محبتوں کے نُور کی جھلک مجھے بھی یاد ہے – نظم

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 17 فروری 2011ء میں مکرمہ ڈاکٹر فہمیدہ منیر صاحبہ کی ایک نظم شائع ہوئی ہے جو انہوں نے اُس نظارہ سے متأثر ہوکر کہی جب (نو سال کی عمر میں انہوں نے دیکھا کہ) ایک سالانہ جلسہ کے موقع پر بارش کے باوجود ہزاروں افراد کا مجمع دَم سادھے حضرت مصلح موعودؓ کی تقریر سنتا رہا تھا۔ اس نظم میں سے انتخاب ہدیۂ قارئین ہے:

محبتوں کے نُور کی جھلک مجھے بھی یاد ہے
ترے حسین رُوپ کی چمک مجھے بھی یاد ہے
مجھے ہے یاد آج بھی وہ تیری چشمِ نیم وا
تری جبین ناز کی دمک مجھے بھی یاد ہے
…………………
بس اِک ذرا سی بات ہے کہ روئیداد کچھ نہیں
وہ عمر ایسی عمر بھی کہ اَور یاد کچھ نہیں
وہ شام ایسی شام تھی وہ شام بھولتی نہیں
پھر اس کے بعد کیا ہؤا چہ بادا باد کچھ نہیں
…………………
بہت سے سال کٹ گئے ہیں گو ترے وصال کو
مَیں بھول پائی ہی نہیں ہوں اس عجیب سال کو
جو قادیاں میں کٹ گئی وہ اِک عجیب شام تھی
مَیں کیسے بھول پاؤں گی چمن کے اس غزال کو

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں