدا ہوتی ہے

(مطبوعہ ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘، الفضل انٹرنیشنل لندن 10؍اپریل 2023ء)
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 3؍اکتوبر2013ء میں مکرم ماسٹر احمد علی صاحب کے قلم سے مالی قربانی کے نتیجے میں حاصل ہونے والی برکات کو بیان کیا گیا ہے۔

ماسٹر احمد علی صاحب

مضمون نگار رقمطراز ہیں کہ 2005ء کے جلسہ سالانہ جرمنی میں ایک دیرینہ دوست سے ملاقات ہوگئی۔ بےتکلّف گفتگو میں وہ بتانے لگے کہ اکیس بائیس سال کی عمر میں مَیں نے بطور ٹیچر ملازمت شروع کی تو تنخواہ 64؍روپے ماہوار تھی۔ گھریلو اخراجات میں سے کچھ بھی نہ بچتا چنانچہ چندہ عام (جو سولہواں حصہ یعنی صرف چار روپے تھا) ادا کرنا بھی دوبھر ہوتا تھا۔ نظام جماعت کی طرف سے معلّم صاحب کی ڈیوٹی مجھے سمجھانے کے لیے لگائی گئی۔ وہ تشریف لائے تو مَیں نے اُن کے سامنے بھی بہانہ سازی سے کام لیا۔ لیکن انہوں نے ایسے مؤثر انداز میں چندہ عام کی ادائیگی کی تحریک کی جو دل میں اُتر گئی۔ انہوں نے کہا کہ مَیں جانتا ہوں کہ آپ چھوٹی عمر میں ہی یتیم رہ گئے تھے اور ملکیتی زرعی زمین کا بیشتر حصہ بارانی ہونے کی وجہ سے کھیتوں سے بھی آمد بمشکل گزارہ کی ہوتی تھی۔ آٹھویں جماعت پاس کرنے کے بعد بھی تم ایسے بےکار تھے کہ کوئی پوچھتا نہ تھا۔ پاکستان بننے کا زمانہ تھا۔ اللہ تعالیٰ نے تمہاری بیوہ ماں کی دعاؤں کے طفیل تمہیں بحیثیت ٹیچر باعزت روزگار عطا فرمادیا اور تم اس عطائے الٰہی میں سے سولہواں حصہ بھی ادا نہیں کررہے۔ انہوں نے کہا کہ مَیں ایک نسخہ بتاتا ہوں اس پر عمل کرکے آزماؤ اور دیکھو کس طرح اللہ برکت دیتا ہے۔ تنخواہ ملتے ہی چار روپے چندہ عام ادا کردیا کرو اور باقی رقم سے اپنی ضروریات پوری کرنے کی کوشش کرو۔ چنانچہ مَیں نے ایسا ہی کرنا شروع کردیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے محکمانہ ترقیات کی راہیں کھلتی گئیں اور تنخواہ بھی بڑھتی گئی۔ چندے کی شرح بھی بڑھنے لگی تو چندہ جات کی ادائیگی میں بشاشت بھی پیدا ہونے لگی۔ کہاں گاؤں میں ایک چھوٹا سا گھر تھا اور کہاں ربوہ میں تین کمروں کا وسیع مکان، اولاد بھی نیک اور فرمانبردار، باروزگار جن کو بیرونِ ملک ذاتی مکان بھی عطا ہوئے۔ اللہ کی عنایات و فیوض کا شمار نہیں۔ مَیں تو کہتا ہوں ؎

اے آزمانے والے! یہ نسخہ بھی آزما

پھر وہ کہنے لگے کہ مَیں نے 1964-65ء میں اخبار الفضل میں سندھ کے ایک ہاری (کاشتکار) کا ایک واقعہ پڑھا تھا جو ’’ہاری‘‘ سے ڈیڑھ مربع زرعی زمین کا مالک بن گیا۔ اُس نے لکھا تھا کہ ایک مربی صاحب نے مجھے تحریک کی کہ نظام وصیت میں شامل ہوجاؤ پھر دیکھو کہ تمہاری آمدنی میں اللہ تعالیٰ کیسے برکت عطا کرتا ہے۔ مجھے انقباض تھا کہ جب وصیت کا اعلان اخبار میں شائع ہوگا تو پڑھنے والوں کو علم ہوجائے گا کہ بظاہر اتنی ٹھاٹھ باٹھ دکھانے والا اصل میں تو صرف ایک ایکڑ زمین کا مالک ہے۔ لیکن اُن مربی صاحب کی زبان میں کچھ ایسی تاثیر تھی کہ اُن کی یہ بات دل میں گھر کرگئی کہ ’’چودھری صاحب! آزمائیں تو سہی کہ اللہ تعالیٰ آپ کے ایک ایکڑ کو کیسے پچیس تیس ایکڑ بنادیتا ہے!‘‘۔

انہوں نے بتایا کہ میرے دو ساتھی اساتذہ جب تحریک جدید اور وقف جدید کے چندے ادا کرتے تو مَیں حیران ہوتا کہ اتنی بڑی رقوم تنخواہ میں سے ادا کرکے یہ کس طرح گزربسر کرتے ہیں۔ لیکن جب خود نظام وصیت میں شمولیت کی سعادت ملی تو اُس کے بعد میرا بھی حوصلہ بڑھ گیا ہے۔ کیونکہ

سب کچھ تری عطا ہے
گھر سے تو کچھ نہ لائے

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں