محترم میاں مبشر احمد شہید اور اُن کا خاندان

(مطبوعہ رسالہ انصارالدین جولائی و اگست 2023ء)

( میاں قمر احمد۔ مبلغ انچارج بینن)

مئی 2010ء کے سانحہ لاہور کو کئی سال گزر چکے ہیں جب ہماری دو مساجد کو نہایت ہی ظالمانہ انداز میں مذہبی دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا اور 80سے زائد معصوم انسانوں کو شہید کردیا گیا۔ ان شہداء میں میرے والد محترم میاں مبشراحمد صاحب بھی شامل تھے ۔ شہید مرحوم کے خاندان کا مختصر تعارف اور شہید مرحوم کی سیرت کے حوالے سے چند یادیں بغرض دعا ہدیۂ قارئین ہیں ۔

میاں مبشر احمد شہید

ہمارا تعلق کھاریاں ضلع گجرات کے ایک کشمیری گھرانے سے ہے جو کشمیر میں سکھوں کے مسلمانوں پرمظالم سے تنگ آکر بارہ مولہ کشمیر سے ہجرت کرکے ضلع گجرات کے دو گاؤں لوسراں اور چکمال میں آکر آباد ہوئے۔
ہمارے خاندان میں احمدیت کا نفوزحضرت میاں نورالدین صاحب ؓ صحابی حضرت مسیح موعود ؑ سے ہوا۔ یہ پاک سیرت بزرگ رشتہ میں میرے دادا محترم میاں برکت علی صاحب مرحوم اور میرے نانا محترم میاں اکبر علی صاحب مرحوم کے سگے ماموں تھے ۔حضرت میاں نورالدین صاحب ؓ بچپن سے ہی نیک شہرت کے مالک تھے، ہر وقت دینی مجالس اور کتب کی تلاش میں رہتے۔ اس شوق کو دیکھتے ہوئے آپ کے والد محترم نے آپ کو اپنے علاقے سے باہر جاکر حصول علم کی اجازت دے دی اور پولیو کی وجہ سے معذور ہونے کے باوجود آپ نے سینکڑوں کلومیٹر کا پیدل سفر کیا اور گجرات، وزیرآباد اور لاہور کے دینی مدارس میں حدیث اور فقہ کا علم حاصل کرتے رہے۔ لاہور میں قیام کے دوران آپ کو ایک کپڑے کی دکان پر ملازمت مل گئی جہاں آپ فرصت کے لمحات میں دینی کتب کا مطالعہ کرتے رہتے ۔

حضرت میاں نورالدین صاحبؓ

یہ وہ وقت تھا جب حضرت مسیح موعود ؑ کی معرکہ آراء تصنیف ’’براہین احمدیہ‘‘ کی شہرت کے چرچے چار سُو تھے، آپ نے یہ کتاب کسی سے مستعار لی اور اس کا بغور مطالعہ کیا۔ چنانچہ 1894ء میں جب خدا تعالیٰ نے کسوف و خسوف کا نشان دکھلایا تو آپ کو شرح صدر ہوگیا اور فورًاحضرت مسیح موعودؑ کی زیارت کے لیے لاہور سے قادیان چلے گئے۔ آپ خود بتایا کرتے تھے کہ میرے ساتھ بہت سے لوگوں نے قادیان کا سفر اختیار کیا مگر مَیں معزور ہونے کے باعث ان سے پیچھے رہ گیا اور جلد قادیان نہ پہنچ سکا۔ بہرحال آپؓ نے حضرت مسیح موعودؑ کے پاک وجود کی زیارت کرتے ہی بیعت کرلی۔
کچھ عرصہ قادیان میں قیام کرنے کے بعد آپؓ اپنے وطن کھاریاں پہنچے اور اپنے قبولِ احمدیت کا اعلان کردیا۔ اس پر اپنے پرائے سب آپؓ کے شدید مخالف ہوگئے۔ مگر آپؓ نے حکمت کے ساتھ تبلیغ جاری رکھی جس کے نتیجے میں جلد ہی ان کے بھائی، بھتیجے ، بھانجے اور خاندان کے چند دیگر افراد نے قبولِ احمدیت کا شرف حاصل کیا ۔
آپؓ بتایا کرتے تھے کہ 31؍مارچ 1907ء کو خدائی تصرف کے ماتحت حضرت مسیح موعود ؑ کی تائید میں جو ہولناک اور تعجب انگیزگولہ آسمانی کا نشان ظاہر ہوا تھا تو آپؓ نے اس نشان کو اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا چنانچہ تتمہ حقیقۃالوحی کے صفحہ 93پر آپؓ کا نام 17ویں گواہ کے طور پر درج ہے۔ اور آپ ؓکے خط کا خلاصہ بھی حضرت مسیح موعود ؑ نے درج فرمایا ہے جو یوں ہے:
’’مبارک ہو 31؍مارچ والی پیشگوئی ہولناک شعلۂ آگ سے کھلے طور پر ظہور میں آگئی۔‘‘
حضرت میاں نورالدین صاحبؓ نہایت ہی سادہ منش تھے۔ ہر وقت خدا اور اس کے رسول کی باتوں میں مشغول رہتے ۔ ایک لمبی عمرکے بعد وفات پائی۔ میرے دادا محترم میاں برکت علی صاحب مرحوم سوداگران چرم فروش، جو رشتہ میں آپ ؓ کے بھانجے تھے وہ کئی سال تک آپؓ کی تبلیغ سے مستفید ہوتے رہے تھے اور آخر 1928ء میں انہوں نے قادیان جا کر حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے دست مبارک پر بیعت کرنے کی توفیق پائی۔ چونکہ اپنے والد کی وفات کے بعد وہی اپنے گھر کے سربراہ بھی تھے اس لیے اُن کی بیعت کے بعد اُن کی زیرکفالت چھوٹے بہن بھائیوں نے بھی بیعت کرلی۔
محترم میاں برکت علی صاحب نے احمدیت قبول کرنے کے کچھ عرصے کے بعد کاروبار کے سلسلے میں کھاریاں سے وزیرآباد جاکر سکونت اختیار کرلی۔بیعت کے بعد ایک پاک تبدیلی کے نتیجے میں وہاں کے کاروباری حلقے میں بھی آپ کی شرافت اور ایمانداری کی بہت شہرت تھی اور سب لوگ آپ کو میاں جی کے نام سے پکارتے تھے۔ آپ کے زہد اور تقویٰ کا یہ عالم تھا کہ جوانی سے ہی کبھی تہجد نہ چھوڑی تھی۔ آپ وزیرآباد جماعت میں مختلف شعبوں میں اور ذیلی تنظیمی خدمات پر بھی فائز رہے۔نہایت ہی مہمان نواز انسان تھے ،تا دم آخر ہر جماعتی مہمان کو اپنے گھر سے کھانا کھلاتے رہے۔ نہایت ہی ایماندار،ذہین اور متوکّل انسان تھے ۔ کاروبار کی سوج بوجھ اتنی زیادہ تھی کے علاقے بھر کے لوگ آپ سے مشورہ لینے آیا کرتے تھے ۔ مخالف ہونے کے باوجودشہر کے غیر احمدی معززین اپنے جھگڑوں کے فیصلے بھی آپ سے کروایا کرتے تھے۔
آپ چاولوں کا کاروبار کرتے تھے یعنی رائیس ڈیلر تھے۔ اس کے ساتھ پاکستان برما شیلPBS کے بھی ڈیلر تھے۔ 1974ء کے فسادات میں مخالفین نے تیل سے بھرے پیٹرول کے ٹینکوں میں موجود ہزاروں لیٹر پیٹرول کو آگ لگادی اور گودام سے بھی چاولوں کی ہزاروں بوریاں چرا کر اُن کو نذرآتش کردیا۔ جب آپ کو اس کی اطلاع ملی تو صرف انا للہ و انا الیہ راجعون کے الفاظ کہے اور باقی سب کو بھی صبر کی تلقین کرتے رہے ۔

میاں برکت علی صاحب اپنے چھوٹے بھائی کے ہمراہ

ایمانداری کی وجہ سے آپ کا شمار وزیرآباد کے بڑے تاجروں میں ہوتا تھا۔ آپ کی عادت تھی کہ صبح سویرے شہر سے باہر واقع پٹرول پمپ پر چلے جاتے، ظہر کی نماز وہاں ادا کرکے عصرسے پہلے گھر آجاتے اور نماز عصر مسجد میں ادا کرتے۔ ایک دن آپ نمازِعصر تک تشریف نہ لائے توگھر میں سخت پر یشانی ہوئی۔ جب رات کو تاخیر سے گھر پہنچے توبتایا کہ آج ایک گاہک سے بقایا رقم کی واپسی میں مجھے کچھ غلطی لگی تھی اس لیے مَیں پیسے دینے اس کے گاؤں چلا گیا تھا۔ جب چند سال بعد آپ کی وفات ہوئی توافسوس پر آئے ہوئے ایک صاحب نے اسی واقعہ کے حوالہ سے آپ کا ذکر خیر کرتے ہوئے بتا یا کہ ایک روز عصر کے وقت میاں جی اچانک میرے گھر آئے تومَیں سخت پریشان ہوا کہ ابھی ابھی ڈیزل لے کر آیا ہوں شاید مَیں نے پیسوں کی ادائیگی ٹھیک نہیں کی ۔میں نے پوچھا میاں جی آپ نے یہ کیا تکلیف کی کہ اتنی دُورمیرے گھر آئے ہیں۔وہ مسکراکر کہنے لگے کہ آج جب تم ڈیزل لینے آئے تھے تو رقم کے بقایا پیسے جو میں نے واپس کیے تھے اُس میں کچھ رقم کا فرق تھا جو میں نے غلطی سے کم دیے اور جب میں نے اپنا حساب چیک کیا تو یہ فرق نکلا تو مَیں نے سوچا کہ میرے اور تیرے درمیان اس لین دین کا اللہ تعالیٰ ہی گواہ ہے ۔ اگر مجھے آج رات موت آگئی تو میں خدا کو کیا جواب دوں گا۔ اس لیے گھر جانے سے پہلے ہی یہ حساب بےباک کرنے آیا ہوں۔ یہ سن کر میری آنکھوں میں آنسو آگئے اورمیں نے کہاکہ میاں جی! آپ کے میرے پر اتنے احسان ہیں کہ ایک باپ اپنے بیٹے پر نہیں کرسکتا،اس رقم کی کیا وقعت ہے۔ آپ نے کہا: الحمدللہ اب مَیں مطمئن ہوں کہ میری ذات پر کسی کا قرض نہیں۔ پھر آپ میرےاصرار کے باوجود بغیر کچھ کھائے پیئے واپس چل دیے۔
محترم میاں جی نے اپنے ملازمین کے بچوں تک کا خیال رکھا اور اُن کو کاروبار ڈال کر دیے۔ یتیموں ،مسکینوں اوربیوگان کی مدد کرتے تھے ۔ آپ کا شمار ضلع گوجرانوالہ کے اوّلین موصیان میں ہوتا ہے۔ تحریک جدید اور وقف جدید کے ابتدائی مجاہدین میں شامل تھے۔ آپ کے بچوں نے اس فہرست میں آپ کے نام کو آج بھی زندہ رکھا ہوا ہے۔
آپ کی وفات پر آپ کا جسد خاکی بہشتی مقبرہ ربوہ میں تدفین کے لیے لے جایا گیا توتدفین سے قبل حضرت مرزا طاہر احمدؒ جو اُس وقت ناظم وقف جدید تھے انہوں نے مرحوم کا چہرہ دیکھ کر فرمایا کہ یقیناً یہ چہرہ ایک ولی اللہ انسان کا چہرہ ہے۔ آپ نے پسماندگان میں نو بیٹے اور دو بیٹیاں چھوڑی ہیں جو اللہ تعالیٰ کے فضل سے سب کے سب فدائی احمدی ہیں ۔
خاکسار کے والد صاحب میاں مبشراحمد شہید اپنے بھائیوں میں سب سے بڑے تھے ۔ آپ یکم دسمبر 1944کو کھاریاں شہر میں پیدا ہوئے۔ تین سال کی عمر تھی کہ والدہ فاطمہ بیگم صاحبہ ٹی بی کے مرض سے وفات پاگئیں۔چنانچہ آپ کی پرورش آپ کی خالہ نے کی۔ بعدازاں خالہ کی بیٹی محترمہ نسیم مبشرصاحبہ (حال مقیم کینیڈا) سے آپ کی شادی ہوئی۔انہیں دسمبر 1988ء سے اپریل 2008ء تک بطور صدر لجنہ ضلع گوجرانوالہ اور پھر 6سال تک ضلع لاہور میں نائب سیکرٹری اشاعت اور البشریٰ لائبریری کے نگران کے طور پر خدمت کی توفیق ملی۔
محترم میاں مبشر احمد صاحب بچپن سے ہی نہایت شریف، نمازوں کے پابند اور نہایت ہی خوش مزاج انسان تھے ۔غصہ بہت کم آتا تھا۔ ہر وقت چہرے پر مسکراہٹ رہتی تھی۔ ایک دن آپ نے مجھے بتایاکہ سات سال کی عمر سے آج تک مَیں نے کوئی نماز نہیں چھوڑی۔ اس کی وجہ یہ بتایا کرتے تھے کہ جب ہم چھوٹے تھے تو ہمارے چچا محترم میاں اکبر علی صاحب مرحوم (جو خاکسار کے نانا ہیں) سب بچوں کو نماز کا سبق دیتے تھے اور روزانہ رات کو سب بچوں سے پوچھا کرتے تھے کہ کس نے آج نماز نہیں پڑھی اورنہ پڑھنے پر سرزنش بھی ہوتی تھی۔ بس پھر ایسی عادت پڑی کہ ممکن نہیں کہ نمازچھوٹ جائے ۔
زمانہ طالبعلمی میں ایک دفعہ کالج کے لڑکوں نے یہ پروگرام بنایا کہ سینما میں فلم دیکھیں اور آپ سے بھی بہت اصرار کیا اور دھوکہ دیتے ہوئے کہا کہ وہاں خانہ کعبہ اور حج پر ایک فلم دکھائی جارہی ہے۔ چنانچہ آپ اس شرط پر راضی ہوگئے کہ اگر کوئی دوسری فلم ہوئی تو میں قطعاً آپ کے ساتھ نہیں جاؤں گا۔ جب تانگے پہ سینما گھر پہنچے تو کسی اَور فلم کا بورڈ لگا ہوا تھا۔ سب دوستوں نے کہا کہ یار کیا ہرج ہے چلو ہمارے ساتھ دس منٹ ہی بیٹھ جاؤ۔ آپ نے کہا کہ تم کو پتہ ہے کہ میں احمدی ہوں اور احمدی سینما میں فلم نہیں دیکھتے، بیٹھنا تو درکنار میں تانگے سے نہیں اُتروں گا ،اس پر سب دوستوں نے کہا کہ اگر مبشر نہیں جائے گا تو ہم بھی نہیں جائیں گے،پر شرط یہ ہے کہ تم ہم سب کو پارٹی کھلاؤ۔ آپ نے یہ شرط منظور کرلی لیکن فلم دیکھنا منظورنہیں کیا۔
شہید مرحوم کی بارعب شخصیت اور ہر وقت مسکراتا چہرہ ہلکی ہلکی داڑھی میں اَور بھی خوبصورت لگتا تھا۔ ایک دفعہ پوچھنے پر بتایا کہ جب مَیں نے نیانیا کاروبار شروع کیاتو ہماری جماعت وزیر آباد میں ایک انسپکٹر صاحب چندہ جات کی وصولی کے سلسلے میں تشریف لائے۔ انہوں نے مجھ سے دو وعدے لیے ایک داڑھی رکھنی ہے اور دوسرا نظام وصیت میں شامل ہونا ہے۔
آپ کے سات بھائی اوردو بہنیں اگرچہ دوسری والدہ میں سے تھے لیکن آپ کو اپنے ان بہن بھائیوں سے بے پناہ محبت تھی اور آپ نے ان سب کی تعلیم و تربیت، رشتوں اور اُن کے روزگار کے لیے اپنےبچوں کی طرح کوشش کی۔
آپ ہر جماعتی عہدیدار،مربیان معلمین، مرکزی نمائندگان، انسپکٹران سب سے بہت محبت کرتے اور نہایت احترام سے پیش آتے تھے۔بتایا کرتے کہ ایک زمانے میں رمضان المبارک کے ایام میں حضرت مولوی محمد حسین صاحبؓ سبز پگڑی والے وہاں کی مسجد میں تشریف لایا کرتے تھے اور تب جوان لوگ رات گئے تک اُن کی مجلس میں بیٹھتے اور دینی لطائف سے لطف اندوز ہوتے۔ آپ کو دینی مجالس کا اتنا شوق تھا کہ کاروباری مصروفیات کے باوجود ہ علماء و مربیان کی تقاریر ضرور سنتے اورجلسہ جات و اجتماعات میں شرکت کرتے۔

حضرت مولوی محمد حسین صاحب

مکرم شیخ نعیم احمد صاحب مرحوم مربی سلسلہ (سیکریٹری رشتہ ناطہ صدرانجمن احمدیہ ربوہ) بھی شہید مرحوم کے پرانے دوستوں میں سے تھے۔ ایک بار مجھے ربوہ میں ملے تو کہنے لگے کہ اپنے والد صاحب کو میرا سلام دینا، انہوں نے ایک بہت بڑا مسئلہ ہمارا حل کردیا ہے۔ پھر دعائیں دینے لگے۔
میں نے ابو جان کو اُن کا پیغام دیا اور مسئلے کے بارے میں پوچھا تو وہ کہنے لگے کہ گجرات شہر کی ایک احمدی لڑکی نے کچھ مسائل کی وجہ سے خلع کی درخواست دی لیکن لڑکا علیحدگی پر رضامند نہیں تھا بلکہ دھمکی دیتا تھا کہ مَیں ان کو عدالت میں گھسیٹوں گا۔ جب یہ رپورٹ مرکز میں پہنچی تو حضرت صاحبزادہ مرزا مسرور احمد صاحب ناظراعلیٰ نے حکم دیا کہ یہ معاملہ ہر صورت میں جماعت میں ختم ہونا چاہیے۔ اس پر مکرم شیخ نعیم احمد صاحب نے مجھے بہت پریشانی کے عالم میں فون کیا کہ فریق ثانی جماعت کی بات سننے پر تیار نہیں آپ اس سلسلے میں میری مدد کریں ۔ چنانچہ مَیں نے اپنے ماموں میاں غلام احمد صاحب سابق امیر ضلع گوجرانوالہ کو ساتھ لیااور اُن خاندانوں کے پاس چلے گئے۔ دونوں فیملیوں سے ہمارے ذاتی تعلقات بھی بہت اچھے تھے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے تین ملاقاتوں میں یہ مسئلہ جو مصیبت بنا ہوا تھا جماعت میں ہی خوش اسلوبی سے حل ہوگیا۔ بعد میں جب مَیں دفتر رشتہ ناطہ کسی کام سے گیا تو شیخ صاحب نے میر ا بہت شکریہ ادا کیا اور کہا میری خواہش ہے کہ میں آپ کی ملاقات ناظر اعلیٰ صاحب سے کرواؤں تاکہ آپ کا بھی ان کو ذاتی تعارف ہوجائےکہ آپ نے یہ مسئلہ کو حل کرنے میں میری مدد کی ہے۔ اس پر مَیں نے اُن سے کہا کہ جماعت نے میرے ذمہ ایک کا م کیا تھا جو مَیں نے اللہ تعالیٰ کی خاطر کردیا۔ پھر آپ نے خاکسار کو نصیحت کی کہ

خدمت ِدین کو اک فضلِ الٰہی جانو
اس کے بدلے میں کبھی طالبِ انعام نہ ہو

میری ایک چھوٹی ہمشیرہ ھبۃالودوداپنی معذوری اور شدید بیماری کے باعث بارہ سال کی عمر میں فوت ہوگئی تھی۔ اس کی زندگی میں میری والدہ لجنہ کی ضلعی صدر ہونے کے ناطے لجنہ کے کاموں میں اکثر جماعتی دورہ جات پر جاتیں تو عزیزہ ھبۃالودود کو گھر پر بہن بھائیوں کی نگرانی میں چھوڑجاتیں۔کبھی سفر میں دیر سویر بھی ہوجاتی لیکن ابوجان نے کبھی بھی ناراضگی کا اظہار نہ کیا بلکہ امی جان کا حوصلہ بڑھایا کرتے تھے اورلجنہ کی رپورٹس اور خطوط وغیرہ مرکز میں بھجوانے نیز چندہ جات کو بینک میں جمع کروانے میں بھی ہرممکن مدد کرتے تھے ۔
شہید مرحوم کو ایک لمبا عرصہ بطور قائد مجلس خدام الاحمدیہ، امیر جماعت احمدیہ وزیرآباد اور دیگر عہدوں پر خدمت کی توفیق ملتی رہی۔ فعال رکن ہونے کی وجہ سے وزیرآباد جماعت کی اکثر انتظامی ذمہ داریاں آپ کو سونپی جاتی تھیں۔ جب ہماری جماعت وزیر آباد شہر کے ایک معمّر نہایت ہی مخلص احمدی مکرم حکیم شمیم صاحب مرحوم جو ہومیو پیتھ ڈاکٹر بھی تھے اور پارٹیشن کے وقت اترپردیش انڈیا سے ہجرت کرکے پاکستان آئے اور وزیرآباد میں آباد ہوگئے۔ ان کی کوئی اولاد نہ تھی اور انہوں نے شہید مرحوم کو اپنا بیٹا بنایا ہوا تھا۔ موصی تھے۔ جب 80سال سے زیادہ عمر میں ان کی وفات ہوئی تو جماعت کی طرف سے شہید مرحوم کو ذمہ داری دی گئی کہ اُن کے جسد خاکی کو ربوہ لے جاکر تدفین کا انتظام کریں۔ یہ واقعہ مجھے کبھی بھی نہیں بھولے گا کیونکہ اُس دن میر ی چھوٹی ہمشیرہ بھی شدید تکلیف میں تھی اور زندگی کے آخری سانس لے رہی تھی۔ میری والدہ نے آپ سے کہا کہ آپ جانتے ہیں کہ آپ کی بیٹی آخری سانسوں میں ہے آپ مجھے اس طرح کیوں چھوڑ کر جارہے ہیں۔ آپ نے کہا کہ جماعت کا کام میرے لیے مقدّم ہے۔ چنانچہ بعد از نماز فجر آپ وزیرآباد سے ربوہ روانہ ہوگئے۔ راستے میں ہی آپ کو بیٹی کی وفات کی اطلاع مل گئی۔ ان دنوں خاکسارجامعہ احمدیہ میں زیر تعلیم تھا اور شاہد کے فائنل امتحان دے رہاتھا۔ غالباً یہ جمعہ کا دن تھا۔ آپ دوپہر بارہ بجے کے قریب مجھے طاہر ہوسٹل(موجودہ حافظ کلاس) میں ملنے آئے۔ مَیں نے بہن کے بارے میں پوچھا تو کہنے لگے کہ ’’بیٹے تمہیں تو اس کی حالت کا پتہ ہے، بس دعا کرو۔‘‘ مجھے کچھ شک تو ہوا مگر آپ نے بات بدل لی اور جامعہ کے امتحانات کے بارے میں پوچھنے لگے۔ پھریہ کہتے ہوئے رخصت ہوگئے کہ جمعہ کے بعد ہم بہشتی مقبرہ میں حکیم صاحب کے جنازے کے لیے اکٹھے ہوں گے ۔
جمعہ کے بعد حکیم صاحب مرحوم کی تدفین ہوئی۔ پھر دعا کے بعد جب ابو رخصت ہونے لگے تو بہشتی مقبرہ کے گیٹ پرگاڑی میں بیٹھنے سے پہلے مجھے گلے لگاتے ہوئے کہا کہ مجھے بہت جلدی ہے، میں نے وزیرآباد جلد جانا ہے۔ پھر غمزدہ آواز میں کہنے لگے کہ تمہاری بہن ھبہ فوت ہوگئی ہے۔ اِنَّا لِلہ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ بیٹے جی! مِیں نہیں چاہتا کہ آپ کے امتحانات میں کسی قسم کی کوئی کمی آئے۔ جو اللہ تعالیٰ کی مرضی تھی ہمیں اس پر راضی رہنا چاہیے۔ مَیں تمہیں پرنسپل صاحب کی اجازت کے بغیر نہیں لے جاسکتا، صبر کرو اور اپنی ماں کوفون کر کے دلاسہ دے دینا اور امتحانات سے فارغ ہوکرہی واپس آنا ۔ پھر کامیابی کے لیے دعائیں دیں جو اس طرح پوری ہوئیں کہ کلاس میں میری دوسری پوزیشن آئی۔
ابو جان عید الاضحی کے دن گھر میں گوشت رکھنے کے عادی نہیں تھے اور آنحضور ﷺ کی حدیث کا حوالہ دیتے تھے۔ چنانچہ جب سے ہم نے ہوش سنبھالی ہے قربانی کے دن ایک لمبی فہرست بیواؤں ،غریبوں ،محلہ داروں کی ہوتی تھی جن کو ہم گوشت دے کر آتے تھے۔ گوجرانوالہ کینٹ میں منتقل ہونے کے بعد ان فوجیوں کو بھی گوشت بھجواتے تھے جو کہ عید کے دن اپنے گھر نہ جاسکتے۔
جانوروں پر بھی بہت رحم کھاتے۔ ایک دفعہ گرمیوں کے موسم میں آدھی رات کو بیرونی دروازے پر آہٹ ہوئی۔ بار بار پوچھنے پر بھی کوئی جواب نہ ملا تو آپ نے اوپر سے دیکھا۔ ایک کتا وہاں کھڑا تھا جو بھوکا معلوم ہوتا تھا۔ آپ نے اپنی اہلیہ کو اُٹھایا کہ ہمارے دروازے پر اللہ تعالیٰ نے ایک بھوکا مہمان بھیجا ہے اُسے ایک روٹی پکادو۔ چنانچہ والدہ صاحبہ نے اس کے لیے اُسی وقت روٹی پکائی جسے کھاکر وہ کتا چلا گیا۔
گھر میں جب بھی کوئی اچھی چیز پکتی تو آپ ہمسایوں کے لیے بھجواتے اور بعض اوقات اگر ہم سستی کرتے تو آنحضور ﷺ کی حدیث کا حوالہ دے کر ہمیں اس کی اہمیت بتاتے۔ جن دنوں ہمارے مالی حالات اچھے نہ تھے۔ ہماری امی نے پیسے جوڑ کر ایک گرائنڈر خریدا۔ (اس وقت یہ مہنگی چیز تھی)۔ ہماری ایک سادہ سی ہمسائی نے ایک روز وہ گرائنڈر کچھ پیسنے کے لیے منگوایا لیکن استعمال کرتے ہوئے اُس کی موٹر جل گئی۔ آپ کو علم ہوا تو آپ نے کہا کہ اللہ ہمیں اَور دے دے گا لیکن کسی نے اشارۃً بھی اُن کو کچھ نہیں کہنا۔
جب ہم چھوٹے تھے تو ہر دوسرے تیسرے دن ہمارے گھر ایک بوڑھا اور بہت کمزور شخص کہیں دُور سے آیا کرتا تھا۔ وہ جب بھی آتا ہمیشہ اُس کو کھانا کھلایا جاتا اور ابو اُس کو ہر دفعہ سوڈا واٹر خریدنے کے لیے کچھ پیسے بھی دیتے تھے۔ غالباً سوڈاواٹر کا شوقین تھا یا معدے کی بیماری کی وجہ سے اس کو سوڈاواٹر لے کر دیتے تھے۔ ہمیں بتایا گیا تھا کہ وہ کسی زمانے میں ہمارے دادا کے پاس ملازم تھا۔
ابو اپنے ایک ملازم سے بھائیوں کی طرح سلوک کرتے تھے اور ہم بھی اُنہیں چچا ہی کہتے۔ ابو کہتے تھے کہ دادا جی نے اس کو اپنا بیٹا بنایا ہوا تھا۔ اُس چچا کی وفات کے بعد بھی ابو نے اُس کی بچیوں کی شادی کے لیے جہیز کی تیاری میں بہت مدد کی اور ہر موقع پر ان کا خیال رکھا۔
ستمبر 1988ء میں وزیرآباد میں شدید سیلاب آیا جس کی وجہ سے بہت سی نواحی بستیاں ڈوب گئیں اور بےشمار گھر تباہ ہوئے۔ ایک قریبی بستی میں مسیحی رہتے تھے۔ ایک رات دو بجے اُن کی بستی میں سیلابی ریلا پہنچا تو انہوں نے ہمارا دروازہ کھٹکھٹایا اور کہا کہ کسی دوسرے مسلمان نے ہمیں اپنے گھر میں جگہ نہیں دینی آپ ہی مہربانی کرو۔ چنانچہ ہم نے اپنے گھر کے زیرتعمیر حصے کے چھ کمرے اُن کو دے دیے کہ جتنے افراد یہاں ٹھہر سکتے ہیں ٹھہر جائیں۔ چنانچہ چند فیملیاں اپنا سامان لے کر آگئیں۔ یہ لوگ ہمارے ہاں ایک ہفتہ رہے اور بجلی پانی استعمال کرتے اور کبھی T.vپر سیلاب کی خبریں سننے آجاتے۔ بعد میں بھی جب کبھی سیلاب آتا تو یہ لوگ ہمارے مہمان بن جاتے اور بہت دعائیں دیتے۔ انہوں نے اپنے چرچ میں ابوجان کے لیے خصوصی دعا بھی کروائی۔
ابوجان اپنے ملازمین سے بہت بے تکلف تھے۔ کئی ملازم اخبار پڑھنے یا آرام کرنے آپ کے دفتر میں آجاتے۔ بعض قریبی دکاندار بھی آجاتے۔ ایسے ہی آنے والے ایک صاحب نے ایک بار کچھ کیش اٹھالیا۔ لیکن شک پڑنے پر خداتعالیٰ کی قسم کھالی۔ سب ملازمین اصرار کررہے تھے کہ یہی چور ہے اور یہ معاملہ پولیس میں دے دیں۔ لیکن آپ کہنے لگے کہ چونکہ اس نے خدا کی قسم کھالی ہے اب مجھے کوئی اختیار نہیں ۔ اب یہ معاملہ خدا پر چھوڑدیا ہے۔سب پتہ لگ جانے کے باوجود بھی آپ نے کبھی اس شخص سے بعد میں بھی بدسلوکی نہ کی۔
ابو جان کے ایک بہت غریب ملازم کی دعوت ولیمہ میں ہم شامل ہوئے۔ دعا کے بعد ابوجان نے اُن کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے کہا کہ ماشاءاللہ آپ نے بہت اچھا انتظام کیا ہے۔ وہ نہایت عاجزی سے کہنے لگے کہ مَیں نے کیا انتظام کرنا تھا یہ تو آپ نے ہی سارا انتظام کیا ہے۔ اس پر ابو جان نے ان کو اشارے سے کہا کہ ایسی باتیں نہیں کرتے ۔ بعد میں مجھے یہ علم ہوا کہ ابوجان نے ہی سارے اخراجات برداشت کیے تھے۔
میری والدہ صاحبہ نے بتایا کہ ضلع گجرات کے ایک دُور دراز گاؤں پکھو ال کے نواحی علاقے میں ایک احمدی فیملی میں لڑائی کی وجہ سے طلاق تک نوبت پہنچ چکی تھی۔ یہ گاؤں اتنا دُور تھا کہ کافی فاصلہ پیدل چل کر وہاں تک پہنچنا پڑتا تھا۔ ابوجان اُن کی آپس میں صلح کروانے کے لیے کئی بار اُس گاؤں میں گئے اور آخر خداتعالیٰ کے فضل سے صلح ہوگئی۔
شہید مرحوم بہت ایماندار تھے۔ 1974ء کے فسادات کے بعد جب آپ نے نئے سرے سے کاروبار شروع کیاتو اکثروپیشتر کچھ لوگ آکر آپ کو جعلی بوتلیں اصلی بوتلوں میں مِکس کرکے دوگنا نفع حاصل کرنے کی آفر دیا کرتے تھے۔ آپ اُن سے مسکراکر کہا کرتے کہ آپ غلط جگہ آگئے ہیں، میرا تعلق جماعت احمدیہ سے ہے اور کاروباری بددیانتی میرے لیے حرام ہے۔
آپ غیبت کو بالکل پسند نہ کرتے تھے۔ گھر میں اگر کسی کی غیبت ہوتی تو یہ کہہ کر گفتگو ختم کردیتے کہ ہم غیبت کر رہے ہیں اور اللہ تعالیٰ تو غیبت کو قطعاً پسند نہیں کرتا ہمیں یہ بات کرنے کی بجائے ان کے لیے دعا کرنی چاہے۔
آپ اپنی پریشانیوں میں دونفل نماز پڑھتے اور خلیفہ وقت کو خط لکھتے اور اپنے بچوں کو بھی اس بات کی تلقین کرتے تھے۔ آپ نہایت ہی عاجز تھے، ہر جماعتی خدمت کو اپنا فرض سمجھتے لیکن کسی قسم کی ستائش یا انعام کی غرض نہ ہوتی۔ آپ اکثر کہا کرتے کہ میں تو دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ مجھے 33فیصد دے کر پاس لوگوں کی لسٹ میں شامل کردے۔ آپ کا ذکرخیر کرتے ہوئے حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ 18؍جون 2010ء میں فرمایا :’’اکثر یہ فقرہ کہا کرتے کہ مَیں نالائق انسان ہوں اللہ تعالیٰ مجھے 33فیصد نمبر دے کر پاس کردے لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے سو فیصد نمبر دے کر شہادت کا رتبہ دے دیا۔ ‘‘
ایک دوست نے خاکسار کو بتایا کہ 28؍مئی 2010ء کو میں بھی میاں صاحب کے ساتھ مسجد میں بیٹھا تھا۔ جب پہلا فائر ہوا تو میں نے آپ سے کہا کہ فوراً یہاں سے نکل چلیں۔ انہوں نے مجھے کہا محترم مربی صاحب نے سب کو ارشاد فرمایا ہے کہ لیٹ جائیں سَمِعْنَا وَ اَطَعْنَا۔ اس پر مَیں وہاں سے نکل گیا اور میاں مبشر صاحب ایک بم کی زد میں آکر شہید ہوگئے۔اِنَّا لِلہ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ
وزیرآباد کے ایک بینک میں ایک غیراز جماعت جعفری صاحب تبدیل ہوکر آئے۔ ابو اُن کو بہت تبلیغ کیا کرتے تھے حتّی کہ وہ اظہار کیا کرتے کہ گویا وہ احمدی ہونے کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔ لیکن ایک دن خبر ملی کہ جعفری کے بیٹے نے ہمارے احمدی ملک اعجاز احمد صاحب کو گولی مار کر شہید کردیا ہے۔ ابوجان کہا کرتے تھے کہ اُس کے باپ کو تبلیغ تو مَیں کیا کرتا تھا مگر شہید اُس نے ملک اعجاز صاحب کو کردیا ہے۔ آخر اللہ تعالیٰ نے آپ کو بھی شہادت کا مقام عطا فرمادیا۔ اللہ تعالیٰ تمام شہدائے احمدیت کے درجات بلند کرے۔
28مئی 2010ء کے سانحہ کو کئی سال گزر چکے ہیں لیکن یہ زخم آج بھی تازہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ تمام شہداء کے ساتھ ابوجان کے بھی درجات بلند کرے۔ آمین

اے ملت اسلام کے معصوم شہیدو
بہتے ہوئے اشکوں سے مَیں دیتا ہوں سلامی

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں