محترمہ سلیمہ بیگم صاحبہ

روزنامہ ’’الفضل ربوہ 14 اکتوبر 2009ء میں مکرمہ ف۔نصیر صاحبہ نے محترمہ سلیمہ بیگم صاحبہ (والدہ محترم ڈاکٹر عبدالمنان صدیقی شہید) کا ذکرخیر کیا ہے۔

ڈاکٹر عبدالمنان صدیقی شہید

مضمون نگار بیان کرتی ہیں کہ اگرچہ مجھے بچپن سے ہی اپنی والدہ کے ساتھ بارہا محترمہ سلیمہ بیگم صاحبہ کے پاس جانے کا موقع ملا لیکن محترم ڈاکٹر صاحب کی شہادت کے بعد جب اُن کی تدفین کے لئے سب لوگ ربوہ چلے گئے تو پھر مجھے آپ کے پاس رہنے کے لئے چھوڑ گئے کیونکہ آپ معذوری کے سبب سفر نہیں کرسکتی تھیں۔ گو کہ اس پیرانہ سالی میں جوان سعادتمند اکلوتے بیٹے کی شہادت آپ کے لئے بہت بڑی آزمائش تھی اور مَیں اُس وقت سوچتی تھی کہ آپ کے پاس رہتے ہوئے کیسے آپ کی دلجوئی کرپاؤں گی مگر آپ کی طبیعت میں اتنی شفقت اور اپنائیت تھی کہ مجھے کوئی خدمت بھی کٹھن معلوم نہ ہوئی۔ محترم ڈاکٹر صاحب کی شہادت کے بعد آپ تین چار راتیں سو نہ سکیں۔ مجھے کہتیں کہ میرے پاس بیٹھ جاؤ پھر اپنا ہاتھ میرے ہاتھ میں دے کر کہتیں کہ مَیں بھی درودشریف پڑھتی ہوں، تم بھی پڑھو۔ کبھی رات گئے تک اپنے والد حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ صاحبؓ کی باتیں اور خلفاء کی سیرۃ کے واقعات سنایا کرتیں۔ ایک دن بتایا کہ جب میرا بیٹا پیدا نہیں ہوا تھا اور ابھی نہ کوئی امید ہی تھی تو ایک رات مَیں نے خواب میں دیکھا کہ ایک چھوٹا بچہ میرے پاس لیٹا ہوا ہے اور اس نے اعلیٰ لباس پہنا ہوا ہے۔ کہنے لگیں کہ پھر مجھے یقین ہوگیا کہ چاہے خدا تعالیٰ مجھے دیر سے اولاد دے مگر ایک بچہ مجھے ایسا ضرور عطا فرمائے گا جو بہت قابل ہوگا۔ اس خواب کے بہت عرصہ کے بعد ڈاکٹر عبدالمنان صدیقی پیدا ہوئے۔
ڈاکٹر صاحب کی شہادت کے بعد آپ بہت اداس ہوگئی تھیں۔ مَیں ہلکے پھلکے مزاح سے آپ کو خوش کرنے کی کوشش کرتی تو آپ مسکرا دیتیں اور کہتیں کہ مجھے خوب پتہ ہے کہ تم میرا دل لگانے کی کوشش کرتی ہو۔ آپ بہت باصبر اور راضی برضائے الٰہی رہنے والی خاتون تھیں۔ اپنے بیٹے کی شہادت پر نہ صرف خود مثالی صبر کا نمونہ دکھایا بلکہ جماعت احمدیہ میرپورخاص سے بھی فرمایا کہ اس جماعت کی خوش نصیبی ہے کہ ان کے حصہ میں بھی شہادت آئی۔
آپ بہت عبادت گزار، خلافت سے عقیدت رکھنے والی، صاف دل، غریبوں کی ہمدرد اور مہربان خاتون تھیں، سخی اور مہمان نواز تھیں، یادداشت غیرمعمولی تھی۔ بہت پرانی باتیں بھی اپنی جزئیات کے ساتھ یاد تھیں۔ دُوراندیش اور معاملہ شناس تھیں۔ کوئی کتنا ہی گھماپھرا کر بات کرتا مگر آپ بات کی تہہ تک پہنچ جاتیں۔ روزانہ مجھ سے قرآن کریم کی تلاوت سنتیں۔ مغرب سے عشاء تک کوئی دینی کتاب سنا کرتیں اور غلطیوں کی اصلاح بھی کرتی جاتیں۔
ایک دن آپ کے لئے کھانا گرم کرتے ہوئے میرے ہاتھ پر ابلتا ہوا دودھ گر گیا۔ شدید جلن اور تکلیف میں مبتلا ہوگئی۔ مَیں نے اپنا ہاتھ برف والے پیالہ میں ڈالا تاکہ جلن میں کچھ کمی آئے۔ لیکن پھر ملازمہ آئی کہ کھانا جلدی لے کر جائیں۔ اُس کے کہنے پر تکلیف کی پرواہ کئے بغیر مَیں کھانا لے کر آپ کے پاس آگئی اور کھلانے لگی۔ لیکن ہاتھ کی جلن شدید تھی اور مَیں اس کا اظہار بھی کرنا نہیں چاہتی تھی۔ ایسے تکلیف کے وقت مَیں نے آپ کے چہرہ کی طرف دیکھ کر دعا کی کہ اے اللہ! مَیں اس بزرگ ہستی کی خدمت کررہی ہوں، تُو میری یہ تکلیف دُور کردے۔ ابھی چند ہی سیکنڈ گزرے تھے کہ مجھے ایسا محسوس ہوا کہ جیسے میرے ہاتھ میں کوئی تکلیف نہیں ہے، نہ ہی کوئی چھالہ بنا۔ اگلے دن مَیں نے آپ کو یہ واقعہ سنایا تو آپ مسکرائیں اور حیران بھی ہوئیں ۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں