محترم مولانا صوفی محمد اسحاق صاحب مرحوم

(مطبوعہ رسالہ انصارالدین نومبرودسمبر 2023ء)

صوفی محمد اسحاق صاحب

 

محمد یوسف ناصر

میرے دادا مکرم شیخ اللہ بخش صاحب کپڑے کا کاروبار کرتے تھے لہٰذا آپ کے نام کے ساتھ شیخ لگایا جاتا ہے ورنہ آپ کی قوم راجپوت تھی۔ آپ کا تعلق تلونڈی کھجور والی ضلع گوجرانوالہ سے تھا اور دہلی میں ایک بہت بڑی دکان تھی۔ آپ اور آپ کے بھائی قافلوں کی صورت میں تجارت کی غرض سے چین اور ڈھاکا تک جاتے اور وہاں سے ریشم اور ململ لے کر آتے جبکہ ایک چھوٹے بھائی تلونڈی کھجور والی میں ہی ہوتے تھے۔ انہوں نے سنا کہ امام مہدی آگیا ہے تو اپنے بھائیوں سے کہا کہ آپ لوگ تجارت کے لیے سفر کرتے ہیں امرتسر سے بھی گزرتے ہیں تو اس مرتبہ جاتے ہوئے قادیان سے ہوتے جائیں۔ لہٰذا جب دوسرے بھائی سفر کے لیے نکلے تو قادیان بھی گئے مگر حضرت مسیح موعودؑ اس وقت لاہور گئے ہوئے تھے۔ تاہم یہ قادیان کے ماحول سے متأثر ہوئے اور دوبارہ آنے کا ارادہ کرکے روانہ ہوگئے۔ دوبارہ جب قادیان آنے کا موقع ملا تو سارے بھائی اُس روز قادیان پہنچے جب حضرت مسیح موعودؑ کی وفات ہو چکی تھی اور آپ کا جنازہ حضرت خلیفةالمسیح الاولؓ پڑھارہے تھے۔ لہٰذا سب بھائیوں نے حضرت خلیفةالمسیح الاولؓ کے ہاتھ پر بیعت کر لی ۔
والد محترم مولانا صوفی محمد اسحاق صاحب یکم مارچ 1923ء کو تلونڈی کھجوروالی ضلع گوجرانوالا میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم گھر میں ہی اپنے والدین سے حاصل کی۔ تیسری یا چوتھی جماعت میں اپنے گاؤں کے کچھ طلباء کے ساتھ قادیان تعلیم حاصل کرنے کے لیے چلے گئے۔ وہاں میٹرک کرنےکے بعد جامعہ احمدیہ میں داخلہ لے لیا۔ جامعہ سے فارغ التحصیل ہوئے اور جنگ عظیم دوم کے اختتام پر 26؍نومبر 1945ء کو سیرالیون (مغربی افریقہ) بھجوائے گئے۔ 1952ءمیں آپ واپس ربوہ آگئے اور اسی سال آپ کی شادی ہوئی۔ 1956ء تک مرکز ہی میں خدمت کرنے کے بعد آپ کی تقرری دوبارہ افریقی ممالک میں ہوئی اور آپ لائبیریا، کینیا اور یوگنڈا میں بطور مبلّغ تعینات رہے۔ یوگنڈا میں آپ کے چار سالہ قیام کے دوران 53 نئے مراکز تبلیغ اور سکول کھولے گئے اور وہاں کی مقامی زبان لوگنڈا میں قرآن کریم کا ترجمہ شروع کروایا۔ 1971ء میں آپ واپس مرکز ربوہ آگئے اور 1977ء تک شیخوپورہ میں متعیّن رہے۔ پھر آپ کی تقرری بطور استاد جامعہ احمدیہ ہوگئی۔وہاں آپ سپرٹنڈنٹ ہوسٹل کے طور پر بھی خدمت انجام دیتے رہے۔ 2000ء میں ریٹائرمنٹ کے بعد بھی آپ اپنی وفات تک خلافت لائبریری ربوہ میں خدمت بجالاتے رہے۔ چونکہ سواحیلی زبان پر دسترس تھی چنانچہ آپ نے حضرت مسیح موعود ؑ کے بہت سے علم کلام کا سواحیلی زبان میں ترجمہ کیا۔ نیز کئی تبلیغی رسائل بھی مرتّب کیے۔ آپ کی وفات مورخہ 4 اگست 2004ء کوربوہ میں ہوئی اور بہشتی مقبرہ ربوہ میں تدفین عمل میں آئی۔
مکرم صوفی صاحب جب تعلیم کے لیے قادیان گئے تھے تو یہ بیس اکیس لڑکوں کا ایک گروپ تھا لیکن مڈل تک باقی سب واپس چلے گئے۔ تب آپ کے والد محترم نے آپ کو بھی واپس بلالینے کا فیصلہ کیا اور ایک روز آپ کو لینے قادیان پہنچ گئے۔ یہ شام کا وقت تھا۔ سکول انچارج سے مل کر آپ نے اپنے آنے کا مقصد بیان کیا تو انہوں نے کہا کہ میری طرف سے تو اجازت ہے مگر آپ حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ سے بھی پوچھ لیں۔چنانچہ وہ حضورؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ کچھ دیگر احباب بھی وہاں موجود تھے۔ انہوں نے سلام کرکے عرض کیا کہ میں اپنے بیٹے کو لینے آیا ہوں کیونکہ گاؤں کے باقی بچے جاچکے ہیں اور یہ یہاں اکیلا رہ گیا ہے۔ یہ سن کر حضورؓ نے اظہار ناراضی کرتے ہوئے بڑے جوش میں فرمایا کہ ہاں ہاں لے جائیں، ہم کسی کے کیا لگتے ہیں۔ مکرم شیخ صاحب نے محسوس کیا کہ یہ تو مَیں نے حضور کو ناراض کر دیا ہے۔ وہ کچھ کہنے ہی لگے تھے کہ حضورؓ بعض دوسرے احباب کی طرف متوجہ ہو گئے اور قصر خلافت کی طرف چلے گئے۔ شیخ صاحب کو یہ بات اتنی گراں گذری کہ انہوں نے ساری رات قصر خلافت کے باہر دروازے پر گذاردی کہ حضور جب بھی باہر تشریف لائیں گے تو میں معافی مانگوں گا اور اگر حضور اجازت دیں گے تب ہی مَیں بچے کو لے کر جاؤں گا۔


جب حضور نماز فجر کے لیے باہر تشریف لائے تو کسی نے بتایا کہ یہ رات بھر یہیں رہے ہیں۔ پھر شیخ صاحب نے عرض کیا کہ مَیں حضور کو ناراض کر کے بچے کو کیسے لے کر جا سکتا تھا۔ حضورؓ نے فرمایا کہ آپ کا بچہ اچھا بھلا ذہین ہے اور اچھا پڑھ رہا ہے، اس کو ہم پڑھا لیں گے۔ شیخ صاحب نے عرض کیا کہ حضور یہ آپ کا ہی بیٹا ہے اور آپ کے حوالے ہے اور مَیں اب واپس جاتا ہوں۔
جب آپ جامعہ میں زیر تعلیم تھے تو آپ کا رہن سہن دیکھ کر حضرت میر محمداسحٰق صاحبؓ نے آپ سے فرمایا کہ تم تو صوفی ہو اپنے نام کے ساتھ بھی صوفی لکھا کرو۔ آپ نے عاجزی کا اظہار کیا لیکن حضرت میر صاحبؓ نے آپ کے نام کے ساتھ باقاعدہ صوفی لکھنا شروع کردیا۔

حضرت میر محمد اسحٰق صاحب

پھر دیگر اساتذہ نے بھی آپ کو صوفی کہنا شروع کر دیا اور اس طرح آپ صوفی محمد اسحٰق کے نام سے معروف ہوگئے۔
محترم صوفی محمد اسحٰق صاحب جب 3جنوری 1956ء کو لائبیریا کی بندرگاہ منروویا پہنچے تو صدارتی انتخابات کے باعث آپ کے جہاز کو تین روز تک کھلے سمندر میں بندر گاہ کے باہر ٹھہرنا پڑا۔ 6 جنوری کو آپ شہر میں داخل ہوئے اور قریباً 18 روز تک ایک لبنانی تاجر یحییٰ علی صاحب کے ہاں قیام کیا۔ پھر خاصی تگ و دو کے بعد نمبر116کیری اسٹریٹ پر تیس ڈالر میں ایک کمرہ کرائے پر لے لیا اور قرآن کلاس شروع کردی۔ موقع ملنے پر لیکچر بھی دینے لگے۔ وفات مسیحؑ کے سوال پر آپ شیخ الجامع الازہر الاستاذ محمود شلتوت کا فتویٰ پیش کرتے جو قاہرہ کے ہفت روزہ ’’الرسالہ‘‘ (11 مئی 1942ء) میں رفع عیسیٰ کے نام سے شائع ہوا تھا۔ فروری 1956ء میں آپ نے اندرون ملک تبلیغی دورے بھی شروع کیے۔ آپ کو پہلا ثمر ایک عالم دین اسماعیل مالک کے احمدی ہونے سے ملا۔ جس کے بعد آہستہ آہستہ سعید روحیں احمدیت سے وابستہ ہونے لگیں اور جلد ہی ایک مختصر مگر فعال جماعت کا قیام عمل میں آگیا۔ ذیل میں آپ کے خودنوشت سے چند واقعات پیش ہیں۔ محترم صوفی صاحب بیان فرماتے ہیں کہ
٭… 1956ء کے پہلے ہفتے میں خاکسار سیدنا حضرت مصلح موعودؓ کے ارشاد کے مطابق پہلا احمدیہ مرکز کھولنے کے لیے واردِ لائبیریا ہوا جو افریقہ میں سب سے پہلا آزاد ملک شمار ہوتا ہے۔ خاکسار نے انفرادی اور اجتماعی تبلیغ کا کام شروع کردیا اور خدا تعالیٰ کے فضل سے جلد ہی کچھ لوگ احمدی ہوگئے لیکن ترقی کی رفتار بہت آہستہ تھی جس کی ایک وجہ یہ تھی کہ اس ملک میں افریقن نسل کے اُن لوگوں کی حکمرانی تھی جن کے آباؤ اجداد کو غلام بنا کر امریکہ لے جایا گیا تھا۔ پھر جب امریکہ میں غلامی کے خلاف تحریک چلی توامریکن حکومت نے اُن میں سے سینکڑوں کو واپس لاکر لائبیریا میں آباد کردیا۔ یہ لوگ بوجہ اپنی تعلیم اور مال و دولت کے یہاں کی حکومت پر قابض ہوگئے اور مسلمانوں کو پسماندگی سے باہر نہیں نکلنے دیا۔ اس طبقے میں تبلیغ کرنے کی کوشش کی لیکن ان کے تکبّر کی وجہ سے بہت ٹھیس پہنچی۔ آخر مَیں نے اپنے مولا کے حضور عرض کی کہ الٰہی! کیا مَیں اسی طرح ان کے پیچھے بھاگتا رہوں گا اور یہ اسلام کے پیغام کو اسی طرح حقارت سے دیکھتے رہیں گے؟ کیا کوئی ایسی صورت نہیں ہوسکتی کہ یہ از خود ہمارے تبلیغی مرکز میں آنے پر مجبور ہوں تاکہ مَیں عزت کے ساتھ ان کو تبلیغ اسلام کرسکوں؟ میں قربان جاؤں اس رحیم و کریم مولیٰ کے جس نے میری تضرّعات کو سنا اور مجھے وہ راہ دکھا دی جس کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے ان کو میرے پاس آنے پر مجبور کر دیا اور اسی ذریعے سے مجھے مشن کو مالی لحاظ سے خود کفیل بنانے کی توفیق بھی دے دی۔
ہوا یوں کہ میں نے آکسفورڈیونیورسٹی پریس اور انگلستان کے بعض دیگر مشہور ناشروں سے رابطہ قائم کرکے ان سے درسی اور علمی کتب درآمد کیں اور سکولوں کے چند طلباء کو کمیشن دے کر ان کے ذریعے سے ان کتب کو فروخت کروانا شروع کر دیا۔ ہر کتاب پر یہ مہر لگی ہوتی تھی کہ اس قسم کی کتب احمدیہ مشن سے ملتی ہیں۔ اس طرح احمدیت کی شہرت ہوگئی اور مشن کو معقول آمد بھی ہونے لگی اور تعلیم یافتہ طبقہ کار جوع بھی ہمارے مشن کی طرف ہوگیا۔ میں نے جلد ہی اپنے اسی مکان میں ایک اَور کمرہ کرائے پر لے کر اس میں ایک اسلامی بک شاپ کھول دی جس میں جماعتی لٹریچر کے علاوہ عربی، انگریزی، جرمن،فرنچ، اطالوی، و لندیزی اور لاطینی زبانوں کی کتب دستیاب تھیں۔ ان متفرق زبانوں کی کتب کے لیے خاکسار نے ان زبانوں کے جاننے والے دوستوں سے امداد لے کر ان ممالک سے یہ کتب درآمد کر لیں اور چونکہ اس قسم کی بک شاپ سارے ملک میں صرف احمدیہ مشن ہی کی تھی اس لیے ہمارا مشن ان سب بڑےلوگوں کا مرجع بن گیا۔ جو پہلے مجھے خاطر میں نہ لاتے تھے اب میں ان کو بڑی عزت کے ساتھ پیغام اسلام پہنچانے لگا اور مالی منفعت اس کے علاوہ تھی۔ اس طریق سے مرکز سے امداد لیے بغیر نہایت ہی قلیل عرصے میں اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے کم و بیش 30 ہزار روپے کا سرمایہ نقد و کتب کی صورت میں جمع کرلیا۔ میری مصروفیت بہت بڑھ گئی اور تبلیغی گفتگو ہوتی۔ لوگ ہمارا لٹریچر خریدتے اور تبلیغی پمفلٹ وغیرہ بھی لے کر جاتے۔
جب مَیں نے مختلف مسلمان علاقوں میں لیکچر دینے شروع کیے تو شہر میں مثبت حرکت پیدا ہونے لگی۔ رپورٹس ملنے پر حضرت مصلح موعودؓ نے خوشنودی کا اظہار فرمایا اور تبلیغی امور میں وسعت پیدا کرنے سے متعلق ہدایات سے نوازا۔ چنانچہ مَیں نے اپنی تبلیغی سرگرمیاں تیز تر کر دیں۔اپریل 1956ء میں افواج کے کمانڈنگ آفیسر سے اور جون 1956ء میں چیف کمشنر سے مل کر احمدیت کا پیغام پہنچایا۔ جولائی 1956ء میں لائبیریا یونیورسٹی کے صدر کو یونیورسٹی میں عربی کلاسز جاری کرنے کی تحریک کی اور اس کے لیے اپنے آپ کو رضاکارانہ طور پر پیش کیا۔ انہوں نے یہ تجویز منظور کرلی جس کا اعلان پریس میں شائع ہوا تو محکمہ تعلیم نے مسلمانانِ لائبیریا کو یہ اجازت دے دی کہ وہ اپنے علاقوں کے سرکاری سکولوں میں بھی عربی معلم رکھ سکتے ہیں۔ مسلم حقوق کی جدوجہد میں مجھے دوسری کامیابی یہ ہوئی کہ وزیردفاع نے فوج میں تبلیغ اسلام کی منظوری دے دی۔
پھر مَیں نے تحریری رنگ میں بھی اشاعت اسلام کی طرف توجہ شروع کر دی اور ایک مضمون اخبار Liberian Age میں 24 اگست 1956ء کو شائع ہوا جو امریکی رسالہ ’’ریڈرز ڈائجسٹ‘‘ (مئی 1955ء) کے ایک مخالف اسلام مضمون کے جواب میں تھا۔ انہی ایام میں ایک شبینہ تعلیمی کلاس جاری کی جس میں کئی افراد نے داخلہ لے لیا۔ یہ کلاس بھی تبلیغ کا ایک عمدہ ذریعہ ثابت ہوئی۔ستمبر 1956ء میں بہائیوں سے تبادلہ خیال کرکے ان پر اتمام حجت کی۔ اگرچہ تبلیغی کاوشوں کا منروویا کے محلّہ وائی ٹاؤن کے مسلمانوں میں مخالفانہ ردّعمل بھی ظاہر ہونا شروع ہوا مگر میرے صبروتحمل کا خوشگوار اثر چیف پر ہوا اور اس نے میری ایک تقریر کے بعد میرے رویے کی بہت تعریف کی۔ اس کی اطلاع جب حضرت مصلح موعودؓ کی خدمت میں بھجوائی تو حضورؓ نے جواباً ارشاد فرمایا کہ ’’آپ گالیاں سن کر دعادیں، اتنی نرمی کریں کہ ان کے دل شرمندگی سے بھر جائیں۔ بلکہ اظہار بھی کریں کہ اگر آپ جوتیاں بھی ماریں گے تو میں آپ کی ہدایت کے لیے کوشش کرتا رہوں گا۔ آپ بہائی عورت کے پیچھے پڑے رہیں اور دعا کرتے رہیں۔ میں بھی دعا کروں گا۔ اور کہیں کہ آپ 19سال کے بعد بہائیت نہیں چھوڑ سکتیں تو ہم ساڑھے تیرہ سو سال کے بعدکس طرح اسلام چھوڑ سکتے ہیں!‘‘
12 جون 1957ء کو مَیں نے صدر ِ مملکت کی خدمت میں ایڈریس پیش کیا جس میں مسلمانوں کی ترقی کے لیے مناسب اقدامات کرنے کی درخواست کی۔ نیز تجویز پیش کی کہ یونیورسٹی میں عربی زبان کی تعلیم کا انتظام کیا جائے اور اس کے لیے اپنی رضاکارانہ خدمات پیش کیں۔
خداتعالیٰ نے صداقت احمدیت کے کئی نشان بھی ظاہر فرمائے۔ چنانچہ لائبیریا کے ایک لبنانی مسلمان تاجر منصورعطر نے مخالفت شروع کردی حتّٰی کہ ایک اخبار میں میرے خلاف کچھ نازیبا کلمات بھی شائع کرائے جس پر مَیں اس سے ملا مگر اس کا رویہ معاندانہ اور متکبرانہ تھا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ الٰہی وعدے ’اِنّیْ مُھِیْنٌ مَنْ اَرَادَ اِھَانَتَکَ وَاِنِّی مُعِیْنٌ مَّنْ اَرَادَاِعَانَتَکَ کے مطابق چند ماہ کے اندر اندر اس شخص کی رسوائی اس طرح ہوئی کہ لائبیریا میں بسیں چلانے کی کسی غیر ملکی کو اجازت نہ تھی لیکن وہ اس میں ملوث پایا گیا جس پر وہ ملک بدر کردیا گیا اور اسے اپنا سارا کاروبار اَونے پَونے فروخت کرنا پڑا۔
اسی طرح ایک دفعہ منروویا کے بعض سرکردہ مسلمان مخالفین نے صدرمملکت ٹب مین سے مل کر درخواست کی کہ اس عاجز کو ملک بدر کر دیں لیکن صدر صاحب نے جواب دیا کہ جماعت احمدیہ ایک بین الاقوامی تنظیم ہے اور جب تک احمدی مبلغ لائبیریا کے ملکی قوانین کی خلاف ورزی نہیں کرتا وہ ایسا حکم نہیں دے سکتے۔
لائبیریا میں میرا قیام قریباً سوا تین سال رہا۔اس قلیل عرصہ میں نہ صرف یہ کہ اسلام احمدیت کا چرچا ملک کے ہرطبقے میں شروع ہوگیا بلکہ مشن مالی اعتبار سے بھی بہت حد تک خود کفیل ہوگیا اور علمی طبقے کا ایک اہم مرکز بن گیا۔
مجھے سیرالیون میں بھی خدمت کی توفیق ملی۔ 1946ء میں سیرالیون مشن کے انچارج مولانا محمد صدیق صاحب فاضل امرتسری تھے اور مغربی افریقہ کے رئیس التبلیغ مولوی نذیر احمد علی صاحب مرحوم تھے۔ میرے سیرالیون پہنچنے پر خاکسار کا تقرر روکوپر میں ہوا جو اندرونِ ملک میں ہمارا سب سے پرانا مرکز ہے۔ اُس وقت وہاں ہمارا ایک پرائمری اسکول تھا جو اگرچہ شہر سے تقریباً باہرتھا تاہم چونکہ دنیاوی تعلیم کے ساتھ مسلمان بچوں کو یہاں دینی تربیت بھی میسر تھی اس لیے مسلمان بچے عیسائی سکول کو (جو شہر کے وسط میں تھا) چھوڑ کر ہمارے سکول میں ہی آیا کرتے تھے۔ یہ عیسائی سکول ایک امریکن مشن کے ماتحت یہاں عرصہ دراز سے قائم تھا لیکن ہمارے سکول کی افادیت کی وجہ سے اس کی ترقی پہلے ہی مسدود ہو رہی تھی۔ اور اب ایک عربی دان مبلغ کے وہاں پہنچنے سے اس کا حوصلہ مزید پست ہو گیا اور بالآخرانہوں نے اپنا سکول بند کر دیا۔ اس پر سیرا لیون کے دارالحکومت فری ٹاؤن کے ایک اخبار Renaissant African نے اپنے اداریے میں عیسائیوں کو مشورہ دیا کہ چونکہ احمدیہ مسلم مشن روکو پر کے علاقہ میں قلعہ بند ہے اور اب احمدی مبلغین کی آمد سے اسلام یہاں اَور طاقتور ہو گیا ہے اس لیے عیسائیوں کو اس علاقے میں اپنی قوت وسرمایہ ضائع نہیں کرنا چاہیے۔ اس اخبار کا تراشہ حضرت مصلح موعودؓ کی خدمت میں بھجوایا گیا تو حضورؓ نے اپنے ایک خطبہ جمعہ میں جماعت کی اس ترقی پر خوشی کا اظہار فرمایا۔
تاہم کچھ ہی عرصے بعد روکو پر شہر کے ٹاؤن چیف مسمیٰ اسانٹیکی ٹورے نے محض احمدیت سے دشمنی کے باعث اُس عیسائی مشن سے رابطہ قائم کیا اور کہا کہ تم واپس آؤ، میں احمدیوں کے خلاف تمہاری مدد کروں گا۔ اس کے اس رویے سے ہمیں سخت تکلیف ہوئی۔ لیکن وہ چونکہ حاکم شہر تھا اس لیے ہم خاموشی پر مجبور تھے۔ بہرحال اس عیسائی مشن نے دوبارہ اپنا اسکول وہاں کھول دیا۔ تاہم اللہ تعالیٰ کے فضل سے عیسائی مشن کے کارندے احمدیہ مشن سے اس قدر مرعوب تھے کہ جلد ہی انہوں نے نہ صرف اپنا سکول دوبارہ بند کر دیا بلکہ اس علاقے میں مزید چار پانچ اسکول بھی بند کردیے۔ اُن تمام جگہوں پر ہمارے اسلامی سکول کھل گئے جو کامیابی سے چل رہے ہیں۔ فالحمد للہ تعالیٰ
اُنہی ایام میں روکوپر کے ایک نوجوان نے جب احمدیت قبول کی تو اُس چیف نے احمدیت سے بغض کی بِنا پر اس احمدی نوجوان کو ٹیکس کی بروقت عدم ادائیگی کے بہانے سے پھانس کر بہت زدوکوب کیا۔ یہ ایک ایسا معاملہ تھا کہ مَیں اس میں مداخلت نہ کرسکتا تھا لیکن میرے دل میں بہت قلق پیدا ہوا اور طبعاً دعا کی۔ خدا کی قدرت دیکھیے کہ بالکل تھوڑے عرصہ کے بعد مذکورہ چیف کو خدا تعالیٰ نے جلد ہی عبرتناک سزا دی۔ ایک روز وہ مع اپنے خدام وحشم کے ایک شادی میں شرکت کے لیے روکوپر سے کسی دوسرے گاؤں کے لیے روانہ ہوا اور دریا کے کنارے پہنچا۔ اُن دنوں سمندر میں جوار بھاٹا کی وجہ سے اس دریا کی گہرائی سولہ فٹ تھی جو عام حالات میں صرف 4 فٹ کے قریب ہوتی ہے۔ جب چیف کشتی میں سوار ہونے لگا تو اس کے لاؤلشکر میں سے ہر ایک کی خواہش تھی کہ وہ چیف کے ساتھ بیٹھے اس لیے یک دم اُس کے متعدد ساتھیوں نے بھی قدم رکھ دیے جس کے نتیجے میں کشتی اُلٹ گئی اور چونکہ چیف تیرنا نہ جانتا تھا اس لیے جلد ہی اپنے بھاری بھرکم جسم اور جبّہ کی وجہ سے ڈوب کر ہلاک ہوگیا۔
کینیا میں قریباً 1959ءمیں ایک عیسائی پادری وہاں آیا جو اپنے آپ کو فاتح قرآن کہا کرتا تھا اور قرآن کریم پر بائبل کے حوالوں سے اعتراضات کیا کرتا تھا۔ اس کو یہ گھمنڈ تھا کہ وہ قرآن کریم کو بہت اچھی طرح جانتا ہے۔ اس پادری نے حضرت عیسٰیؑ کی پیدائش کے متعلق اعتراض کیا کہ قرآن کریم تو خود حضرت عیسٰی ؑ کی پیدائش کے متعلق تسلیم کرتا ہے کہ آپ کی پیدائش بن باپ ہوئی لہٰذا آپؑ کو آنحضورﷺ پر برتری اور فوقیت حاصل ہے۔ اس پر مَیں نے بائبل کے حوالوں سے ہی اس پر ثابت کیا کہ بائبل تو خود حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کے آنے کا اعلان کررہی ہےاور تم سب بھی اس کے انتظار میں ہو اور یہ کہ حضرت محمد ﷺ ایک عالمی نبی ہیں جبکہ حضرت عیسٰی ؑ کا ایسا کوئی دعویٰ نہیں بلکہ اس کے برعکس وہ اپنے آپ کو بنی اسرائیل کی قوم تک محدود رکھتے ہیں۔ مَیں نے بائبل کے حوالوں سے یہ بھی ثابت کیا کہ حضرت عیسیٰؑ زندہ آسمان پر نہیں گئے۔ بہرحال یہ بحث چلی تو چرچ کی کونسل نے کہا کہ فریقین کے پاس دلائل موجود ہیں اور کوئی فیصلہ نہیں ہورہا لیکن ہم کوئی زندہ معجزہ دیکھنا چاہتے ہیں۔ مَیں نے یہ چیلنج قبول کرتے ہوئے کہا کہ ہم تو زندہ خدا پر یقین رکھتے ہیں اور معجزہ ہر وقت دیکھ سکتے ہیں۔کونسل نے یہ تجویز دی کہ نیشنل ہسپتال سے فریقین میں برابر تعداد میں مریض لے کر دعا کے ذریعے انہیں شفایاب کیا جائے۔ جس فریق کے تمام مریض شفا پاجائیں گے وہ فاتح ہوگا۔ عیسائی پادری اس پر رضامند ہو گیا کیونکہ نیشنل ہسپتال کے اکثر ڈاکٹر عیسائی تھے۔ پادری نے کونسل ممبران کو بتایا تھا کہ وہ مجھے وہی مریض دلوائے گا جو ویسے ہی مرنے والے ہیں۔ افریقہ میں ایک مہلک بیماری Black Water میں مبتلا مریض کا بچنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ چنانچہ مجھ کو 11 ایسے مریض دیے گئے جن میں سے اکثر اس بیماری کا اور بعض دوسری مہلک بیماریوں کا شکار تھے۔ عیسائی پادری نے11 مریض اپنی مرضی سے منتخب کیے۔ دعا کی مدّت 40 روز رکھی گئی۔ مگر محض 3 ہفتوں کے بعد ہی وہ پادری وہاں سے بھاگ گیا اور پھر کبھی واپس نہیں آیا جبکہ میرے تمام مریض محض اللہ تعالیٰ کے فضل سے صحتیاب ہوگئے۔
مغربی افریقہ میں میرے لیے سب سے بڑی مشکل انگریزی زبان کی تھی جو خاکسار کو بالکل نہ آتی تھی لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے ایسے سامان پیدا کر دیے کہ میں نے بغیر کسی ٹیوٹر کے ایک سال کے اندر اندر یہ زبان اتنی اچھی سیکھ لی کہ لیکچر دینے اور اخبارات میں مضامین اور خطوط لکھنے بھی شروع کر دیے۔بلکہ خدا تعالیٰ نے محض اپنے فضل سے کینیا کے شہر ممباسہ میں ایک عیسائی انگریزی روزنامے میں ہر ہفتہ اسلام کے متعلق مضمون لکھنے کی مجھے توفیق عطا فرمائی۔
افریقہ میں ہماری کامیاب تبلیغی مہم کا مجموعی تاثر بفضلہٖ تعالیٰ نہایت خوشکن ہے۔ ایک دفعہ سیرالیون میں ایک مسلمان انسپکٹر آف سکولز مسٹر دورے نے مجھے برملا کہا کہ You people have brought the inspiration یعنی تم لوگ ہمارے لیے اسلام کی ترقی کی ایک نئی روح لے کر آئے ہو۔ ایک اَور ممتاز مسلمان مسٹر مصطفی سنوسی (سیرالیون کے سابق نائب وزیر اعظم) نے ایک دفعہ برملا یہ اعتراف کیا کہ اگر احمدی نہ آتے تو سارا ملک چند سال کے اندر اندر عیسائی ہوجاتا۔ اسی طرح کینیا میں جنوبی افریقہ کے ایک ممتاز مسلمان مسٹر جمل نے خط میں مجھے لکھا کہ میں آپ لوگوں کا بے حد شکر گزار ہوں کہ آپ نے افریقہ میں تبلیغ اسلام کی ایک ایسی کامیاب مہم شروع کر رکھی ہے کہ سب سنی علماء و شیوخ مل کر بھی اس کا عشر عشیر نہیں کرسکے اور نہ ہی کرسکتے ہیں۔ اسی طرح ایک دفعہ نیروبی مشن میں جنوبی افریقہ کا ایک مسلمان جو احمدیت کا مخالف تھا، ملنے آیا۔ دورانِ گفتگو مَیں نے اسے کہا کہ ہمارے آپس میں لڑنے جھگڑنے سے اسلام کو کیا فائدہ ہوگا۔ کیا یہ بہتر نہ ہوگا کہ آپ بھی ہماری طرح تبلیغ اسلام کے لیے اپنے گھروں سے نکل کھڑے ہوں۔ اس پر اُس کے منہ سے بےساختہ یہ الفاظ نکلے کہ آپ لوگوں نے تو کوئی جگہ چھوڑی ہی نہیں جہاں جاکر ہم تبلیغ کرسکیں۔
ایک بار آریہ سماج نے اپنا سالانہ جلسہ کیا اور اس میں اسلام کی نمائندگی کے لیے مجھے لیکچر کی دعوت دی۔ لیکچر کا عنوان تھا ”سائنس کا اثر مذہب پر“ خاکسار نے ثابت کیا کہ سچے مذہب کو سائنس سے ڈرنے کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں ہے کیونکہ سائنس تو سچے مذہب کی سچائی کو ثابت کرے گی نہ کہ اس کی تردید۔ خاکسار نے متعدد واقعات اور یورپین اہل علم کے حوالہ جات سےثابت کیا کہ سائنس نے جو اثر مذہب پر کیا ہے وہ اس قدر ہی ہے کہ جو مذاہب خلافِ فطرت تعلیم دیتے ہیں یا خلافِ عقل باتیں کہتے ہیں آج وہ اپنی تعلیم کو چھپانے لگ گئے ہیں اور ان کے پھیلنے کا امکان اب ختم ہوگیا ہے۔ بہرحال تقریر کے لیے صرف پندرہ منٹ کا وقت مجھے دیا گیا تھا جلسہ کے صدر (جو خود بھی آریہ تھے ) نے اپنے سوامی کی تقریر پر وقت کی پابندی نہ لگائی اور ان کی تقریر دو گھنٹہ تک جاری رہی۔ اس رعایت کے باوجود سوامی جی میرے دلائل کو چھو تک نہ سکے اور اس طرح اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے اس جلسہ میں اسلام کو نمایاں فتح عطا کی۔ تقریر کے بعد بعض ہندوؤں نے بھی میرے لیکچر کی تعریف کی۔
ایک واقعہ یہ ہوا کہ ایک انگریز عورت کو اس کے شیعہ خاوند نے طلاق دے دی جس پر اس عورت نے یہاں کے مشہور اخبار سٹینڈ رڈ میں ایک خط لکھا اور اسلام کے حکمِ طلاق پر سخت حملہ کیا جس کا جواب ہمارے بھٹی صاحب نے اسے نہایت اچھے رنگ میں دیا اور بعد ازاں دو خط ہماری احمدی مستورات کی طرف سے بھی اس اخبار میں شائع ہوئے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ عورت ہمارے مشن میں آئی اور مجھے کہنے لگی کہ تم لوگوں نے میرا کیس خراب کر دیا ہے۔مَیں نے اسے بتلایا کہ ہم نے تو صرف اسلام کے ایک قیمتی اصول کی مدافعت کی ہے ورنہ ہمیں تمہاری ذات سے کوئی عناد نہیں ہے۔ ہاں تمہارے ساتھ ذاتی طور پر اگر کوئی بے انصافی ہوئی ہے تو تم عدالت میں جاکر انصاف حاصل کرو۔
ایک لیکچرخاکسار نے گورنمنٹ سینئر سیکنڈری سکول سروٹی میں دیا جس کے لیے میں اور مخلص احمدی بھائی مکرم عبد المغنی ہمایوں صاحب یورپین ہیڈماسٹر کو ملے۔ ہم سے پہلے عیسائی یورپین وفد نے تقریر کی جس کے بعد ہمایوں صاحب نے اُن سے پوچھا کہ کیا بائبل خود بھی اپنے متعلق کلام اللہ ہونے کا دعویٰ کرتی ہے یا نہیں۔ لیکن وہ جواب دینے سے عاجز نظر آئے۔
خاکسار نے متعدد کتب اور پمفلٹ مقامی زبانوں میں شائع کیے۔ لوگنڈی زبان میں قرآن کریم کا ترجمہ بھی شروع کیا جس کے ساتھ مختصر تفسیری نوٹس شامل کیے جارہے ہیں۔ یہ ترجمہ مکرم مولوی جلال الدین قمر صاحب اور ایک مقامی دوست کنرٹیو صاحب نے کیا۔ اسی طرح مکرم مولوی صاحب کی معیت میں مَیں نے چھ روز تک ایک ایسی کانفرنس میں شرکت کی جو حکومت نے مختلف الخیال لوگوں کے اتحاد و اتفاق کے لیے منعقد کی تھی۔ یہ کانفرنس کمپالہ میں انٹر نیشنل کانفرنس سنٹر میں منعقد ہوئی اور اس کی صدارت اٹارنی جنرل نے کی۔ دو سو سے زائد نمائندگان نے کانفرنس میں شرکت کی اور اپنے اپنے خیال کا اظہار کیا کہ مسلمانوں میں اتحاد کیونکر ہوسکتا ہے اور کن ذرائع کو اختیار کرنے سے ان کے مختلف کاموں میں یکجہتی پیدا کی جاسکتی ہے۔ مَیں نے آنحضرت ﷺ کے اس ارشاد سے اپنی تقریر کا آغاز کیا کہ مَنْ صَلَّ صَلٰوتَنَا وَ اسْتَقْبَلَ قِبْلَتَنَا فَذَلِکَ الْمُسْلِمُ الَٓذِی لَہُ ذِمَّۃُ اللّٰہِ وَ ذِمَّۃُ الرَّسُوْلِ اور حاضرین کو بتایا کہ آنحضرت ﷺ نے مسلمانوں کے اتحاد کے لیے یہ بات بنیاد کے طور پر بیان فرمائی ہےا ور جب تک ہم اسے پیشِ نظر نہ رکھیں گے اور اس کے مطابق اپنے قول اور فعل کو نہ ڈھالیں گے اتحاد کی تمام باتیں بے معنی ہوں گی۔ میری اس تقریر کو بفضلہٖ تعالیٰ بہت پسند کیا گیا اور ہال تالیوں سے گونج اُٹھا اور بعد والے مقرر نے کہا کہ جو کچھ میں نے کہنا تھا وہ مجھ سے پہلے مقرر نے چونکہ کہہ دیا ہے اس لیے اب میں لمبی تقریر نہیں کروں گا۔ بعدازاں مختلف تجاویز پر غور کرنے کے لیے جو کمیٹیاں بنائی گئیں ان میں سے ایک کی صدارت مجھے دی گئی۔
٭… مکرم صوفی صاحب کے بیٹے صوفی محمد ادریس محمود صاحب بیان کرتے ہیں کہ کینیا میں ایک مرتبہ ہم گھر والے سفر کررہے تھے۔ بارش ابھی ختم ہی ہوئی تھی۔ وہاں جب بارش ہوتی ہے تو ایک دم سے سیلاب کی سی کیفیت ہو جاتی ہے۔علاقہ بھی خطرناک قسم کا تھا کیونکہ وہاں جنگلی جانور وغیرہ بھی تھے۔ ایک جگہ پر جہاں پانی کھڑا ہوا تھاوہاں سے گاڑی گزری تو بند ہو گئی۔ ہم بچے پریشان ہو گئے تو صوفی صاحب نے تسلی دیتے ہوئے کہا کہ گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے ہم لوگ زندہ خدا پر یقین رکھنے والے ہیں، آؤ سب مل کر دعا کرتے ہیں۔ پھر آپ نے اجتماعی دعا کروائی۔ ابھی دو منٹ ہی گزرے ہوں گے تو ایک طرف سے دو سکھ بھائی آئے جو کار میکینک تھے۔ انہوں نے پنجابی میں حالات پوچھے تو آپ نے بتایا کہ پانی میں سے گزرنے پر گاڑی بند ہوگئی ہے۔ انہوں نے گاڑی کا بونٹ کھول کر کاربوریٹر وغیرہ صاف کیا اور پھر گاڑی سٹارٹ کی تو ہوگئی۔ پھر وہ دونوں ہمارے ساتھ کافی دُور تک آئے اور تسلّی کرکے پھر واپس جانے لگے تو آپ نے ان کا شکریہ ادا کیااور ان سے پوچھا کہ آپ کہا ں پر رہتے ہیں؟ انہوں نے ممباسہ میں ایک جگہ کا ایڈریس دیا۔ بعد میں جب ہم ممباسہ گئے تو آپ نے کہا کہ چلو اب ان کا شکریہ ادا کرنے ان کے گھر بھی جائیں۔ لیکن جب ہم اُن کا ایڈریس تلاش کرنے لگے تو معلوم ہوا کہ وہ کوئی ایڈریس تھا ہی نہیں اور اُس علاقے میں اُس نام کا کوئی بندہ بھی نہیں تھا۔ آپ کہتے تھے کہ یہ تو کوئی خدائی مدد ہی تھی۔
آپ نے سواحیلی زبان میں کئی مختلف تبلیغی رسالے بھی تحریر کیے۔ کئی سال بعد جلسہ سالانہ ربوہ پر نیروبی سے آنے والے ایک صاحب نے مجھے بتایا کہ صوفی صاحب کی وہ کتاب لے کر تو آج بھی ہم عیسائیوں سے مباحثے کرتے ہیںجس میں آپ نے بائبل کے حوالہ جات اکٹھے کرکے شائع کیے ہیں۔
ایک مرتبہ گاڑی پر نیروبی اور مچہ کوسٹ کے درمیان بیابان جنگل میں سے گزرتے ہوئے والد صاحب نے ہمیں بتایا کہ وہ جو سامنے درخت نظر آرہاہے وہاں ایک مرتبہ میں نے رات گزاری تھی۔ ہم سب بہت حیران ہوئے اور پوچھا کہ وہ کیوں۔ تو انہوں نے بتایا کہ ابھی تو ہم اس طرح گاڑی پر جا رہے ہیں لیکن اُس زمانے میں یہاں سڑک وغیرہ نہیں تھی اور جنگل تھا اور مَیں نے کئی میل چل کر فلاں گاؤں تک جانا تھا لیکن آگے شیروں کی موجودگی کا بھی خوف تھا۔ چنانچہ مَیں نے مناسب نہ سمجھا کہ رات کے وقت آگے جاؤں اور اس درخت پر چڑھ گیا۔ یہ پریشانی تو رہی کہ درخت پر کوئی نقصان دہ جانور نہ آجائے۔ خیر اسی طرح رات گزری اور علی الصبح جیسے ہی پَو پھٹی اور کچھ روشنی ہوئی تو پھر پیدل روانہ ہو گیا۔
مجھے یہ بتاتے ہوئے دکھ ہوتا ہے کہ ہم نے ابو کو صرف دیکھا ہی ہے پاس نہیں رہے۔ میں چھ مہینے کا تھا جب آپ افریقہ چلے گئے تھے۔ واپس آئے تو میری عمر ساڑھے تین سال تھی ۔ امی مجھے بتاتی تھیں کہ یہ تمہارے ابو ہیں تو مَیں کہتا تھا کہ نہیں ابو تو وہ ہیں جو دیوار پر لگی تصویر میں ہیں۔ پھر پاکستان میں آپ اکثر دفتر، مسجد یا دوروں پر ہوتے۔ زیادہ تر ملاقات مسجد میں ہی ہوا کرتی تھی اور وہاں بھی زیادہ تر یہی پوچھتے تھے کہ آج کیا پڑھائی کی ہے اور قرآن کریم کتنا پڑھا ہے اور حضورؒ کی تحریک پر سترہ آیات یاد کر کے مجھے سناؤ۔ بڑی فکر سے یہ آیات یاد کرواتے اور سنتے۔ مجھے بہت کم یہ موقع ملا کہ میں ابو کو دیکھ سکوں یا کھل کر بات کر سکوں اور اگر کبھی یہ شکایت کی بھی کہ ابو کچھ وقت ہمارے لیے بھی دیں تو وہ کہتے تھے کہ بیٹا میں کوئی آٹھ گھنٹے کا ملازم نہیں ہوں میں نے زندگی وقف کی ہوئی ہے۔
٭… مکرم صوفی صاحب کی اہلیہ تحریر کرتی ہیں کہ جب میری نئی نئی شادی ہوئی تو ان دنوں مبلغین کے گذارہ الاؤنس انتہائی قلیل ہو ا کرتے تھے۔ مگر یہ محض اللہ تعالیٰ کی عنایت اور اس کا فضل ہے کہ اس نے مجھے یہ ایام پورے صبر اور شکر کے ساتھ بسر کرنے کی توفیق دی اور میرا دھیان اور توکل ہمیشہ اللہ تعالیٰ پر ہی رہا۔ فالحمدللہ علیٰ ذٰلک۔ حضرت میاں بشیر احمد صاحب ؓ انتہائی شفقت سے مجھے پوچھا کرتے تھے کہ کتنا الاؤنس ملتا ہے اور کتنا ایندھن لیتی ہو، کتنا گھی لیتی ہو، کتنا دودھ لیتی ہو؟ ہر چیز بتانے پر پھر کہتے کہ گذارہ کیسے کرتی ہو؟جس پر میں نے اُن کو بتایا کہ میں روزانہ ڈائری لکھتی ہوں جو چیز منگواتی ہوں جب ٹوٹل کرتی ہوں تووہ زیادہ ہوتا ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کا خاص فضل ہے مجھے نہیں پتہ کہ یہ کیا معاملہ ہے تو اب میں نے حساب لکھنا چھوڑ دیا ہے۔ اس پر وہ بہت خوش ہوئے۔
ایک واقعہ تحدیث نعمت کے طورپر بیان کرتی ہوں۔رمضان المبارک کا مہینہ تھا۔ میری ایک بہن بھی میرے پاس تھی اور میرے سسر صاحب بھی اُن دنوں میرے پاس تھے سخت گرمی کے روزے تھے۔درس القرآن سے واپس آئی۔ روزہ رکھا ہوا تھا۔ مہینے کی غالبا ً26 یا 27 تاریخ تھی۔ میرے پاس دو پیسے نہ تھے کہ برف منگوا کر ٹھنڈے پانی سے روزہ افطار کرسکوں۔ اسی طرح قرآن مجید بھی ہاتھ میں تھا۔ برقعہ بھی پہنا ہوا تھا۔ اس قدر مجھ پر رقت طاری ہوئی اور خوب دل کھول کر اللہ تعالیٰ کے حضور گڑ گڑائی کہ میرے پیارے اللہ میاں جی! مَیں کس طرح روزہ افطار کروں؟ پھر مجھے سمجھ نہیں آئی کہ مجھے کیا ہوا اور میں نے پرانے بوسیدہ کپڑوں والا صندوق کھول کر کپڑوں کو اُلٹ پلٹ کر دیکھنا شروع کردیا۔ دوتین کپڑے اٹھائے تھے کہ ایک روپے کا نیا نوٹ مجھے مل گیا جس کو پکڑ کر پہلے تو مَیں نے اسی جگہ کچے فرش پر سجدہ شکر کیا۔ پھر برف منگوائی اور روزہ افطار کیا بلکہ مہینے کے باقی دن بھی ان پیسوں کے ساتھ گذرے۔
میری شادی کے بعد مکرم صوفی صاحب قریباً ساڑھے چار سال کے لیے افریقہ چلے گئے۔ یہ عرصۂ جدائی، دو ننھے بچوں کی پرورش، ساتھ سسرال کے حقوق و فرائض اور پھر اپنی کم عمری ناسمجھی کے باوجود میرے پیارے مولیٰ نے میرا ہاتھ پکڑے رکھا اور قدم قدم پر میرا ساتھ دیا۔ جب یہ واپس آئے تو خاکسار نے ان کو گھر میں آنے پر پھولوں کے ہار پہنائے اور پاس کھڑی تھی کہ انہوں نے اپنی والدہ سے پوچھا کہ مبشرہ کہاں ہے؟ سب حیران رہ گئے کہ صوفی صاحب اپنی والدہ سے پوچھ رہے ہیں اور ساتھ کھڑی بیوی کو پہچانا نہیں تھا۔
شادی سے پہلے میں اپنے بہن بھائیوں اور والدین سے کبھی ایک رات بھی جدا نہیں ہوئی تھی اور ماشاء اللہ میرے نو بہن بھائی تھے۔ سب سے بڑی مَیں ہی تھی۔ اسی طرح سسرال میں بھی گھر میں ماشاء اللہ کافی افراد تھے۔ وہ سب لاہور رہتے تھے۔ میرے میاں کو جب کوارٹر مل گیا تو مَیں ربوہ آگئی۔بہر حال میں بہت ڈرتی ہوتی تھی۔ رات ساری جاگتے گذرتی۔ دوسا ل کے بعد ایک عشاء کی نماز کے بعد مَیں نے رو کر اپنے پیارے اللہ تعالیٰ سے کہا کہ میں تو میٹھی نیند بھی نہیں سوئی۔ میرے اللہ تعالیٰ کا پیا ر دیکھیں کہ جب مَیں چارپائی پر لیٹی تو مجھے یو ں لگا کہ جیسے مَیں اپنے بچے کو گود میں سلاتی تھی اسی طرح میرے پیارے اللہ تعالیٰ نے مجھے اپنی گود میں سلالیا۔ وہ اتنی میٹھی نیند تھی کہ میں بیان نہیں کرسکتی۔ اس طرح کی نیند بس کبھی کبھی آتی ہے۔پھر میں نےخواب میں حضرت رسول کریم ﷺ کو دعا کے لیے کہا کہ میرے لیے دعا کریں کہ میں اپنے میاں کے ساتھ چلی جاؤں۔ اسی طرح خواب میں حضرت مسیح موعود ؑکے پاس گئی، ان کو دعا کے لیے کہا کہ جہاں صوفی صاحب ہیں مَیں ان کے پاس چلی جاؤں۔پھر جب میرے اللہ نے بہتر سمجھا اور یہ واپس آئے تو اللہ تعالیٰ نے مجھے بیٹا دیا۔ دوبارہ تبلیغی دورہ پر مشرقی افریقہ، کینیا گئے۔ ان کے جانے کے چھ مہینے بعد اللہ تعالیٰ نے مجھے چوتھا بچہ اور تیسرا بیٹا دیا جس کی پیدائش کے ایک ہفتہ بعد مجھے وائٹ لیک جو سنا ہے خطر ناک تکلیف ہوتی ہے وہ ہو گئی۔ تین ہفتے فضل عمر ہسپتال میں داخل رہی۔ معجزانہ طور پر اللہ تعالیٰ نے شفا دی۔ پورے تین ہفتے کے بعد ہسپتال سے گھر آئی۔ ان دنوں نہ ہسپتال میں کوئی لیڈی ڈاکٹر تھی نہ کوئی اتنی سہولیات تھیں۔ اب وہ میرا بچہ ماشاءاللہ 30 سال کا ہونے ولا ہے لیکن میری ٹانگ پر اس بیماری کا اثر اب بھی ہے۔
اس زندگی میں بہت کٹھن مرحلے اور دشوار گذار گھڑیاں بھی آئیں۔ اگر تو دنیا کی نظر سے دیکھوں تو ایک لمحہ کاٹنا بھی مشکل ہوتا تھا لیکن اپنے خدا کا پیار جو چھپا ہوتا ہے اس کے آگے یہ دنیا کی چمک دمک سب ہیچ و بےکارلگتی ہے۔ اس میں مزہ تھا بلکہ اب بھی ہے جس میں میرے پیارے اللہ تعالیٰ کی پیار ی نظر مجھ پر اٹھتی ہے۔
٭…خاکسار (مضمون نگار) عرض کرتا ہے کہ والد صاحب تہجد اور نمازوں کی خود بھی بہت پابندی کیا کرتے تھے اور ہمیں بھی فجر کی نماز کے لیے جگایا کرتے۔ کبھی سستی ہوتی تو اکثر پانی کے چھینٹے ڈال کر جگایا کرتے۔ آپ کافی کے بہت شوقین تھے ، جب انہوں نے دیکھا کہ مجھے بھی کافی پسند ہے تو تہجد پڑھ کر دو کپ کافی کے بناتے اور مجھے جگا کر پہلے کافی پلاتے۔ جو مَیں خوشی سے اٹھ کر پی لیتا۔ پھر کہتے کہ اب اٹھ گئے ہو تو آؤ فجر کی نماز مسجد میں پڑھ آئیں۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں