محترم قریشی قمر احمد صاحب

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ یکم ستمبر 2001ء میں محترم قریشی قمر احمد صاحب کا ذکر خیر کرتے ہوئے مکرم سلیم شاہجہانپوری صاحب لکھتے ہیں کہ محترم قریشی صاحب 1950ء سے 1974ء تک ماڈل ٹاؤن لاہور کی جماعت کے سیکرٹری مال رہے۔ آپ نے اپنی کوٹھی کا بیرونی حصہ جماعت کے لئے مخصوص کردیا تھا جہاں لمبا عرصہ پنجوقتہ نمازیں باجماعت ادا ہوتی رہیں۔ جب یہ جگہ تنگ ہوگئی تو پھر حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ کی کوٹھی میں نمازیں جاری رہیں۔ بعد میں جب یہ جگہ بھی تنگ ہوگئی تو محترمہ احمدی بیگم صاحبہ اہلیہ محترم چودھری بشیر احمد صاحب نے اپنا پلاٹ مسجد کے لئے وقف کردیا۔ اس پلاٹ پر مسجد کی تعمیر کے لئے نقشہ جات کی تیاری، منظوری اور تعمیراتی کاموں کے لئے جماعتی طور پر مکرم قریشی قمر احمد صاحب کو ذمہ داری سپرد کی گئی اور آپ نے اس ذمہ داری کو نہایت احسن طریق پر نبھایا۔ 26؍جون 1968ء کو حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ نے اس مسجد کا سنگ بنیاد رکھا۔ مکرم قریشی صاحب کی ماہرانہ صلاحیتوں کے باعث مسجد کی تعمیر بجٹ سے کم لاگت پر پایہ تکمیل کو پہنچی جس پر حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ نے مسجد دیکھنے کے بعد خاص طور پر اظہار خوشنودی فرمایا۔
آپ انتہائی سادہ اور وضع دار انسان تھے۔ اگرچہ آپ کو اللہ تعالیٰ نے مالی وسعت سے نوازا تھا لیکن سائیکل ہی استعمال کرتے۔ دوستوں کے توجہ دلانے پر جواب دیتے کہ کار کے اخراجات میں بچت کرکے جماعت کے کئی کام ہوسکتے ہیں۔ آپ نہ صرف احمدیوں میں بلکہ غیروں میں بھی نہایت عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے اور آپ کے اعلیٰ اخلاق کے باعث آپ کا احترام کیا جاتا تھا۔ ایک بار جب احمدیہ ہوسٹل کے بعض طلبہ کو پولیس نے بلاوجہ پکڑ لیا تو کئی احمدیوں کے ضمانت دینے کے باوجود پولیس نے ضمانت نہ لی۔ لیکن جب قریشی صاحب وہاں پہنچے تو SHO اپنی جگہ سے اُٹھ کر آپ کے پاس آیا اور کہا کہ مَیں جانتا ہوں کہ آپ بہت سچے اور شریف انسان ہیں۔ اگر آپ ضمانت دیں تو مَیں لڑکوں کو رہا کردوں گا۔ چنانچہ آپ کی ضمانت پر لڑکے رہا ہوگئے۔
ایک مرتبہ آپ ربوہ سے لاہور آرہے تھے۔ راستہ میں ایک جگہ بس رُکی تو خربوزے بیچنے والوں کے ہجوم نے بس پر دھاوا بول دیا۔ وہ سب چیخ چیخ کر اپنے خربوزوں کے میٹھا ہونے کا اعلان کر رہے تھے۔ جب ایک خربوزے والے نے صدا لگائی کہ پھیکے خربوزے لے لو۔ تو قریشی صاحب اپنے ساتھ بیٹھی ہوئی عزیزہ سے کہنے لگے کہ ابھی خربوزوں کا موسم شروع نہیں ہوا اور خربوزے میٹھے نہیں ہوسکتے۔ یہ سب لوگ جھوٹ بولتے ہیں اور صرف وہ ایک شخص سچ بول رہا ہے۔ پھر آپ اٹھے اور اُس شخص کے سارے خربوزے یہ کہتے ہوئے خریدلئے کہ شاید میرے اس برتاؤ پر دوسرے لوگ بھی سچ کو زندگی کی بنیاد بنالیں۔
آپ کے دوست آپ سے کہتے کہ آپ کتنے اچھے اور نیک انسان ہیں، کاش آپ قادیانی نہ ہوتے!۔ آپ جواب دیتے کہ مَیں اچھا انسان صرف اسی وجہ سے ہوں کہ احمدیت نیک اور اچھا انسان بنادیتی ہے۔
آپ کی اہلیہ نے سینکڑوں بچوں اور بچیوں نے قرآن شریف پڑھایا۔ حتی کہ غیراحمدیوں کی مقامی مسجد کے پیش امام حافظ فضل الرحمن صاحب نے بھی اپنے گھر کے بچوں کو آپ ہی کے گھرانے سے قرآن پڑھوایا۔ جب اُن سے اس کی وجہ پوچھی جاتی تو وہ برملا کہتے کہ جس دلسوزی، محنت اور صحیح تلفّظ کے ساتھ وہ بچوں کو پڑھاتی ہیں، میری نظر میں اس سے بہتر پڑھانے والی کوئی اس علاقہ میں نہیں۔
آپ ایک مہمان نواز انسان تھے۔ جب تک احمدیہ مسجد تعمیر نہیں ہوئی تو مربی سلسلہ کا قیام آپ ہی کے ہاں ہوتا۔ دوردراز سے آنے والے کئی طلبہ اور کئی دوسرے لوگ بھی مدتوں آپ کے ہاں قیام کرتے اور اپنے گھر کا آرام پاتے۔ جلسہ سالانہ سے پہلے کراچی وغیرہ سے مہمان پہلے آپ کے پاس لاہور پہنچتے اور پھر آپ کے ہمراہ بس کے قافلہ میں ربوہ روانہ ہوتے۔ لوگ آپ کی معیت میں رہنا خوش نصیبی سمجھتے تھے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں